Wednesday, January 3, 2018

بچے جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟


بچے کی تربیت اور سیکھنے کا عمل تو اس کے گھر سے ہی شروع ہوتا ہے اور سکول میں داخل ہونے سے پہلے کا عرصہ ہی بچوں کی عمر کا ایسا دور ہے جب ان کے اخلاقی اور جذباتی کردار کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور یہی ان کی عمر کا فیصلہ کن دور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ جب ماں کے پیٹ میں بچے کی خلقت فرماتے ہیں تو سب سے پہلے اس بچے کی شہادت کی انگلی تخلیق فرماتے ہیں اور باقی جسم کی تکمیل بعد میں ہوتی ہے‘ یہی شہادت کی انگلی وحدانیت کی گواہ بنتی ہے اور اس کے حبیبﷺ کے آخری نبیﷺ ہونے کی بھی گواہی دیتی ہے۔ انسان کی پیدائش تو اسی ایمان پر ہوتی ہے اور یہی فطرت کا اصول بھی ہے لیکن دنیا میں آنے کے بعد اس کے ایمان کا بٹوارہ ہوجاتا ہے‘ مذاہب کے نام پر‘ مسلکوں کے نام پر‘ اور پھر آبائو اجداد کا مذہب ہی ان کا مذہب بن جاتا ہے۔ تقریباً دو سال قبل کی بات ہے‘ میں ایک دکان پر گئی‘کچھ خریدنا تھا دکان کا مالک نہیں تھا‘ دو بچے کھڑے تھے تقریباً دس بارہ سال کے ہوں گے میں نے ان سے اس چیز کی قیمت پوچھی‘ ایک بچہ جو مسلمان تھا‘ اس نے کہا: اس سے پوچھیں‘ یہ جھوٹ نہیں بولتا‘‘ اس نے دوسرے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ بچہ ہندو مذہب کا تھا میں حیران و پریشان دونوں بچوں کی طرف دیکھتی رہی۔ وہ بچہ جس کے مذہب کی بنیاد ہی جھوٹ پر‘ جھوٹے بتوں کو پوجنے والا‘ اس کو اپنے جھوٹے خدائوں پر اتنا پختہ یقین کہ وہ عام زندگی میں جھوٹ نہیں بولتا۔ آخر کیوں؟میں بہت دیر تک سوچتی رہ گئی صرف اس بات پر کہ بچے جھوٹ بولتے کیوں ہیں؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو ان کو جھوٹ بولنے پر مجبور کرتے ہیں وہ بچے جن کو دنیا میں آتے ہی اللہ اکبر کی آواز کانوں میں سنائی جاتی ہے‘ جن کو شعور میں آتے ہی کلمہ سکھاکر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا درس دیا جاتا ہے۔ سچ اور سچائی کی روشنی میں چلنا سکھایا جاتا ہے آگے چل کر یہی بچے مختلف مسائل کا شکار ہوکر بھٹک جاتے ہیں‘ بکھر بھی جاتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے؟ بچے کی تربیت اور سیکھنے کا عمل تو اس کے گھر سے ہی شروع ہوتا ہے اور سکول میں داخل ہونے سے پہلے کا عرصہ ہی بچوں کی عمر کا ایسا دور ہے جب ان کے اخلاقی اور جذباتی کردار کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور یہی ان کی عمر کا فیصلہ کن دور ہوتا ہے۔ اچھی تربیت بھی ایمان کا ایک جز ہے کیونکہ صحیح تربیت اور صحیح نگہداشت سے ہی بچوں کی شخصیت کے اوصاف اجاگر ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق:’’بچوں کی پرورش کیلئے صرف یہ دیکھنا ہی کافی نہیں ہوتا کہ ہر ماہ ان کے وزن میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ یا ان کو بھوک کیوں نہیں لگتی البتہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ان میں کس قسم کے احساس پیدا ہورہے ہیں کیونکہ کئی احساس ہی مل کر ایک بچے کی شخصیت تشکیل کرتے ہیں اور ان کا اپنا ایک کردار بناتے ہیں‘ یہی احساسات بچے کی زندگی میں کمال اور زوال میں ایک اہم رول ادا کرتے ہیں‘‘ یہ بچے جو مستقبل کے معمار ہیں وہ بے راہ روی کا شکار کیوں ہوجاتے ہیں‘ ان میں جو منفی احساسات اور جذبات پرورش پائے ہیں اس میں خارجی ماحول کا اثر ہوتا ہے یا اپنے ہی گھر کے ناسازگار ماحول میں اس کی شخصیت تباہ ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے راستے کا انتخاب خود کر تو لیتے ہیں‘ مگر غلط کیا ہے‘ صحیح کیا ہے۔ اس کو پہچان نہیں ہوپاتے‘ وہ کبھی جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں‘ کبھی مجرم بن کر معاشرے کیلئے ناسور بن جاتے ہیں ہم کیوں نہیں سوچتے کہ والدین کا کردار اور ان کی سوچ بچوں پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ وہ فطری طور پر جھوٹا نہیں ہوتا بلکہ جو احساسات بچے کی شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں اس میں بچے کے ماں باپ کا خاص طور پر اہم کردار ہوتا ہے۔ اس لئے ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ بچوں کی تربیت کرنے والے ماں باپ کا رویہ ان کے ساتھ کیسا ہے۔ خاص طور پر ماں کا کردار بچوں کی نشوونما میں اہم رول ادا کرتا ہے‘ اکثر مائیں بچوں کو بے تحاشا مارتی پیٹتی ہیں‘ اکثر مائوں کو یہ کہتے بھی سنا ہے’’ میرا بچہ تو بہت بدتمیز ہوگیا ہے‘ سنتا ہی نہیں‘ یا یہ تو میرے لئے عذاب ہے‘ ایسی اولاد نہ ہوتی تو بہتر تھا‘‘ اور نہ جانے کیا کچھ کہہ جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ کہنے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ کیا ہمارا بچہ ان الفاظ کا حقدار ہے؟ اگر ہے تو کیوں! اس میں ہمارا اپنا کردار واضح ہوجاتا ہے‘ بچہ تو ماں باپ کا آئینہ ہوتا ہے۔ آج کل کے دور میں والدین اور اساتذہ کا اولین فرض ہے کہ بچوں کے ذہنی‘ جذباتی اور معاشرتی رحجانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی تربیت کریں کیونکہ غیر متوازن رویے ا ور ناسازگار ماحول بچے کی تباہی کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایک طرف تو بچوں کو تمام آسائشات میسر ہوتی ہیں اور دوسری طرف صرف ایک تصوراتی زندگی‘ جس میں بچہ جو چاہتا ہے اس کو ملتا نہیں لیکن وہ اپنے ہم عمر بچوں میں اپنے آپ کو برتر ثابت کرنے کیلئے سب کو بتاتا ہے: آج میں نے یہ سب کھایا تھا‘ آج میں اپنے بابا کے ساتھ فلاں جگہ گھومنے گیا تھا‘ یا پھر میں نے خوب شاپنگ کی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔اس کا سبب صرف غربت نہیں بلکہ والدین کی عدم توجہی‘ لاپرواہی اور بچوں کو اپنے حال پر چھوڑ دینا سب سے بڑا سبب ہے جس کی وجہ سے وہ محرومیوں کا شکار ہوکر جھوٹی دنیا میں رہنا شروع کردیتا ہے جہاں سے جرائم کی ابتداء ہوتی ہے۔ بچوں کو والدین کے بے جا لاڈ و پیار یا پھر اس سے محرومی‘ دونوں صورتوں میں بچے احساس برتری اور احساسِ کمتری کا شکار ہوکر مختلف جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر والدین کے درمیان اختلافات ہوں تو بھی بچوں میں احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے اس صورت میں وہ اپنی اہمیت منوانے کیلئے باہر کی دنیا میں اپنا مقام ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے‘ گلیوں کی خراب سوسائٹی میں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش میں مختلف جھوٹ کا سہارا بھی لیتا ہے جو بچے کی شخصی نشوونما کیلئے زہر ثابت ہوتا ہے۔ پیسے کی فراوانی سے بچے مثبت راستے پر کم نظر آتے ہیں کیونکہ اس صورت میں بچہ ہر جائز ناجائز خواہش کے پیچھے لگ کر کئی کوتاہیاں کر بیٹھتا ہے جن پر پردہ ڈالنے کی خاطر جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ دوسری طرف غربت کی وجہ سے بھی بچہ احساس محرومی کا شکار ہوکر جھوٹ اور جرم کا ایک بہت بڑا محرک بن جاتا ہے جس سے والدین انجان بنے رہتے ہیں۔ سکول میں اساتذہ کا غیر مساویانہ رویہ اور سخت گوئی بھی بچوں کو جھوٹ بولنے پر مجبور کردیتی ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو سزا سے بچانے کی کوشش میں جھوٹ ضرور بولتا ہے بعض بچے اپنے ساتھیوں کو سزا سے بچانے کی خاطر بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ بعض والدین بچوں پر بے جا سختی کرتے ہیں محبت سے سمجھانے کی بجائے مار پیٹ اور تشدد سے کام لیتے ہیں‘ دوسروں کے سامنے اپنے بچوں کو نیچا دکھا کربُرا بھلا کہتے ہیں‘ اس سے بچوں کی عزت نفس پر ایک چوٹ سی لگتی ہے اور وہ خود سر اور باغی ہوجاتے ہیں۔ اپنی انا کی خاطر ہر قدم پر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں‘ اس طرح ان کی مستقبل کی زندگی‘ معاشی‘ معاشرتی اور سیاسی سطح پر اسی جھوٹ کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے اور یہ معاشرے کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ بچوں کی تربیت کے اس اہم پہلو کو نظر انداز کرنا ایک معاشرتی جرم ہے والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں سے متوازن رویہ رکھیں‘ سازگار ماحول فراہم کریں‘ ان کے جذبات اور احساسات کو پرکھیں اور سمجھیں اور ان کی وہی شہادت کی انگلی پکڑ کر سچ کا سودا کرنا سکھائیں جو اَن دیکھے رب کی توحید کی گواہی دیتی ہے۔ اگر ایسا نہ کیا تو جھوٹ بچے کو ایک مہذب شہری بننے سے روکے گا اور وہ جھوٹ کا سہارا لیتے لیتے مختلف جرائم کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ غلط سوسائٹی ایسے ہی افراد سے جنم لیتی ہے‘ جس کو ہم معاشرہ اور معاشرے کی برائیاں کہہ کر الزام لگادیتے ہیں لیکن اپنا محاسبہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ولسن کے مطابق: بچہ اس بات کا حقدار ہے کہ اسے وہ تمام سہولیات حاصل ہوں جو قوم اور ملک اس کو فراہم کرسکتا ہو اس دنیا کو بہتر بنانے اور امن اور سکون قائم کرنے کا خواب اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک بچوں کی حالت درست نہ ہو۔ بچے ہی ہمارے عظیم الشان کردار کا معیار ہیں۔

No comments:

Post a Comment