Saturday, July 4, 2015

جنات کا پیدائشی دوست,

جنات کا پیدائشی دوست
قسط نمبر 70

بغیر دلیل کے سب مانتا چلا گیا۔
حتی کے سمندر میں سونا گرنے لگا۔ میں اپنے دل پر پتھر رکھ کر بیٹھا رہا۔ میرے سامنے شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا انکار تھا۔ نہ موتی لیا نہ چابی لی۔ اور نہ یہ سونے کی پتیاں لیں۔ کیونکہ مجھے حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے والد محترم نے زندگی میں ایک نصحیت کی تھی۔ کے استاد اور مرشد کے ہاں کو ایسا سمجھنا کے اس کے لئے دلیل نہ دینی پڑے۔ اور نہ کو نہ ایسے سمجھنا کہ اس کہ لئے دلیل نہ دینی پڑے۔ اور ان کی ہاں اور ناں کو بغیر دلیل ماننا بس ۔ وہ چیز میرے سامنے آتی تھی بس بغیر دلیل میں مانتا چلا جارہا تھا۔۔۔
مرشد اور استاد کے حکم کی عظمت۔
 میں نے محسوس کیا ایک اور ہوا آئی۔ بادل چھٹ گئے۔ اور وہ پھول کی پتیوں کو اڑا اڑا کر سمندر میں بکھیررہی تھی۔  میں حیرت سے پھول کی لاکھوں کروڑوں پتیوں کو سمندر میں تیرتا دیکھ رہا تھا۔ جب کے وہ سونے کی تھیں ۔ اور ہر پھول کی پتی پر ایک لفظ لکھا ہوا تھا۔ ولی     مجھے کچھ سمجھ نہ آئی۔ سفر چلتا رہا۔ سامنے میں نے محسوس کیا کوئی کنارہ آ گیا۔ میں اس کنارے کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن مجھے ایک احساس بھی ہوا۔ کہ میرا جی چاہتا اس بوڑھے ملاح کہ ساتھ میں اپنے اس سفر کو رواں دواں رکھوں۔ مجھے جہاں دل میں موتی چابی اور پھول کی پتیاں چھننے کا ہلکا سا احساس بھی تھا۔ لیکن دوسری طرف مرشد اور استاد کے حکم کی عظمت بھی تھی۔ بس یہ سوچیں تھیں کہ میں کنارے پر پہنچا۔ ملاح بابا اترا میں بھی ساتھ اترا ۔ آگے گئے تو دو پتھر پڑے ہوئے تھے۔ ایک پر خود بیٹھے اور دوسرے پر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
تین چیزیں نہ لینے کی حکمت۔
میں بیٹھ گیا مجھ سے فرمانے لگے۔ پہلی چیز موتی تھی۔ اگر تو لے لیتا تو مالا مال ہو جاتا ۔ لیکن یہ مال صرف تجھ تک رہتا۔ تیرے مرنے کے بعد تیری نسلیں اس سے فاہدہ نہ پا سکتیں۔ اور تیری نسلیں فقر ۔ تنگدستی ۔ غربت اور فقیری میں مبتلا ہو جاتیں۔ دوسری چیز چابی تھی۔ یہ دراصل خزانوں کی اور سات بڑے بادشاہوں کے خزانے کی چابی تھی۔ جب تو چابی لیتا ان خزاتوں پر مامور جنات جو کہ بہت بڑے بڑے دیو جنات ہیں۔ وہ تیرے غلام بن جاتے ۔اور تجھے ان خزانوں کا دروازہ کھول کر دیتے۔ تو بھی خزانے لوٹتا۔ تیرے مرنے کے بعد تیری نسلیں بھی خزانے لوٹتیں۔ تیری تین نسلیں خزانے سے فائدہ اٹھاتیں۔ اس کے بعد چوتھی نسل اس سے محروم ہو جاتی۔
اگلی بارش پھولوں کی پتیوں کی تھی۔ ان پھول کی پتیوں میں دولت مال اسباب چیزیں اور ہر پھول کی پتی کو اوپر لفظ ولی لکھا ہوا تھا۔ اس ولی سے مراد بادشاہت تھی۔ جب یہ پتیاں تیرے پاس آتیں۔ بس غیبی نظام چلتا تو کسی علاقے کا بادشاہ بن جاتا۔ مال ودولت تخت تاج فوجیں حکومت اقتدار یہ سب تیرا ہوتا۔ اور تو ان سب چیزوں کو لے کر چلتا۔۔ تیری زندگی تک سب کچھ۔ اس کے بعد ختم۔ یہ سب تیرا امتحان تھا۔ یہ سب کچھ تیری آزمائش تھی۔ دراصل شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے تجھے اپنے پاس بٹھا کر تیری سالہا سال خدمت کا صلہ دینا چاہا۔ دراصل شاہ صاحب تجھے کچھ اور دینا چاہتے تھے۔ ایسا کچھ کے تو آباد وشاد رہے۔ تیرے رزق دولت برکت عزت اور خزانوں کی کمی نہ ہو ۔ اور صرف تیرا نہیں تیری نسلیں بھی ان خزانوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ آباد و شاد رہیں۔



وہ خزانہ تجھے میں دیتا ہوں۔ اور وہ تیری امانت ہے۔ تیری خدمت کی وجہ سے پڑی ہوئی ہے ۔ ملاح بابا مجھے جھنجھوڑ کر کہنے لگا۔ دیکھ خیال کر کسی بھی اللہ والے کی خدمت اگر خلوص دل سے کی جائے تو اس خدمت کو صلے میں خدا ملتا ہے۔ اور خدا سے مراد خدا کی ساری نعمتیں اور آخرت کی ساری نعمتیں۔ تجھے ضرور ملیں گی۔ آخرت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت میں دیتا ہوں ۔ وہ نعمت سورہ قریش ہے ۔ ہر بار بسم اللہ کے ساتھ اس کو پڑھنا ہر لمحہ ہر لحظہ ہر ساعت ہر گھڑی ہر قدم ہر سانس اس کو کبھی نہ چھوڑنا کائنات کے سبھی راز اس میں ہیں ۔ لعل و جوہر بھی اس میں ہیں ۔ چابی بھی اس میں ہے۔ پھول کی سونے کی پتیاں بھی کائنات بھی اور راز بھی۔  یہ لے میں تجھے اس کی اجازت دیتا ہوں۔ اور اس کی بھر پور تاثیر بھی دیتا ہوں ۔ جا واپس لوٹ جا۔
حضرت شاہ صاحب کو میرا سلام کہنا۔ اور کہنا کے شیخ بس آئندہ کے لئے کوئی ساحل نہ بھیجے۔ ہمارا نظام متاثر ہوتا ہے۔ ہمارے ذمے کچھ ڈیوٹی اور خدمت ہے۔ اس ڈیوٹی اور خدمت میں خلل پڑتا ہے۔ بس چلا جا انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا کندے پر تھپکی دی۔ اور فرمایا اسلام علیکم جب انہوں نے سلام کیا ۔ تو واپس میں نے محسوس کیا کے میں حضرت شاہ صاحب کے پیچھے تہجد کے وقت بیٹھا میں نے آنکھیں ملیں۔ کے میں نے تو وہاں کئی دن رات گزارے تھے۔ لیکن یہ تو ابھی محسوس ایسے ہو رہا تھا کے تھوڑی دیر کے لئے حضرت شاہ صاحب کی خانقاہ میں ان کے پیچھے توجہات لے رہا ہوں۔
بس جو دیکھا اس کو ہضم کر لینا میری سانسوں کی تیزی نے حضرت شاہ صاحب کو مڑ کر دیکھنے پر مجبور کیا۔ فرمانے
لگے بس جو کچھ دیکھا اس کو ہضم کر لینا۔ یہ وہ نظام ہے ۔ تمہاری جنات کی دنیا میں بھی نہ ہو گا ۔ پھر فرمایا اللہ تعالی نے مجھےجو دیا میں نے ایک ذرہ بھی تمہیں نہیں دکھایا ۔ اگر تم دیکھ لیتے تو نامعلوم واپس ہی نہ آتے۔ اور اس جہان کو بدبو دار جہان کہتے ۔ کیونکہ روحوں کا جہان خوشبو دار جہان ہے۔ میں حضرت شاہ صاحب کی پشت کے پیچھے روذانہ بیٹھنے لگا۔ روذ ایک نیا منظر دیکھتا تھا۔
جہاں بوڑھا عالم جن اپنی مستقل کیفیات بتائے جا رہا تھا اسے احساس بھی نہیں ہو رہا تھا کہ وقت کتنا گزر گیا۔ اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہمیں بھی احساس نہیں ہو رہا تھا۔ اور حقیقت بھی یہی تھی کے وقت گزرتا چلا جارہا تھااور وہ اپنےدل کی کیفیات بیتے تجربات مشائدات سورہ قریش کے واقعات اور دیگر اعمال کہ واقعات بتائے جا رہا تھا۔  میں نے اسی دوران صحابی بابا کی آنکھوں میں دیکھا تو میری عیرت کی انتہا نہ رہی۔ کہ وہ آنکھیں بند کئے ہوئے نا معلوم کچھ سوچ رہے تھے۔ میں نے سوچا کے شاہد وہ سو گئے ہیں۔ ان کو جگانا مناسب نہ سمجھا تھوڑی ہی دیر میں مجھے فرنانے لگے۔ کہ علامہ صاحب آپ نے سمجھا تھا کہ شاہد میں سو گیا۔ میں نے مسکرا کر جواب دیا سمجھا تو یہی تھا۔ فرمانے لگے نہیں یہ بوڑھا عالم جو کچھ بیان کر رہا ہے میں یہ سب کچھ سن رہا اور سننے کے بعد میں اپنی روحانی طاقت کے ذریعے اس بات کو محسوس کر رہا کہ کیا جو کچھ انہوں نے بیان کیا سچ کیا یا جھوٹ کیا۔ تو میں اپنی روحانی طاقت کے ذریعے جہاں پہنچا ہوں وہاں کائنات میں بہت کم لوگ پہنچ سکتے ہیں۔ میری روحانی طاقت کے ذریعے جہاں مجھے احساس ہے۔ وہ بہت سے لوگ اس چیز کو حاصل نہیں کر سکتے۔ میری طاقت اور میری قوت کا اندازہ اس چیز سے لگا لیں کہ میں ایک پل میں سات سمندر نیچے سات دریاؤں کے نیچے اور سات زمینوں کے نیچے پہنچ سکتا ہوں۔ میں ہواؤں فضاؤں میں اپنی روحانی علوم کے ذریعے احساس اور ادراک کر لیتا ہوں۔ مجھے ایک احساس ہوتا ہے اور پھر وہ کائنات میں ہو جاتا ہے اور مجھے دل کی کیفیتوں کے ساتھ اسے ماننا پڑ جاتا ہے۔ کہ میں جو کچھ بول رہا ہوں۔ یا سوچ رہا ہوں وہ سچ ہے اور حقیقت ہے۔ اس سچ اور حقیقت کو بہت سے لوگ سمجھ نہیں پاتے اس لئے میں اظہار نہیں کرتا کیونکہ بعض حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں کہ حالانکہ انسان ان کو جھٹلا دے یا تو گنہگار ہو جاتا ہے یا کافر ہو جاتا ہےیا پھر گستاخ اور بے ادب ہو جاتا ہے۔
آج آپ کو کچھ انوکھی حقیقتیں بتاؤں گا لہذا میری کوشش ہے میں سنتا رہوں بولوں نہ۔ آج اگر میں بولا ہوں تو پھر میں آپ کو کچھ انوکھی حقیقتیں بتاؤں گا میں نے ان کی وجدانی کیفیت دیکھتے ہوئے سوال کیا لیکن سوال کرنے سے پہلے میں نے بوڑھے عالم جو سورہ قریش کے کمالات اور تجربات بتائے جا رہا تھے ان سے عرض کیا کہ اگر آپ تھوڑا سا موقع دیں تو صحابی بابا کی کیفیات واقعات حالات تجربات اور مشائدات سن لیں۔
تو مجھ سے کہنے لگے ہاں کیوں نہیں بلکہ میں خود یہ چاہتا ہوں کہ میں ان کی کیفیات سنوں لیکن بوڑھے عالم کہنے لگے مجھ سے ایک واقعہ سننا نہ بھولیے گا کیو نکہ اس واقعے نے مجھے زندگی میں بہت کچھ دیا ہے کمالات کیفیات حیرت انگیز روحانی تجربات اور حیرت انگیز روحانی مشائدات یہ سب کچھ مجھے اس کی وجہ سے ملا ہے اور آپ بھی حیران ہوں گئے کہ یہ بات کہہ کر وہ خاموش ہو گئے۔ میں نے پھر صحابی بابا سے سوال کیا کہ حضور آپ یہ فرمائیے۔ کیا سمندروں کی تہہ میں بھی جنات رہتے ہیں۔ کیا قبروں میں کیا دریاؤں کے نیچے کیا زمین کے نیچے جنات رہتے ہیں۔ اگر آج آپ ازراہ کرم بولے ہیں تو پھر ہمیں کچھ حقائق واقعات اور مشائدات ضرور بتائیں۔ اور ایسے حقائق بتائیں جو چونکا دیں میری وجدانی بات کو سن کر صحابی بابا بولے ہاں میں آج ضرور بتاؤں گا۔ فرمانے لگے ہماری قوم جنات اور یہ قوم جنات بہت ہی زیادہ پرانی قوم ہے۔انسانوں سے زیادہ اور انسانوں سے زیادہ تعداد میں بھی۔ انسان تو جنات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
بلکہ انسان تو بہت زیادہ تھوڑے ہیں مجھے تیز نظروں سے صحابی بابا نے دیکھا اور فرمایا آپ کو پتہ ہے جس گھر میں آپ انسان لوگ کہتے ہیں کے جن جو ہیں اور آپ کے عامل کہتے ہیں کہ ہم نے اتنے جن جلا دیئے اتنے بگھا دیئے انہیں خبر ہی نہیں کے جس گھر میں اگر جنات رہتے بھی ہیں تو وہ ایک نہیں دونہیں سو نہیں ہزارنہیں بے شمار ہوتے ہیں ۔اور پھر اپنی بات پر زور دیتے ہوئے مزید فرمانے لگے یہ حقیقت ہے کہ جن ہر جگہ رہتے ہیں ۔ ہر درخت ہر گھر ہر ویران ہر اجاڑ ہر آبادی سمندر دریا نہریں باغات قبرستان دنیا کی کوئی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں جنات نہ رہتے ہوں۔میں نے محسوس کیا کہ ان کی باتوں کو سارے حیرت اور استعجاب کی حالت میں سن رہے تھے۔ وہ بوڑھے عالم جن آنکھوں سے آنسو بہائے حیرت انگیز طور پر یہ باتیں سن رہا تھا نامعلوم وہ کیوں رو رہے تھے یہ میں نہ پوچھ سکا لیکن وہ رو رہے تھے اور اچھا خاصا رو رہے تھے پھر میں نے ان سے پوچھا میں نے کہا صحابی بابا آپ اپنی کسی تجربے اور مشائدے کی کیفیت بتائیں۔
آپکو وہ تجربہ اور مشائدہ ایسا ملا ہو جو آپ نے کبھی فراموش نہ کیا ہو تو ان کی بات کاٹتے ہوئے عالم جن نے کہا کہ اگر آپ کہیں تو میں کوئی مشائدہ بتا دوں۔ صحابی بابا نے محبت اور نرمی سے فرمایا ہاں آپ بتا دیجئے۔ تو فرنانے لگے کہ میں ایک دفعہ ایک جنگل میں جا رہا تھا بہت بڑا گھنا جنگل ہزاروں میلوں پھیلا ہوا تھا ۔ انسان کہیں بھی نہیں تھے بس جنات ہی جنات اور درندے ہی درندے وہاں میں نے ایک جگہ تھوڑی دیر قیام کیا۔ وہ اس لئے کہ نماز کا وقت ہو گیا تھا۔ میں نے اذان دی قریب قریب مسلما ن جن تھے میری اذان سن کر وہ بھی آ گئے جماعت کرائی۔ نماز پڑھنے کہ بعد میں کچھ تسبیحات کر رہا تھا جو میرے پیرومرشد نے مجھے بتایا میرے پیرومرشد مکہ مکرمہ کے رہنے والے تھے اور وہ بھی صدیوں بڑی عمر رکھتے تھے۔اسی دوران مجھے محسوس ہوا کہ جنگل میں آندھی کی کیفیات شروع ہو گئیں۔ درختوں پر ہلچل مچ گئی۔ جانور ادھر ادھر دوڑنے لگ گئے۔ آسمان پر کالی گھٹا بن گئی اور جگہ جگہ ہو ا کے بگولے اٹھنے لگے اٹھتے اٹھتے اس دوران پورے جنگل کو آندھی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بہت خطرناک آندھی ہوئی۔ درندوں پرندوں اور جانورں کی چیخ وپکار مچ گئی۔ میں یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ مجھے علم ہے کہ میں جن ہوں اور آندھی جب چلتی ہے تو اس کے اندر طاقت اور قوت جنات کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔
جنات کو آندھی بہت پسند ہے۔ اور وہ چونکہ خود آندھی طوفان کی طرح اڑتے اور چلتے ہیں اس لئے انہیں آندھی پسند ہے۔  اسی دوران آندھی آئی تو میں نے ایک منظر دیکھا منظر کیا دیکھا ایک درخت اکھڑا ہوا بہت پرانا اور بہت ہی بڑا درخت کی جڑ کہ نیچے غار میں حیران ہوا درخت کی جڑ کے نیچے غار کا کیا تعلق میں نے اس غار کو غور سے دیکھا اس میں نیچے جانے کا راستہ بھی تھا۔ پھر میں اس غار کے اندر اتر گیا غار کے نیچے پہنچا تو مجھے محسوس ہوا کہ وہاں جنات آباد ہیں
میں نے دیکھا کہ ایک گلی ہے نامعلوم میں کیوں بغیر سوچے سمجھے اس گلی کہ اندر چل نکلا۔ اور اس گلی سے چلتے چلتے میں ایک اور دنیا میں پہنچا اور مجھے محسوس ہوا کہ زمین کے نیچے بھی کوئی زمین ہے تو وہاں عجیب والخلقت جنات تھے جو میں نے آج تک پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ ان کا کھانا پینا ہم سے جدا تھا ان کی زندگی ان کا اٹھنا بیٹھنا ۔ میں حیرت انگیز زندگی دیکھ کر پریشان ہو گیا تو مجھے اپنے آپ کو خطرح محسوس ہوا شاید یہ لوگ مجھے ہی نہ کھا لیں پھر احساس ہوا کہ وہ بھی تو جن ہیں ۔ پھر مجھے نامعلوم خطرے کا احساس ہوا لیکن وہ قوت تھی جو مجھے آگے چلائے جا رہی تھی اور ایک طاقت تھی مجھے آگے لئے چل رہی تھی آگے ایک جگہ پہنچا تو ایک منظر دیکھا ایک بہت پرانہ بوڑھا جن ہے وہ قرآن پاک پڑ رہا ہے اور قرآن پاک میں سےوہ صرف سورہ والشمس پڑھ رہا ہے سورہ ختم ہوتی پھر شروع کر دیتا پھر ختم ہوتی پھر شروع کر دیتا۔ میں نامعلوم کیوں بیٹھ گیا اب مجھے محسوس ہوتا ہے جو قوت اور طاقت تھی میرے دائیں بائیں ساتھ لئے پھر رہی تھی۔ میں اس قرآن پڑھنے والے بوڑھے جن کے پیچھے جا کر بیٹھ گیا وہ بار بار سورہ والشمس پڑے جارہا تھا یہ عمل کئی گھنٹوں بیت گیا پر مجھے کوئی اکتاہٹ اور تھکن محسوس نہ ہوئی۔ میں مسلسل سنتا جا رہا تھا گھنٹوں کہ عمل کہ بعد وہ سجدے میں چلے گئے اور پھر بہت دیر سجدے میں پڑے رہے اس کے بعد انہوں نے سر اٹھایا ان کا سر پسینہ پسینہ تھا میرے لئے کھڑے ہو گئے بانہیں پھیلا دیں بہت پیار محبت سے مجھے ملے ان کے انگ انگ سے خوشبو اور روئیں روئیں سے روحانیت ٹپک رہی تھی۔
بوڑھےجن کے معانقہ اور ملنے سے مجھے ایسے محسوس ہوا میں کسی جنتی سے مل رہا ہوں انہوں نے مجھے اپنے پاس پیار سے بٹھایا ایک تالی بجائی دو جن آ گئے ملو ان سے یہ بھی ہمارے جن بھائی ہیں یہ زمین کے اوپر رہتے ہیں اور ہم زمین کے نیچے انہوں نے ہمیں زندگی میں پہلی بار دیکھا ہے اور میرا یہ عمل بھی انہوں نے زندگی میں پہلی بار محسوس کیا ہے میں نے ان کی اس بات پر گردن ہلائی تھوڑی دیر کے بعد میرے لئے پر تکلف دعوت کا اعتمام کیا گیا کھانا بہت ہی اچھا تھا کھانا کھانے کے بعد مجھے فرمانے لگے کیسے آئے میں نے سنجیدگی سے جواب دیا خبر تو خود مجھے بھی نہیں کیسے آیا بس کوئی طاقت مجھے یہاں کھینچ لائی۔ میری اس بات سے خوش ہوئے فرمانے لگے ہمارے دل میں ایک سوال ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ میں سورہ شمس کیوں باربار پڑھ رہا تھا یہ بات کہتے ہوئے بوڑھے عالم جن نے سب کی طرف نہایت حیرت بھری نظروں سے دیکھا میں صحابی بابا اور دوسرے تمام جنات بوڑھے عالم جن کی یہ ساری باتیں سن رہے تھے۔ ان کی بات کاٹتے ہوئے صحابی بابا نے فرمایا یہ جو کچھ بیان کر رہے ہیں یہ سچ بیان کر رہے ہیں میرا روحانی علم اس کی تصدیق کر رہا ہے۔  اب آگے تفصیل سے بتائیے۔
بوڑھا عالم جن بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ وہ جن جو سورہ شمس کی تلاوت کر رہا تھا فرمانے لگا میں دراصل چالیس دن سے اسی نشست پر بیٹھا ہوں نہ کھایا پیا اور نہ ہی سویا ہوں میں نے اب تک سورہ شمس چالیس دن میں سوا کروڑ پڑھی ہے اور ہمارے لئے اتنا پڑھنا کوئی مسلئہ نہیں تمام جنات نے سر ہلایا اور اس بات کی تصدیق کی کہنے لگے میں نے اللہ سے دعا کی تھی کہ میرے اس عمل کی طاقت اور تاثیر کسی ایسے شخص کو ملے جو تیری دکھی مخلوق کو فائدہ پہنچائے پھر اس عمل کے فائدے بتائے اور فرمایا میں اب ذندگی کے آخری مراحل میں ہوں میری عمر ہو گئی ہے میں نے ساری ذندگی جنات کو دیکھا وہ انسانوں کو دکھ دیتے ہیں کسی کی اولاد بند کرتے ہیں کسی کے بچے کو بہکاتے ہیں کبھی حادثہ کبھی نقصان کبھی بیماری کبھی آگ لگا دیتے ہیں اور میں طے کر چکا تھا کے میں مرنے سے پہلے سورہ شمس کے سوا کروڑ کا چلہ کروں گا   یہ چلا کر کے انسانوں کو اس کا عطیہ دے جاؤں گا اور میری طرف سے وہ اجازت ہو گی۔
جو شخص یہی سورہ شمس چالیس بار پڑھےہر دفعہ بسم اللہ  اول و آخر سات بار درود ابراہیمی یا وہ خود نہیں پڑھ سکتا تو اس کی طرف سے کوئی اور پڑھے چالیس دن ستر دن یا نوے دن پڑھے اس کہ سامنے انوکھا معاملہ ہو گا ایسی ترتیب چلے گی کہ وہ مالا مال ہو جائے گا بےاولاد کے لئے اولاد بے روزگار کے لئے رزق کھل جائے گا بے آسرا کو آسرا مل جائے گا بے وسیلہ کو وسیلہ جس کو شفاء نہیں اس کو شفاء جس کو تکلیف ہے اس کی تکلیف دور جس کے بچے ہوتے ہیں مر جاتے ہیں اگر وہ پڑھیں گئے اس کے بچے صحت یاب پیدا ہوں گئے
فرمانےلگے مجھے دنیا کی سیر کا بہت شوق رہا میں نے پوری دنیا کی سیر کی بھی۔ مخلوق خدا کہ دکھ مجھ سے برداشت نہیں ہوتے ہیں ان سب کے پیچھے زیادہ جنات اور تھوڑا جادو کا ہاتھ ہوتا ہے چونکہ انسان جادو کو زیادہ سمجھتا ہے اس لئے ان کو جنات پر یقین تو ہے لیکن جادو کا اثر اپنے ذہن اور اپنی باتوں اور اپنے تذکروں میں زیادہ لیتا ہے میرے اندر ایک احساس پیدا ہوا کہ کیوں نہ کوئی ایسا طریقہ ہو میں سورہ شمس میں کمالات اور اس کے فائدے ایسے لوگوں تک پہنچاؤں جن کو فاسق اور فاجر گندے اور کالے جنات تنگ کرتے ہوں اولاد نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب یہ بھی ہے کہ مائیں پاکیزہ نہیں رہتیں اور میاں بیوی جب ملتے ہیں تو اپنی خلوتوں میں اللہ کو یاد نہیں کرتے کچھ نہ کریں کم از کم تین بار اعوذبااللہ من الشیطن الرجیم ضرور پڑھ لیا کریں اس سے کوئی بھی گندا اور خبیث جن میاں بیوی کہ درمیان نہیں آتا۔ اگر یہ نہ پڑھا تو میاں بیوی جب ملتے ہیں تو ان کے ساتھ گندے جنات اس عمل میں ساتھ شامل ہو کر لطف لیتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو برباد کرتے ہیں۔
وہ جن ٹیک لگا کر بیٹھا اور اپنا پہلو سمیٹے ہوئے مزید کہنے لگا کہ جس نے بھی سورہ شمس پر محنت اور کوشش کی مجھے ایسا فرد یاد نہیں کہ  اس کی اولاد کے مسائل حل نہ ہوئے ہوں ہم ان کی بات سن رہے تھے کے اچانک ہوا کا ایک بہت بڑا بھگولہ چلا تھوڑی دیر ہوئی اس میں سے بہت سے مرد اور عورتیں نکلی اور ہمارے اردگرد آ کر کھڑے ہو گئے۔ اور حیرت سے ہمیں دیکھنے لگے عالم جن اپنی کیفیت میں ایسا گم  تھا اسے کسی چیز کا احساس نہ رہا میں نے عالم جن کا بازو تھاما تو اس نے آنکھیں کھولیں اور میری طرف دیکھا میں نے کہا آپ ذرا خاموش ہوں ایک بہت بڑا مجمع جنات کا اچانک آ گیا ہے حاجی صاحب نے ان سے پوچھا کہ آپ حضرات کیسے آئے تو انہوں نے عجیب بات سنائی کہا کہ اب ہم یہاں سے تین ہزار میل دور رہتے ہیں ہمیں پتہ چلا کہ ایک صاحب ہیں وہ بے اولادی کے لئے کوئی حل بتاتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر وہ خواتین ہیں جن کی اولاد نہیں ساتھ ان کے شوہر اور والدین بھی ہیں یوں بنتے بنتے ایک بہت بڑا قافلہ بن گیا ہم نے ادھر ادھر سے پوچھا تو بہت سے جنات نے بتایا کہ وہ حضرات فلاں جگہ بیٹھے ہیں یوں ہم آپ حضرات تک پہنچے ہیں۔
ان میں سے ایک بوڑھی خاتون مجمع سے باہر آئی ہاتھ جوڑ کر صحابی بابا کو پاؤں پڑ گئی۔ ہمارا مسئلہ حل کریں ہماری مدد کریں۔ صحابی بابا نے اسے تسلی دی اسی دوران حاجی صاحب نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں منگوائیں۔ان کو کھلایا پلایا تسلی دی اور فرمایا تم وقت پر پہنچے سو فیصد اسی مسئلے پر بات چیت ہو رہی تھی۔ جب سب نے کھا پی لیا اور کچھ تسلی ہوئی تو میں نے بوڑھے عالم جن سے عرض کیا کہ آپ بجائے اس کہ کے ایک ایک کو سورہ شمس کی ترکیب بتائیں آپ سب کو سورہ شمس کا مستقل لیکچر دے دیں اس کے کمالات برکات اس کی تاثیر اس کی کیفیات بتائیں۔
بوڑھے عالم جن کھڑے ہو گئے بولے اے جنات کا لشکر میں خود بھی ایک جن ہوں اللہ کے فضل سے میں جنات کے اس قافلے سے ہوں جس کا تعلق شاہی خاندان سے ہےہم نے ہمیشہ اسلامی حکومت کی اور کبھی کسی انسان یا جن کو تنگ نہیں کیا۔ میں نے اپنی صدیوں پرانی زندگی میں جنات کو مخلوق خدا خاص کر انسانوں کو دکھ دیتے ہی دیکھا ہے کیوں ہم نے انہیں نہیں جینے دینا ہم نے ان کی نسلوں کو ختم کرنا ہے بوڑھا عالم جن جزبات کی کیفیت کے ساتھ چیخا میری آنکھ نے یہ منظر بھی دیکھا کے کچھ خبیث جنات جب میاں بیوی ملتے ہیں ان کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں اس سرور اور سکون کے لمحات کو چھین لیتے ہیں جس کی وجہ سے میاں بیوی میں تسلی نہیں ہوتی اور یوں آپس میں گھریلو جھگڑے طلاقیں اور گھر اجڑ جاتے ہیں۔اے قوم جنات میں تم کو کیسے سمجھاؤں میرا جی نہیں چاہتا کے میں تمہیں اولاد کے لئے کوئی عمل بتاؤں تھوڑی ہی دیر میں چیخ و پکار کی آواز آئی جنات مرد و عورتیں چیخنے لگے کیا ظالموں کی سزا ہمیں بھی ملے گی۔آخر ہم کہاں جائیں کیا ہم بے آسرا بے سہارہ اور بے یارومددگار چلے جائیں۔ ہم اتنا لمبا سفر کر کے آئے ہیں کیا آپ ہمیں خالی جھولی بھیجیں گئے بوڑھے عالم جن نے ان کی آوازوں کو سنا ان سنا کر دیا  آؤ میں تمہیں اجڑے گھروں کی کہانیاں سسکتی ماؤں کے وہ درد بھرے قصے درد بھری انوکھی داستانیں سناؤں جنات نے ان کے گھروں کو کیسے برباد کیا۔میں خود بھی جن ہوں مگر مجھے جنات سے دل سے نفرت ہے میں اس لئے اپنی قوم سے نفرت کرتا ہوں کے یہ انسانیت پر ظلم کرتے ہیں یہ ظلم کرنا چھوڑ دو کیونکہ میرے رب کو کفر برداشت ہے لیکن ظلم برداشت نہیں ۔ظلم بھی ایسا کہ جو ماؤں سے بچے چھین لے یہ کام تو فرعون نے کیا تھا
تم سب فرعونی ہو جاؤ میں تمہیں کچھ نہیں بتاؤں گا جاؤ میں دکھ درد کا مداوانہیں کروں گا ۔ میں دنیا پھرا ہوں میں نے عالم دیکھا ہے صدیوں لوگوں کا دکھ درد اور غم دیکھا ہے پھر میں نے ایک عمل کا چلہ کیا آخر میں ایک نتیجہ پر پہنچا ہوں ایک ایسا قرآن کا عمل ہے جس سے اولاد ہو سکتی ہے لیکن میں تمہیں نہیں بتاؤں گا جاؤ جہاں سے آئے ہو لوٹ جاؤ وہ رو رہا تھا چیخ رہا تھا اور لہجے میں جھنجھلاہٹ اکتاہٹ اور سوز تھا میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا ادھر جنات کے مجمع میں آہ و بکا اور رونا تھا آخر کار اس سارے معاملے کو حاجی صاحب اور صحابی بابا نے سلجھایا ۔ اس جن کو پکڑ کر بیٹھایا اور اس کو سمجھایا اور حکم دیا کے آپ اب خاموش ہو جائیں۔  بوڑھا عالم سسکیاں لیتے خاموش ہو گیا اور نیم بے ہوشی کی حالت میں گر گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کو ہوش آیا پھر صحابی بابا نے اس کو سمجھایا آپ جو کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے آپ یہ بھی تو دیکھیں ان درد مندوں کے درد کا مداوا آخر کیا ہے بہت تسلی اور ترغیب دی اور حکم دیا کے اس سارے مجمع کو سورہ والشمس کے فوائد اور کمالات بتائیں یہ مجمع خالی ہاتھ واپس نہیں جانا چاہیےآخر کار بوڑھے عالم جن نے ترکیب بتائی جو شخص سورہ شمس روزانہ چالیس بار پڑھے ہر دفعہ بسم اللہ کے ساتھ اول آخر سات بار درودابراہیمی پڑھے اگر خود نہیں پڑھ سکتا تو اس کی طرف سے کوئی اور پڑھ لے چالیس دن ستر دن یا نوے دن جب تک مراد حاصل نہ ہو یہ پڑھےاس کے بعد بوڑھاعالم اپنی درد مندآواز کے ساتھ بولا دیکھو میں نے تمہیں یہ ترکیب بتا دی ہے اب جو شخص اس کو یقین دھیان اور درد کے ساتھ پڑے گا وہ اس کا سو فیصد نفع پائے گا  دیکھو جلدی اور عجلت نہ کرنا چالیس مرتبہ صبح شام پڑھنا اگر سارا دن پڑھنا ہو تو اور بہتر ہے
بوڑھا عالم بولا یہ علم میری زندگی کے سالہا سال کے تجربات و مشائدات میں ایک انمول ہیرا ہے اور کوئی بھی شخص ایسا نہیں جس کو میں نے یہ عمل بتایا اور اس کا مسئلہ حل نہ ہوا ہو اور خاص کر اولاد کا مسئلہ ایسے ایسے لوگوں کو اس کا کمال اور تاثیر ملی ہے جو اپنی اولاد کے بارے میں آخر کار مایوس ہو کر بیٹھ گئے تھے انہوں نے سوچ لیا تھا اب بے اولادی ہمارا مقدر ہے۔ ان کو اس کا سو فیصد رزلٹ اور کمال ملا ہے۔ کسی کو شائد یقین ہی نہ آئے کہ واقعی ایسا ہو بھی سکتا ہے ۔
                                   میں سوچنے لگا آج کی محفل میں جو آنافانا جتنے واقعات ہوئے ہیں یہ تو گمان تصور اور خیال میں بھی نہیں تھے اور وہ جتنے واقعات بھی ہوئے ہیں ان واقعات کا ہماری زندگی سے کتنا گہرا تعلق ہے۔ اور اگر آج صحابی بابا نہ ہوتے تو یہ تمام قصے کہانیاں ادھورے رہ جاتے اور لوگوں کو جتنے کمالات ملنے تھے نہ مل پاتے۔شائد جنات کے قافلے کا آنا بھی بہت بڑی سعادت تھی۔یہ باتیں میں بیٹھا سوچ رہا تھا اور بوڑھا عالم جن مسلسل بتائے جا رہا تھا دیکھو میری ایک بات یاد رکھنا اگر تم یہ چاہتے ہو کے تمہیں اللہ کے ایسے وعدے دوں اور اللہ کی ایسی نعمتیں دوں کیونکہ انسان جب اپنی آخری نعمت کو پانا چاہتا ہے تو بہت زیادہ قسمیں کھاتا ہے یہ وہ سورہ ہے جس میں اللہ تعالی نے بہت زیادہ قسمیں کھائی ہیں ۔اتنی قسمیں اٹھا کر میرے مولا نے کہا ہے کے میرے بندو آؤ اس سورہ سے دوستی لگاؤ اس میں آپ کو کمالات تاثیر نعمتیں رزق اور اولاد ملے گی۔ وہ بوڑھا عالم بولا کہ لوگو میں اس نبوی ﷺ علم کی بنیاد پر کہہ رہا تھا اور پھر کہہ رہا ہوں جو اس کو یقین کے ساتھ کرےگا اللہ اس کو دے گااور ضرور دے گا
اور پھر اگر آپ اس کی تاثیر اور چاہتے ہیں تو ایک پاؤ کالی مرچ اور ایک پاؤ دیسی اجوائن دونوں کو صاف کر کے علیحدہ علیحدہ ڈبوں میں محفوظ کر لیں۔ روز جتنا پڑھیں ان پر دم کر دیں۔ اور عورت سات کالی مرچ اور ایک چٹکی اجوائن دودھ یا پانی کے ساتھ صبح نہار منہ اور شام عصر کے بعد کھا لیا کریں ۔ ایک تین سات نو ماہ یا مستقل شفاء یابی تک کالی مرچ اور اجوائن کاساتھ استعمال اس کی طاقت تاثیر قوت اور اس کے کمال کو اور بڑھا دیتی ہے۔جیسے ہی بوڑھے عالم جن نے بات ختم کی صحابی بابا نے جنات کے مجمع کے لئے دعا فرمائی۔صحابی بابا نے پر سوز دعا فرمائی یا اللہ تو خالق اور کلیم تو مبدی تو باری اے اللہ تو چاہے تو اولاد دے دے تو نہ چاہے تو کبھی بھی نہ دے۔ اگر تیری تخلیق میں کوئی فیصلے نہیں تو آج فیصلے فرما دے اگر تو نے فیصلہ نہیں کیا اور نہیں کرنا تو آج کر دے اللہ تیری منت کر رہے ہیں اے اللہ تیرے سامنے ہاتھ جوڑ رہے ہیں اے اللہ اگر تو چاہے گا تو ان بے اولادوں کو اولاد دے دے گا مولا سورہ شمس تیرا کلام ہے اور تجھے اختیار ہے کہ اپنے کلام کی تاثیر بندوں سے لے لے وحی کی برکات سے بندوں کو محروم کر دے اے سخی کریم اللہ ان بندوں اور بندیوں کی دعاؤں کو قبول کر لےاے اللہ ان سب کو اولاد نرینہ سے نواز آمین آمین
جنات کا قافلہ چلا گیا پھر ویسے ہی ایک دھول اٹھی بگولہ بنا اور پھر غائب ہو گیا۔ صحابی بابا نے کہا چلو آج اس بات کی وجہ سےایک نیا احساس ہوا کہ سورہ شمس کے کیا کمالات ہیں صحابی بابا نے کہا اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی سورہ شمس کا اپنا ایک واقعہ سناؤں۔ فرمانے لگے میرا ایک بھائی جو کے اب اس دنیا سے رخصت ہو گیا ہے جب اس کی شادی ہوئی تو اس کی اولاد نہیں ہوتی تھی ہم نے بہت علاج کروائے کسی نے کہا اس پر جادو ہے کسی نے کہا نظر بد ہے ہر قسم کا علاج کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا سالہا سال گزرتے گئے میری بوڑھی والدہ دن رات دعائیں مانگتی تھی کہ کس طرح میرے بھائی کی کی اولاد ہو جائے۔ ایک دن میری والدہ نے ایک خواب دیکھا سات عورتیں آئیں اور سب کے ہاتھوں میں تنکوں سے بنی ہوئی ٹوکریاں ہیں اور ہر ٹوکری میں سات قسم کے پھل ہیں اور سب میری والدہ کو دینے کے لئے آئی ہیں۔ میری والدہ نے پوچھا آپ نے مجھے یہ چیزیں کیوں دی ہیں تو وہ خواتین کہنے لگیں ہم آپ کو سات بیٹے دینے آئی ہیں دوسری خاتون بولی یہ سات ٹوکریاں آپ کو فائدہ اس وقت دیں گی جب آپ قرآن پاک کی وہ سورت پڑھیں گی اور قرآن پاک کی وہ آیتں پڑھیں گی جن میں سب سے زیادہ آ پ کو قسموں سے واسطہ پڑے گا اور وہ قسمیں بھی وہ جو اللہ کی قسمیں ہوں گی میری والدہ نے حالت خواب میں پوچھا وہ قسمیں کون سی ہیں وہ سورت وہ آیات کون سی ہیں تو ان سات خواتین نے بتایا وہ سورہ شمس ہے ۔
اس سورت کو زیادہ سے زیادہ پڑھو اور جتنا زیادہ پڑھو گئے اتنا زیادہ نفع ہو گا ورنہ اس سورت کو چالیس بار صبح شام ضرور پڑھو والدہ کی آنکھ جب کھلی تو انہوں نے بہت ٹھنڈی سانس لی والدہ سسکیاں لے کر رونے لگیں میں نے جا کر والدہ کے پاؤں کو چوما پوچھا کہ آپ کو ایسی کون سی تکلیف ہوئی ہے جس کی وجہ سے آپ روئی ہیں والدہ فرمانے لگیں بیٹا میں نے خواب دیکھا ہے مجھے حکم ملا ہے کہ تم چالیس بار سورہ شمس پڑھو میرا رونہ اس بات پر ہے کے اللہ کی طرف سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری مشکل کٹ گئی ہے اور ہماری پریشانی دور ہو گئی اور ہم مسائل اور مشکلات سے نکل گئے
میری والدہ نے اس دن سےسورہ شمس کو بہت زیادہ پڑھنا شروع کیا اور حیرت انگیز تعداد میں سورہ شمس کو پڑھتے پڑھتے روزانہ نامعلوم کتنی بار پڑھ جاتی ہیں جب زیادہ نہ پڑھتی تو کم از کم صبح شام ضرور پڑھتی تھیں اس اعتماد سے ان کا پڑھنا بہت عرصہ رہا حالانکہ اس دوران میرے بھائی کی کوئی اولاد نہیں ہوئی لیکن میری والدہ مایوس نہیں ہوئیں اور وہ مسلسل سورہ شمس پڑھتی رہیں کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالی نے میرے بھائی کو خوشخبری سنائی خوش خبری سننے کے بعد بھی میری والدہ سورہ شمس پڑھتی رہیں ان کا یہ پڑھنا مجھے بہت بھاتا تھا
میری والدہ اس یقین کے ساتھ پڑھتی رہیں آخر کا اللہ تعالی نے میرے بھائی کو بیٹا عطاکیامیں نے کہا اب آپ کیوں پڑھ رہی ہیں تو والدہ فرمانے لگیں بیٹا میں سورہ شمس اس لئے مسلسل پڑھ رہی ہوں میں نے تیرے بھائی کے لئے جو خواب دیکھا تھا اس خواب کے مطابق سات بیٹے ملنے ہیں اور یہ ساتوں بیٹے اللہ ضرور دے گامجھے مکمل یقین ہے لہذا اس یقین کی بنیاد پر میں مسلسل پڑھے جارہی ہوں اور اللہ پاک ہمیں بیٹوں سے نوازتا گیا سات بیٹے ہو گئے پھر میری والدہ نے اس سورت کو پڑھنا چھوڑ دیا۔.
کچھ عرصہ کے بعد خواب دیکھا خواب میں کیا دیکھا کہ میری والدہ سے کسی نے کہا تم سے بڑا کون نادان ہے تم نے سورہ شمس پڑھنا چھوڑ دیا کیونکہ جب بھی سورہ شمس کے پڑھنے سے تمہیں بیٹے ملے ہیں تمہارے بیٹے کے بیٹے اور ان کے بھی بیٹے ہوں تو سورہ شمس کو نہ چھوڑو صحابی بابا پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ واقعہ سنا رہے تھے اور اپنی زندگی کا مشائدہ بتا رہے تھے سورہ شمس پڑھنے سے بیٹے ملے رحمت ملی برکت ملی صحابی بابا  نے جب یہ بات سنائی تو حاجی صاحب نے کہا کہ اگر آپ نے سنائی ہے تو پھر میں بھی اس کا ایک عمل اور مشائدہ بتاتا ہوں حاجی صاحب بتانے لگے یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب میرا مستقل قیام بغداد میں ہوتا تھا اور میں نے بغداد میں زندگی کے بہت شاندار اور سنہرے دن گزارے۔
میں نے ایک دن محسوس کیا کہ میرے دل میں کوئی آواز دینے والا آواز دے رہا ہے اٹھو چلو کوئی سوالی سوال کر رہا ہے۔اس کے سوال کو پورا کرو۔ کوئی مشکل میں ہے اس کی پریشانی دور کرو۔ بس بے ساختہ میں چل پڑا چلتے چلتے مجھے سوال کرنے والا سائل ملا اور بھکاری ملا سوال کرنے والا سائل اور بھکاری ایک سوال لے کر آتا ہے مجھے مال نہیں چاہیے مجھے اپنے بیٹے کے لئے بیٹا چاہیے لوگو میرا بیٹا ہے پوتا نہیں ہے بارہ سال ہو گئے ہیں میں بارہ سال سے بےچین ہوں اس کی آواز میں بہت درد تھا میں نے اس کے پیچھے چلنا شروع کیا اس وقت چاشت کا وقت تھا چاشت کے وقت سے لے کر دن ڈوبنے تک میں اس سوالی کے پیچھے پھرتا رہالیکن وہ سوالی اپنا سوال کرتا رہا اور میں اس سوالی کو مسلسل دیکھتا رہا ۔
ایک درخت کے سائے میں وہ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور زاروقطار رونے لگا اے اللہ کسی خضر کو بھیج جو میرے سوال کو پورا کرے حاجی صاحب یہ غم کی کہانی سنا رہے تھے ان کا انداز ایسا تھا میں بھی اور بیٹھنے والے اور بھی رو رہے تھے۔فرمانے لگے میں یہ آواز سن کر گھبرا گیا شائد مجھے اس شخص کے لئے بھیجا گیا میرے اندر سے آواز آئی میں مسلسل سوچ رہا تھا اس کو کون سا وظیفہ کون سی تسبیح بتاؤں پھر دل میں خیال آیا کہ جنہوں نے مجھے اس کی مدد کے لئے بھیجا ہے وہ خود ہی مجھے اس کے بارے میں بتائیں گئے میں آنکھیں بند کر کے اللہ کی ذات کی طرف متوجہ ہوا یا اللہ تو مجھے سجھا دے میں کیا کروں میں اس کی مدد کیسے کروں یا اللہ مجھے تو کچھ خبر نہیں کہ مدد کسے کہتے ہیں کہ مدد ہو کیسے سکتی ہے بس اچانک میری زبان پر ایک بات جاری ہوئی آج بھی میں سوچتا ہوں کہ وہ بات میں کیسے کر گیا تھا پھر احساس ہوا دراصل جب بندے کا درد بڑھتا ہے اور اس کا اللہ سے التجا کرنا عرش کو متوجہ عرش والے کو متوجہ کرتا ہے تو میرا اللہ کسی نہ کسی کو ذریعہ بنا دیتا ہے میں نے کہا بابا جی آپ مایوس نہ ہوں مجھے اللہ نے آپ کی مدد کے لئے بھیجا ہے میں صبح چاشت سے غروب آفتاب تک آپ کے پیچھے رہا ہوں میں نے اس کو نشانیاں دی فلاں جگہ سے گزرے فلاں جگہ یہ صدا لگائی جب آپ درخت کے نیچے آ کر بیٹھے اور آپ نے درد بھری آوازوں سے اللہ کو اپنے درد سنایا میں اس غم کو بھی سنتا رہا بابا جی آپ مایوس نہ ہوں آپ صرف سورہ شمس پڑھیں خود بھی اور تمام گھر والے بھی جتنے زیادہ سے زیادہ لوگ گھروالے پڑھ سکیں بابا جی بہت زیادہ پڑھیں اور کم از کم سورہ شمس چالیس دفعہ صبح و شام یا ایک بار چالیس دفعہ ایک دن میں۔
جب تک مراد حاصل نہ ہو پڑھتے رہیں انشاءاللہ آپ کی مراد ضرور پوری ہو گی۔ آپ کو پوتا ملے گا جو آپ کے منہ میں لقمہ ڈالے گا بابا جی پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہے تھے میں نے یقین دلاتے ہوئے کہا یہ سچ ہےکہ مجھے آپ کی مدد کے لئے بھیجا گیا ہے میری آپ کی خدمت کے لئے باقاعدہ ڈیوٹی لگی ہے آپ میری بات کو سنیں بھی اور سمجھیں بھی بابا جی اٹھ کھڑے ہوئے مجھے گلے سے لگایا چوما اور چیخ چیخ کر رونے لگے اور کہنے لگے بس میرا دل مان گیا ہے میرا کام ہو گیا  میرے مال کا وارث مجھے مل گیا میرا بارہ سال کا رونا اور میرے آنسو اللہ نے مجھے اس کا صلہ دے دیا ہے مجھے کہا آپ کون ہیں میں نے کہا بابا جی میرے حق میں دعا کیجئے گا میں تو آپ کی خدمت کے لئے آیا ہوں کوئی ایک سال کے بعد میں بابا جی کو ڈھونڈتے ہوئے ان کے گھر پہنچامیں نے پھر وہی روپ دھارا جو اس وقت تھا بابا جی بیٹھے تھے دور سے مجھے پہچان گئے اور مجھے کہنے لگے کیا تم میرے وہی محسن ہو جس نے مجھے اللہ سے پوتا دلا دیا تھا میں تمہیں تلاش کرتا رہا تم کہاں غائب ہو گئے تھے جب میرا پوتا ہوا میں نے بہت دھوم دھام کی تقریب کی جس میں نوے فیصد غربا  دس فیصد میرے رشتہ دار اور مالدار لوگ تھے اور میں نے ان لوگوں کو کھلایا پلایا غریبوں کو کپڑے دیئے پھر بابا جی اٹھے اور اپنے غلام کو آواز لگائی وہ پوتے کو باہر لایا خوبصورت ایک چھوٹا سا گول مٹول بچہ میں نے لیا چوما اس کی بلائیں لی حفاظت کی دعائیں پڑھیں اور پھر اس کو ان کی جھولی میں ڈال دیا
بابا جی بہت خوش تھے انہوں نے میرے لئے بہت بہترین کھانے منگوائے اور مجھے حکم دیا کہ کھانے بغیر نہیں جانا وہ مجھے ساتھ لئے اپنے بہت بڑے مہمان خانے میں گئے مہمان خانہ میں میرے لئے بہت بہترین چادریں بچھائی گئیں اور تکیے لگائے گئے وہ بار بار ایک بات کہتے تھے لوگو آؤ دیکھو یہ وہی شخص ہے جس کہ ذریعے اللہ نے مجھے میرا وارث دیا ہے اسی اثناء میں بہت سے اور لوگ بھی اکٹھے ہو گئے ان میں بیشتر ایسے تھے جو بے اولاد تھے اور ان کی اولاد نہیں تھی میں نے ان سب کو یہی عمل بتایا سارے یہ عمل سن کر حیران ہوئے میں نے بابا جی سے کہا آپ ہی یہ عمل انہیں بتا دیں کہنے لگے سچ پوچھو میں نے خیال نہیں کیا مجھے یاد نہیں رہا انہوں نے مجھ سے سوال نہیں کیا مجھے یاد نہیں رہا بس میں اتنا کہتا تھا کہ کوئی اللہ کی طرف سے ایک نیک بندہ حضرت خضر کی صورت بن کر آیا تھا اس نے مجھے بتایا میں نے دن رات پڑھا اور بہت زیادہ روتے ہوئے پڑھا اس کی وجہ سے اللہ پاک نے مجھے پوتے والی نعمت عطا فرمائی ان سب کو جتنے لوگ بھی آئے ہوئے تھے سب کو میں نے سورہ شمس کے بارے میں بتایا اور اتنا ساتھ اضافہ کیا کہ یقین کہ ساتھ پڑھیں اور ان سب کو کہا کہ مسلسل پڑھتے رہیں اس کہ پڑھنے سے انشاءاللہ آپ کو ضرور اولاد نصیب ہو گی
با با جی نے مجھے بہت تحائف دے کر رخصت کیا جو کہ میں نہیں لینا چاہتا تھا لیکن ان کا اصرار تھا کہ میں تحائف لوں اور باقاعدہ گھر جا کر اپنے گھر والوں کا بھی شکریہ ادا کروں اب مجھے اگلا اشتیاق تھا کہ جن لوگوں کو میں نے وہ عمل بتایا کیا ان کا بھی کام ہوا یہ عمل میری زندگی میں پہلی دفعہ مجھےالہامی ملا تھا اس الہامی عمل کے لئے میں پھر گیا جتنے لوگوں کو میں نے بتایا تھا سب لوگوں نے یہ عمل کیا اور جتنوں نے بھی کیا اللہ پاک نے انہیں بیٹوں والی نعمت سے نوازا ہاں ایک بندہ ایسا تھا جس کو اللہ پاک نے بیٹی والی نعمت سے نوازا تھا
بے اولادی کے لئے بانجھ پن کہ لئے بیٹوں کی کمی کہ لئے نسلوں کی کمی کہ لئے یہ عمل بہت بہت اور بہت زیادہ بہت ہی زیادہ قابل رشک ہے اس عمل سے اللہ کی رحمت اللہ کا فضل اور اللہ کا کرم متوجہ ہوتا ہے اور اس عمل سے حیرت انگیز نتائج ملتے ہیں حاجی صاحب نے یہ واقعہ بتایا جن عالم نے بھی واقعہ سنایااوروں نے بھی سنائے مگر حاجی صاحب کا واقعہ سب سے حیرت انگیز تھا اور حاجی صاحب فرمانے لگے اس دن سے لے کر آج تک مجھے کوئی بھی شخص ملے جس کی اولاد نہ ہو جس کی نسلیں نہ ہوں میں نے ان سب کو یہی عمل بتایا اور تاکید کی کے گھر کہ سارے افراد یا جتنے زیادہ افراد پڑھ سکیں اس کو ضرور پڑھیں اور یہ عمل نہایت ہی کمال کا عمل ہے اس عمل کی بہت تاثیر ہے۔
میں نے صحابی بابا سے پھر اپنا پرانہ سوال دہرایا کہ بابا جی آپ پھر اپنی شفقت فرمائیں اور ہمیں وہ پراسرار زندگی کی پراسرار کیفیتیں بتائیں اور ہمیں زندگی کے حیرت انگیز سر بستہ راز بتائیں جو کائنات میں آج تک چھپے ہوئے ہیں اور کوئی شخص ان کو پا نہیں سکا وہ چیزیں بتائیں جن کو آج تک لوگوں نے کوشش تو کی مگر کامیاب نہ ہو سکے تو صحابی بابا نے پراسرار چیزیں بتاتے ہوئے عجیب بات بتائی فرمانے لگے ۔
میں نے ایک دفعہ اللہ تعالی سے عرض کیا یا اللہ مجھے سمندر کی تہہ میں اگر کوئی بھی مخلوق زندہ ہے جانور اور مچھلیوں کہ علاوہ تو دکھا دے تو مجھے حکم ملا کہ آپ سمندر کی طرف چلیں میں حسب حکم سمندر کی طرف چل نکلا آگے گیا تو ایک ملاح موجود تھا جس نے مجھے اپنی کشتی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا میں اس کی کشتی میں بیٹھ گیا بہت بڑی کشتی اکیلا ملاح اور میں رات خوفناک سناٹا مگر میں گھبرایا نہیں لیکن حیران ضرور تھا کہ اللہ کو کیا منظور اور میرے رب کی کیا قدرت میں یہ ساری باتیں سوچتا ہوا جارہا تھا کئی گھنٹے سفر کہ بعد ایک جگہ کشتی رک گئی اور ملاح مجھے سلام کر کہ پانی میں اترا اور غائب ہو گیا اب بیچ سمندر کہ میں اکیلا اور کشتی ۔پاس نہ کوئی انسان نہ جن نہ فرشتہ نہ کائنات کی کوئی مخلوق میں حیرت زدہ بیٹھا ہوا تھا اسی دوران مجھے محسوس ہوا کہ سمندر کا پانی سکڑ رہا ہے اور سمٹ رہا ہے اور کشتی آہستہ آہستہ نیچے دھنس رہی ہے میں خاموشی سے بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا مجھے اپنے اردگرد سمندر کے پانی کی دیواریں نظر آنا شروع ہو گئیں اور میں حیرت سے یہ سارا منظر دیکھتا رہا میلوں نیچے کشتی چلی گئی اس کے بعد ایک جگہ کشتی رک گئی اور کشتی رکنے کے بعد مجھے کچھ لوگ نظر آئے نہ وہ انسان تھے نہ وہ جن تھے نہ ہی فرشتے میں حیران یہ میرا نام کیسےجانتے ہیں ۔
میں ان کی بات سن کر نیچے اترا انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور السلام علیکم کہا میں نے سلام کا جواب دیا اس کہ بعد وہ مجھے لے کر چل پڑے ایک جگہ پہنچے تو وہاں سیڑھیاں تھیں میں سیڑھیوں سے نیچے اترتا گیا سیڑھیاں بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں چلتے چلتے ایک جگہ ہم رک گئے وہاں ایک بہت بڑا لوہے کا گیٹ ایسے جیسے کے بادشاہوں کے پرانے قلعے ہوتے تھے کھلا اور کچھ مخلوق سامنے آئی میں اس مخلوق کہ ساتھ آگے بڑھا وہاں بہت پرانے پرانے قلعے تھے جو اپنی اصلی اور اچھی حالت میں موجود تھے ان میں فوجیں تھیں تلواریں تھیں آج سے ہزاروں سال پرانا نظام موجود تھا نئے نظام کی وہاں صورت اور نقشہ بھی نظر نہیں آرہا تھا میں ان فوجوں کے درمیان میں سے چلا جارہا تھا۔
چلتے چلتے ایک جگہ میں نے محسوس کیا کہ جیسے بادشاہ کا محل آ گیا اور میں بادشاہ کہ محل کی طرف لے جایا جا رہا ہوں جیسے میں بادشاہ کہ محل کی طرف پہنچا تو ایک بہت بڑا گیٹ آیا اس کا دروازہ کھلا اس کا دروازہ کھلنے کہ بعد میں اس دروازے کہ اندر گیا وہاں مجھے ایک طرف جانے کا کہا گیا اور غسل کا کہا گیا میں نے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کہ سات غسل کیا غسل کرنے کہ بعد مجھے خاص عمدہ لباس پہنایا گیا میرے سر پر ایک چاندی کا تاج سجایا گیا اور میں سب کچھ خاموشی سے دیکھ رہا تھا ۔ پھر میں آگے گیا آگے ایک اور گیٹ آیا پھر ایک اور گیٹ آیا وہ گیٹ کھلا اور میں اس کہ اندر داخل ہوا جہاں ہر طرف شیر تھے اور ہر شیر کہ ہاتھ میں تلوار تھی اور ایسے محسوس ہو رہا تھا ہر شیر اپنی ڈیوٹی اور ذمہ داری پر متعین ہے ۔ اس کہ بعد میں ایک اور گیٹ میں داخل ہوا یہاں ہاتھیوں کی فوج تھی پھر میں آگے پہنچا یہاں ایک اور گیٹ تھا میں اس میں داخل ہو گیا اس کہ بعد مجھے ایک بہت بڑا تخت نظر آیا جو سونے اور جواہرات سے جڑا ہوا تھا اس تخت پر ایک بادشاہ بیٹھا ہوا تھا میں نے اس بادشاہ کو سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا مجھے کرسی پر بٹھایا گیا کرسی پر بٹھا کر مجھے کہا گیا آپ حیران ہوں گئے یہ سن کر کہ ہم بھی جنات ہیں میں ان کی بات سن کر چونک اٹھا ہم وہ جنات ہیں جو سمندر کی تہہ کہ نیچے رہتے ہیں اور ہماری ذمے داری سمندر کی جتنی بھی مخلوق ہے ان کو غذائیں پہنچانا ہے جو اللہ اپنی قدرت اور طاقت سے بندوں تک پہنچاتا ہے۔
دوسرا ہماری ذمہ داری جنات کہ اوپر جو بادشاہ ہوتا ہے اس بادشاہ کی نگرانی کرنا وہ خود بادشاہ نہیں تھے لیکن جنات کہ اوپر بادشاہوں کہ نگران تھے آئیں ہم آپ کو اپنا محل پھرواتے ہیں ہمیں وہاں لے جایا گیا جہاں صرف فوارے تھے اور وہ فوارے پانی کہ نہیں تھے موتیوں کہ تھے آگے گیا تو مجھے جنات کی ایک بہت بڑی تعداد دکھائی دی وہ مسلسل سورہ قریش پڑھ رہی تھی اور ایک سیاہ رنگ کا بہت بڑا پتھر تھا اس پر پھونک رہی تھی میں وہاں رک گیا میں نے سوال کیا کہ آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ یہ جماعت کون ہے سورہ قریش کیوں پڑھ رہی ہے اور سیاہ رنگ کہ پتھر پر کیوں پھونکی جارہی ہے۔
شہنشاہ مجھے کہنے لگے یہ پوری جماعت سورہ قریش اس لئے پڑھ رہی ہے کہ سمندر اپنی طغیانی سے زمین پر بسنے والے انسانوں اور بے ذبانوں کو ختم نہ کر دے جس دن یہ سورہ قریش پڑھنا چھوڑ دیں گئے اس دن سمندر اپنی طغیانی کہ ساتھ ساری مخلوق کو ڈبو دے گا میں نے سوال کیا یہ بتائیں یہ پتھر کیا ہے اتنا بڑا پتھر جو ہماری دنیا کہ پہاڑوں سے بھی بڑا ہے اور اس پتھر میں کیا ہے اس کا راز کیا ہے کہا یہ پتھر دراصل انسانوں کی مصیبتوں مسائل مشکلات جادو اور شریر جنات کے ذریعے جو آنے والے مسائل ہیں دراصل یہ وہ ہیں اور ان مسائل اور مشکلات کا یہ پتھر ہے ۔ ذیر سمندر بادشاہ نے مسکرا کر جواب دیا اگر آپ چاہتے ہیں تو ہم آپ کو بھی اس کی تاثیر دے سکتے ہیں اس کے لئے آپ کو ایک سیاہ پتھر تلاش کرنا ہو گا اگر پتھر سیاہ مل جائے تو اچھی بات ہے اگر پتھر سیاہ نہیں ملتا تو اس پر سیاہ رنگ لگا دیں پتھر چھوٹا ہو یا بڑا اس کو کسی کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیا جائے روزانہ صرف ستر بار اول و آخر سات بار درود شریف ہر دفعہ بسم اللہ کہ ساتھ سورہ قریش پڑھی جائے اور یہ تصور کیا جائے جس طرح یہ پتھر میرے لیے سخت ہے اور میں اس کو اپنے ہاتھوں سے دانتوں سے نہیں توڑ سکتا تو اس کے لئے مجھے کسی ہتھوڑے کی ضرورت ہے اس لئے زندگی کہ مسائل مشکلات الجھنیں وغیرہ کے لئے مجھے ایک ایسی مدد کی ضرورے ہے جس کی طاقت ہتھوڑے سے زیادہ ہو وہ مدد سورہ قریش ہے لہذا میں اس لئے یہ سورہ قریش پڑھ رہا ہوں جس طرح ہتھوڑا پتھر کو توڑ دیتا ہے اس طرح سورہ قریش میری مشکلات و ناکامیوں کہ پتھر کہ جو میری راہوں میں اور راستوں میں رکاوٹ ہے ان کو توڑ کر رکھ دے گا ۔
بس روزانہ ستر بار صبح و شام لیکن تصور جتنے سخت ہو گا توجہ جتنی سخت ہو گی دھیان جتنا مضبوط ہو گا اعتماد جتنا قوی ہو گا مدد اتنی زیادہ اور اتنا جلدی آئی گی اور تاثیر اتنی زیادہ اور اتنی جلدی ہو گی میں زیر سمندر بادشاہ کی اس طاقتور چیز کو پا کر ان کا میں نے شکریہ ادا کیا اور وہ مجھے کہنے لگے کہ آپ کے زمین پر بسنےوالے انسانوں اور جنات کیلئے جو مسائل اور مشکلات اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں ان سب کے لئے ایک تحفہ ہے آ پ یہ لے جائیں میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر وہی واپسی کا سفر اور واپسی کا نظام سارا دوبارہ سے چلا اور میں زمین پر واپس آ گیا ۔
صحابی بابا فرمانے لگے کہ جنات سمندر کے نیچے رہتے ہیں قبروں کے نیچے رہتے ہیں جنات کا قبروں کے نیچے رہنے کا ایک واقعہ خود ہی سنایا فرمانے لگے کہ ایک دفعہ ہمارے ایک انسان دوست اس دنیا سی رخصت ہوئے میں ان کی تدفین میں ان کہ ساتھ تھا جب میں ان کی تدفین کہ لئے وہاں گیا تو وہ دفن کر دیئے گئے دفن کرنے کہ بعد میں بہت دیر تک قبرستان میں بیٹھا رہا انسان تو نہیں دیکھ سکتے ہیں میں وہاں جنات کو مسلسل دیکھتا رہا اور جناتوہاںاپنی زندگی کی بھاگ دوڑ میں مصروف تھے ایک جن کو میں نے دیکھا کہ وہ ایک قبر کو کھود رہا ہے اور قبر کو کھودنے کہ بعد اس میں داخل ہو گیا میں خاموشی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا دوسرا جن آیا اس نے قبر نہیں کھودی بس وہ آیا زمین پھٹی اور وہ خودبخود قبر میں داخل ہو گیا کچھ جنات قبر سے نکل رہے تھے یہ منظر میں بہت دیر تک دیکھتا رہا پھر ایک جن نکلا صحابی بابا فرمانے لگے اس جن کا میں نے ہاتھ پکڑ لیا اور میں نے پوچھا آپ کا نام اس نے مجھے اپنا نام بتایا اور میں نے اس سے اپنا تعارف کرایا میں بھی جن ہوں اور میں قبرستان میں اپنے انسان دوست کی تدفین کہ لئےآیا تھا پھر اس نے مجھے اپنے کچھ حال بتائے اور مجھ سے دعاؤں کی درخواست کی اور وہ چلا گیا صحابی بابا فرمانے لگے قبرستان میں رہنے والے اکثر جنات نیک اور شریف ہوتے ہیں اگر وہ مسلمان کہ قبرستان میں رہتے ہیں اگر وہ غیر مسلم کے قبرستانوں میں رہتے ہیں ان میں اکثر جنات مسلمان نہیں ہوتے۔
کھجور کہ درخت میں رہنے والے جنات مسلمان اور نیک ہوتے ہیں کھجور کا درخت واحد درخت ہے جس کہ اوپر کبھی بھی غیر مسلم بدکار جن نہیں رہ سکتا اگر کسی کو کھجور کہ جن سے تکلیف پہنچی ہے اس میں اس کا اپنا کوئی قصور ہو گا اور اس کی وجہ سے ان جنات کی قوم کو تکلیف پہنچی ہو گی اور تکلیف مسائل اور مشکلات کا اس کے لئے ذریعہ بن گئی ہوں گی صحابی بابا نے مزید فرمایا کہ میری زندگی دن رات نیکی اور عبادت میں گزری ہے میں نے تجربہ کیا ہے جو انسان باوضو رہتے ہیں جادو جنات مسائل اور مشکلات ان کو نہیں گھیرتے اور اب کہ اوپر سے وہ بلائیں اورپریشانیاں ہمیشہ ٹلی رہتی ہیں۔
صحابی بابافرمانے لگے میں ایک بار دمشق کہ ایک پرانے قبرستان میں تھا جہاں بے شمارصحابہ تابعین تبع تابعین محدثین صالحین اور بڑے بڑے حضرات کی قبور اور مزارات ہیں میں بیٹھا مسلسل سورہ قریش پڑھ رہا تھا ساری رات میں سورہ قریش پڑھتا رہا آخر کار مجھے نیند آنے لگی وہیں تھوڑی سی ٹیک لگا کر اونگھ گیا اور اونگھنے کہ بعد جب اٹھا تو میں نے محسوس کیا ہر قبر کہ اوپر ایک بلب جل رہا ہے وہ نور کی ایک کرن تھی جو قبر کہ اوپر برس رہی تھی ہاں صرف پانچ قبریں ایسی تھیں جن کے اوپر وہ نور کی کرنیں نہیں تھیں میں حیران ہواکہ یہ بلب کیا ہے  اور اس زیادہ حیرت یہ نور کی کرنیں ان پانچ قبروں کہ اوپر نہیں








No comments:

Post a Comment