Tuesday, July 14, 2015

کملی والے محمدﷺ کا غلام بن کر تو دیکھ

کملی والے محمد ﷺ کا غلام بن کر تو دیکھ۔

حکیم محمد طارق محمود چغتائی 
کملی والے محمدﷺ اپنی نہیں کسی اور کی بکریاں چرا رہے تھے جبل ثور کا وہ نقشہ آج بھی ان پہاڑوں کو یاد ہو گا!آج بھی آسمان کو وہ حیرت انگیز منظر یاد ہو گا۔ صدیاں گزرنے کہ باوجود جبل ثور کا پہاڑ آج بھی ویسے ہی کھڑا ہوا ہے جہاں پر سرور کونین ﷺ اس امت کو یہ پیغام دے کر گئے ہیں کہ پاؤں میں جوتا نہیں لیکن شان یہ ہے کہ آپ ﷺ کے اشارے سے احد پہاڑ سونے کا بن جائے مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے بہہ نکلیں ! جن کہ اشارے پر اللہ پاک بارہ ہزار کہ لشکر کی خوراک زخیرہ کر دیں ! غم گسار نبی ﷺ نے اپنی امت کہ غریب کو یہ پیغام دیاہے کہ اگر تیرے پاس غربت تنگدستی ہے تیرے بچے زیادہ ہیں تیرا گھر چھوٹا ہے تیری نوکری چھوٹی ہے اور تیرا ذریعہ آمدنی کم ہے تو تم نے پریشان نہیں ہونا کوئی حرج نہیں تیرے حبیب ﷺ کہ پاؤں میں بھی جوتا نہیں تھا ان کہ سر پر بھی کپڑا نہیں تھا لیکن کملی والے ﷺ نے اپنے رب کو نہیں چھوڑا تھا۔آج تو کملی والے ﷺ کا وہ غلام بن جا کہ اگر تیرے ہاں تنگدستی ہے فقرو فاقہ ہے تیری ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں کوئی حرج کی بات نہیں! بس تو محمد ﷺ کی غلامی کو نہ چھوڑ ایک وقت آئے گا جب تیرا رب تیری نسلوں کو بھی پالے گا ۔ تیرا رب تجھے بہت عطا کرے گا! یہی پیغام ہمارے لئے بھی ہے کہ ہر حال میں آقا ﷺ کی غلامی ہی سرخروئی کا باعث ہےشادی ہے تو اس میں یہ پیغام ہے کے جو خوشیاں تجھے تیرے رب نے دیں ہیں تو ان خوشیوں میں آقا کملی والے ﷺ کو بھی یاد رکھ ان کے احسانات کو بھی یاد رکھ اور تجھے جو غم دیا ہے تو دیکھ کے ہمارے آقاﷺ نے بھی غم سہا ہے۔ آقا ﷺ کو بہت سارے غم ملے ہیں۔ ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ بیٹے ہیں ان کی رحلت پر آنکھوں سے زاروقطار آنسو رواں ہیں ان کو ہاتھوں میں لیا ہوا تھا دل میں غم و اندوہ کی کیفیت طاری تھی سرور کونین ﷺ کی بیٹیاں سرورکونین ﷺ کے بیٹے ان کی زندگی میں فوت ہوئے ہیں آپ ﷺ کو ام المومنین  حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کا غم زندگی میں ہی ملا۔ آخر وہ سارے غم جو سرور کونینﷺ کو ملےان غموں میں آپ ﷺ کی کیفیت کیسی تھی؟ اللہ جل شانہ کے ساتھ تعلق کیسا تھا؟ بازار میں کیسے تھے؟ زندگی میں کیسے تھے؟ ہمہ وقت کیفیت کیسی تھی؟ ان ساری کیفیات کو مد نظر رکھ کر چلنا ہی غلامی ہے اور اس لئےغلام مصطفیﷺبنیں ۔
میرے محترم دوستو! کچھ چیزیں ضرورت کے ساتھ لگا کر دی گئی ہیں۔ کھانا ہماری ضرورت ہے، پینا ہماری ضرورت ہے، لباس ہماری ضرورت ہے، پینا ہماری ضرورت ہے، شادی ہماری ضرورت ہے، سردی سے بچنا ہماری ضرورت ہے، گرمی سے بچنا ہماری ضرورت ہے۔ یہ ساری ہماری ضرورتیں ہیں ہمارے ساتھ لگا دی گئی ہیں۔ پھر ضرورت لگا کر اللہ  نے ہمیں ان ضرورتوں کا محتاج اور غلام بھی بنا دیا کہ کھانا نہیں کھائیں تو پیٹ کیسے بھرے گا پانی نہیں پئیں تو پیاس کیسے بجھے گی اب رب اور ضرورت آمنے  سامنے ہے۔ انسان کا اپنا ایک مزاج ہے جہاں سے اس کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں وہ کہتا ہے میں یہاں سے پل رہا ہوں۔ بیوی کہتی ہے میاں اگر دکان پر نہیں جائیں گئے تو بچے کیسے پلیں گئے۔ میاں دفتر میں نہیں جائیں گئے، صنعت اور تجارت میں نہیں جائیں گئےتو بچے کیسی پلیں گئے۔  اور پھر میاں کا خیال بھی یہی ہوتا ہے۔ کہ مجھے اور میرے بچوں کو، میری دکان، دفتر، تجارت،اور صنعت کی تنخواہ پال رہی ہے۔حدیث کہ الفاظ ہیں سرور کونین ﷺ نے فرمایا، مفہوم ہے ! اگر انسان کا یقین ان پرندوں کی طرح ہو جائے کہ پرندے صبح تو خالی ہاتھ جاتے ہیں پھر شام کو ہرے بھرے آتے ہیں اللہ غیب سے ان کو پالتے ہیں اسی طرح اللہ پاک اپنے بندوں کو بھی دست غیب سے عطا فرماتے ہیں۔ اللہ ضرورتیں پیدا ہونے ہی نہیں دیتا۔
ضرورتیں پیدا ہوں گی تو انسان محتاج بنے گا کھانے کا ، پینے کا، اٹھنے کا، بیٹھنےکا، گرمی کا، سردی کا، پیاس کا، ایک دست غیب یہ بھی ہے کہ اللہ بغیر طلب عطا کر دیتا ہے اللہ بغیر خواہش کہ پورا کر دیتا ہے اللہ پاک پھر خواہش کو بھی پیدا نہیں ہونے دیتا اللہ اس کے بغیر ہی زندگی کا نظام چلا دیتا ہے اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب بندا اللہ کا بن جاتا ہے۔ ہر پل، ہر لمحہ،ہر لحظہ اس کی نظر اللہ پر رہتی ہے۔ ایک اللہ والے کے پاس ایک مائی آئی کہنے لگی! حضرت مجھے اللہ اللہ سکھا دیں اللہ والے نے فرمایا تجھے سکھانا آسان ہے انہوں نے مزید فرمایا بچے کو مکتب سکول یا کالج میں پڑھنے کے لئے بھیجتے ہیں خاتون نے عرض کی جی حضرت بھیجتے ہیں تو اللہ والے نے فرمایا بھیجنے کہ بعد کیا تو اس سے غافل ہو جاتی ہے خاتون نے عرض کی نہیں تو اللہ والے نے فرمایا کیا کیفیت ہوتی ہے؟ خاتون نے عرض کیا! حضرت ہر پل میرا دل اس کی کیفیتوں میں اٹکا رہتا ہے کہ اب سو رہا ہو گا یا جاگ رہا ہو گا کہیں چوٹ تو نہیں لگی، کہیں گر تو نہیں پڑا،کہیں کھانا، پیاس، پیشاب کی کیفیت ہو گی تو چھوٹا بچہ ہے اگر پیشاب آیا تو کون استنجاء کرائے گا۔  اگر بھوک لگی تو کون کھانا کھلائے گا اگر پیاس لگی تو کون پیاس بجھائے گا کون کیا کرے گا ہر وقت اس میں ہی دل اٹکا رہتا ہے ۔ جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments:

Post a Comment