حال دل : (اپنی موت کا ابتخاب خود کریں)
رب کو ، پیغمبر کو،دین ،ایمان،اور قرآن کو نہ ماننے والے اس دنیا میں موجودہیں یہ ایک ایسی حقیقت ہے اس کو نہ ماننے والے آج تک نہ سنے نہ دیکھے ۔میرے مزاج میں تحقیق اور تفکر کا شروع سے جزبہ ہے ۔کوئی بھی شخص اس دنیا سے رخصت ہو جائے میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ موت کیسے ہوئی کس حالت میں ہوئی مرا کیسے؟ ہمارے ایک دوست جن کو ہم ملک صاحب کہتے ہیں کہ والد جو اس وقت پچانوے سال سے زیادہ کی عمر کے ہیں ۔ موصوف بہت درویش با کمال ولی ہیں ۔ میں نے ایک دفعہ عرض کیا کے کوئی پرانہ واقع یا مشائدہ سنایئے ۔ فرمانے لگے ہمارے گاؤں سے آگے دور ایک گاؤں ہے ۔وہاں ایک مشہور چور ہوتا تھا ۔لوگوں کی گائے ،بیل، بھینس اور چیزیں چورانا اس کا فن تھا کئی بار پولیس نے پکڑا سزائیں بھگتیں لیکن چوری سے باز نہیں آتا تھا ۔ ایک دفعہ ایک بھینس چوری کر کہ آ رہا تھا گرمیوں کی راتیں تھیں راستے میں ایک زہریلے سانپ نے ڈسا ۔ ہماری بستی کے قریب تھا اسے احساس ہوا کہ سانپ کا زہر کام کر گیا ہے ۔ بستی والوں کو زور زور سے آوازیں دینے لگا ۔ رات کا وقت تھا ہر طرف سناٹا تھا لوگ اٹھے اور سب کو تعارف کرا کہ زور زور سے کہہ رہا تھا میں فلاں بستی کا مشہور چور ہوں ۔لوگ حیران ! بھینس کو اس نے ایک جگہ باندھ دیا اور خود پاؤں پکڑ کر بیٹھا اور لوگوں سے کہہ رہا تھا مجھے کسی زہریلے سانپ نے ڈسا ہے ۔ بس میرا وقت آ گیا ہے میں بچ نہیں سکتا ۔یہ بھینس میں فلاں گاؤں کی فلاں شخص کی چوری کر کہ لایا ہوں ۔پھر اپنی زندگی کی چوریاں بتانے لگا فلاں چیز فلاں سے چوری کی اور میری بیٹوں کو میری وصیت سنانا کہ ان کو یہ چیزیں واپس کریں پھر اپنی گزشتہ زندگی پر توبہ ندامت کرنے لگا اور لوگوں کو گواء بنانے لگا کہ دیکھو لوگو میں نے توبہ کی اور کلمہ پڑھا اور اس دنیا سے رخصت ہوا چوہدری جاوید صاحب ! اپنا واقعہ سنانے لگے یہ اُس دور کی بات تھی ۔جب میں راولپنڈی کے ور کشاپی محلہ میں رہتا تھا پھر میں نے وہاں سے یہاں کوٹھی بنائی مجھے پیغام ملا کے تیرے دوست کا آخری وقت ہے ۔ اور وہ تجھے یاد کر رہا ہے میں اس کے پاس گیا لوگ اکٹھے تھے موت و حیات کی کشمکش تھی مجھے دور سے کہنے لگا فلاں کا بیٹا ہے میں نے کہا ہاں اور مجھے کہا میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں اور میں اللہ پاک سے استغفار کر رہا ہوں اور سب کو اور مجھے متوجہ کر کے کہنے لگا میرے کلمے کو گواء رہنا اور کلمہ پڑھا اور اس دینا سے رخصت ہو گیا ۔ حالانکہ لوگوں نے آج تک اسے مسجد جاتے نہیں دیکھا تھا ۔ منڈی بہاؤالدین کے سات ایک گاؤ ں ہے میانوال ،وہاں کے میرے ایک دوست رانا صاحب ! نے واقع سنایا ایک صاحب سار ی زندگی ایمان و اعمال کی زندگی گزاری آخری وقت میں مسجد میں بیٹھے تھے اور گھر گئے اور کہنے لگے میری طبعیت خراب ہورہی ہے ۔ پھر گھر والوں کو کہا کہ میرا ایمان مفصل سنو ایمان مفصل سنایا ۔بس یہ سنایا اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔میر ی والدہ محترمہ ! میرے دادا مرحوم حاجی اللہ بخش چغتائی کے بار ے میں فرماتی ہیں کہ جب آخری وقت آیا صبح فجر کی نماز پرھی،ذکر اعمال ،تلاوت کرتے رہے ،اور پھر چارپائی پر بیٹھ کر اشراق پڑھی۔ اور پھر وہیں ٹیک لگا کر دعا مانگتے مانگتے آخر ہاتھ کر گئے ،اور ان کی گردن بھی ڈھلک گئی ۔، یوں روح اس دنیا سے چلی گئی۔ نانی اماں سو سال سے زیادہ عمر میں فروری 2009ء میں فوت ہوئیں ۔میرے پردادا مفتی حاجی فتح محمد چغتائی جن کو لوگ عام طور پر حاجی فتح محمد کہتے تھے صبح تمام لوگوں سے الوداع کر رہے ہیں ،پڑوسیوں میں ہندو بھی تھے اور مسلماں بھی ،موصوف 1933ء میں فوت ہوئے ۔الغرض ہر شخص کو الوداع کر رہےتھے ،اور ساتھ فرما رہے تھے کہ اگر کوئی کمی کوہتائی ہو تو معاف کر دینا،پھر اپنی قدیمی مسجد میں گئے مسجد کو الوداع کیا ،لوگ پوچھ رہے تھے کہ حاجی صاحب ! خیریت تو ہے آپ سب کو الوداع کہہ رہے ہیں ۔تو فرمانے لگے بس محسوس ہوتا ہے کہ وقت آ گیا ہے ،رات کو تہجد کی نماز پڑھی اعمال استغفار کیا اپنے انگھوٹھے کپڑے کے ٹکڑے سے خود باندھے ہاتھ پاؤ ں سیدھے کیے چادر اوڑھی سر دائیں طرف کیا اور دنیا کی زندگی کو الوداع کر کے سو گئے۔میر ے گھر کے قریب ایک صاحب نے دکان لگائی ،بازار کے دوسرے کونےپر ایک اور صاحب نے بھی اسی شعبے کی دکان کھولی۔ ان کو بہت غصہ آیا ،پہلے تو انہوں نے ان کہ تالوں میں ایلفی ڈال دی ،وہ دکاندار باز نہ آیا تو اس کی دکان کو آگ لگا دی ،موصوف کے مزاج میں حسد،تنگ نظری ،کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،دن گزرتے گئے حالات نے فیصلہ کیا جن کی دکان کو جلایا تھا ان کا کاروبار بڑھا ایک سے دو ،دو سے تین دکانیں ہو گئیں ۔اور اِن کا روبار آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہو گیا پھر ایک بھائی اور اس کی بیوی مر گئے ۔گھر میں پریشانی،مشکلات،بیماریاں ،لڑائی جھگڑے پھر خود مر گیا اور عجیب موت مرے ،اور ان کو غسل دینے والے صاحب نے مجھ کو بتایا ان کاچہرہ بہت بھیانک تھا ناک منہ سے خون ،کانوں سے خون ختم ہی نہیں ہو رہا تھا ۔ زندگی بھر لوگوں سے حسد کینا بغض رکھنا رکھتے رکھتے آخر کار عجیب موت مر گئے۔ میں جب ساتوں جماعت میں پڑھتا تھا تو ایک پرنے ہیڈ ماسڑ صاحب! تھے ۔ میرے والد مرحوم نے مجھے اور میرے بھائی کو ان کے سپرد کیا ہوا تھا موصوف بہت نیک تجربہ کا ران کی سپردگی کا مقصد پڑھاناکم اور تربیت زیادہ تھی ۔ وہاں میرے ایک کلاس فیلو تھے ان کے والد کا نام محمد حسین شاہ صاحب ! تھا۔ ایک دفعہ ان کے بیٹے ملے میں نے ان سے پوچھا سنائیں والد صاحب کیسے ہیں ؟ فرمانے لگے وہ تو کئی سال پہلے فوت ہوگئے میں نے کہا موت کی کیفیت؟ فرمانے لگے جمعہ کے دن اٹھے،داڑھی کے خط بنوائے، ناخن کاٹے، اور پھر غسل کیا اور غسل کرنے کے بعد بیٹھے اور تھوڑی ہی دیر میں اللہ کے پاس چلے گئے بس یہ ایسی موت ہوئی ۔میں اتنی اچھی موت پر حیران بھی ہوں مجھے ملانا کلیم صدیقی صاحب! نے مولانا ابو الحسن علی ندوی صاحب! کا واقع سنایا رمضان المبارک کا جمعہ تھا ۔ حضرت نے پوچھا ، آخری جمعہ ہے؟ ساتھیوں نے کہا نہیں حضرفرمانے لگے نہیں آخری جمعہ ہے صبح اٹھے داڑھی کے خط بنوائے ،خوب اچھی طرح نہائے ،اچھا لباس پہنا ،خوشبو لگائی،شیروانی پہنی ،پھر جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھی اور پھر سورہ یٰسین پڑھی اور پھر تھوڑی ہی دیر کے بعد کلمہ پڑھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ میرے دوست کے والد غلام محمد صاحب ! صبح کی نماز پڑھ کر تشریف لائے ،ہاتھ میں تسبیح تھی گھر کے نظام اور کچھ زندگی کی ضروریات کے بارے میں بات کی باتیں کرتے اسی تسبیح کے ساتھ لیٹے اور اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ موصوف کی ایک بہت بڑی خوبی حلم،برداشت ، صلہ رحمی، اپنا حق چھوڑ دیا اور اپنے حق کا کبھی مطالبہ بھی نہ کیا ۔یہ وہ بنیادیں تھیں جس کی وجہ سے تسبیح اور ذکر اور کوئی ایک نماز قضاء کیے بغیر اللہ پاک نے بہترین موت عطا مرمائی ۔ لاہور کے ایک مخلص ذوالفقار صاحب ! کی والدہ نماز پڑھ کر تسبیح پر سورہ کوثر پڑھ رہی تھیں اور ساتھ میرا درس لگا ہوا تھا وہ سن رہی تھیں بس اسی دوران سر جھکایا اور پھر گر گئیں سورہ کوثر پڑھتے پڑھتے اللہ پاک کی بارگاہ میں چلی گئیں ۔ مرحومہ ساری عمر صبر ، حوصلہ ،ایمان اور کفایت شعاری کی زندگی گزار کر آخری وقت میں اللہ پاک کانام لیتے اس دنیا سے رخصت ہوئیں ۔ بہت حوصلے والی تھیں ، صبر والی ، ایمان والی،اکثر میرے پاس آتی رہتی تھیں ۔چوہدری حشمت علی صاحب! مالدار تھے ،سابق پاکستان کے وزیراعظم کے قریب ترین رشتہ دار تھے جس وقت وہ فوت ہوئے کمرے میں حیرت انگیز خوشبو نکلی،وہ خوشبو میں نے خود سونگھی ۔ میں نے ان کے جنازے کو کندھا بھی دیا ،انوکھی خوشبو جو کہ اس دنیا کی نہیں تھی بہت زیادی محسوس کی مرنے کے بعد بےشمار لوگوں نے ان کو اتنی اچھی حالت میں دیکھا کہ شائد گمان سے بالاتر ۔اردو بازار لاہوں میں کتابوں کی ایک دکان مکتبہ قدوسیہ ہے ۔عمر فاروق صاحب ایک جاننے والے کا واقع سنانے لگے ،ان کی سابقہ زندگی منفرد تھی ایک صاحب نے انہیں مسجد نبویﷺ شریف میں نہایت اچھی اور متقیانہ زندگی میں دیکھا ،حیران ہوئے آ پ کی سابقہ زندگی تو کچھ عجیب و غریب تھی ،جس کو لوگ اچھا نہیں سمجھتے تھے بلکہ لوگ بچ کر نکلنا ہی اچھا سمجھتے تھے۔ یہ تبدیلی کیسے ہوئی ،ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگے ؟ کہ میرے بھائی نے ساری زندگی مساجد کی خدمت ، مدارس کی خدمت،دین کی دین والوں کی حج،عمرہ،نماز، تسبیح،صدقات، خیرات، وغیرہ سب کیا پھر وہ بیمار ہو گئے اور بہت عرص بیماری کی حالت میں رہے کہ بیماری نے ان کے حوصلے ختم کر دیئے ایک دفعہ سب گھر والوں اکھٹا کیا اور فرمانے لگے قرآن پاک لے آئیں قرآن پاک کو کہنے لگے یااللہ پاک تو جانتا ہے میں نے ساری زندگی تیری اور قرآن کی خدمت کی لیکن تو نے مجھے بیمار کیا میں تجھے نہیں مانتا اور تیرے قرآن کو نہیں مانتا ۔ یہ بول آخری تھے اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے ، میرے والد صاحب کے ایک لکڑی کے کاریگر تھے جن کو بہت امیر لوگ لکڑی کے کام کے لئے بلاتے تھے کیونکہ موصوف بہت ڈھیلا کا م نہایت سست کام اور نہایت مہنگی فیس ۔لیکن والد صاحب ان سے کام کرواتے تھے ابتدا میں 1991ء میں جب میں نے باقاعدہ پریکٹس شروع کی تو لکڑی کا بہت بڑا کام تقریباً ایک سال تک ہوتا رہا اور وہ میرا کلینک تیار ہوا جو کہ والدصاحب نے اپنی نگرانی میں کروایا اور یہ استاد دن رات اسی پر محنت کرتے رہے اور واقعی شاہکار کام کیا موصوف نماز قرآن تسبیح کی طرف زیادہ دھیا ن نہیں دیتے تھے مجھے پتہ چلا کہ بیمار ہیں میں عیادت کرنے گیا جاتے ہی میں تعارف کروایا پہچان گئے ۔ اور مجھے بار بار کہنے لگے طارق میاں! کہ ہم بس اب مسجد بنائیں گئے اور جلد ہی بنائیں گئے اور یہ لفظ بار بار کہہ رہے تھے جیسے کہ وہ اپنے حوش و حواس میں نہ ہوں مجھے پتہ چلا کے ان کا آخری وقت نہایت لاجواب ،اللہ پاک اور ان کے رسول ﷺ کی یادیں اور یوں اپنی زندگی کے دن پورے کر کہ بہترین خاتمہ پا کر اس دنیا سے چلے گئے ۔میں ایک گاؤں چک 47 میں آج سے کوئی 25 سا پہلے گیا ایک صاحب کو دیکھا کہ ان کے دونوں ہونٹ سفید ہو گئے تھے جیسے محسوس ہوتا برص یا پھہلبہری کے نشان ہیں بتانے والوں نے بتایا کہ شراب اتنی پیتے ہیں کہ ہونٹ جل گئے ہیں شراب کی کثرت سے آخر بیمار ہو گئے ملتان نشتر ہسپتال میں لایا گیا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ انہیں تھوڑی تھوڑی شراب پینا چاہیے ایک دم نہیں چھوڑنی چاہیے لیکن انہوں نے ایسی توبہ کی کہ کئی ہفتے ہسپتال میں رہے شفاء یاب نہیں ہو رہے تھے آخر کار ایک دن کہنے لگے مجھے مسجد میں لے چلو وضو کیا مسجد کی محراب میں جاکر نماز پڑھنے لگے اور جب سجدے میں گئے تو روح پرواز کر گئی ۔ میرے پڑوس میں ایک حواجہ صاحب رہتے تھے موصوف بہت ہی غلط عقائد کے مالک تھے لیکن نامعلوم قدرت کو کیا ادا پسند آئی ، اور قدرت نے ان کو چنا آخری وقت کہنے لگے قرآن پاک لے آئیں قرآن پاک کو دیکھا مسکرائے اور کہنے لگے اللہ پاک میں سابقہ اپنی زندگی اور عقائد سے توبہ کرتا ہوں ۔جو قرآن کی سچی زندگی ہے اسی پر آتا ہوں اور باقاعدہ وصیت کی مجھے فلاں قبرستان میں جس میں سچے لوگ دفن ہیں وہاں دفن کرنا اور یوں زندگی کا آخر بہترین اور لاجواب کر کے چلے گئے۔ قلعہ ڈیراور بہاولپور کے قریب ہے ۔ وہاں کے ایک سخی اور بااثر آدمی قاضی اللہ دتہ صاحب ہیں ۔ موصوف صحرا میں ہمسفر ہوتے ہیں کیونکہ بہت بوڑھے ہیں ان کے ساتھ بہت تجربات ہیں اپنی زبدگی کےمشائدات بتانے لگے کہ ایک شخص کا نام مراد حسین تھا لوگ اسے مرادو کہتے تھے دنیا کی ہر علت ہر بری عادت اس میں موجود تھی ایک دن دوستوں کے پاس گیا اور کہنے لگا میں کل مر جاؤں گا اس کے دوسرے دن رمضان کے آخری جمعہ تھا اور کہنے لگا میرے کبوتر بیچ کر کفن دفن کی ترتیب بنا لینا ۔ نہایت غریب تھا اور اس کے زیادہ وارث بھی نہیں تھے لوگ حیران ہوئے اور مذاق کرنے لگے اور ایک بات خاص تاکید کی دیکھو جب اعلان جنازے کا کرنا تو یہ نہ کہنا کہ مرادو مر گیا کیو نکہ کوئی میرے جنازے میں نہیں آئے گا میں قابل نفرت شخص ہوں ۔ بس یہ کہہ دینا کسی پردیسی کا جنازہ ہے اور ہاں نماز جمعہ کے بعد میرا جنازہ پڑھانا تاکہ زیادہ لوگ شامل ہوں واقعی اگلے دن وہ فوت ہو گیا اعلان ہوا کسی پردیسی کا جنازہ ہے کبوتر بیچ کر کفن دفن کی ترتیب بنائی گئی، لوگوں کا ایک ہجوم تھا جنازے کے بعد جب پتہ چلا تو لوگ حیران ہوئے اتنی بری زندگی اور اتنی اچھی موت میرے عزیز میاں احسن ایک مخلص اور نیک جوان ہیں بتانے لگے میری دکان کے سامنے ایک ہیروئنی پاخانہ گندگی میں لت پت موت و حیات کی کشمکش میں تھا ایمرجنسی والوں کو اور رفاعی اداروں کو بلایا گیا کسی طرح اس کو اٹھا کر ہسپتال لے جاؤ کسی نے بھی اس کی زندہ لاش کو اٹھانے سے انکار کر دیا خیر کسی نہ کسی طرح کر کہ اس کو گنگا رام ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے گئے میں نے خود اپنے کانوں سے اس کی زبان سے کلمہ سنا وہ یوں زندگی کا ایک ادھورا باب چھوڑ کر بظاہر زندگی کوخراب کر گیا لیکن ابدی آخرت کی اعلی ٰ زندگی پاکر اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ بےشمار لوگوں سے ملا جنہوں نے میتوں کو نہلایا ان سے تجربات مشائدات پوچھے ایک دفعہ حرم کعبہ میں ہر روز درس دینےوالے محترم مکی صاحب ! نے بھی یہ بات فرمائی کہ جنتی کی جب اس دنیا سے روح نکلتی ہے تو اس کو وہ لذت نصیب ہوتی ہے جو حالت انزال میں ہوتی ہے یہ بات بڑی انوکھی تھی پھر میں نے غسل دینے والوں سے پوچھا بے شمار نے بتایا میت کی جب روح نکلتی ہے تو کسی کا پاخانہ نکلا ہوا ہوتا ہے اور کسی کا پیشاب اور بتایا کہ کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کے کپڑے مادہ تولید سے آلودہ ہوتے ہیں ۔ اور یہ بات واقعی مکی صاحب کی جو کہ کعبہ شریف میں بیٹھ کر روزانہ درس دیتے ہیں بالکل ٹھیک ہے کہ اللہ پاک اس کو ا س لذت میں مبتلا کر کہ موت کی تکلیف بھی نہیں دیتے۔ 1965ء کی جنگ میں ایک صوبیدار مجھے اپنے مشائدہ بتانے لگے کہ ہمارے فوجی جوان جتنے بھی شہید ہوئے چند کو غسل دینے کا مجھے موقع ملا ان کے ساتھ بھی یہی کیفیت انزال کی تھی بھائی عبدالرحمان نوناری پرانے بوڑھے بزرگ ساری زندگی ایمان اعمال کی زندگی گزاری بیٹے کو ملنے آئے بیٹا دعوت کی راہ میں چل رہا تھا رمضان المبارک تھا صبح کی نماز کے بعد بستر کے ساتھ والے شخص سے کہا میرا نام فلاں ہے یہ میرا شناختی کارڈ اور یہ میرا پتہ ہے اور دیکھ میرا وقت آ گیا ہے اور میرے کلمے کا گواہ رہنا پہلا کلمہ دوسرا تیسرہ اور چھ کلمے پڑھے ایمان مفصل سنایا اور اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ قارئین ! یہ چند واقعات جن میں صرف اور صرف ایک چیز نظر آتی ہے کہ وہ جس کو اپنی رحمت سے ڈھانک لے کیونکہ خاتمہ بالخیر رحمت سے موت کا کلمہ رحمت سے اور جنت رحمت سے ملے گئی ہم کسی کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں وہ اچھا یا برا ہم کسی کے بارے میں فیصلہ کیا کر سکتے ہیں لیکن اللہ پاک کے ہاں ہر چیز کی طاقت اور قدرت ہے میرا رب جس طرح جس کے لئے فیصلہ چاہے کردے اس سے کون پوچھ سکتا ہے ؟ اُن سے کون سوال کر سکتا ہے ؟ لہذا کسی کو بھی گھٹیا نظر سے نہ دیکھیں بس ڈرتے رہیں اور نیکی کرتے رہیں ۔
زاہد نگاہ کم سے کسی کو نہ دیکھ
جانے کہ اُس کریم کو تو ہے کہ وہ پسند۔
No comments:
Post a Comment