Monday, October 5, 2015

سود کے بعد پھر کیا ہوا

حال دل:۔
سود کے بعد پھر کیا ہوا ؟
ایک صاحب مجھے چبھتے چبھتے ا،لجھتے الجھتے ،اور اکتائے اکتائے، لہجے کے ساتھ کہنے لگے آپ اپنے درس میں سود کی باتیں کرتے ہیں ، ساری دنیا کی معیشت سود پر چل رہی ہے آخر یہ سود کافروں کو نقصان کیوں نہیں دیتا ؟ اور مسلمانوں کو کیوں دیتا ہے؟ معذرت سے کہتا ہوں یہ آپ کا فوبیا ہے ! ( یعنی دوسرے لفظوں میں آپ خود بھی پاگل ہیں اور لوگوں کو بھی پاگل بنا رہے ہیں ۔) ان کی بات سن کر میں نے ٹھنڈی آہ بھری اور مؤدبانہ درخواست کی کہ شاید آپ عالمی میڈیا سے رابطہ کم رکھتے ہیں ، اتنا زیادہ رابطہ میرا بھی نہیں لیکن جتنا رابطہ ہے اس رابطے نے انٹر نیشنل تاجروں کو یہ سوچنے  پر مجبور کر دیا ہے کہ سود کسی مذہب میں بھی جائز نہیں ، وہ ہندو مذہب ہو ، سکھ مذہب ہو ، عیسائی مذہب ہو ، یہودی مذہب ہو یا اسلام ہو ۔ تو سود سے اگر چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو تمام مذاہب کا مطالعہ کریں ، ورنہ پھر ہماری بات مان جائیں ۔ کچھ عرصہ پہلے ریڈ رڈائجسٹ جو کہ انٹر نیشنل لاکھوں میں چھپنے والا واحد میگزین ہے اور جس میں غیر مصدقہ تحریر چھپنا کسی نے آج تک گمان بھی نہیں کیا کہ اس میں کوئی ادھر ادھر کی بات چھپ سکتی ہے ، سب تحریریں ا س میں تصدیق شدہ ہوتی ہیں ، اس میں ایک تجزیہ تھاجو مجھے ایک معتبر آدمی سے رسالے سمیت بتایا کہ اگر نائن الیون کے بعدجو عالمی حالات پیدا ہوئے ہیں معاشی بحران ، جنگیں ، نفرتیں اور غربت اور مہنگائی کا بڑھتا ہوا ایک سیلاب ، یعنی اگر اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو اپنی عالمی معیشت کو سود سے پاک کریں ۔جب میں نے ان کو یہ بات کہی انہیں میری بات کا یقین نہ آیا کہ یہ بات انگریز بھی کبھی کہہ سکتا ہے ۔ یا اس کے منہ سے کبھی نکل سکتی ہے ۔ میں نے اسے کہا کہ وہ خود حوالہ تلاش  کریں آخر وہ کھوجی حوالہ تلاش کر کہ لے آیا ۔ اور حیران و پریشان بیٹھا تھا اس کے بعد نامعلوم اسے کیا ہوا نیٹ کی دنیا میں گھوما اور اس نے پھر جو سود کے بارے میں عالمی دنیا کے تاثرات تجزیے تجربات اور منفی رویے تلاش کر کے مجھے دئیے وہ تو اتنے تھے کہ انسان سارے کام چھوڑ کر بس اسی کو پڑھنے بیٹھ جائے ، سود کے بعد زندگی میں کیا ہنگامے بر بادیاں، طوفان ،مسائل اور مشکلات پیدا ہوتے ہیں اس کو چھوٹا سا عکس میں اس خط کی مختصر تحریر سے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ! میرا گھر پرانے دھوبی گھاٹ کے قریب ہے ، میں اس راستے میں ذاتی تین مرلے کا مکان میں رہتی ہوں ، میرے سامنے فلاں قوم کے لوگ رہتے ہیں سود پر پیسہ لینا، دینا ان کا ایک خاندانی کام ہے ۔ اس کی نحوست جہاں ان کے گھر میں پہنچی وہاں میرے گھر میں بھی پہنچ رہی ہے ان کے گھر میں سارا دن لڑائی ، جھگڑا ، چھوٹی بڑی بات بہت بڑی اور گندی گالی دینا ان کیلئے کوئی حرج نہیں ۔ ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھانا عام سا مشغلہ ہے مرد عورت کوئی ادب لحاظ شرم حیا ان کے قریب سے نہیں گزرا ۔ ان کے گھر کا سر براہ گالی کے بغیر بات نہیں کرتا ۔ اس نے سب گھر والوں کو تگنی کا ناچ نچایا ہوا ہے ۔ سارا دن اونچی آواز میں بیٹا گانے لگاتا ہے جھومتا ہے گاتا ہے ناچتا ہے نیٹ کی دنیا میں سارا دن ڈوبار ہتا ہے نشے کی عادت اور لت پڑ گئی ہے ۔ اگر ہم ان کو آواز آہستہ کرنے کیلئے کہیں تو ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ، لڑنے، مرنے اور مارنے پر آ جاتے ہیں ۔ انہوں نے گلی کو گندگی کا ڈھیر بنایا ہوا ہے ۔ یہ تو ان کے گھر کا مختصر سا حال ہے اور جو میرا حال ہے وہ یہ ہے کہ ان کی نحوست سے میری اولاد کی تربیت میں کمی پیدا ہو رہی ہے اور میری نسلیں متاثر ہو رہی ہیں ، ہر وقت میرے بچے ان کے بچوں کو دیکھتے ہیں ۔ اور ان کے بچے جو کرتے ہیں وہی میرے بچے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میں نے محسوس کیا ہے جب سے میں نے یہاں تین مرلے کا گھر بنایا ہے میرے گھر میں رزق آتا ہے نا معلوم کہاں جاتا ہے جسے میں بے برکتی کہوں ۔ ہر وقت فتنہ فساد ، جھگڑے ، پریشانیاں ، بیماریاں ، دکھ ،تکلیفیں ،مسائل ،اور مشکلات یہ ساری چیزیں میرے گھر میں اتنی ہو گئی ہیں کہ میں نے زندگی بھر کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایسے کبھی ہو بھی سکتا ہے میں سمجھتی ہوں یہ برے پڑوسی کی نحوست اور ان کے برے رزق ، بری سوچیں ، برے خیال اور برے کردار کی ظلمت ہے جو میرے گھر میں آ رہی ہے  ۔ آپ دعا فرمائیں میں یہ گھر فروخت کر کے کسی اور جگہ چلی جاؤں ، میں تھک گئی ہوں ،اکتا گئی ہوں ، پریشان ہوں ، میں کیا کروں ؟ سچ ہے بڑوں سے سنا تھا کہ گھر ڈھونڈنے سے پہلے اچھا پڑوسی ڈھونڈیں برا پڑوسی جہاں ہو اور کوڑیوں کے بھاؤتمہیں تاج محل بھی مل رہا ہو کبھی نہ لینا ، کبھی نہ لینا ،کبھی بھی نہ لینا۔

No comments:

Post a Comment