Monday, October 5, 2015

احتیاط کریں!بچوں کو سردی کے مضر اثرات سے بچائیں

احتیاط کریں!بچوں کو سردی کے  مضر اثرات سے بچائیں:۔

بچےاللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔  نبی کریم ﷺ نے انہیں جنت کے پھول  کہا ہے جس طرح ایک پھول نرم و نازک ہوتا ہے اور اس کی بے انتہا حفاظت کی جاتی ہے ۔اسی طرح بچے کی صحت کی حفاظت ماں کی ذمہ داری ہے ۔ ہر ماں ممکنہ حد تک اپنے بچے کو صحت مند دیکھنا چاہتی ہے ۔ خصوصاً سردی کے موسم میں تو اس کی پریشانی دیدنی ہوتی ہے ۔ اگرچہ  سردی کا موسم بہت پر لطف ہوتا ہے مگر چھوٹے بچوں کی ماؤں کیلئے بالکل بھی نہیں ۔ خاص طور پر نوزائیدہ بچوں کی پہلی سردیاں اور پہلی گرمیاں بہت مشکل ہوتی ہیں اس لئے سبھی مائیں اپنے بچوں کو سردی و گرمی کے مضر اثرات سے بچانےکی کوشش میں رہتی ہیں ۔ آج کل سردی کا موسم اپنے جوبن پر ہے اور نزلہ و زکام ، بخار عام طور پر بچوں کو اپنی پکڑ میں لے لیتا ہے ۔

بچوں کو ٹھنڈ لگ جانا:۔ یہ بہت خطرناک ہوتا ہے ۔ اس سے بچوں میں بخار ، گلا خراب اور سینے کے امراض خصوصاً  نمونیے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور نمونیہ کافی مہلک مرض ہے ۔ آج کل پولیو کے قطروں کے ساتھ نمونیے سے بچاؤ کے ٹیکے بھی لگائے جاتے ہیں لیکن پھر بھی احتیاط ضروری ہے۔  ٹھنڈ لگنے کی وجوہات کیا ہیں ؟ سب سے بڑی وجہ بچوں کا گیلا رہنا ہے ۔ مناسب کپڑے نہ پہنانے کی وجہ سے ٹھنڈ لگ جاتی ہے یعنی اگر کم گرم کپڑے ہیں تو ٹھنڈ لگنے کے امکانات زیادہ ہیں ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ بچوں کو مکمل طور پر ڈھانپ کا رکھیں خصو صاً سخت سردی میں ۔ سر ، گردن ، سینہ اور پاؤں مکمل طور پر گرم کپڑوں میں لپٹے ہوں ۔ مائیں عام طور پر سوئیٹر اور پاجامہ پہنا کر سمجھتی ہیں کہ ہم نے بچوں کو گرم کپڑے پہنائے ہوئے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے ۔ جو بچہ گود میں ہے اسے گرم کمبل یا شال میں لپیٹ کر کمرے سے باہر نکالیں خصوصاً را ت کو ٹھنڈ زیادہ ہوتی ہے اس لئے رات کو زیادہ احتیاط کرنی چاہیئے ، بچے کو کھلی کھڑکی یا دروازے کے قریب مت لٹائیں جہاں سے ہوا سیدھی اندر آتی ہے اس سے بھی ٹھنڈ لگ جاتی ہے۔

بچوں کو نہلانا:۔ سردی کے موسم میں بچوں کو بہت احتیاط سے نہلانا چاہیئے جس جگہ پر بچے کو نہلائیں وہاں  ہیٹر یا انگیٹھی سلگا کر کمرہ یا غسل خانہ گرم کر لیں ۔ پانی نیم گرم کریں اور اسے اپنے ہاتھ یا بازہ پر ڈال کر چیک کر لیں کہ زیادہ گرم یا ٹھنڈا نہ ہو۔ نہلانے کے بعد کپڑے  بھی اسی گرم کمرے میں پہنائیں اور اچھی طرح ڈھانپ کر بچے کو باہر لائیں ۔ بچوں کو دھوپ میں بٹھائیں اس سے ان کی نشو نما پر اچھا اثر پڑے گا اور وٹامن ڈی بھی حاصل ہو گی ۔ ماں کا دودھ بچے کا بنیادی حق ہے او ر صحت بخش غذا ہے ۔ بچے کو اس حق سے محروم نہ کریں ۔ سردی کے موسم میں ماں کا دودھ پینے والے بچے اور ماں دونوں آرام سے رہتے ہیں ۔
نزلہ و زکام بخار :۔ اگر بچے بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جائیں تو پریشان مت ہوں ۔ ایک ماں کو بہت حوصلہ مند ہونا چاہیے ۔ اور اپنی پوری توجہ بچے پر دینی چاہیئے ۔ سردی کو موسم میں اگر ناک بند ہو تو بچوں کو دو تین دفعہ سادے پانی سے بھاپ دیں اس سے ان کی ناک بند نہیں ہو گی اور وہ سکون سے سوئیں گے ۔ کھانسی لگنے کی صورت میں تھوڑے سے گرم پانی میں شہد ملا کر پلائیں ۔ اگر بچے کو تیز تیز سانس آ رہا ہو یا اس کی پسلیاں تیز تیز چلنے لگیں یا سانس لینے میں مشکل پیش آ رہی ہو تو اسے فوراً بچوں کے ڈاکٹر کو دکھائیں یہ نمونیہ کی علامت ہے۔

شیر خوار بھی صحیح اور غلط میں تمیز کر سکتے ہیں:۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اچھے اور برےمیں تمیز کرنے کی صلاحیت ہی دراصل وہ خوبی ہے جو انسانوں کو جانوروں سے ممتاز کرتی ہے اور ایک جدید تحقیق ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کمسن شیر خوار بچے بھی قدرت کی ودیعت کردہ اس صلاحیت سے مالا مال ہوتے ہیں ۔ اس ریسرچ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جو شیر خوار بچے صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، وہ دوسروں کو اپنی چیزوں میں شریک کرنے کا جزبہ بھی رکھتے ہیں ۔ اس تحقیق میں حصہ لینے والے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ جن دودھ پیتے بچوں پر یہ ریسرچ کی گئی تھی وہ غذا کی مساوی اور غیر مساوی تقسیم کے درمیان فرق کو سمجھ رہے تھے ۔ جس سے یہ ظاہر ہوا تھا کہ زندگی کے ابتدائی دنوں ہی میں انہیں انصاف پسندی سے آگاہی ہو چکی تھی ۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ جو بچہ جتنا زیادہ منصف مزاج تھا ، اتنا ہی وہ دوسرے بچوں کو اپنی چیزوں مثلاً کھلونوں کے استعمال کی اجازت دینے میں فراخ دل تھا ۔ نفسیات کےپروفیسر سمر ویل نے بتا یا کہ اس ریسرچ سے ہم نے جو نتائج اخذ کئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہےکہ منصف مزاجی اور ایثار پسندی کی خوبیاں اس وقت سے کہیں پہلے بچوں میں آ جاتی ہیں جن کے بارے ہیں ہم گمان کر رہے تھے ۔ ہم نے دیکھا کہ جو بچے غذا کی منصفانہ تقسیم کے معاملے میں زیادہ حساس تھے ، وہی بچے اپنے پسندیدہ کھلونے دوسرے بچوں کو دینے میں زیادہ خوش دلی کا مظاہرہ کر رہے تھے ۔ رپورٹ میں بتا یا گیا ہے کہ 15 ماہ کو بچوں کو مختصر دورانیے کی دو ویڈیو فلمیں دکھائی گئی تھیں ۔ پہلی ویڈیو میں خستہ کرارے بسکٹ سے بھرے پیالے دو افراد میں تقسیم کرتے ہوئے دکھائے گئے تھے ۔ پہلی مرتبہ یکساں تعداد میں بسکٹ دونوں کو دیے گئے لیکن دوسری مرتبہ ایک شخص کو دوسرے کے مقابلے میں کم بسکٹ دیئے گئے ۔ اسی طرح دوسری ویڈیو فلم میں دودھ سے بھر اایک جگ ان دونوں افراد میں اسی انداز میں تقسیم کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا ۔ جس وقت بچوں کو یہ دو ویڈیوز دکھائی جا رہی تھیں اس وقت موقع پر موجود سائنسدان یہ دیکھ رہے تھے کہ ان میں سے ہر ایک بچے نے غذا کی تقسیم کے مناظر کو کتنی دیر تک ٹکٹکی باندھے دیکھا تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شیر خوار بچے حیران ہوتے ہیں تو وہ کسی بھی حیران کرنے والی چیز یا منظر کو زیادہ دیر تک زیادہ توجہ سے دیکھتے ہیں ۔ ان سائنسدانوں نے یہ دیکھا کہ جب ایک شخص کو دوسرے سے زیادہ خوراک دی جا رہی تھی تو بعض بچوں نے یہ منظر دیکھنے میں زیادہ وقت صرف کیا۔ ڈاکٹر سمرویل نے بتایا کہ شیر خوار بچوں کو یہ توقع تھی کہ خوراک منصفانہ طور پر تقسیم کی جائے گی اور جب ایک شخص کو دوسرے کے مقابے میں زیادہ بسکٹ اور زیادہ دودھ دیا گیا تو ان کی حیرانی دیدنی تھی ۔ اس سے پہلے کے طبی جائزوں میں دیکھایا گیا تھا کہ دو سالہ بچوں میں اپنے ہم عمر بچوں کی مدد کا جزبہ پایا جاتا ہے جو دراصل ایثار پسندی کی علامت ہے جبکہ چھ اور سات سال کی درمیانی عمر کے بچوں نے انصاف پسندی کا احساس ظاہر کیا تھا۔ ڈاکٹر سمر ویل نے بتا یا کہ شیر خوار بچے جب دوسرے لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ سلوک اور رویہ دیکھتے ہیں تو اس مشاہدے سے ان میں بھی انصاف پسندی اور ناانصافی کا احساس جنم لیتا ہے ۔ حالیہ تحقیق کے دوسرے مرحلے میں سائنسدانوں نےیہ جائزہ لیا کہ یہ بچے کسی اجنبی کے ساتھ اپنا کھلونا شیئر کرنے کیلئے تیار ہیں یا نہیں ۔ انہوں نے دیکھا کہ جو بچے خوراک کی غیر منصفانہ تقسیم پر زیاادہ حیران ہونے والے بچوں کے مقابلے میں ، دوسرے بچوں کے ساتھ اپنے پسندیدہ کھلونے شیئر کرنے کا جزبہ زیادہ تھا۔

No comments:

Post a Comment