Wednesday, October 7, 2015

دل کی آنکھیں تجھے فقیروں سے ملیں گئی

دل کی آنکھیں تجھے فقیروں سے ملیں گئی:۔

مالک بن دینا رحمۃاللہ علیہ کا اپنے رب سے باتیں کرنا :۔ مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ کشتی میں جارہے تھے ۔ کچھ دینار ان کی جیب میں تھے بعض روایات میں آتا ہے جیب میں کچھ نہیں تھا۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ان کے دینار سمندر میں گر گئے تھے۔ اب کشتی والا سب سے کرایہ لے رہا تھا ۔ جب ان کی باری آئی تو جیب میں ہاتھ ڈالا جیب میں کچھ نہیں تھا ۔ کشتی بان نے کہا پیسے ؟ مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ کہ لگے رکیں ! میں کرایہ دیتا ہوں ۔ پہلے اوروں سے لے لو یہ کہہ کر دل ہی دل میں اللہ سے باتیں کرنا شروع کر دی ۔اے اللہ تو جانتا ہے فلاں موقع پر حرام کا موقع آیا تھا ۔ میں نے وہ موقع تیری وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔اللہ اس وقت مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا تھا ۔ اس وقت میری نثر صرف تیری محبت پر تھی۔ یاللہ ! فلاں موقع پر کچھ ناجائز لقمہ میرے سامنے آیا تھا ، میں نے وہ لقمہ تیری وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔ حالانکہ مجھے اس وقت بھوک بھی بہت شدید لگی ہوئی تھی۔ اے اللہ ! میری نظریں کبھی حرام کیلئے نہیں اٹھیں ۔ میں نے اپنا سر صرف تیری رضا کے لئے جھکایا تھا ۔ اللہ پاک یہاں ارد گرد پانی ہے ، یہاں میرا کوئی بھی نہیں ہے ۔ اے اللہ پاک مجھے یہ کشتی سے اتار تو نہیں سکتے ، مجھے کشتی سے پھینک تو نہیں سکتے لیکن جب کنارے پر پہنچیں گے تو میرا گریبان ضرور پکڑیں گے اور اے میرے اللہ پاک! اور اے اللہ پاک! میرے ساتھ تیرے نام کی محت ہے ۔ لوگ مجھے ولی اور درویش کہتے ہیں ۔ یااللہ مجھے آج کی ذلت سے بچا لے ، اس طرح اللہ پاک سے باتیں کرنا شروع کیں اور اللہ پاک سے راز و نیاز شروع کیا ۔ روایات میں آتا ہے کہ سمندر کی مچھلیاں اپنے منہ میں اینار لے کر کشتی کے چاروں طرف سے پانی کی سطح پر آ گئیں ، اور ہر مچھلی کی یہ خواہش تھی کہ مالک بن دنینار رحمۃاللہ علیہ میرا دینا لے لیں ۔
احسانا ت گنواؤ:۔ میرے شیخ حضرت سید محمد عبداللہ ہجویری رحمۃاللہ علیہ فرماتے تھے ! اللہ جل شانہ کو اس کے احسانات گنواؤ کہ یااللہ تو نے تو یونس علیہ السلام پر اتنا احسان کیا کہ ان کو مچھلی کے پیٹ سے نکال دیا تھا ۔ یااللہ پاک ایوب علیہ السلام کی بیماری سے صحت یاب ہونے کی کوئی امید نہیں تھی ۔ الہیٰ تو نے انہیں صحت یاب کر دیا تھا ۔ اللہ پاک تو نے نوح علیہ السلام کو سمندر کے طوفان سے بچادیا تھا۔  موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے لشکر سے بچادیا تھا۔ الہیٰ غار کے دہانے پر مکڑٰ کو کس نے کہا تھا کہ جالا تان ؟ اللہ غار کے دہانے پر کبوتر ی کو کس نے حکم دیا تھا کہ انڈے دے ۔ اے اللہ پاک! میں وہ تو نہیں ہوں لیکن تیرے حبیب ﷺ کا ادنیٰ امتی ہوں جس طرح تو نے ان سے محبت کی تھی اور جس طرح تو نے ان کی مدد کی تھی ، اے میرے اللہ پاک آج میری مد د کو آ جا۔ اللہ پاک آج میری مدد کر دے ۔ اللہ پاک آج مجھے  اس مشکل سے نکال دے ۔ اللہ پاک مجھے اس پریشانی سے نجات دے ۔ خط میں وہ صاحب لکھتے ہیں کہ رقم کم ہونے کی وجہ سے میں اللہ پاک سے زاریاں کرنے لگ گیا اور اللہ پاک سے باتیں کرنا شروع کر دیں کہ اللہ پاک تو نے مجھے لاکھوں کروڑوں کا امین بنا یا ہے اور مجھے ان لٹے ہوئے بے گھر گھرانوں کی سرپرستی کرنے کی سعادت بخشی ہے ۔ یاللہ پاک میں نے تیرے بندوں کے ساتھ کوئی طمع نفسانی نہیں رکھی ۔ اپنی خواہشات کو کبھی پورا نہیں کیا ۔ انشاءاللہ ان بے گھروں کی امانت ان تک پوری لوٹاا ؤ نگا۔

ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کی فقیری:۔ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے بادشاہت چھوڑی ملک چھوڑاا ، مال چھوڑا ، نسل در نسل ان کی خاندانی حکومت چلی آ رہی تھی جیسے شاہ ایران کی خاندانی حکومت تھی اور شاہ ایران سے تقدیر نے اقتدار چھینا ۔ اور اراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے بادشاہت چھوڑٰ ہے ذرا ان کا حال تو دیکھیں کہ کس حال میں ہیں ؟ آئے دیکھا فقرو فاقہ ، تنگ دستی ، مفلسی اور غربت ، عجیب حال ہے ۔ وزیر کہنے لگے ! آپ نے یہ کیا حال بنا لیا ہے ؟ آپ کی تو آبا اجداد کی حکومت تھی ، بڑٰ سلطنت تھی ، سب کچھ چھوڑ دیا ، یہ آپ کو کیا ہوا؟ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے سر جھکایا ہوا تھا سر اٹھا کر کہنے لگے ! میں نے چھوٹی حکومت چھوڑی اب اللہ پاک نے مجھے اس سے بڑی حکومت دے دی۔ وہ وزیر کہنے لگاکہ یہ کیسی حکومت ہے ؟  آپ کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں اور آپ خود سوئی سے اپنے کپڑے سی رہے ہیں اور فاقہ آپ کے لباس سے عیاں ہے۔ پہلے تو آپ زرق برق لباس میں ہوتے تھے ۔ تاج و تخت آپ کے زیر نگیں ہوتے تھے ۔ لوگ آ کر آپ کو فرشی سلام کیا کرتے تھے ۔ آپ اپنی آنکھ کے اشارے معاف کردیتے تھے اور جسے چاہتے تہہ خانے میں قید کر دیتے تھے ۔ وہ حکومت تھی ۔ وہ اقتدار تھا۔ یہ آپ کیا کہتے ہیں کہ میں نے چھوٹے اقتدار کو چھوڑ کر بڑے اقتدار کو لے لیا ہے ۔ یہ کیا ہے ؟

ظاہری چکا چوند کے مارے:۔بعض لوگ فقیروں کے ساتھ چہرے کی آنکھوں کو لے کر چلتے ہیں اور جب چہرے کی آنکھوں سے انہیں کچھ نظر نہیں آ تا تو  پھر اپنی مرضی کے فتوے لگا دیتے ہیں ۔ چہرے کی آنکھیں کچھ نہیں ہوتیں ، دل کی آنکھیں اللہ پاک سے مانگنی چاہئیں ۔ چہرے کی آنکھیں تو تجھے وہ دکھا دیتی ہیں ۔ جو بعض اوقات بند بعد میں خود کہتا ہے کہ ارے ۔۔ !! مجھے تو غلط فہمی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھا کیا تھا ؟ میں نے دیکھا تھا ؟ ہوا کیا ہے ؟ اور دل کی آنکھیں کبھی تجھے دھوکا نہیں دیں گی۔ اور وہ دل کی آنکھیں تجھے فقیروں سے ملیں گی ۔ (جاری ہے)

No comments:

Post a Comment