Monday, January 4, 2016

اولاد کو جاہل اور منگتا چھوڑ کر نہ جائیے

اولاد کو جاہل اور منگتا چھوڑ کر نہ جائیے :۔


روز کی ملاقاتین ، خطوط ، میرے سامنے کیسےدکھی دکھی ، الجھے رویے ، لہجے اور چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ خاص طور پر وہ لوگ جن میں ایسے لوگ بھی ہیں جو جوانی کی دہلیز پار کر چکے ہیں یا ابھی جوان ہیں جب ان کے حالات سنتا ہوں تو دل کڑھتا ہے اور احساس ہوتا ہے کہ جب میاں بیوی دونوں کمانے پر لگ جائیں اور نسلوں کیلئے وقت نہ ہو تو اس وقت نسلوں کا کیا بنتا ہے ؟یا پھر بیوی گھر داری میں میاں کا ساتھ دے اور میاں اپنی مصروف زندگی چاہے وہ سیاسی ہو ، مذہبی ہو، سماجی ہو ، یا کاروباری ہو جس نوعیت کی بھی ہو اپنے گھر اور نسلوں کیلئے وقت نہ دے سکے اس وقت نسلوں کا کیا بنے گا اور وہ کن لہجوں اور رویوں کے ساتھ زندگی کے دن رات طے کرتے ہیں ؟ اس کا کچھ عکس ایک خط کی شکل میں ، میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔


 یاد رکھیں ! ابتدا کے پانچ سال نہایت اہم ہوتے ہیں

بچے کی میموری میں جو چیز ڈالنی ہے ڈال دیں ۔ پھر اس کی تعمیر اور ترقی ہمیشہ سدا بہار رہے گی مجھے ایک تھانیدار نے کام کی بات کہی کہنے لگا سپریم کورٹ تک فیصلے تھانے کی ایف آئی آر پر ہی ہوتے ہیں ایف آئی آر ٹھیک کٹی تو فیصلے بھی ٹھیک ، ایف آئی آر غلط کٹی تو فیصلے بھی غلط ، اصل بنیاد ایف آئی آر ہوتی ہے ۔ ایسے ایسے جوان نیم پاگل ، نفسیاتی مریض اور ٹینشن کے مارے ہوئے ملتے ہیں کہ جو مخلوق سے بے زار نعوذباللہ خالق سے بے زار ، معاشرہ میں رہتے ہوئے بھی اپنے اندر معاشرہ کیلئے نفرت بھر ے جذبات حتیٰ کہ ماں باپ ، بہن بھائیوں کیلئے بھی منفی جذبات رکھتے ہیں ۔ معلوم ہوا شروع سے اولاد کی تعمیر و تربیت اور ترقی کیلئے وقت نہیں نکالا گیا ۔ آپ پوری کوشش پوری محنت کر لیں باقی ان کی قسمت اور مقدر ، جو وقت اولاد کیلئے ہوتا ہے وہ موبائل ، انٹرنیٹ ، خبریں اور چینل کیلئے وقف ہوتا ہے

اور اولاد کو موبائل ، انٹرنیٹ اور کارٹونوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے ، اس کے بعد کیا ہوتا ہے ۔ ایک جوان کے جذبات آپ خود ملاحظہ کریں ۔

میں شاید بچپن ہی سے منحوس اور بے برکت تھا ۔ میں نے غیر فطری زندگی گزاری ۔ میں نے بچپن سے خوشی کو ترسایا اور خوشی نے مجھے ترسایا ۔  مجھ سے کوئی اعمال اور نیکی نہیں ہو پار ہی تھی ۔ مجھے خود خبر نہیں کہ میرا مزاج اور میری طبیعت کیا ہے ۔ سارے لوگ یعنی خاندان ، والدین ، رشتہ دار ، دوست احباب سب سے تعلق ختم ہو چکا ہے اور میں سب سے الگ رہتا ہوں ۔ میں پہلے ہی دن سے ختم کیوں نہ ہو گیا اور مجھے خود خبر نہیں کہ میں زندہ کیوں ہوں ۔ہر انسان مجھ سے نفرت کرتا ہے یا حقارت رکھتا ہے اور کبھی دل میں سوچتا ہوں کہ شاید میں ان کو حقارت اور نفرت کی نظر سے دیکھتا ہوں ۔ کیا یہ میرے مسائل پیدائشی ہیں یا مجھ پر جادو ہے ، موروثی ہیں یا نظر بد ہے ۔ بیٹا بھی میری طرح بچپن سے میرے نقش قدم پر چل رہا ہے غصے سے آگ بگولہ ہو جاتا ہے عام بچوں کی طرح گھلتا ملتا نہیں ہے ۔ میں بھی ہر وقت سنجیدہ مزاج ، کھویا کھویا، بجھا بجھا اور ہر کسی کے بارے میں بدگمانی اور ہر کسی کیلئے منفی سوچ رکھتا ہوں ۔ بائیں ٹانگ میں اکڑن اور کھچاؤ ، آنکھوں کی حرکت ، بول چال غیر فطری ہے ۔ معاشی بدحالی اور تنگدستی کا شکار ہوں ۔ جسمانی ، اعصابی ، ذہنی اور خاص کمزوری کا شکار ہوں ۔ میرے بیٹے کو آدھی آدھی رات تک نیند نہیں آتی۔ مجھے والدین سے سخت ترین نفرت ہے ۔ دن میں ہزار بار جیتا ہوں ہزار بار مرتا ہوں ۔ زندگی ہم سے تیرے ناز اٹھائے نہ گئے سانس لینے کی فقط رسم ادا کرنی ہے ۔ زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے ۔ جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں ۔ بچپن سے انجانے خوف میں مبتلا ہوں ، روزگار کے سلسلے میں باہر گیا لیکن پھر واپس آ گیا ۔ کئی جگہ ملازمت کی ہر جگہ ناکامی پریشانی ۔ موت میرے لئے پسندیدہ ہے مگر بچوں کی طرف دیکھتا ہوں تو خوف بڑھ جاتا ہے ۔ میرے بچوں کے دادا ، دادی ، نانا، نانی ، ماموں ،چچا ، کوئی بھی نہیں ہے پل میں تولہ پل میں ماشہ میں گر گٹ ہوں ۔ ایک ماہر نفسیات نے بتایا کہ تمہارے دماغ میں کیمیکل کی کمی ہے اس لئے آٹھ گھنٹے سے کم نہ سونا ۔ نماز تہجد اور فجر بے حد پسند ہے مگر مجبور ہوں ۔نماز ، ذکر ، اذکار اور وظائف میں بڑا مزہ آتا ہے پر کر نہیں سکتا ۔ خوراک جزو بدن نہیں بنتی ہاتھ پاؤں کا نپتے ہیں  ۔ میرا ذہن میرے کنٹرول میں نہیں لگتا ہے وہ ریموٹ کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں ہے ۔ مایوسی ، سستی ، پریشانی غصہ ، چڑچڑا پن ، دل زور زور سے دھڑکنا ۔ موسم بدلنے سے میری حالت بدتر ہو جاتی ہے ۔ دسمبر ، جنوری ، جولائی اگست میرے لئے شدید ترین اور بدترین موسم ہیں ان مہینوں میں میری حالت غیر ہو جاتی ہے ۔ جب بھی والدین ، بہن بھائیوں کی اذیتیں اور بدزبانی یاد آتی ہے تو دل چاہتا ہے کہ ان کا خون پی جاؤں کیونکہ مجھے دنیا میں سب سے زیادہ نفرت اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے ہے۔ اس نفرت نے مجھے انتہا پسند بنا دیا ہے ۔ مجھے پیدائشی یا کچھ نامعلوم نفسیاتی اور ذہنی بیماریاں ہیں لوگ مجھے پاگل نہیں سمجھتے مگر میں خود اپنے آپ کو پاگل سمجھتا ہوں ۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب والدہ چھوڑ کر اپنی جاب پر اور والد چھوڑ کر اپنی جاب پر چلے جاتے تھے میں چھوٹا تھا میں ان کے پاؤں کا پائنچہ پکڑ لیتا تھا کہ مجھے بھی ساتھ لے جائیں پھر نوکرانی کے حوالے کر کے مجھے وہ چلے جاتے تھے پھر نوکرانی کے ساتھ رہتا تھا پر سارا دن اپنی والدہ اور والد کے انتظار میں رہتا ۔ وہ آتے تو ان کے منہ سے ایک بول سنتا کہ ہم تھکے ہوئے ہیں اور وہ ہمیں کسی رخ سمیٹ کر سلانے کی کوشش کرتے پھر میں بظاہر تو سو جاتا لیکن میرا دماغ جاگتا رہتا مجھے والدین کے تنہائی کے لمحات ابھی تک یاد ہیں اور وہ میرے دل پر نقش ہو گئے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ شاید بچے سو گئے ہیں اور انہی لمحات نے مجھے گناہوں پر مجبور کیا ۔ میں والدین کو کبھی معاف نہیں کروں گا جو وقت مجھے دینے کا تھا وہ وقت انہوں نے کمائی پر لگا دیا اب وہ کہتے ہیں کہ ہماری خدمت کر ہم سے پیار کر ہم ریٹائرڈ ہو گئے ہیں میرا دل نہیں کرتا کہ میں اپنے والدین کو دیکھوں حالانکہ مجھے علم ہے کہ والدین کو دیکھنا بہت بڑی نیکی ہے ان کی خدمت کرنا بہت بڑے اجر کا کام ہے پر میں اپنی طبیعت سے بے بس ہوں مجھے بچپن کے لمحات یاد آتے ہیں ان لمحات کو کیسے کھرچ دوں اس جدائی کو جس وقت مجھےماں کی آغوش چاہیے تھی مجھے ماں کا پیار چاہیے تھا اس جدائی کو میں کیسے برداشت کر کے بھول جاؤں ۔

قارئین! یہ الجھا ہوا خط ، بے ربط جملے ، بے ترتیب کیفیتیں میں نے شائع کر دیا ۔ قارئین ! مجھے آپ کا ساتھ چاہیے میں اس خط کا کیا جواب دوں ؟ میرا جواب صرف یہی ہے کہ اے چالیس سال کے ویران باپ جس کی یادیں میں نے اپنے عبقری میں چھاپی ہیں مجھے تجھ سے گلہ نہیں تیرے والدین سے گلہ ہے کہ تیرے والدین نے تیرا ساتھ نہ دیا ماں بھی کمانے میں لگ گئی اور باپ بھی کمانے میں لگ گیا اور ماں باپ دونوں مصروف ہو گئے اور لاوارث اولاد بغیر کسی تربیت کے جوان ہوتی چلی گئی اکثر ایسا بھی ہے باپ جاب کرتا ہے یا کاروبار اپنے دوستوں ، خبروں ، چینل ، موبائل اور نیٹ میں اتنے مصروف کہ اولاد کی سننی اور اپنی سنانی اور انکے اخلاق و کردار اور تنہائیوں پر نظر رکھنے کی فرصت ہی نہیں۔
قارئین ! ہم ابھی سے اس کا فکر کریں بہت وقت گزر گیا اور وقت ضائع ہو گیا اب مزید وقت ضائع نہ کریں ۔

No comments:

Post a Comment