چھوٹے بھالو کو ملی
سکول نہ جانے کی انوکھی سزا:۔
جو بچے تعلیم حاصل نہیں کرتے انہیں قدم قدم پر ٹھوکریں
کھانی پڑتی ہیں ، تو آئیے دیکھتے ہیں کیسے ؟ ایک جنگل میں تمام جانوروں کے بچے ہر
روز صبح سکول جاتے تھے مگر چھوٹا بھورا بھالو بلو سکول نہ جاتا ، اس کی امی کے
لاکھ بھیجنے کے باوجود وہ سکول نہ جاتا اور کہتا مجھے سکول جانے اور پڑھنے کی
ضرورت نہیں بس میں ہر روز جنگل سے میٹھا میٹھا شہد تلاش کروں گا اور مزے مزے سے
کھاؤں گا ، ایک دن بلو نے سوچا کہ چچا خرگوش کے پاس جانا چاہیے ۔بلکہ ان سے مزے
مزے کی کہانیاں سنی جائیں ، جب وہ چچا خرگوش کے دروازے پر پہنچا تو دروازے پر ایک
چٹ پر کچھ لکھا ہوا تھا ، بلو پڑھ نہیں سکتا تھا لہذا اس نے زور زور سے دروازہ
پیٹا مگر کوئی جواب نہ ملنے پر واپس مڑ گیا ۔ ابھی وہ آدھے راستے میں تھا کہ چچا
خرگوش سے ملاقات ہو گئی چچا خرگوش کو جب پتہ چلا کہ بلو ان کے دروازے سے لوٹ کر آ
رہا ہے تو انہیں شدید غصہ آیا ۔ انہوں نے کہا کیا تم نے دروازے پر لگی چٹ نہیں
پڑھی۔ اس پر لکھا تھا کہ میں جلد واپس آ جاؤں گا براہ مہربانی میرا انتظار فرمائیں
۔ بلو بہت شرمندہ ہوا اور معافی مانگ کر گھر واپس آ گیا مگر اس کے دل میں سکول
جانے کا خیال پھر بھی نہ آیا ، اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ تعلیم حاصل کرنا بہت
ضروری ہے ۔ تعلیم قدم قدم پر انسان کے کام آتی ہے ۔ دوسرے دن اس نے شہد کا پیالہ
ہاتھ میں لیا اور چچا الو کے گھر کی طرف چل پڑا ، جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک
کرسی رکھی ہے اور اس پر بھی ایک چٹ لگی ہوئی ہے ۔ بلو نے کہا اب میں ان چٹوں کے
بارے میں اچھی طرح جان گیا ہوں ضرور اس پر لکھا ہے کہ میں جلد لوٹ آؤں گا براہ
مہربانی میرا انتظار فرمائیے ، مگر ساتھیو! اس چٹ پر لکھا تھا اس کرسی پر نیا رنگ
کیا گیا ہے لہذا اسے ہاتھ نہ لگائیں ۔ ظاہر ہے بلو غلط مطلب سمجھا اور کرسی پر
بیٹھ گیا دوسرے ہی لمحے وہ ایک دم اچھل پڑا کیونکہ اس کی نئی پیلے رنگ کی پتلون پر
سبز رنگ کا داغ لگ چکا تھا ۔ بلو کے رونے پر چچا الو باہر آئے اپنی آنکھیں گھمائیں
اور کہا تمہیں پتہ ہونا چاہیے تھا کہ رنگ گیلا ہے میں نے اس پر ایک چٹ لگا رکھی
تھی بلو اداس ہو کر گھر لوٹ آیا مگر بچو ! اس کے دل میں علم حاصل کرنے کی خواہش
پھر بھی نہ جاگی ۔ تیسرے روز وہ جنگل کی سیر کرنے کے بعد واپس گھر آیا تو دیکھا کہ
خطوط کے ڈبے میں کوئی چٹ نم شے پڑی ہے وہ سمجھا شاید بکس پر گھر والوں نے نیا رنگ
کرایا ہے اسی لئے اس کے متعلق چٹ ہو گی ۔ مگر بچو! وہ بلو کے لئے دعوت نامہ تھا جو
ایک بڑی تقریب میں شرکت کیلئے اس کے دوستوں نے بھیجا تھا لیکن بلو نے چٹ کو یہ
سمجھ کر ہاتھ بھی نہیں لگایا کہ کہیں اس کے کپڑے خراب نہ ہو جائیں ۔ چوتھے دن اس
نے دیکھاکہ چاروں چوہے بھائی ! خرگوش کے چھوٹے بچے ۔ کچھوے بھائی اور چک چک
گلہریاں کھانے پینے کا ڈھیر سارا سامان اٹھائے جھیل کی طرف جا رہے ہیں بلو بھی ان
کے پیچھے چل پڑا ۔ کافی آگے جا کر یہ قافلہ نیلی جھیل کے پاس رکا تو بلو کو پتہ
چلا کہ وہ سب دوست پکنک منانے آئے ہیں ، یہ معلوم ہوتے ہی وہ چیخ چیخ کر رونے لگا
، سب ساتھی اس کی طرف متوجہ ہو گئے وجہ پوچھی تو بلو نے بتا یا کہ وہ اس لئے رو
رہا ہے کہ تم لوگوں نے اسے دعوت کیوں نہ دی؟ سب نے کہا بلو ہم نے تمہیں بھی دوسرے
دوستوں کی طرح دعوت نامہ بھیجا تھا مگر تم نے کوئی جواب نہیں دیا اب اس میں ہمار اکیا قصور ؟ اسی وقت بلو کی
امی ایک بڑا سا کیک اٹھائے وہاں آ گئیں ،انہوں نے کہا بلو کل تم نے اپنے خطوط کے
ڈبے سے دعوتی کارڈنہیں نکالا تھا لیکن میں نے اسے پڑھ لیا اسی لئےاب تمہارے لئے
کیک بنا کر لائی ہوں ۔ اب بلو کو احساس ہوا کہ نہ پڑھنے سے انسان قدم قدم پر غلطی
کرتا ہے اور نہ پڑھنے سے مشکلات اٹھانی پڑتی ہیں ۔۔ اس نے اسی وقت سکول جانے کا
فیصلہ کر لیا ۔ اگلے دن وہ بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ خوش خوش سکول کی جانب رواں
دواں تھا ۔
ماہنامہ عبقری " ستمبر 2015ء شمارہ نمبر 111" صفحہ نمبر27
No comments:
Post a Comment