Monday, September 7, 2015

اولاد کی دینی و دنیاوی تر بیت کیسے کریں

اولاد کی دینی و دنیاوی تر بیت کیسے کریں ؟



والدین یہ تو سوچتے ہیں کہ ہمارے مرنےکے بعد ہماری اولاد کا کیا ہو گا ؟لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اولاد کے مرنےکے بعد اولاد کا کیا ہو گا ؟حضور ﷺ جو کسی انسان کے نہیں خود اللہ پاک کے تر بیت یافتہ تھے ۔اپنے اور تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک ایسی جماعت تیار فرما گئے ہیں جو آج بھی ستاروں کی جبیں ہو کر چمک رہے ہیں ، جن کا نقش پا آج بھی کامیابی و کامرانی کی سند رکھتا ہے ۔ آیئے ! ان تابندہ ستاروں سے روشنی مستعار لے کر اپنی اولاد کو اپنی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بنائیں ۔
اولاد اللہ پاک کی ایک بہت بڑی نعمت ہے ، اس کی قدر ان سے پوچھئے جن کے آنگن میں یہ پھول نہیں کھلتے ۔کشادہ اور وسیع صحن،نوکروں اور خدام کی ایک فوج ظفر موج ، دینا کی ہر آسائش میسر ہے ، مگر پھر بھی گھر ویران سا لگتا ہے کیا وجہ ہے ؟کیونکہ اس گھر میں بچے کی صورت میں کھلنے والا پھول نہیں ہے ۔ اولاد کی صحیح تربیت والدین کا حق ہے ، اللہ پاک اور رسولﷺ نے اولاد کی تربیت کو ضروری قرار دیا ہے ۔ اولاد کی نیک تربیت کے بے شمار فوائد و ثمرات ہیں، تربیت یافتہ اولاد والدین کی نیک نامی کا سبب بنتی ہے ، اور اس کے برعکس اگر اولاد کی تربیت صحیح نہ ہو تو وہ وبال جان بن جاتی ہے ۔ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اخلاق حسنہ سکھائیں ، نیک تعلیم دیں ، اللہ پاک سے ان کا رابطہ قوی رکھیں ۔
والدین کو بچپن ہی سے بچے کی تربیت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے کیونکہ بچپن کا زمانہ زمین کی مانند ہوتا ہے جس میں انسان جو اچھے اخلاق اور اعلیٰ صفات یا گندی عادات اور غلط روایات کا بیج کاشت کرتا ہے مستقبل میں اسی کا پھل ملتا ہے ۔ اسی زمانہ میں انسانی عقل نشونما پاتی ہے ۔ اس لئے بچپن سے ہی تربیت اولاد پر توجہ دینی چاہیے ۔
بچپن کی اسی اہمت کےپیش نظر اسلاف کا مقولہ ہے کہ جو شخص اپنے بچوں کو ادب سکھا دیتا ہے وہ اپنے دشمن کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے جب بچہ ادب سیکھ جاتا ہے تو مال ،مرتبہ، عزت، اور شہرت سب کچھ حاصل کر لیتا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا ! اپنے بچوں کو ادب سکھاؤ پھر تعلیم دو ،۔ آج ہماری صورتحال یہ ہے کہ اپنی اولاد کو راضی کرنے کی خاطر ہم اپنے اللہ پاک کو ناراض کئے ہوئے ہیں ۔ہم اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دلوا رہے ہیں جس کی تہذیب تو یہ ہے کہ جب ماں باپ بوڑھے ہو جائیں تو اب وہ گھررکھنے  کے لائق نہیں ۔ 
ان کو رسنگ ہو م Nursing Home  چھوڑ آؤ ۔اولاد کو دین کی طرف لانے کی فکر اتنی ہی لازمی ہے ، جتنی اپنی اصلاح کی فکر لازم ، اولاد کو صرف زبانی سمجھا دینا ہی کافی نہیں ۔ جب تک اس کی فکر اس کی تڑپ اسی طرح نہ ہو ، جس طرح اگر کوئی دھکتی ہوئی آگ ہواور بچہ اس کی طرف بڑھ رہا  ہو اور آپ اس کو لیکر جب تک اٹھا نہیں لیں گے اس وقت تک آپ کو چین نہیں آئے گا ۔ اسی طرح کی تڑپ یہاں ہونا بھی ضروری ہے ۔
سات سال سے پہلے بچوں کو کسی مشقت بھرے کام میں استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔ جیسے کہ بعض لوگ سات سال سے پہلے ہی روزہ رکھوانے کی فکر شروع کر دیتے ہیں ۔ ایک بزرگ فرماتے تھے اللہ پاک تو سات سال سےپہلے نماز کا حکم لاگو نہیں کرتا مگر تم سات سال سے پہلے اس کو روزہ رکھوانے کی فکر کر دیتے ہو ، ایسا ٹھیک نہیں ۔
آج کل ہمارے معاشرے میں بچہ ابھی چلنا بھی نہیں سیکھتا تو اس کے ہاتھ میں قاعدے پکڑا دیئے جاتے ہیں جبکہ کم از کم بچہ تین ساڑھے تین سال کا ہو تو اس کو سکول میں داخل کروانا چاہیے ۔ بچے کو کسی ایسے سکول میں داخل کروانا چاہیے جہاں دینی و دنیاوی تعلیم دونوں دی جاتی ہوں ۔ ایک اور بات جو بچوں کی تربیت میں لازمی ہے وہ یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ شفقت اور محبت بھرا رویہ اختیار کریں ۔ ہر وقت ان پر بوجھ نہ ڈالیں ، اس سے بچہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔

تربیت اولاد میں ایک بات یہ بھی شامل ہے کہ بچوں کے ساتھ کھیلیں اور ہنسی مذاق کریں ۔ کھیل کود بچے کی زندگی میں بنیادی اور حیات بخش اثر رکھتا ہے۔ عقلی اور اجتماعی نشوونما کی رو سے اگر دیکھا جائے تو کھیل کود کے درمیان وہ مختلف مشکلات اور مسائل کا سامنا کرتا ہے اور اپنی کوشش اور جدوجہد کے ذریعے ان کا حل کرتا ہے ۔ کھیل  کود کے درمیان بچہ تجربات حاصل کرتا ہے ، سیکھتا ہے  دوسروں کا لحاظ رکھتا ہے اور مہارت حاصل کرتا ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ بچہ کھیل کود کے ذریعے دیکھنے ، سننے ، چلنے ، دوڑنے ، اور دوسروں سے میل جول وغیرہ کے طریقے سیکھتا ہے ۔ تربیت اولاد میں یہ بات بھی ضروری ہے کہ شدید غصے کی حالت میں اگر بچے کو سزا دینے کا خیال بھی آئے تو اس سے دور ہو جایئے ،آپ کو چایئیے کہ صبر سے کام لیں ۔ سخت غصے کی حالت میں آپ بچے کو ضرورت سے زیادہ پیٹ سکتے ہیں جو بعد میں آپ کیلئے ہی تکلیف دہ ہو سکتا ہے ۔ لہذا ایسی حالت میں بہت ہو گا کہ خود کمرے سے باہر چلے جائیں ، کہ اس سے کافی حد تک بچت ہو سکتی ہے ۔ کسی محفل میں یا لوگوں میں بچے کو احمقانہ ناموں سے پکارنے اور سخت سست کہنے سے پرہیز کریں ،اس سے اس کا اعتماد ٹوٹ پھوٹ سکتاہے ۔ وہ لوگوں کے سامنے شرمندہ ہوتا ہے اور ان سے میل ملاپ ہٹا کر پیچھے ہٹنے لگتا ہے ۔ اس طرح وہ اپنی الگ دنیا بسا لیتا ہے ۔ سست اور ڈھیلے بچے کا مذاق اڑانے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کیجئے ۔

بچے بہت ہوشیار ہوتے ہیں ، وہ آپ کی غلطیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں،آپ اپنے ساتھی کی برائیاں کرتے ہوئے بچے کو اعتماد میں لینے کی کوشش مت کریں ۔ یہ کہنا کہ تمہاری ماں غلط ہے ، وہ تمہیں کھانے کو نہیں پوچھتی تم میرے پاس آ جایا کرو میں تمہیں کھلونے لا کر دوں گا یہ کہنا کہ تمہارا باپ اچھا نہیں ، وہ تمہیں مارتا پیٹتا ہے اس کے پاس نہ جایا کرو۔ بچوں سے اس قسم کے جملے کہنا بالکل غط اور نامناسب ہے ۔ والدین کو چاہیئے  کہ بچے کو تھوڑی سی ذمہ داری سونپیں ۔ اس کے سارے کام تقریباً خود نہ کیجئے ورنہ وہ کبھی کوئی بھی کام خود نہ کر سکیں گے ۔ یہ والدین کا فرض ہے کہ بچے کے اندر خود اعتمادی پیدا کریں ۔ ایک ایسا بچہ جسے یہ معلوم ہو جائےکہ اس کی پیدائش گھر میں غیر اہم تھی وہ آخری عمر میں شدید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے او ر اپنا غصہ معاشرے پر نکالتا ہے اپنے بچوں کو دینی تعلیمات سے روشن کریں ، اپنی ذمہ داری نبھائیں ۔ اللہ پاک کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے معاشرے کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا کریں ، اپنی اور اپنے بچوں کی آخرت سنواریں ۔

 ماہنامہ عبقری " ستمبر 2015ء شمارہ نمبر 111" صفحہ نمبر6


No comments:

Post a Comment