حرم کاایک قابل رشک
سخی:۔
اشراق کے بعد مطاف کو خالی دیکھ کر طواف کرنے کا تقاضا ہوا ۔ دھوپ چڑھنے تک طواف کے مزے لے کر حسب
پروگرام مجھے ایک مربی اور مشفق عالم دین سے ملاقات کیلئے جانا تھا ،حاضری ہوئی تو
معلوم ہوا کہ وہ مدینہ تشریف لے گئے ہیں ۔ بڑے مکان کے کونے میں صدر دروازے کے نزدیک زمین پر
ایک کالے رنگ کے نیم مجزوب آدمی کو دیکھا جو بڑے اطمینان سے ایک میلے سے کرتے میں
وہاں بیٹھے تھے۔راقم سفر نے اپنے رہبر سے جوان سے متعارف تھے تعارف حاصل کرنا چاہا
تو وہ پر کشش شخصیت نکلی نوجوانی کی عمر میں بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے پیدل یہ
ہندوستان سے مکہ معظمہ پہنچے ۔اور آج تک اسی طرح یہاں رہ رہے تھے یہاں پر ایک ایسے
کمرے میں رہتے ہیں جس میں پوری طرح پاؤں بھی نہیں پھیلتے اور ابھی تک کمرے میں اے
سی تو بڑی بات ہے پنکھا بھی نہیں لگوایا ، سعودی پولیس والے ان کو پکڑتے ہیں اور
پاگل سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں یہاں پران کا مشغلہ یہ ہے کہ لوگوں کےیہاں زمزم پہنچاتے ہیں کاندھوں پر زمزم ڈھونے کی وجہ
سے ان کے کاندھے بیلوں کی طرح سخت ہو گئے ہیں دس بیس لیٹر کی زمزم کی کین لانے کے
لوگ ان کو دو ریال یا پانچ ریال اور بعض لوگ دس ریال تک دے دیتے ہیں ان کے پاس
کپڑے کی تین ہمیانی ہیں ایک تھیلی میں زمزم ڈھونے کی مزدوری رکھتے ہیں کچھ لوگ ان
کو مسکین سمجھ کر صدقہ اور خیرات دے دیتے ہیں ۔ صدقہ خیرات کی رقم دوسری تھیلی میں
رکھتے ہیں ۔ کچھ لوگ ان کو اللہ کا مقرب بندہ ولی اور صاحب خدمت وغیرہ سمجھ کر ہدیہ
دیتے ہیں یہ ہدیہ تیسری تھیلی میں رکھتے ہیں ہدیہ کی رقم یہ بزرگوں اور علماء پر
خرچ کرتے ہیں ۔ ہندوستان سے آنے والے مختلف لوگوں کے ذریعے ہدیہ بھیجتے رہتے تھے
صدقے اور خیرات کی رقم سے انہوں نے اپنے علاقے کےمختلف غریبوں کے وظیفے متعین کر
رکھے تھے غریبوں مسکینوں اور یتیموں کو ماہانہ متعین رقم وہ عمرہ اور حج سے واپس
ہونے والوں کے ذریعے سے بھیجتے رہتے تھے گزشتہ سال ان کے انتقال کے بعد معلوم ہوا
کہ ایک سو سے زیادہ لوگوں کو وہ ماہانہ تعاون کرتے تھے بلکہ ان کی کفالت کرتے تھے
، زمزم کی مزدوری سے وہ مسجدیں بنواتے تھے راقم سطور کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ
1977 میں ملک کے ایک بڑے ادارے کی مسجد کی مکمل توسیع ان کی زمزم کی مزدوری کی رقم
سے ہوئی جس پر 77 یا 78 میں گیارہ لاکھ روپے ہندوستانی سے زیادہ خرچ ہوئے تھے اس
کے علاوہ چالیس چھوٹی بڑی مسجدیں ان کے کاندھوں پر ڈھوئے گئے زمزم کی مزدوری سے
تعمیر کرائی گئیں ۔ یہ مثالی سخی اور آخرت کیلئے جینے والا مثالی مسلمان اس دنیا سے جا چکا ۔ مگر راقم سطور کے
دل و دماغ پر اس کے کردار کی عظمت کے نقوش تازہ ہیں بار بار یہ خیال آتا رہتا ہے
کہ ہمارے نبی کے سچے فرمان کی تصویر دنیا میں اس طرح رہو جیسے مسافر یا راستہ پار
کرنے والے آج کے دور میں بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں سخاوت کی لذت سے آشنا مثالی سخی
آج بھی اس دنیا کے لئے درجہ رحمت ہوتے ہوں گے مگر افسوس کہ آخرت کے ہمیشہ کے حقیقی
گھر سے غافل نعم عارضی اور سفر کی دنیوی زندگی کی رنگ رلیوں میں مست زندگی کی
حقیقت لذت سے محروم لوگ اس مزے کو کب پا سکتے ہیں ؟
ماہنامہ عبقری " ستمبر 2015ء شمارہ نمبر 111" صفحہ نمبر43
No comments:
Post a Comment