میں ایک طوائف تھی:۔
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم ! اللہ پاک آپ ، آپ کی
نسلوں ، آپ کے والدین ، آپ کے مرشد ، آپ کے مریدوں اور آپ سے وابستہ ہر انسان پر
اپنی رحمتیں قیامت تک نازل فرماتا رہے ، آپ کے درس سے مجھے کیا دولت نصیب ہوئی وہ
میں آگے چل کر بتاؤں گی۔
میں نے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی جیسے جیسے بڑی ہوئی
میں نے دیکھا کہ ہماے گھر میں نہ نماز ، نہ دین ، نہ قرآن اور نہ ہی کسی قسم کے
اعمال تھے ، ہر کوئی اپنی مستی میں مست تھا صبح اٹھے کھانا کھایا مرد حضرات کاروبار
پر چلے گئے عورتیں گھر کے کام سے فارغ ہوئیں اور سارا دن ٹی وی ، میوزک اور بس !
میری ایک بہن نے محلے کے ایک لڑکے سےبھاگ کر شادی کر لی تھی جس کا شروع میں بہت
شور اٹھا لیکن بعد میں دونوں خاندان کی آپس میں صلح ہو ئی اور بات ختم ۔ جب میں نویں
جماعت میں تھی تو میری محلے کے ایک لڑکے سے نام نہاد دوستی ہوئی جس نے مجھے خوب
بیوقوف بنایا ۔ بعد میں وہ محلہ چھوڑ گیا ، اس کے بعد مجھے لڑکوں سے دوستی کرنے
میں خوب مزہ آتا میں نے لڑکوں کو خوب بیوقوف بنایا میں شروع سے بہت خوبصورت تھی
میں کسی کو بھی بیوقوف بنا دیتی تھی ، بارہویں جماعت میں مجھے ایک لڑکے سے سچ مچ
محبت ہوئی جو کہ ناکام ثابت ہوئی اور اس لڑکے کے گھر والوں نے زبردستی اس کی شادی
کہیں اور کر دی ، میں بہت روئی ،چیخی، چلائی ،مگر میری آہیں کسی نے نہ سنیں ، جس
کے بعد مجھے چپ لگ گئی ۔میرے ماموں دوسرے شہر میں رہتے ہیں ایک مرتبہ وہ آئے تو
انہوں نے کہا کہ اس کو جن آتے ہیں آپ میرے پاس آؤ میرے پاس ایک بابا جی آتے ہیں ان
سے دم کرواتے ہیں ۔ میں اپنے ابو کے ساتھ ان بابا جی کے پاس گئی وہاں کا ماحول بہت
پر سکون تھا ۔دعا کے بعد حاضری ہوئی وہ محترم ہستی بڑی شفقت سے پیش آئے دم کیا
انہوں نے ہمیں نماز کی تلقین کی اور کچھ اعمال بتائے ۔اور مجھے اللہ پاک کا ایک
اسم مبارک دیا کہ اس کو ہر وقت پڑھو انشاءاللہ تم پر اللہ پاک اپنا بہت کرم کرے گا
، مجھے پہلی مرتبہ روحانی سکون کا احساس ہوا گھر آ کر میرے ابو اور بہن نے ان کا
خوب مذاق اڑایا۔ اور ان کی خوب توہین کی میں بھی ان کی باتیں سن کر خوب ہنستی ،
کبھی کبھی خواب میں ان اللہ والے کی زیارت ہوتی جو مجھے وظیفے کی تلقین کرتے۔ایک
مرتبہ میں اپنے ابو بہن سے چوری ان بزرگوں کے پاس گئی ۔ میں حالات سے تنگ تھی انہوں
نے مجھے پھر وظیفہ پڑھنے نماز اور اعمال کی تلقین کی ۔ پھر کچھ عرصہ میں نے ان سے
رابطہ نہ کیا۔ پھر میں جب تھرڈائیر میں تھی تو پھر موبائل پر لڑکوں سے دوستیاں شروع
ہوئیں ، ساری ساری رات مختلف لڑکوں سے سمز بدل بدل کر گندی باتیں کرنا اور فجر کی
اذان کے بعد سو جانا ۔ پھر بات موبائل سے بڑھ کر ملاقاتوں تک بڑھ گئی اور بڑھتے بڑھتے ہوٹلز
رومز تک پہنچ گئی ۔ مجھے خود معلوم نہ تھا میں یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہوں ۔بس میں
اپنی ہی مستی میں مست تھی ۔ لوگ میرے اشاروں پر ناچتے تھے میں جس سے جو مانگتی
مجھے وہ لا کر دیتا میرے پاس مہنگے سے مہنگا موبائل ، سونے کے سیٹ ، اعلیٰ سے
اعلیٰ برانڈ کے کپڑے ، جوتے ، مہنگے ہوٹل کا کھانا ۔ بس میں ان دنوں ہواؤں میں اڑ
رہی تھی ۔ پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ میں ایک ہاتھ سے دوسرے پھر تیسرے اور پھر
چوتھے ہاتھ میں استعمال ہوئی حتٰی کہ بعض لوگوں نے مجھے طوائف کہنا شروع کر دیا ۔
میں نے سگریٹ پینا شروع کر دی ۔ میں نے بی اے تک پڑھائی کی پھر پڑھائی چھوڑ دی
میرے والدین میری شادی تو نہ کرواسکے مگر میں اپنی عزت کا نایاب زیور کسی ہوٹل کے
کمرے میں گم کر چکی تھی۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود اندر بے چینی تھی ، ایک خلش
تھی ،ایک چبھن تھی ،جو مجھے ہر وقت عیاشی کے باوجود بے قرار رکھتی تھی ۔ میں نے
گھر میں کچھ فلمی ڈائجسٹ لگوا رکھے تھے جو ہاکر ہر ماہ آ کر پھینک جاتا ایک مرتبہ
وہ ان ڈائجسٹ کے ساتھ عبقری رسالہ بھی پھینک گیا ۔ میں نے ایسے ہی پڑھا اور بے
پرواہی سے صوفے پر پھینک کر ٹی وی دیکھنا شروع کر دیا ۔ پھر اس رسالے کو میری
والدہ اور بھائی نے پڑھا تو ان کو یہ پسند آیا انہوں نے ہاکر کو کہہ دیا کہ دوسرے
میگزینز کے ساتھ یہ رسالہ بھی ہر ماہ دے جایا کرو ۔ ایک مرتبہ ایسے ہی بور ہو رہی
تھی تو میں نے رسالہ پکڑ کر پڑھنا شروع کر دیا ۔اس میں آپ کا درس ہدایت کا صفحہ
پڑھا ،تو اندر ایک ہدایت کی چنگاری تھی جو تھوڑی سی بھڑکی ۔ میں نے نیٹ پر آپ کے
درس سنے تو میری راتوں کی نیند اڑ گئی ۔ میں پہلی بار کانپتے ہاتھوں سے وضو کیا
اور نماز مجھے جیسے بھی آتی تھی کانپتے ہونٹوں اور بہتے آنسوؤں سے پڑھ کر اللہ پاک
سے خوب رو رو کر توبہ کی ،اور وہیں جائے نماز پار روتے روتے سو گئی ۔ مجھے ایسی پر
سکون نیند آئی کہ جو آج تک نہ آئی تھی ۔ جب اذان فجر ہوئی تو میری آنکھ کھلی میں نے
پھر وضو کیا اور نماز فجر ادا کی ۔حالانکہ اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ فجر کی
سنتیں اور فرض کتنے ہیں ۔ میں نے اپنی تمام سمز بلاک کروا دیں موبائل فون توڑ دیئے
۔ اپنی غلیظ کمائی کے کپڑے جوتوں کو آگ لگا دی میں نے اپنی دوست سے صحیح نماز
پڑھنے کا طریقہ سیکھا ، صفائی ستھرائی، پاکی ناپاکی، کے بارے میں سب جانا ۔اچھی
اچھی دینی کتب گھر میں لائی جن کا اب میں بھر پور مطالعہ کرتی ہوں ۔ لوگوں نے میرا
پیچھا تب بھی نہ چھوڑا میرے گھر کے باہر آ کر آوازیں کستے میرے والد نے تنگ آ کر
وہ شہر ہی چھوڑ دیا اب ہم نے دوسرے شہر میں اپنی خالہ کے گھر کے پا س گھر لے لیا
ہے ۔ ہمارے گھر میں دینی ماحول آ رہا ہے ۔ میرے ابو بھی اب قریبی مسجد میں جاتے
ہیں اور امام صاحب سے نماز کا طریقہ سیکھ رہے ہیں ۔۔ گھر میں ہر وقت آپ کا درس
چلتا ہے ۔ الحمدللہ ! میری والدہ اور چھوٹے بھائیوں نے بھی نماز پڑھنا سیکھ لی ہے
۔ اب الحمدللہ ! میں اعمال کی طرف آ گئی ہوں۔ رو رو کر اللہ پاک سے اپنی کوتاہیوں
کی معافی مانگتی ہوں ۔ آپ کے درس نیٹ سے سنتی ہوں ۔ میں نے درس سے کچھ دعائیں یاد
کی ہیں ۔ کھانا شرمندہ ہو کر کھانا اور کم کھانا ، کھانے سے پہلے سات بار استغفار
کرتی ہوں۔ کھانے کے بعد سورہ قریش تین بار پڑھتی ہوں ۔ بیت الخلا میں جاتے ہوئے
دعا پڑھتی ہوں ۔ بیت الخلا میں مسلسل دل ہی دل میں پڑھتی ہوں اس کا فائدہ یہ ہوا
ہے کہ مجھے پہلے غصہ بہت آتا تھا ایک پل میں آگ بگولہ ہو جاتی تھی اب اندر طوفان
تو اٹھتے ہیں مگر زبان ادب کے دائرے میں رہتی ہے ۔ وضو کے بعد والی دعا پڑھتی ہوں
رات سوتے وقت کی دعا پڑھتی ہوں گیارہ بار سونے والی دعا تین بار درود شریف ایک بار
سورہ فاتحہ تین بار سورہ اخلاص تین بار کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے ایمان کی تجدید کرتی
ہوں ۔ یہ آپ کے درس سے دعائیں لی ہیں ۔ میری خالہ کے بیٹے سے منگنی ہو چکی ہے ۔ وہ
میرے بارے میں سب جانتے ہوئے مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ الحمد للہ ! امام
مسجد ہیں اور بہت جلد ہمارا نکاح مسجد میں سادگی سے ہو رہا ہے ۔
ماہنامہ عبقری " ستمبر 2015ء شمارہ نمبر 111" صفحہ نمبر15
No comments:
Post a Comment