ارب پتی کا جنازہ:۔
انسان ساری زندگی سیکھتا چلا آ رہا ہے اور کیا تقدیر کا
نظام ہے یوں تھوڑا سا سیکھا اور کچھ سکھانے کے قابل ہوا ،اجل کا پیغام بہت تیزی سے
اس کاتعاقب کرنے لگا ۔23 دسمبر 2001ء میں باقاعدہ امر الٰہی سے ایسے اسباب بنے کہ
میں نے اپنا ٹھکانہ مستقل لاہور رکھا اور مجھے شیخ حضرت خواجہ سید محمد عبداللہ
ہجویری رحمۃاللہ علیہ کی وہ پیشنگوئی زندہ ہوتی نظر آئی ۔اس ہجرت سے پہلے بھی اور
اس ہجرت کے بعد بھی جس گھر سے سب سے زیادہ مجھے تالیف قلبی ملی28 ستمبر 2015ء بروز
پیر اس عظیم محسن کا انتقال ہوا ۔ ابھی حج کی حاضری سے واپسی ہوئی تھی کہ سیدھا ان
کے گھر پہنچا ، کفن میں لپٹی بالکل خاموش اس ارب پتی کی میت رکھی ، مجھے کچھ پیغام
دے رہی تھی ، لوگ سمجھ رہے تھے کہ میں خاموش بیٹھا ہوں ، میں خاموش نہیں بیٹھا تھا
میرے اند رسوچیں ، جزبات ، خیالات اور احساسات کا ایک تلاطم تھا اور سمندر کی
موجیں تھیں جو میرے دل و دماغ پر مسلسل ٹکڑا کر ہر دفعہ ایک پیغام چھوڑے چلی جارہی
تھیں ، یہ سفید چادروں میں لپٹا عظیم محسن جو پیغام چھوڑ رہا تھا اور جو میری
سوچوں ، سمجھ ، شعور ، عقل ، احساس فہم فراست اور سالہا سال کے مشاہدے سے نچوڑ لیا
وہ دراصل یہ تھا ۔ پہلے دور میں سنا تھا بڑی بوڑھیاں دعائیں دیتی تھیں کے اللہ
تجھے سات بیٹے عطا فرمائے ! اس عظیم محسن کے سات بیٹے ہیں لیکن وہ آدمی نہیں ہیں
بلکہ انسان ہیں جنہوں نے باپ کی طویل علالت میں ایسے خدمت کی جیسے کہ گلاب کے
پھولوں کو سنبھال اور سنوار کے رکھا جاتا ہے ۔ اگر آدمی ہوتے تو مجھے خدمت کی امید
نہ ہوتی بلکہ وہ باپ کو کسی گاؤ شالہ (اولڈہوم) میں چھوڑنے کا مشورہ کرتے یا پھر
باپ کی زندہ میت کبھی اس گھر کبھی اس گھر ٹھوکریں کھاتی رہتی جو کہ معاشرے میں
ہمیں روزانہ ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں یا پھر اگر شرم ہی شرم میں گھر رہتی بھی
تو ایک اذیت ناک موت باپ مرتا میں نے جب اس عظیم محسن کا چہرہ دیکھا موت کے آثار
نظر نہیں آ رہے تھے ۔اور موت کی تکلیف اور کرب چہرے کی کسی لکیر سے عیاں نہیں تھی
بلکہ ایمان کی موت اور خدمت کی موت چہرے کی ہر ہر لکیر اور ہر ہر بال سے واضح نظر
آ رہی تھی ۔ ہر بیٹے نے جی بھر خدمت کا حق ادا کیا ، دن اور رات کو باری کے ساتھ
جاگنے کا شیڈول تھا ، اپنی جوانی کی نیند اور جوانی کی کمائی باپ پر لگا ئی نہیں
بلکہ بہائی اور وہ عظیم باپ بھی کیا تھا جس کی نیکیاں تو بہت ساری ہیں پر ایک نیکی
مجھے خود سبق دے گئی ہے وہ تھا رزق حلال اور معاملات میں احتیاط ۔ اس شخص کی
معاملاتی زندگی ایسی اپنے تو اپنے غیر بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ کاروبار کی
ابتدا میں ایک کاروباری شریک تھے ، فوت ہونے کے بعد اس شریک کی بیٹیوں اور خاندان
کو ایسا سنبھالا کہ وہ باپ کی محرومی اور جدائی کو ایسے جیسے بھول گئی ہوں ، مجھے
انہوں نے خود بتایا کہ جس طرح اپنے بیٹوں کو حج کرایا اسی طرح ہمیں حج کرایا ، جس
طرح انہیں حق دیا اسی طرح ہمیں حق دیا بلکہ بیٹوں سے کہیں زیادہ ہمیں دیا۔ یہ وہ لفظ تھے جو ان کی زندگی میں کاروباری پارٹنر
کے گھر والوں نے مجھے بتائے۔ وہ مزاج کے دبنگ تھے ، معاملات کے کھرے تھے اور لباس
کے اجلے تھے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رزق حلال اولاد کو ایسا ملا کہ سات بیٹے اور
دو بیٹیاں تربیت کے اعلیٰ مقام تک پہنچے۔ میں جنازے میں سات بیٹوں پر نظر ڈالتا
اور کبھی دونوں شریف اور باحیا دامادوں پر تو مجھے احساس ہوتا ایک ہے حق کھانا ،
ایک ہے حق دینا اور ایک ہے جھکتا دینا ۔ مرحوم نے جھکتا دیا اور رب نے پھر انہیں
اتنا جھکتا دیا کہ بعض اوقات مجھے اپنے پہلے اور بعد کے حالات تفصیل سے بتاتے اور
حیرت سی ہوتی اور حیرت ایسی ہوتی کہ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے یہ رزق حلال جو نسلوں کو دیا وہ ان کے جوان
پوتے اور پوتی اور پھر پڑپوتوں میں بھی واضح نظر آ رہا ۔ رزق کی برکت سے ایک
بیٹاحق کی راہوں پر چلا گیا اور اس سہیل بیٹے نے سب کو ایسی زندہ اور تابندہ راہوں
پر لگایا جن راہوں نے آدمی سے انسان بنا دیا ۔ ان کی ہر ہر خوبی ناقابل بیان ہے ۔جب
2002ء میں پہلے تسبیح خانہ لاہور ( وہ تسبیح خانہ بھی تھا ، رہائش بھی ، مہمان
خانہ بھی اور کلینک بھی) کی بنیاد رکھی گئی چند آدمی دعا میں شامل تھے مرحوم دو
کلو مٹھائی کا ڈبہ بانٹنے کیلئے لائے ، میں اکثر ان سے عرض کیا کرتا ہوں کہ پورے
ورلڈ میں عبقری کے لاکھوں کروڑوں جو قرآن و سنت اور مسائل و مشکلات اور الجھنوں سے
نکلنے کا فیضان پا رہے ہیں وہ اس دو کلو مٹھائی کے ڈبے کی کرامت ہے ۔ وہ اس وقت
نہیں بٹا تھا بلکہ وہ مٹھائی مخلوق کو آسانیاں پھیلانے کی شکل میں قیامت تک
انشااللہ بٹتی چلی جائے گی ۔ جہاں میرے اور دوسرے خدمت اور ساتھ دینے والوں کو اس
کا ثمرہ اور صلہ ملے گا ، وہاں مرحوم کو ایک ڈھیر سارا اجر اور جزا اور صدقہ جاریہ
کا سلسلہ ملے گا ، اور مل رہا ہے ۔ میری اہلیہ مجھے بتانے لگیں جسے سن کر میں چونک
پڑا ، گھر میں کوئی واہی تباہی شور شرابہ اور بے ترتیب میت پر رونے کا بے ڈھنگ
انداز جسے اسلام اور معاشرے نے ہمیشہ ناپسند کیا ہے بالکل نہیں تھاہر آنکھ اشکبا ر
تھی ، پر یہ ایک اخلاقی ریت روایت زندہ کر کے دکھا دی ، بیٹے اشکبا رہیں ، سسکیاں
ہیں ، لیکن کچھ ایسا انداز نہیں کہ دسیوں بیسیوں آدمی ان کو سنبھالنے کیلئے بے چین
ہوں اور گھر میں بے شمار عورتیں ایک عورت کو سنبھال رہی ہوں اور بار بار ایک میت
پر گر رہی ہوا ور چالیس گھر دور اس خاتون کی آوازیں ضبط سے سن رہے ہوں ۔ یہ منظر
دیکھنے کو نہ ملا ، قارئین ! یہ میرے آپ کیلئے سبق ہیں میری ہر تحریر تعریف نہیں
ہوتی لیکن اس کے اندر کچھ سبق اور کچھ راز سمجھنے والوں کیلئے ہوتے ہیں ۔ اس سے
کہیں زیادہ انوکھی بات کہ بیٹے نے جنازہ پڑھایا
، میں سوچتا رہا طارق ! اے کاش تیری بھی اولاد ایسی ہو اور انشاءاللہ ، اللہ نے
چاہا تو ہو گی ۔ اور تیری بھی میت تیرے
بیٹے کے سامنے ہو ۔ قارئین! رزق حلال اور معاملات کی پاکیزگی ۔ دوسرا سبق ! سات
بیٹے اور دو بیٹیوں کی اعلیٰ تربیت اور ان میں انسانیت اور بہترین اچھے معاملات
اور اخلاق۔ تیسرا سبق! موت تو سب کے ساتھ
رہے گی ، اور ہے پر میت پر کیسے رونا ہے اور کیسے اس کو گھر سے رخصت کرنا ہے ؟ آنسوؤں
، آہوں ، سسکیوں ، کے ساتھ یا بے ڈھب اور بے ترتیب غم کے انداز کے ساتھ ۔ چوتھا
سبق! اے کاش! کسی کی اولاد اتنی اہل ہو کہ وہ بھی باپ کا جنازہ پڑھانے کے قابل ہو
۔ میں ابھی بھی سوچتا ہوں تو مجھے وہ محسن ان کی باتیں ان کا لہجہ اور ان کے
معاملات کی سچائی بس آنکھوں کے سامنے گھومتی چلی جاتی ہے اور پھر ایک ٹھنڈی آہ بھر
کر کہتا ہوں کہ یااللہ ! تجمل الٰہی شمسی کو اپنے خاص جوار رحمت میں جگہ عطا فرما
آمین ثم آمین! اس محسن کا احسان میرے اوپر قرض ہے شاید میں دنیا میں کبھی بھی نہ اتار سکوں ۔ اس لئے
میں اس محسن کو ارب پتی کہتا ہوں کیوں ؟ وہ خود جن کے پاس اور ان کی نسلوں کے پاس
اتنی اعلیٰ صفات ہوں وہ یقیناً ارب پتی ہیں اور اگر مالی طور پر ارب پتی ہونے کے
باوجود بھی اگر یہ صفات نہیں ہیں تو وہ یقیناً بے قیمت ہیں ۔
No comments:
Post a Comment