حفاظت قرآن کا سچا
ناقابل فراموش واقعہ :۔
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم!2010ء سے عبقری کو بہت
شوق سے پڑھ رہی ہوں ۔ پہلے پہل میں بیٹی کے ہاں جاتی تو وہاں پڑھتی مگر اب میں نے
اپنے گھر میں لگوا لیا ہے ۔ بڑی دیر سے مجھے ایک واقعہ ، قرآن کی حفاظت خود اللہ
کرتے ہیں ، یا د تھا ۔ کہ عبقری میں لکھوں مگر پھر اپنی تشہیر کی وجہ سے رک جاتی
لیکن اب بار بار یہ پڑھا کہ اپنے بیتے واقعات طبی یا روحانی عبقری میں لکھیں نوک
پلک ہم خود سنوار لیں گے تو میرے میں بھی ہمت پیدا ہوئی اور آج قلم اٹھاہی لیا۔ یہ
میری زندگی کا جیتا جاگتا واقعہ ہے۔یہ 1945ء کی بات ہے ہم اس وقت پنجاب انڈیا
جالندھر کے ایک بہت ہی خوبصورت گاؤں میں رہتے تھے، یہ میرے ننھیال کا گاؤں تھا
چونکہ میرے والدین بچپن ہی میں وفات پاگئے تھے تو میں اپنی نانی کے ہاں رہتی تھی ،
ان دنوں ساون بھادوں کا موسم تھا ۔ پیشن گوئی ہوئی کہ اب کی بار بہت زیادہ بارشیں
ہوں گی اور ستر گھنٹے تک لگا تار بارش ہو سکتی ہے ۔ لوگ اس خبر کو معمولی سمجھ کر
اپنے کاموں میں لگے رہے ۔ برسات عروج پر تھی کہ اچانک ایک دن صبح اذان فجر کے بعد
ہلکی بوند اباندی شروع ہوئی اور اسی طر مسلسل تین دن تین راتیں ہوتی رہی تو ادھر
ادھر سے وقتاً فوقتاً خبریں آتی رہیں کہ فلاں جگہ مکان زمیں بوس ہو گیا، فلاں جگہ
دیوار گر گئی فلاں کی چھت گر گئی ، مزید ایک دن کے بعد لوگوں کے کچے مکان تو گر ہی
رہے تھے پکے مکانوں کے گرنے کی خبریں بھی آنے لگیں ، لوگ نفل ، اذان ، دعائیں،
توبہ مگر اس وقت ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے توبہ کا دروازہ ہی بند ہو چکا ہے ۔ اتنے
میں اچانک ہمارے گھر میں دراڑ پڑتی نظر آئی تو ہم سب بھاگ کر گلی میں چلے گئے اور
دیکھتے ہی دیکھتے پل بھر میں مکان کا پچھلا حصہ تمام کا تمام باہر کھیت میں گر گیا
آگے کا حصہ جسے وہ لوگ دلان بولتے تھے بہت بڑا تھا وہ رہ گیا مزید چند گھنٹوں کے
بعد بارش بند ہوئی تو ہم لوگ دیکھ کر رونے لگے اللہ کا شکر ہے کہ سب کی جانیں بچ
گئیں مگر اتنا صدمہ تھا کہ ایک پل میں محتاج ہو گئے نہ آٹا ، نہ گندم ، نہ چاول ،
نہ کچھ کھانے کی چیز سب کچھ نیچے دب چکا تھا۔ اب مرحلہ تھا کہ ملبہ کس طرح اٹھایا
جائے تاکہ نیچے نقدی ، اور زیورات وغیرہ نکالے جا سکیں ۔ مگر ایک مسئلہ درپیش تھا
وہ یہ کہ ڈبل سٹوری مکان تھا مٹی کی دیوار کچی تھی نیچے سے لے کر اوپر تک کا تمام
کا تمام گھر گر چکا تھا مگر ایک دیوار ڈبل سٹوری کچی مٹی کی گیلی بالکل سیدھی کھڑی
تھی ۔ اس کے اوپر ایک الماری لگی تھی ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ دیوار کس طرح گرائی
جائے تاکہ اگلے حصہ پر اثر نہ پڑے ، غرض وہاں جتنے لوگ کھڑے تھے اپنی تدبیر یں لڑا
رہے تھے اتنے میں ماموں جان اس میں میرا قرآن پاک ہے جو میں اوپر جا کر ہر روز پڑھتی
تھی اور وہاں رکھ دیتی تھی۔ ماموں جان یہ قرآن پاک میرے ابو جان نے دہلی سے لا کر
دیا تھا اور مجھے قرآن پاک ختم کرنے پر میرے ابو جان نےمجھے تحفہ دیا تھا ۔ بس پھر
کیا تھا ماموں جان نے جا کر سب کو یہ بات بتا دی۔ لوگ جوق در جوق دیکھنے آنے لگے ۔ سارا
گاؤں بلکہ ارد گرد کے گاؤں کے لوگ آنے لگے اور اللہ پاک کی شان ، قرآن کی عظمت کا
بیان ہر زبان پر تھا اور لوگ حیران تھے اکیلی کچی دیوار نیچے سے لے کر اوپر تک
کھڑی رہنا یہ معجزہ ہے ، اب اس کو جس طرح ہو سکے بچایا جائے ۔ اب ایک تدبیر سوجی
گئی اور دو لمبی سیڑھیوں کو منگوا کر ان کو آپس میں رسیوں میں باندھا گیا اور
دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا گیا اب مسئلہ یہ تھا کہ بوجھ سے دیوار گر نہ جائے اور
اسی طرح دو تین مزید گھنٹے گزر گئے کوئی بھی چڑھنے کی ہمت نہ کر رہا تھا ۔ پھر
اچانک ایک نوجوان نکلا اور اللہ پاک کا نام لے کر چڑھنے لگا، لوگوں نے دعائیں شروع
کر دیں کہ یااللہ رحم کرم کر یہ لڑکا قرآن پاک اتارنے جا رہا ہے ، بس دیکھتے ہی
دیکھتے وہ اوپر گیا اور الماری بڑی احتیاط سے کھولی اور میرا پیار اقرآن سر پر
رکھا اور آہستہ آہستہ نیچے آ گیا اور لوگوں نے بھاگ کر خوشی سے اسے گلے لگا لیا ،
ہر بندہ قرآن مجید کو چوم رہا تھا اور ایک دوسرے کو دے رہا تھا ، پورا گاؤں قرآن
پاک کی عظمت کو بیان کر رہا تھا اور اللہ پاک کا شکر ادا کر رہا تھا ، ابھی سب لوگ
گھروں کو بھی نہ گئے تھے میں بھی اپنے ابو جان کی واحد نشانی کو لے کر اپنے رشتہ
دار کے گھر پہنچی بھی نہ تھی کہ ایک دھڑام سے آواز آئی اور وہ دیوار خود ہی نیچے
گر گئی ، سبحان اللہ ! سبحان اللہ ! کی گونج سارا گاؤں یک زبان ہو کر بو ل رہا تھا
۔ اللہ پاک کی قدرت کے گن گا رہا تھا تو قارئین ! یہ ایک عین سچا واقعہ ہے میری
عمر اس وقت 14 سال تھی ، اور اب میں ایک بوڑھی عورت ہوں ۔
No comments:
Post a Comment