Monday, November 16, 2015

اصلاح معاشرہ کے سلسلہ میں بڑی رکاوٹ

اصلاح معاشرہ کے سلسلہ میں بڑی رکاوٹ  :۔


گھر کے سبھی لوگ اکٹھے تھے بزم امین کے سب لوگ جمع تھے اس کا نمبر آیا تو اس نے اصلاح معاشرہ کے عنوان پر تقریر کرنا شرع کی اس نے کہا معاشرہ کی اصلاح اس لئے نہیں ہو رہی ہے کہ ہر آدمی کو اس کی فکر ہے کہ معاشرہ کی اصلاح کیسے ہو ؟ اس کی فکر بالکل نہیں کہ میری اصلاح کیسے ہو ؟ ننھی سی بچی کی اس تقریر نے پورے خاندان کو جھنجوڑ دیا ۔ اس حقیر کو اس کی تقریر سن کر جہاں اپنے اس خیال پر اعتماد بڑھا وہیں دل کی گہرائی سے یہ نکلا  "الحمدللہ الذک ھدانا لھا ذاوما کنا لنھتدی لو لا ان ھدا نا اللہ۔"اللہ تعالیٰ نے کیسا پیارا دین عطا فرمایا کہ زندگی کی چولوں کو ٹھیک رکھنے کیلئے دعوت کو فرض منصبی قرار دیا ملت اگر دعوت کو مقصد بنا لے تو خیر کے دہانے اللہ تعالیٰ کھول دیتے ہیں ۔ اس خیال سے کہ گھر میں دعوت کا ماحول بنے بچوں اور بچیوں میں دعوتی شعور بیدار ہو خاندان میں ہر گھر میں اس کا سلسلہ  شروع کیا گیا کہ ہفتہ میں ایک مجلس گھر کے افراد کی ہو اور اس میں گھر کا ہر فرد کسی موضوع پر تقریر کرے ، ا س کا فاہدہ یہ ہو گا کہ ہر فرد کو کچھ یاد کرنے اور دین کے بارے میں معلومات کا شوق ہو گا اور جب وہ دوسروں کے سامنے کہیں گے تو پھر خود ان کے اندر دین پر عمل کی توفیق بڑھے گی عید وغیرہ کے موقع پر جب سب خاندان کے لوگ جمع ہوتے ہیں جس میں یہ سلسلہ ہو تا ہے ۔ والد محترم کے نام سے اس کا نام بزم امین بزم امین ب وغیرہ رکھ دیئے گئے دعوتی پس منظر میں بچے ایسے ایسے پیرایہ میں مختلف موضوعات پر بات کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ایسی ہی تقریر اس بچی نے بھی کی ہے واقعی یہ بات بڑی کلیدی ہے کہ اصلاح معاشرہ کی ساری کوشش بے سود اس لیے ہے کہ ہر آدمی کو اصلاح معاشرہ کی فکر ہے اپنی اصلاح اور خود عمل سے بے نیاز ہو کر اصلاح معاشرہ کی کوئی کوشش سود مند نہیں ہو سکتی ہے ۔ ابلیس لعین جس کا نام عزازیل تھا جب اس کو اپنی عبادات اور مقبولیت پر غرور ہو ا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوا کہ ہم ایک بندہ کو راندہ درگاہ کرنے والے ہیں ۔سارے فرشتے تھر اگئے ہر ایک گھبرا کر عزازیل کے پاس آتا تھا کہ ہمارے واسطے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں راندہ درگاہ نہ کرے ابلیس بڑے ناز سے کہتا آپ فکر نہ کریں میں اللہ پاک سے آپ کیلئے دعا کروں گا اس کے دل میں یہ خیال بھی نہ آیا کہ میں بھی راندہ درگاہ ہو سکتا ہوں ۔ اس لئے اپنے کو اصلاح حال سے بے نیاز سمجھتا رہا ۔ یہ شیطانی جبلت ہے ہمیں اصلاح حال سے محروم کئے ہوئے ہے بس ہر ایک کو دوسروں کی اصلاح کی فکر ہے ۔ اصلاح معاشرہ کی کوشش کرنے والے مقررین کے ذہن اکثر اپنی اصلاح حال کی فکر سے خالی ہیں سچی بات یہ ہے کہ تقریر سننے والوں کے ذہن میں بھی اپنی اصلاح حال کی فکر سے خالی ہیں ، تقریر و، وعظ سن کر نکلنے والے لوگ یہ سر گوشی کرتے نکلتے ہیں کہ فلاں حاجی صاحب نے یہ بتایا دیکھا مولانا صاحب کیا فرما رہے تھے اور وہ صاحب کیا کرتے ہیں اپنے حال کا محاسبہ اور اپنی اصلاح کی کوشش اور فکر مفقود ہوتی جا رہی ہے جن مصلحین نے دنیا میں اصلاح حال کا تجدیدی کارنامہ انجام دیا وہ دوسروں کو وعظ اپنے حال کی اصلاح کیلئے کہتے تھے ۔ حکیم الامت فرماتے تھے جب میں اپنے اندر کسی چیز کی کمی دیکھتا ہوں تو دو چار وعظ اس موضوع کے کہہ لیتا ہوں گویا وہ دوسروں کو وعظ و نصیحت اس لئے کرتے تھے کہ کہنے سے خود کی اصلاح ہو جائے گی اصلاح معاشرہ میں جان پیدا کرنے کیلئے یہ سوچ کہ میں سب سے زیادہ اصلاح کا محتاج ہوں شاہ کلید ہے کاش ہمیں اس کی فکر ہو ۔

No comments:

Post a Comment