Tuesday, November 10, 2015

اسلام میں تاجروں کے فضائل و آداب

اسلام میں تاجروں کے فضائل و آداب :۔


اسلامی نقطہ نظر سے تجارت تمام پیشوں میں سے زیادہ عظمت و فضیلت اور درجہ و مرتبہ والا پیشہ ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ بعض روایات کے مطابق رزق کے دس حصوں میں سے نو حصے صرف تجارت پر ہیں اور بعض کے مطابق رزق کے بیس دروازے ہیں جن میں سے انیس دروازے اللہ پاک نے تجارت سے جوڑے ہیں اور اس لئے احادیث میں آتا ہے کہ سچے تاجر کا حشر صادقین ، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہو گا اور سچ بول کر تجارت کرنے والا عرش کے سائے تلے ہو گا ۔ اور سب سے پہلے جنت میں جانے والا ہو گا اور تجارت تمام نبیوں میں اکثر و بیشتر کا پیشہ رہا ہے ۔ اللہ پاک ہمیں بھی صحیح اصولوں سے تجارت کرنے والا بنائے اور ہمارا شمار بھی صادق و امین تاجروں میں فرمائے آمین۔
اللہ پاک نے فرمایا ! ان گھروں میں صبح و شام اللہ پاک کی تسبیح ایسے لوگ کرتے ہیں جن کو کاروبار اور خرید و فروخت اللہ پاک کی یاد نماز کے اہتمام اور زکوۃ کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتے وہ ایک ایسے دن سے ڈرتےہیں ۔ جس دن دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی ۔ کہ اللہ پاک ان کو ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے اور ان کو اپنے فضل سے مزید نوازے ۔ اللہ پاک جسے چائیں بے شمار روزی دیتے ہیں بلا شبہ اللہ پاک ہی انسانوں کے خالق اور رازق ہیں اور انسانوں کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے کفیل و ضامن ہیں کیونکہ اللہ پاک ہی سارے جہانوں اور تمام انسانوں کے پالنہار ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں بار بار مختلف اسلوب میں تمام مخلوق کو رزق بہم پہنچانے کا اعلان فرمایا ہے چنانچہ اللہ پاک نے سورہ عنکبوت میں نہایت ہی واضح اور جامع انداز میں ارشاد فرمایا کہ ۔
"اور بہت سے جانور ہیں جو اپنی روزی اٹھائے نہیں پھرتے ان سب کو اور تم سب کو اللہ پاک ہی روزی دیتے ہیں ۔ وہ بڑا ہی سننے اور جاننے والے ہیں ۔"
اور رزق رسانی کیلئے اللہ پاک نے اس دنیا میں بہت سارے وسائل و ذرائع فراہم فرما دیئے ہیں ۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ۔
" اور اس زمین میں ہم نے تمہارے لئے اسباب معاش مہیا کر دیے ہیں ۔"
اللہ پاک نے ان اسباب معاش کی تفصیل سورہ انعام کی دو آیتوں میں بیان کی ہے اور یہ واضح فرمایا ہے کہ اللہ پاک نے دنیا میں زرعی و حیوانی رزق رسانی کا بلیغ ترین انتظام فرمایا ہے ۔ اور سورہ ق سورہ رحمان اور سورہ زخرف میں مزید تفصیل یہ ہے کہ قسم قسم کے باغات موسم کے مختلف غلہ و میوہ جات اور بہت سے پھلدار درخت بہترین معاش ہیں یقیناً اللہ پاک ہی حقیقی رزاق ہیں حکیم و دانا ہیں ۔ اور ذرائع معاش کے بہترین نظم کرنے والے ہیں اور ہر ایک مخلوق کو اس کی ضرورت اور اپنی حکمت بالغہ کے مطابق رزق بہم پہنچانے والے ہیں ۔
تجارت کی اہمیت :۔ ان اسباب و ذرائع معاش میں سے قابل ذکر ذریعہ معاش تجارت ہے یہ پیشہ بہت ہی قابل قدرو عظمت اور بڑی فضیلت والا ہے ۔ بعض اکابرین امت کے نزدیک تجارت کا درجہ تمام پیشوں میں اول اور افضل ہے چنانچہ صاحب اعانۃ نے تحریر فرمایا ہے کہ اسباب معاش میں سب سے زیادہ فضیلت والا پیشہ ذراعت پھر تجارت ہے لیکن ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ تجارت سب سے زیادہ فضیلت والا پیشہ ہے ۔ اور حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی جہاد کے بعد تجارت کو ہی سب سے زیادہ بہتر اور سب سے زیادہ قابل تر جیح پیشہ قرار دیا ہے کہ سب سے بہتر کسب و کمائی جہاد ہے اس کے بعد تجارت کا درجہ ہے خاص طور پر وہ تجارت جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں یا ایک شہر سے دوسرے شہر میں مسلمانوں کی ضروریات خاص کی چیزوں کو لانے اور لے جانے کا ذریعہ ہو اس قسم کی تجارت کرنے والا شخص اگر حصول منفعت کے ساتھ مسلمانوں کی خدمت اور ان کی حاجت روائی کی نیت بھی رکھے تو اس کی تجارت عبادت کی بھی صورت بن جائے گی ۔ قرآن  و حدیث میں بھی تجارت کی بڑی فضیلیت اور تاکید و ترغیب بیان ہوئی ہے قرآن کریم نے متعدد آیات تجارت کے ذریعہ حاصل ہونے والے مالی فائدوں کو اللہ پاک کا فضل قرار دے کر تجارت کا پیشہ اختیار کرنے کی بڑی ترغیب و تاکید کی ہے ایک آیت کریمہ میں تجارت کیلئے سفر کو تہجد میں تلاوت کی تخفیف کا سبب قرار دیا گیا ہے ۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی تجارت کی بڑی قدرومنزلت وارد ہوئی ہے ایک حدیث میں ہے کہ تجارت سب سے عمدہ ذریعہ معاش ہے  آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ۔
 "سب سے عمدہ و پاکیزہ تجارت کرنے والوں پیشہ ہے ۔"
 نیز ایک دوسری حدیث میں تجارت کو قربت الٰہی کے حصول کا ذریعہ بتایا گیا ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ۔
 "جو شخص مسلمانوں کے کسی شہر میں غلہ لے کر آیا اور اس دن کے بھاؤ کے مطابق اس غلہ کو بیچا تو اس شخص کو اللہ پاک کا قرب نصیب ہو گا ۔"
اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ اپنے لئے بال بچوں اور ماتحتوں کیلئے بقدر ضرورت حلال و جائز ذریعہ سے مال کمانے کو آخرت میں سرخروئی اور کمیابی کا باعث قرار دیا گیا ہے ۔
حدیث شریف کے مبارک الفاظ یہ ہیں کہ ۔
"جو رزق حلال کمائی سے حاصل کرے تاکہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچے بیوی بچوں کیلئے مشقت اٹھائے ، پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی چاہے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کی مانند چمک رہا ہوگا۔"
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ حلال کمائی کیلئے دوڑ دھوپ کرنا اور تھک کر چور اور نڈھال ہو جانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت پسندیدہ اعمال ہیں اور یہ محنت و مشقت اللہ پاک کی مغفرت و بخشش کے ضامن ہیں آپ ﷺ کا ارشاد عالی ہے کہ۔
"حلال کمائی کے سلسلہ میں اپنے بندہ کو تھکا ماندہ دیکھنا اللہ پاک خوب پسند فرماتے ہیں ۔"
نیز آپ ﷺ نے ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ ۔
"جو بندہ شام کو اپنے ہاتھ کی  کمائی سے تھک کر چور ہو گیا تو اس کی مغفرت و بخشش ہو جاتی ہے۔"
نیز حصول رزق میں سعی کوشش بعض گناہوں کی معافی و تلافی کا ذریعہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ۔
"بعض گناہ ایسے ہیں جن کا کفارہ صرف رزق حاصل کرنے میں فکر و اہتمام اور سعی و کوشش کرنا ہی ہے ۔"
اسی طرح ایک نہایت ہی اہم اثر ہے کہ رزق حلال کی طلب میں مشقت  و پریشانی اور ذلت وخواری برداشت کرنا دخول جنت کا موجب ہے حضرت ابو اسحاق ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ نے بیان کیا ہے کہ مجھے بعض اکابرامت کا یہ قول پہنچاہے کہ رزق حلال کی طلب میں جو ذلت و خواری سے دو چار ہو گا تو جنت میں اس کا داخل ہونا بالکل طے ہے یقینا ً رزق حلال کی طلب اور اس کے حصول میں سرگرداں ہونا شریعت میں مطلوب و محمود اور مستحسن و مستحب ہے چنانچہ قرآن کریم کی دوسورتوں  سورہ قصص اور سورہ جمعہ میں حصول رزق کا صریح حکم موجود ہے اور بہت ساری احادیث مبارکہ میں کسب معاش کی تاکید موجود ہے ایک حدیث میں ہے کہ کسب حلال عبادت ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس نوجوان کا یہ عمل فی سبیل اللہ ہی ہے ۔ یہ حقیقت بھی تسلیم شدہ ہے کہ تجارت تمام ذریعہ معاش میں سب سے زیادہ فضیلت اور ترجیح والا پیشہ ہے ۔ قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں تجارت اور اس سے وابستہ افراد کی بڑی تعریف و تحسین کے سیاق میں تجارت کی موثر ترغیب موجود ہے نیز احادیث مبارکہ میں تجارت کی بڑی تاکید اور موثر ترغیب وارد ہوئی ہے ایک حدیث میں تجارت کا پیشہ اختیار کرنے کا حکم موجود ہے آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ تجارت اپناؤ کیوں کہ اس میں رزق کا نواں حصہ ہے نیز تجارت کا پیشہ تمام پیشوں میں سب سے زیادہ کا رآمد اور نفع بخش ذریعہ معاش ہے آپ ﷺ سے ایک مرسل روایت میں منقول ہے کہ رزق کے نو حصے تجارت میں ہیں اور دسواں حصہ جانوروں میں ہے ۔ اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رزق کے بیس دروازے ہیں اس میں سے انیس دروازے تجارت کیلئے ہیں۔
صحابہ و تابعین اکثر تاجر تھے:۔ تجارت کی اسی قدر و منزلت عظمت و فضیلت اور تاکید و ترغیب کی اثر آفرینی تھی کہ اکثر حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تجارت پیشہ تھے ۔  اور تجارت ان کے درمیان قابل رشک تھی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جہاد فی سبیل اللہ کے بعد اگر کسی حالت میں جان دینا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ یہ حالت ہے میں اللہ پاک کا فضل بذریعہ تجارت تلاش کرتے ہوئے کسی پہاڑی درے سے گزر  رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آ جائے حضرات تابعین کے عہد زریں میں بھی تجارت کی بڑی قدرو قیمت تھی خود تجارت کیا کرتے تھے اور دوسروں کو تجارت کا شوق دلایا کرتے تھے چنانچہ حضرت امام حسن بصری رحمۃاللہ علیہ سے منقول ہے کہ یہ بازار اللہ تعالیٰ کے عطیہ و نوازش کی جگہیں ہیں جو یہاں لینے آئے گا تو وہ پائے گا ۔اسی طرح حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ اپنے متعلقین کو تاکید فرمایا کرتے تھے کہ اپنے بازار کو لازم پکڑا لو کیونکہ ذریعہ بقدر ضرورت جائز طریقہ سے اچھی آمدنی کے ساتھ مال کما کر لوگوں سے بے نیاز رہنا ان کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا بڑی عافیت میں سے ہے ۔

تجارت اور تاجروں کے فضائل :۔تجارت تمام پیشوں میں سب سے زیادہ عظمت و فضیلت اور درجہ و مرتبہ والا پیشہ ہے اور یہ معاشرہ کے ہر عام و خاص کی ضرورت ہے ۔اوروں کی طرح ہی حضرات انبیاء کرام علیہم السلام بھی ضرورت پر خریدو فرخت کیا کرتے تھے ۔حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام بازاروں میں آمدورفت رکھتےتھے ۔نیز بکریوں کی تجارت حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے ایک حدیث میں ہے کہ معاش کے بہترین ذریعوں میں زراعت اور بکریوں کا ہے اور یہ نبیوں والا کام ہے ۔حضرت زکریا اور حضرت داؤد علیہم السلام کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ حضرت داؤد ہر روز ایک زرہ بناتے اور اس کو چھ ہزار درہم میں فروخت کرتے تھے ۔ اس چھ ہزار کو اس طرح صرف کرتے کہ دو ہزار تو اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے اور چار ہزار درہم بنی اسرائیل کے فقراء و مساکین میں بطور صدقہ و خیرات تقسیم کر دیتے سرور عالم حضرت محمد ﷺ نے بھی بعثت سے پہلے شرکت پر تجارت کی ہے ۔چنانچہ حضرت ساتب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ آپﷺ نے جاہلیت میں نبوت سے پہلے میرے ساتھ تجارت میں شرکت کی ہے اور آپ ﷺ بہترین شریک تھے ۔اسی طرح حضور نبی کریم ﷺ نے نبوت سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ مضار بت یا شرکت پر تجارت کی ہے نیز آپ ﷺ نے اجرت پر بکریاں چرائی ہیں ۔ایک حدیث میں آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی ہے کہ میں بھی اہل مکہ کی بکریاں اجرت پر چرایا کرتا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مزدوری کا ذکر خیر قرآن مجید میں مزکور ہے یقیناً حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنے دور کے حالات اور ضروریات کے مطابق بعضوں نے صنعت و حرفت کو بعضوں نے مویشی پروری کو اور بعضوں نے تجارت و کاروبار کو اختیار فرمایا اور اس طرح ان حضرات نے ہم اہل ایمان کے سامنے اپنا قابل اتباع نمونہ پیش فرمایا اور صنعت اجرت اور تجارت کی اہمیت اور عظمت بیان فرمائی خاص طور  پر ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے تجارت کی بڑی ترغیب فرمائی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ تجارت بہتر اور با برکت پیشوں میں ہے چنانچہ آپﷺ نے سب سے بہترین اور باعث برکت ذریعہ معاش کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور ہر بیع مبرور سب سے بہتر اور بابرکت ذریعہ ہیں ۔ نیز اچھی نیت کی بناء پر دنیا و آخرت میں اس کے بڑے فائدے ہیں اور صداقت امانت اور دیانت پر مبنی تجارت قیامت کے دن اللہ پاک کی خصوصی رحمت کے حصول کا ذریعہ ہے اور ان اوصاف سے متصف تاجر کو قیامت کے دن حضرات انبیاء علیہم السلام صدیقین اللہ کی رفاقت و معیت کی بشارت آپ ﷺ نے دی ہے کہ راست باز اور امانتدار تاجر حضرات انبیاء السلام کے ساتھ ہو گا۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ سچ بولنے والا تاجر عرش الٰہی کے سایہ تلے ہو گا ۔زبان اور عمل کے سچے تاجر کی جنت میں نرالی شان ہو گی سچ بولنے ولا تاجر بلا روک ٹوک جنت جائے گا آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ سچائی کے ساتھ تجارت کرنے والے کو جنت جانے سے روکا نہیں جائے گا ۔

No comments:

Post a Comment