انگلیوں کے چشموں سے
سیراب ہونے والے :۔
انگلیوں سے چشمو ں کا
جاری ہونا:۔ حضرت انس بن مالک
رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور نماز عصر کا وقت آ گیا تھا ،
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے وضو کیلئے پانی تلاش کیا نہ پایا، حضور ﷺ کے پاس
وضو کا پانی لایا گیا تو آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک اس برتن میں رکھ کر لوگوں کو حکم
دیا کہ اس سے وضو کریں ، میں نے دیکھا کہ پانی آپ ﷺ کی مبارک انگلیوں سے جوش مار
رہا تھا ، یہاں تک کہ تمام لوگوں نے وضو کیا ۔ بخاری شریف میں حضرت جابر رضی اللہ
تعالیٰ عنہ ، سے روایت ہے ۔ انہوں نے فرمایا ! حدیبیہ میں لوگ پیاسے ہو گئے ، نبی
اکر مﷺ کے سامنے ایک چھوٹا سا برتن تھا جس سے آپ ﷺ وضو فرمارہے تھے ۔لوگ آپ ﷺ کی
طرف گھبرائے ہوئے آئے ، آ پﷺ نے دریافت فرمایا کیا بات ہے ؟ صحابہ رضوان اللہ
علیہم اجمعین نے عرض کیا ۔ ہمارے پاس پانی نہیں کہ ہم وضو کریں اور پئیں ۔ سوائے
اس پانی کے جو آپ کے سامنے ہے ۔ آپ ﷺ نے اس چھوٹے سے پیالے میں اپنا ہاتھ مبارک
رکھا تو پانی آپ ﷺ کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے ابلنے لگاجس طرح کہ پانی چشمہ سے
جوش مارتا ہے ہم سب نے پیا اور وضو کیا ۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ حضرت کتنی تعداد
میں تھے ؟ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، نے فرمایا اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو
ہمارے لئے کافی ہوتا ہم پندرہ سو آدمی تھے۔
ایک گھونٹ پانی سے لشکر
کا سیراب ہونا :۔ حضرت ابو قتادہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے آپ
ﷺ نے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میں نے عرض کیا جی یار سول اللہ ﷺ !
میرے پاس وضو کا برتن ہے اس میں تھوڑا پانی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ! اسے لے آؤ ، میں
اسے آپ ﷺ کے پاس لایا اور آپ ﷺ نے فرمایا تھوڑا تھوڑا کر کے اسے ڈالو اور آپ ﷺ نے
وضو کیا اور اس وضو کے برتن میں ایک گھونٹ پانی رہ گیا تھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے
ابو قتادہ ! اسے حفاظت سے رکھنا ، اس پانی کیلئے عنقریب ایک خبر ہو گی ۔ حضرت ابو
قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، فرماتے ہیں جب دوپہر سخت ہوئی تمام لوگ حضور نبی کریم
ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ہم پیاس سے تباہ ہو رہے ہیں اور اونٹ پیاس
سے نڈھال ہو گئے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا تم ہلاک نہیں ہو گے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے حکم
دیا ! اے ابو قتاد ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ وضو کا برتن لے آؤ ، میں اسے آپ ﷺ کے
پاس لے کر گیا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا ۔ کجاوہ میں سے میرا بڑا پیالہ کھول لاؤ ،
میں نے اس پیالہ کو کھلا اور آپ ﷺ کے پاس لایا ۔ آپ ﷺ اس وضو کے برتن سے ان میں
پانی ڈالتے جاتے تھے اور لوگ پی رہے تھے ۔ یہ دیکھ کر تمام لوگ آپ ﷺ کے پاس جمع ہو
گئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگو ! جماعت کے ساتھ نرمی برتو ، تم میں سے ہر شخص سیراب
ہو کر واپس ہو گا تو تمام قوم نے پیا ۔ یہاں تک کہ سوائے میرے اور حضور نبی کریم ﷺ
کے کوئی نہ بچا ۔ آپ ﷺ نے میرے لیے پانی ڈالا اور فرمایا اے ابو قتادہ ! پی میں نے
عرض کیا یارسول اللہ ﷺ آپ ﷺ پہلے پی لیجئے آپ ﷺ نے فرمایا ! قوم کے ساقی کا نمبر
پینے میں بعد میں ہوتا ہے ۔ چنانچہ میں نے پیا ، اس کے بعد آپ ﷺ نے پیا اور اس وضو
کے برتن میں اتنا ہی بچ گیا جتنا پہلے تھا اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد اس موقع پر تین سو تھی ۔ ابراہیم کی
روایت میں ہے کہ سات سو کی تعداد تھی۔
معجزہ رسول اللہ ﷺ چشمہ
بہہ نکلا:۔ مسلم شریف میں حضرت
معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔ مسلم نے پوری حدیث غزوہ تبوک میں
نزار کے جمع کئے جانے کے بارے میں بیان کی ہے ۔ یہاں تک کہا کہ رسول اکرم ﷺ نے
فرمایا ! تم کل انشاءاللہ تبوک کے چشمہ پر پہنچ جاؤ گے اور تم اس وقت تک نہ پہنچو
گے جب تک کہ آفتاب چاشت کے وقت پر نہ آ جائے تو جو شخص اس پانی پر پہنچے اس پانی
کو جب تک میں آ جاؤں ہاتھ نہ لگائے ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے
ہیں کہ ہم ( اسی وقت جو آپ ﷺ نے فرمایا تھا) چشمہ پر پہنچے اور دو آدمی پہلے سے اس
چشمہ پر جا چکے تھے اور وہ چشمہ جوتے کے تسمہ کے برابر تھوڑا تھوڑا بہہ رہا تھا تو
حضور ﷺ نے ان دونوں اشخاص سے پوچھا کیا تم نے اس کے پانی کو ہاتھ لگایا تھا؟ انہوں
نے کہا ہاں ! آپ ﷺ نے ان دونوں کو برا بھلاکہا اور جو کچھ اللہ نے چاہا کہ آپ ﷺ
کہیں وہ کہا ۔ اس کے بعد تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے چشمہ سے تھوڑا
تھوڑا پانی لیکر ایک برتن میں جمع کیا ۔ آپ ﷺ نے اس میں اپنا چہرہ مبارک اور ہاتھ
مبارک دھویا پھر اس پانی کو اسی چشمہ میں ڈال دیا تو وہ چشمہ بہت پانی کے ساتھ
بہنے لگا اور تمام لوگوں نے اس سے پانی پیا ۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا ! اے
معاذ! قریب ہے کہ تمہاری عمر طویل ہو اور تم اس جگہ کو دیکھو گے کہ یہ جنوں سے بھر
گئی ہے۔
آسمان کے ڈول سے سیراب
کیا جانا:۔ عثمان بن قاسم نے
بیان کیا کہ جب حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ہجرت کی تو انہیں مقام منصرف
میں شام ہو گئی ۔ مقام روحاء سے پہلے ہی یہ پیاسی ہوئیں اور ان کے پاس پانی نہیں
تھا ۔ اور یہ روزہ دار تھیں ، انہیں پیاس نے بڑی مشقت میں ڈال دیا تھا ان پر آسمان
سے پانی کا ایک ڈول سفید رسی میں لٹکایا گیا ، انہوں نے اسے لیا اور اس سے پانی
پیا ، یہاں تک کہ سیراب ہو گئیں یہ فرمایا کرتی تھیں کہ اس کے بعد مجھے کبھی پیاس
نہیں لگی ، حالانکہ میں نے سخت گرمیوں میں روزہ رکھ کر پیاس اختیار کرنی چاہی اس
پانی پینے کے بعد کبھی بھی میں پیاسی نہ ہوئی اور اگر میں گرم سے گرم دنوں میں
روزہ رکھتی ہوں تو پیاسی نہیں ہوتی ۔
No comments:
Post a Comment