پہلے بچے
کو دودھ پلانا ایک امتحان ! مگر اب نہیں
:۔
قارئین ! آپ ماں کے دودھ کے فضائل و فوائد تو پڑھتے ہی رہتے
ہیں ۔ اس میں کوئی شک اور دوسری رائے نہیں
ہے کہ ماں کا دودھ ہی بچے کی اصل زندگی ہے جس بچے نے ماں کا دودھ نہیں پیا ہوتا وہ
ساری زندگی مختلف امراض کا شکار رہتا ہے ۔ مگر آج میں یہ مضمون خاص طوورپر اپنی ان
بہنوں کیلئے لکھ رہا ہوں جن کی ابھی شادی ہوئی اور پہلا ہی بچہ ہے کیو نکہ ایسی
مائیں بچے کو ددھ پلاتی ہیں تو بہت سے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔ذیل میں اپنی
بہنوں کو بچے کو دودھ پلانے کا طریقہ اور احتیاطیں بتا رہا ہوں یقیناً میرے اس
مضمون سے بہت سی بہنوں کی پریشانی دور ہو جائے گی۔
٭ ماں ہر دفعہ بچے کو دونوں پستانوں سے دودھ پلائے، دودھ
پلاتے وقت ماں آرام دہ پوزیشن میں ہو اور بچہ ٹھیک طریقے سے دودھ پی رہا ہوں ۔ دودھ
پلاتے وقت بچے کا جسم ماں کے جسم سے قریب تر ہونا چاہیے بچے کی ٹھوڑی اور دہانہ
چھاتی کے ساتھ ہو اور اس کامنہ پورا کھلا ہوا ہو ۔
٭ دودھ پلاتے وقت بچے کی پوزیشن ٹھیک ہو جلد جلد اور بار بار
دودھ پلائیں دونوں پستانوں سے بچے کو بار
بار دودھ پلایا جائے اور ہر بارپستانوں کو خالی کر دیں اس طرح ماں کے پستانوں میں
دودھ کی مقدار میں اضافہ ہو گا۔
٭اگر ماں کے پستان مکمل طور پر خالی ہو جائیں تو ا س سے
دودھ پیدا ہونے کے عمل میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے ۔
٭بچے کو اس طرح تھامنا چاہیے کہ اسے چھاتی تک پہنچنے میں
کوشش نہ کرنی پڑے ، بچے کا منہ بالکل سامنے ہو ۔
٭ جہاں تک ممکن ہو بچے کو افقی پوزیشن کی بجائے نیم دراز
پوزیشن میں تھامنا چاہیے ۔ اس پوزیشن میں بچے زیادہ دودھ پیتے ہیں ، بیٹھ کر بچے
کو دودھ پلانا مناسب ہے اس طرح بچہ چھاتیوں سے قریب ہوتا ہے اور آسانی سے دودھ پی
سکتا ہے ۔
٭بچہ دودھ پینے کہ دوران صرف ناک سے سانس لے چنانچہ دودھ
پلانے کے دوران ناک کے راستے کا بے رکاوٹ رہنا بہت ضروری ہے احتیاط کریں کہ دودھ
پلانے کے دوران پستان کے ذریعے بچے کی ناک پر دباؤ نہ پڑے اگر پستان بچے کی ناک پر
دباؤ ڈالے تو اس کی ناک کا راستہ بند ہو جائے گا اور وہ سانس لینے کی کوشش میں ہوا
بھی نگل لے گا۔
٭ اگر بچہ کمزور ہو اور اچھی طرح سے دودھ نہیں پی سکتا تو
ماں کو ہاتھ سے اپنی چھاتی دبا کر دودھ پلانے میں بچے کی مدد کرنی چاہیے۔
٭ اگر بچے کو فیڈر سے دودھ پلانے کی ضرورت پیش آئے تو فیڈر
نپل اور دیگر سامان کو اچھی طرح ابلتے ہوئے پانی میں دھو کر جراثیم سے پاک کر لیں
۔
٭ دودھ پلانے والی ماں کو صاف ستھرا رہنا چاہیے اس کےعلاوہ
اردگرد کا ماحول بھی صاف رکھنا ضروری ہے اس سےجراثیم کے پھیلنے بڑھنے کا امکان کم
ہو جاتا ہے اور بیماریوں کی روک تھام میں مدد لتی ہے ۔
٭ خواتین کو اپنی صفائی پر توجہ دینی چاہیے خاص طور پر جائے
ٖضروریہ سے فارغ ہونے کے بعد بچہ کو صاف کرنے کے بعد کھانا پکانے یا کھلانے کے بعد
، کھانے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح دھو لینا بہت ضروری ہے ۔
٭بچے کو دودھ پلاتے وقت ماں رنج و غم ۔ فکر ، غصہ اور
پریشانیوں سے بالکل آزاد ہو ۔ ایسی کیفیت میں بچے کو دودھ پلانا بچے کو چڑ چڑا اور
غصیلا بنا دے گا ۔
٭ محنت و مشقت، آگ کے پاس بیٹھ کر کام کرنے اور جنسی ملا پ کے
بعد بچے کو اس وقت تک دودھ نہ پلائیں جب تک جسمانی درجہ حرارت اعتدال پر نہ آ جائے
۔
٭ دودھ پلانے والی ماؤں کو دوائیں استعمال کرنے کے معاملے میں
بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت
سی دوائیں ماں کے دودھ میں شامل ہو کر نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں ۔
٭ اگر ماں کیلئے دوا استعمال کرنا لازم ہو اور دوا بھی خاصی
حد تک محفوظ ہو تو اسے دودھ پلانے کے تقریباً ایک گھنٹہ بعد اور دوبارہ دودھ پلانے
سے تین گھنٹے پہلے استعمال کرنا چاہیے ۔ کوئی بھی دوا استعمال کرنے سے پہلے ڈاکٹر
سے مشورہ بے حد ضروری ہے ۔
٭ماں کو چاہیے کہ دودھ پلانے کے دوران خود اچھی طاقت و
توانائی سے بھر پور غذا استعمال کرے جس میں وٹامن ، نمکیات اور پروٹین موجود ہوں ۔
دودھ پلانے عالی خاتون کو نہ صرف اپنی غذائی ضرویات پوری کرنی ہوتی ہیں بلکہ نشوو
نما پانے والے بچے کی بھی ضروریات پوری کرنا ہوتی ہیں ۔ دودھ پلانے کے دوران مناسب
خورااک ماں کو صحت مند رکھتی ہے اور دودھ کی مقدار زیادہ کرنے میں مدد دیتی ہے ۔
بچے ماں کے دودھ سے محتلف غذائی اجزا مثلاً وٹامن ، پروٹین ، نمکیات ، فافورس
وغیرہ حاصل کرتے ہیں اس لئے دودھ پلانے والی ماؤں کی خوراک میں ان غذائی اجزاء کی
مناسب مقدار ہونی چاہیے اگر غذامیں یہ اجزا موجود نہ ہوں تو ماں اور بچے کی صحت
خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے اور ماں کا دودھ بھی کم ہو سکتا ہے ۔
ماں اپنے بچے کو دودھ
کب تک پلا سکتی ہے:۔ قرآن مجید میں
اللہ رب العزت کا ارشاد پاک ہے ۔
"اور مائیں دودھ
پلائیں اپنے بچے کو پورے دو برس ۔"
بچے کو دو سال تک دودھ پلانا ماں کی شرعی ذمہ داری ہے۔ یہ
ماں اور بچہ کے درمیان باہمی شفقت اور ہمدردی اور بچے کے دل میں ماں کے لئے احترام
و فرمانبرداری کا باعث ہے ۔ لڑکی ہو یا لڑکا دونوں کو دو، دو سال دودھ پلایا جائے،
ماں باپ چاہیں تو دو سال سےپہلے دودھ چھڑوا دیں مگر دو سال کے بعد دودھ پلانا
مناسب نہیں ۔ بچے کو موافق دودھ اس کی ماں کا ہی ہوتا ہے لیکن کوئی مجبور ی ہو یا
ماں کا دودھ خراب ہوتو کوئی دودھ پلانے والی نیک اور متقی عورت مقرر کی جائے ۔ ماں
خواہ مطلقہ ہو یا نہ ہو اس پر اپنے بچہ کو دودھ پلانا واجب ہے بشرطیکہ باپ کو اجرت
پر دودھ پلوانے کی قدرت و استطاعت نہ ہو یا کوئی دودھ پلانے ولای میسر نہ آئے یا
بچہ ماں کے سوا اور کسی کا دودھ قبول نہ کرے۔اگر یہ باتیں نہ ہوں یعنی بچہ کی
پرورش خاص ماں کے دودھ پر موقوف نہ ہو تو ماں پر دودھ پلانا واجب نہیں ، مستحب ہے
۔ اگر بچہ کو دودھ کی ضرورت نہ رہے اور دودھ چھڑانے میں اس کیلئے خطرہ نہ ہو تو دو
سال سے کم مدت میں بھی دودھ چھڑانا جائز ہے ۔بچہ کی پرورش اور اس کو دودھ پلوانا
باپ کے ذمہ واجب ہے اس کیلئے وہ دودھ پلانے والی مقرر کرے لیکن اگر ماں اپنی رغبت
سے بچہ کو دودھ پلائےتو مستحب ہے ۔ شوہر اپنی زوجہ پر بچہ کے دودھ پلانے کیلئے جبر
نہیں کر سکتا اور نہ عورت شوہر سے بچہ کے دودھ پلانے کی اجرت طلب کر سکتی ہے جب تک
کہ اس کے نکاح اور عدت میں رہے ۔ ایک صحت مند ماں اپنے بچے کو دو سال تک دودھ پلا
سکتی ہے ۔ دو سال سے زیادہ دودھ پلانا مناسب نہیں ہے کیونکہ ماں کی چھاتیوں میں
دودھ کی پیدائش بھی کم ہو جاتی ہے اور بچے کی بھوک بھی بڑھ جاتی ہے اور اس کے دانت
نکل آتے ہیں اب اس کو دوسری غذائیں دی جا سکتی ہیں جن کو وہ دانتوں سے کاٹ کر اور
چبا کر کھا سکتا ہے ۔ دودھ چھڑانے کیلئے ماں بچے کو دودھ پلانے میں آہستہ آہستہ
کمی کرے روزانہ دودھ پلانے میں کمی کرتی جائے اور ساتھ ساتھ ٹھوس غذا اور کسی
جانور کا دودھ برتن میں ڈال کر بچے کو دے اور اس طرح وہ برتن سے دودھ پینے اور
ٹھوس غذاکھانے کا عادی ہو جائے گا۔
No comments:
Post a Comment