Thursday, December 3, 2015

بچوں کی خراب لینگویج ! وجوہات و سد باب

بچوں کی خراب لینگویج ! وجوہات و سد باب  :۔



بچہ والدین کی پرچھائی ہوتا ہے ۔ وہ زندگی کا ہر بنیادی طرز عمل گھر سے سیکھتا ہے ، ہمارے مذہب میں بچے کے پیدا ہونے پر اس کے کان میں اذان یعنی اللہ کا نام پکارا جاتا ہے تاکہ بچہ زندگی کا پہلا لفظ سنے تو اپنے تخلیق کرنے والے کو یاد رکھے اس کے کان میں والدین کے جملے ، باتیں اور گالم گلوچ بھی پڑتی ہے ۔ یہ سب Input اور Out put کا معاملہ ہے جو کچھ بچے کے کان میں Input ہو گا اس کے ہونٹوں سے Output کی صورت  سے باہر نکل آئے گا ۔ بچہ جو کچھ اپنے بڑوں سے سنتا ہے اس کے ذہن پر نقش ہو جاتا ہے اور پھر موقع محل ہو یا نہ ہو وہ انہی الفاظ کو دہرا دیتا ہے  خوف انسان کی جبلت میں شامل ہے ۔ بچے کو بری باتوں اور برے کاموں سے روکنے کیلئے اوائل عمر سے اسے ڈرایا جاتا ہے " یہ نہ کرو ورنہ اللہ آ جائے گا ۔ یا اگر تم یہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ ماریں گے " اسی طرح بچے سے کوئی سچ اگلوانا ہو تو اسے اللہ کی قسم دلوانا بھی بڑے یا والدین سکھاتے ہیں ؟ بچہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے وہ اللہ کے خوف کو بھولتا جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس کی ، کی گئی غلطیوں پر کبھی اللہ نہیں آیا لیکن وہ اللہ کی قسم کو اپنی حفاظت یا بچت کیلئے استعمال کرتا ہے ۔ چھوٹی عمر میں بچے کو جھوٹ کے نقصان سمجھانا ایسا ہی ہے جیسا ہمالیہ کی چوٹی سر کرنا لہذا کوئی بھی شرارت بچہ کرتا ہے۔ وہ قسم کھا کر اس سے انکار کرتا اور جھوٹ کا سہارا لیتا ہے ۔ گھر میں اگر زائد بچے ہوں اور ان کے درمیان عمر کا فرق ہو تو ان کی آپس کی لڑائی اور گالم گلوچ کا طرز عمل ان کے والدین کے برعکس بن کر سامنے آتا ہے اور جب والدین اپنے چار سے دس برس کے بچوں کے منہ سے گالیاں قسمیں اور معیوب زبان سنتے ہیں تو انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی بے خیالی یا نظر انداز نے پانی سر سے اونچا کر دیا ہے۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت کی مصداق اپنے بچوں کو بدگوئی سے بچانا عقدہ لایخل ہوتا ہے ۔ پر یہ سوچ کر اس تربیت پر گامزن ہو جاتے ہیں جس میں دیر تو ہو گئی ہے لیکن بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ کیا آپ والدین نے اس رخ پر کبھی سو چاہے یا نہیں ! توآج ہی سے اپنے بچوں پر نظر رکھئے اور مشاہدہ کیجئے کہ آپ سے کوتاہی کہاں ہوئی ۔ کیا آپ کے بچے نے یہ بدگوئی آپ سے سیکھی ہے ،یا بچے کی گفتگو جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ان کے ماحول اور اردگرد موجود لوگوں ، والدین یا بڑوں کی گفتگو کے برعکس ہوتی ہے بچے اس تناظر میں توجہ حاصل کرنے کیلئے بھی ان جملوں کا استعمال کرتے ہیں جو بڑے اکثر بولتے ہیں ۔ اس سلسلے میں وہ والدین انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں ، وہ اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں بہت فکر مند اور ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ والدین کی آپس میں نوک جھونک ، طعنہ زنی ، گالم گلوچ یا غصے کی حالت میں برا بھلا کہنا بچو کو نہ صرف سراسیمہ کرتا ہے بلکہ وہ دماغی تناؤ کی صورت میں لاشعوری طور پر ان الفاظ کو دہراتے ہیں اور جب وہ کسی بات پر غصہ کرتے ہیں تو ان الفاظ کو دہرا دیتے ہیں ۔ اس قسم کے روہیے کو ماہر نفسیات Conduct Disorder کہتے ہیں ۔ اس قسم کے کیس میں بچہ گالم گلوچ کے علاوہ دوسری خراب عادتیں بھی سیکھتا ہے ۔ ریسرچ بتاتی ہے کہ اس قسم کے بچوں میں نیو کیمیکل کی سطح کم ہوتی ہے ۔ ماہر نفسیات کے مطابق بچے کا یہ رویہ غیر صحت مندانہ ہوتا ہے اور وہ اس رویہ کو کسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے استعمال کرتے ہیں ، جو ان کی شخصیت کو بگاڑنے میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔ وہ اس شخصیت کے اس بگاڑ کو  Tic Disorder کہتے ہیں ۔ بچہ جسمانی ردعمل کا تیز رفتاری سے مظاہرہ کرتا ہے یعنی ٹکر مارنا ، تھپڑ مارنا وغیرہ ۔ اور دوسرا Vocal Tics ہے جس میں بچہ ان باتوں کو بار بار دہراتا ہے جس کا مطلب اسے معلوم بھی نہیں ہوتا ۔ وہ والدین جن میں ماہر نفسیات یا مشورہ سازوں کو بھاری بھر کم معاوضے دینے کی سکت نہیں ہوتی ان کیلئے کچھ ہدایات ہیں لیکن پہلے بچوں میں بری عادات پر نظر دوڑائیے آپ کو میڈیا کے برے اثرات کا بچے کے ذہن پر پڑنے کا بخوبی ادراک ہونا چاہیے ۔ بچوں میں بڑوں کا یا اپنے پسندیدہ ہیروز کی نقل کرنے کا رجحان ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے پسندیدہ کارٹون کرداروں کی نقل کرنا بھی پسند کرتے ہیں ۔بچے گفتگو کا بہت حصہ اپنی آیاؤں ، سکول بس ڈرائیور گھر میں کام کاج کرنے والی نوکرانیوں یا ماسیوں سے سیکھتے ہیں ۔ بہت سے تہذیب یافتہ والدین بھی منہ پھٹ ہوتے ہیں ۔ وہ نوکروں یا ڈرائیوروں کو گالم گلوچ سے نوازتے ہیں ۔ جس سے بچے بھی ان الفاظ کا استعمال سیکھتے ہیں ۔اس کے سدباب کیلئے سب سے پہلے آپ کوا س خراب زبان کو روکنا ہو گا ۔جو آپ دوسرے لوگوں کے ساتھ استعمال کرتے ہیں ۔ یعنی ڈرائیور ، نوکروں یا اپنے پڑوسیوں سے بھی ۔ سب سے پہلے تو ان الفاظ کے معنی بچوں کو سمجھائیے انہیں بتائیے کہ یہ بہت غلط الفاظ ہیں ، آئندہ اگر انہوں نے یہ الفاظ کہے تو ان کو قرار واقعی سزا دی جائے گی ۔اچھے اور پیار بھرے الفاظ خود بھی استعمال کیجئے بچوں کو بھی سکھائیے بچے اگر کوئی خراب لفظ غصے کی حالت میں بول رہے ہیں تو آپ ٹھنڈے مزاج سے اسے روکئے، اور سمجھائیے۔اسے پہلے پانی کا گلاس دیجئے اور سکون سے بٹھائیے۔ اس سے اسے غصہ کنٹرول کرنے میں بھی مدد ملے گی اور پھر آہستہ آہستہ اس کے الفاظ پر اسے سرزنش کیجئے۔ٹی وی پروگرام میں اگر کوئی بری بات یا خراب لینگوئج ہے تو فوراً اس پرسخت ردعمل کیجئے۔بچے کو بتائیے کہ ٹی وی پر کہے گئے الفاظ غلط ہیں اور جو کردار ایسے الفاظ استعمال کر رہے ہیں وہ انتہائی برے ہیں اور ان کی تقلید نہیں کرنی چاہیے۔ بچے کو اچھی کتابیں پڑھنے کو دیجئے ، نصیحت آموز کہانیاں اور قصے ، بچوں کو بہت ساری اچھی باتیں سکھانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔بچوں کو اچھے رول ماڈل دیجئے وہ ان کی تقلید میں خود بھی اچھے رول ماڈل بننے کی کوشش کریں گے ۔

No comments:

Post a Comment