ادویات کا نہیں ٹانگوں کا سہارا لیں
اور صحت مند رہیں :۔
یہ
1960ء کی بات ہے میں نیا نیا لاہور سے ملتان آیا تھا اور چونکہ میں شروع سے صبح کی
سیر کا عادی ہوں ،اس لئے حسن پروانہ کالونی سے سیر کرتا ہوا کمپنی باغ کی طرف نکل
جاتا اور پھر وہیں سے واپس لوٹ آتا تھا ۔ میں روزانہ ایک بزرگ کو دیکھتا جو
انتہائی تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے شیر شاہ روڈ کی طرف نکل جاتے انکے سر کے بال بھی
سفید تھے اور چہرے پر چھوٹی سی خوبصورت ڈاڑھی وہ بھی تقریباً سفید عمر ساٹھ سال کے
لگ بھگ ہو گی لیکن ان کے چلنے کے انداز میں تیزی طراری کا عمر سے کوئی تعلق نظر
نہیں آتا تھا شام کو مغرب کے بعد جب میں سیر کو نکلتا تو یہ بزرگ اسی چستی اور
تیزی سے واپس آتے بھی نظر آتے ۔یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا ایک دن مجھ سے نہ رہا
گیا ۔ میں نے راستہ روک کر ان سے پوچھا کہ وہ اس عمر میں اتنی تیزی سے کیوں اور
کیسے چلتے ہیں ان کی سیر کہاں سے شروع ہوتی اور کہاں ختم ہوتی ہے ؟وہ بزرگ میرے اس
سوال پر مسکرائے اور یوں گویا ہوئے یہ میرے تفریح نہیں بلکہ زندگی کا معمول ہے میں
اسماعیل آباد ملز میں ملازم ہوں اور روزانہ بوہڑ گیٹ سے مظفر آباد ملز میں ڈیوٹی
پر جاتا ہوں اور شام کو بھی پیدل ہی واپس آتا ہوں اور چونکہ فاصلہ ذرا زیادہ یہی
کوئی سات آٹھ میل ہے اس لئے اگر میں تیز نہ چلوں تو وقت پر ڈیوٹی پر نہیں پہنچ
سکتا اور یہ عمل میں گزشتہ دس بارہ سال سے کر رہا ہوں سردی گرمی برسات اور کوئی
بھی موسم میرے اس معمول میں رخنہ انداز نہیں ہو سکا ۔انہوں نے بتایا کہ پیدل چلنا
میری ضرورت بھی ہے زندگی بھی ہے اور یہی میری خوشی کا سامان بھی ہے سحر خیزی اور
صبح کی سیر کا ایک شاعرانہ تصور بھی ہے اور وہ یہ کہ ہم منہ اندھیرے کسی باغ یا
بڑے پارک کی طرف نکل جائیں یا پھر ندی نالے کے کنارے یا کسی پہاڑی کے دامن میں
قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سیر کریں اور کہیں کہ سبحان اللہ! کیا پر
فضامقام ہے ہرے بھرے درختوں پر پرندے چہچہا رہے ہیں پہاڑی سے اترتا ہوا جھرنے کا
پانی ترنم ریزی کے ساتھ روں دواں ہے تازہ ہوا کہ نرم جھونکے سانس کو معطر کر رہے
ہیں اور جی چاہتا ہےکہ صبح کی یہ تازگی پورے جسم و جاں میں سرایت کر جائے ۔ لیکن
سچ تویہ کہ پیدل سیر کرنے کیلئے جگہ اور وقت کی کوئی شرط نہیں ہے شہر ہو یا دیہات صبح
ہو یا شام آپ اپنی سیر کیلئے جگہ اور قوت کا تعین اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں سائنسی
نقطہ نظر سےیہ شرط ضرور ہے کہ سیر کا عرصہ نصف گھنٹے سے ہر گز کم نہ ہو اور چلنے
کی رفتار بھی سست نہ ہو، اور چلنے کی رفتار بھی سست نہ ہو لیکن اس کا یہ مطلب بھی
نہیں کہ آپ سر پٹ بھاگتے رہیں اور دائیں بائیں مڑ کر بھی نہ دیکھیں بلکہ ہونا یہ
چاہیے کہ سیر کرتے وقت آس پاس کے مناظر کا مشاہدہ کریں قدت کی رعنائیوں پر نظر
ڈالیں اور اگر جی چاہے تو تھوڑی دیر کہیں بیٹھ بھی جائیں ۔ اچھی خوشگوار اور تیز
رفتار سیر کے بعد ہمیشہ تازگی اور توانائی کی ایک نئی لہر آپ کے جسم و جاں کو
محسوس ہو گی پیدل چلنا ایک سائنسی ورزش ہے اور اس کے بے شمار فائدے ہیں مثلاً یہ
کہ اس سے دوران خون میں تیزی اور باقاعدگی پیدا ہوتی ہے جسم میں توانائی کی لہر
بیدار ہوتی ہے ذہنی اور جسمانی تناؤ کم ہوتا ہے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نکھر آتی
ہے طبیعت ہشاش بشاش رہتی ہے اور عمر لمبی ہوتی ہے ۔ حال ہی میں امریکی ماہرین صحت
کی ایک منتخب ٹیم نے سترہ ہزار مردوں اور عورتوں کی عادات و اطوار پر برسوں کی
تحقیق کے بعد یہ رائے دی ہے کہ جو لوگ پیدل چلتے ہیں اور ورزش کرتے ہیں وہ دل کی
بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں اچھی صحت کا لطف اٹھاتے ہیں اور زیادہ عرصے تک اس عالم
رنگ و بو میں زندہ رہتے ہیں ۔ ورزش کے یوں تو ہزاروں طریقے ہیں لیکن پیدل چلنا سب
سے آسان ااور سب سے بہتر ورزش ہے ان ماہرین کی رپورٹ یہ ہے کہ جو لوگ ہفتے میں 9
میل پیدل چلتے ہیں وہ ہفتے میں تین میل چلنے والوں کے مقابلے میں زیادہ لمبی عمر
پاتے ہیں۔ذہنی اور جسمانی تناؤ اور کشیدگی ختم کرنے کے سلسلہ میں پیدل چلنا ایک
لاجواب نسخہ ہے جن لوگوں کو خود تجربہ ہے وہ یقیناً اس کی گواہی دیں گے لیکن جن
لوگوں کو ذاتی تجربہ نہیں ہے انہیں ماہرین صحت کی اس بات پر اعتبار کر لینا چاہیے
کہ پیدل چلنا ایک ایسا عمل ہے جس کے تمام اعصاب اور جوڑ حرکت میں آ جاتے ہیں اور
یہ حرکت طبعی اور نفسیاتی طور پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے آج کل کون نہیں جانتا
کہ موٹاپا بہت سی بیماریوں کی علامت ہے اس لئے آج کا انسان وزن گھٹانے کے ہزار جتن
کر رہا ہے سلمنگ کے مرکزوں میں حاضر ی دیتا ہے ۔
ہزاروں
روپے برباد کرتا ہے مشینوں اور مختلف دواؤں کا سہارا لیتا ہے لیکن وہ خود اگر اپنی
دونوں ٹانگوں کا سہارا لے اور پیدل چلنے کا نسخہ آزمائے تو بیماری کا علاج خود
اپنے اختیار میں ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے آئیے ہم جدید سائنسی تحقیقات
کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ ورزش اور غذا جسم پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے صحت کے
ممتاز ماہرین نے پچیس ایسی خواتین کو جن کا وزن بہت زیادہ تھا ایک طے شدہ پرگرام
پر عمل کرنے کی تاکیدکی جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے جسم میں روزانہ پانچ سو
کیلوریز یا حرارے کم کریں ان خواتین کو تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا ۔
1.
غذائی گروپ :۔ اس گروپ میں شامل خواتین نے خوراک میں پانچ سو حراروں کی کمی کر دی
اور ورزش میں کوئی تبدیلی نہ کی یعنی پہلے کی طرح جاری رکھی ۔
2.
ورزش گروپ :۔ اس گروپ کی خواتین نے روزانہ پانچ سو حرارےگھٹائے لیکن خوراک پہلی ہی
رکھی ۔
3.
غذائی اور ورزشی گروپ :۔ اس گروپ کی خواتین نے روزانہ خوراک میں ڈھائی سو حرارے کم
کر دیئے اور اتنی ورزش کی کہ ڈھائی سو حرارے ضائع ہو جائیں ۔نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے
اور تیسرے گروپ میں شامل عورتوں میں سے ہر ایک کا وزن بارہ پاؤنڈ کم ہو گیا ۔ جبکہ
دوسرے گروپ والیوں کا ساڑھے دس پونڈ کے قریب وزن کم ہوا لیکن غذائی گروپ کے مقابلے
میں باقی دونوں گروپوں کی عورتوں کے جسم میں داخل کریں اس سے ساڑھے تین ہزار حرارے
خرچ کریں ۔ لہذا ہر ہفتے ایک پونڈ وزن کم کرنے کیلئے لازم ہے کہ آپ کے جسم میں روزانہ پانچ سو حرارے کم ہوتے رہیں
اور اس کی سب سے آسان ترکیب یہ ہے کہ آپ ہر ہفتے پندرہ میل پیدل چلیں اگر غذا میں
بھی تھوڑی سی احتیاط برتیں تو آپ کا مسئلہ زیادہ جلدی حل ہو سکتا ہے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ورزش سے بھوک بڑھتی ہے
اور اس طرح جسم میں اور زیادہ کیلوریز کا اضافہ ہو جاتا ہے لیکن یہ بات درست نہیں
اور ایسی باتیں وہ کرتے ہیں جو ورزش کے بے شمار فوائد کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں
کسی بھی ورزش سے پورا فائدہ اٹھانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ مسلسل اور باقاعدہ ہو
۔ پیدل چلنا ایک ایسی ورزش ہے جس کیلئے کسی مشیر ، کسی کوچ ، کسی ڈاکٹر یا مشین کی
ضرورت نہیں ہے ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس میں جو محنت ہے اس کا بھی ایک خاص
لطف ہے ۔ لہذا آپ کیلئے ہمارا مخلاصانہ مشورہ یہی ہے کہ سادہ غذا کھائیں اور اپنے
حوصلہ کے مطابق پیدل چلیں اور خوش و خرم زندگی بسر کریں ۔
No comments:
Post a Comment