منت مان کر پوری نہ کرنے کا انجام :
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں اس وقت بہت پریشان ہوں ، میری عمر گزرتی جارہی ہے اور میرا پورا گھر میری شادی کی وجہ سے بہت پرشان ہے ۔ ہمار ا پورا گھر ناکامی کا منہ پچھلے بارہ تیرہ سال سے دیکھ رہے ہیں ، میرے تمام بہن بھائی کسی نہ کسی مشکل میں کہیں نہ کہیں پھنسے ہوئے ہیں ۔ بظاہر کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا مگر مسائل اتنے ہیں کہ میری والدہ اولاد کی پریشانیوں کی وجہ سے ساری ساری رات بیڈ پر بیٹھ کر گزراتی ہیں ۔ اب ذرا آپ ہم بہن بھائیوں کی پریشانیاں پڑھیں ۔ میری شادی میں شدید رکاوٹیں ، میرے بڑے بھائی بیرون ملک رہتے ہیں ان کا بھی رشتہ ابھی تک نہیں ہو ا، حالانکہ ان کی عمر 48 سال ہو چکی ہے ، وہاں بھی دربدر کی ٹھو کریں کھا رہے ہیں ۔ اس سے چھوٹا بھائی بھی یورپ میں پچھلے 17 سال سے ہے ، مگر اسے نیشنلٹی نہیں مل رہی ، ایک بار اس کی فائل سامنے آئی مگر اس کے اندر کاغذات کسی اور کے تھے پھر کام لیٹ ہو گیا ۔ 20 سال کی عمر میں یورپ گیا تھا اب وہ سب سے دور بھاگتا ہے ، اس کے دوست کہتے ہیں کہ کبھی کبھی سب کو یاد بہت کرتا ہے جب اس کا کام نہیں ہوتا تو سب سے دور بھاگتا ہے ، اب کچھ عرصہ سے اس نے وہاں نشہ کرنا شروع کر دیا ، میری والدہ شوگر کی مریضہ ہیں نظر بالکل ختم ہونے پر آ گئی ہے اور انتظار میں ہیں کہ کب تینو ں بیٹوں سے ملیں گی ۔ تمام بہن بھائی ایک جیسے حالات میں گرفتار ہیں ۔ ایک بھا ئی شادی شدہ ہے ان کے گھر کے بھی عجیب حالات ہیں ، جو میں بیان نہیں کر سکتی ۔ مختصر یہ کہ ہم ایک بہن اور پانچ بھائی ہیں ، روزگار بھی تنگ ہے ۔ تمام کے تمام کسی نہ کسی مسئلے میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے ۔ میری والدہ نے کچھ عرصہ پہلے روتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ ہمارے بچپن میں مختلف منتیں مان لیا کرتی تھیں جب ان کی دعا قبول ہو جاتی و وہ منتیں پوری نہیں کرتی تھیں ۔ اب میر ی والدہ اور ہمیں پریشانی ہے کہ کہیں ان منتوں کا عذاب تو نہیں ہم جھیل رہے؟ ہمارے گھر سے اکثر تعویذ بھی نکلتے تھے ۔ ہم پہلے مالی طور پر بہت مضبوط تھے اور شکل صورت سے الحمدللہ خوبصورت ہیں ، جس کی وجہ سے کچھ اپنوں کے حسد اور نظر بد کا بھی شکار رہے ۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ آخر کیا کیا جائے ، حالات کو بہتر بنا نے میں ہر کوشش ناکام ، براہ مہربانی ! ہماری مدد کیجئے ،اللہ پاک آپ پر اپنا خاص کرم کرے ۔
ماہنامہ عبقری "اگست 2015ء شمارہ نمبر 110" صفحہ نمبر29
No comments:
Post a Comment