اُدھر کتیا کی چیخ نکلی اِدھر ٹانگ میری کٹ گئی :
ایک ٹیکسی ڈرائیور نے ایک عجیب واقعہ سنایا جس نے رونگٹے کھڑے کر دیئے، کہا کہ ایک مرتبہ میں کرایہ پر کسی کے ساتھ کراچی جارہا تھا ، درمیان میں ایک ہوٹل پر چائے پینے کیلئے ٹھہرے ،تو جیسے ہی ہم بیٹھے تو ایک آدمی لکڑی کی بیساکھی کے ذیعے ہمارے پاس پہنچا ، اس کی ایک ٹانگ نہیں تھی ۔ میرے ساتھ جو آدمی تھا وہ کچھ رحمدل تھا ، اس نے اس آدمی کو کہا کہ بیٹھو چائے پیو گے یا روٹی کھاؤ گے ،تیری کیا خدمت کروں ؟ تو اس شخص نے کہا کہ میں نے روٹی کھا لی ہے باقی آ پ مجھے چائے پلائیں تو مہربانی ہو گی۔ جب وہ بیٹھا تو ا اس سے حال احوال کہنا شروع کر دیا اور پوچھا کہ آپ کی یہ ٹانگ کیسے کٹ گئی کیا ہو ا تھا ؟ جب اس نے سوال سنا تو رونا شروع ہو گیا اور اف اف اف کر کے توبہ توبہ توبہ کے الفاظ منہ سے نکال رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ بس مجھے اللہ پاک معاف کر دے ، میں اصل میں بس کا ڈرائیو ر ہوں ، ایک مرتبہ میں سواری لیکر آ رہا تھا تو ایک جگہ راستے میں ایک کتیا تھی جو اپنے نومولود چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے منہ میں ڈال کر راستہ کراس کرا رہی تھی، ایک دو بچے اس نے کراس کرا لئے اب میرے دماغ پر کچھ مستی سوار تھی، میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس کتیا کو گاڑی کے نیچے دیکر ماردوں ، حالانکہ اس کا کوئی جرم بھی نہیں تھا جب وہ تیسرا بچہ لے کر راستہ کراس کر رہی تھی تو میں نے گاڑی تیز کر کے اس کو مار دیا ، ٹکر لگتے ہی کتیا نے ایسے خوفناک چیخ ماری کہ جس سے مجھے پتہ نہیں کیا ہوا ، میرا پورا جسم سن اور میری آنکھوں کی بینائی چلی گئی اور یو ں گاڑی میرے کنٹرول سے بھی نکل گئی اور سٹرک سے نیچے ایک طرف اتر گئی اور درخت سے جا کر ٹکرا گئی اور وہیں کھڑی ہو گئی۔ پیچھے بیٹھے مسافروں نے چیخیں مارنا شروع کر دیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ اب جب میں نے آنکھیں کھو لیں تو میری بینائی تو لوٹ آئی لیکن کتیا کی چیخ اور اس پر جان بوجھ کر ظلم کہاں چھوڑتا ہے ؟ دیکھا کہ میری ایک ٹانگ مکمل کٹ کر میرے جسم سے الگ پڑی ہے اور باقی سب مسافر بالکل محفوظ تھے ۔اور مجھے علم نہیں کہ میری ٹانگ کس طرح کٹی ۔ بس انتقام قدرت کے سوا کچھ بھی نہیں ،جو ہوا سب کچھ میرے اپنے جرم کی سزا تھی ،جو میں نے پائی، اب ٹانگ تو نہ ملے گی، باقی اسباب پر روتا ہوں کہ اپنے رب کے سامنے کیا جواب دوں گا ۔ اس کے بچوں کی یاد آتی ہے کہ ان کا کیا بنے گا ؟ جن سے میں نے ان کی ماں چھین لی اور وہ بھی ایک جان بوجھ کر بڑے ظلم کے ساتھ ۔ اب کیا کروں ،میرا کیا ہو گا ؟ میں اکیلا چھپ چھپ کر روتا ہوں ۔کہ شاید بوجھ اتر جائے ، دل مطمئن ہو جائے مگر ایسا نہیں ہوتا ۔ کیا کروں ؟ اپنے دوستوں اور بھائیوں کو کہوں گا کہ اللہ پاک کی مخلوق پر ظلم کرنا تو کیا سوچنا بھی جرم عظیم ہے ۔ لہذا اپنے آپ کو بچاؤ یہ مکافات عمل ہے اور کچھ بھی نہیں ۔( سلیم اللہ سومرو' کنڈ یارو)
ماہنامہ عبقری "اگست 2015ء شمارہ نمبر 110" صفحہ نمبر29
ماہنامہ عبقری "اگست 2015ء شمارہ نمبر 110" صفحہ نمبر29
No comments:
Post a Comment