Friday, August 14, 2015

کھانے کیلئے جینا یا جینے کیلئے کھانا

کھانے کیلئے جینا یا جینے کیلئے کھانا :

انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ قوموں کی تقدیر وں کا نظام ہمیشہ دستر خوانوں پر بنا ہے ۔ اب سے پہلے آپ ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے جاتے تھے تو ہمارے سوال پر  کہ ڈاکٹر صاحب کیا کھائیں ؟ ڈاکٹر فوراً کہتا ! سب کچھ کھاؤ ، یہ حکیموں نے ایسے پابندیاں لگا رکھی ہیں ۔ آج وہی ڈاکٹر ہے جس کی میز پر غذاؤں کا ایک چارٹ اور کیلنڈ پڑا ہوتا ہے اور اس چارٹ اور کیلنڈر کے مطابق غذائیں بتاتے ہیں یہ نہ کھاؤ اس میں یورک ایسڈ ہے یہ کھاؤ اس میں انرجی ہے یہ کھا لو یہ چھوڑ دو۔  آج ڈاکٹر خود بھر پور حکیم بن گیا ہے ۔ کیوں ؟ بے وقت اور زیادہ کھانا انسان کو کبھی بھی تندرست نہیں کرتا اور انسان بیمار ہوتا ہے ۔ نپولین بونا پارٹ ے کہا تھا میں نے قوموں کو کھا کر زیادہ مرتے دیکھا ہے بھوک سے کم مرتے دیکھا ہے ۔ اس ملک کے عظیم دانشور ، ہمدرد ، متقی ، مخلص، اور نیک معالج یعنی حکیم سعید شہید رحمۃ اللہ علیہ کلینک کر رہے تھے ایک ماہر تعلیم ان کے پاس آئے پوچھا حکیم صاحب کس مرض کے مریض ہیں ؟ مریضوں کی لگی قطار کی طرف اشارہ کر کے حکیم صاحب بولے یہ جو ان سے پہلے آئے تھے وہ جوان کے بعد آئیں گئے ،یہ سب کھانے کے مریض ہیں یعنی زیادہ کھانے سے طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔ بعض لوگ صرف  جیتے ہی کھانے کےلئے ہیں  اور بعض لوگ کھانا صرف اس لئے کھاتے ہیں کہ سانسوں کی زندگی رواں دواں رہے ۔ یاد رکھیں ! طب کااصول صبح کا ناشتہ بادشاہوں کی طرح ، دوپہر کا کھانا عیال داروں کی طرح اور رات کا کھانا مفلسوں اور غریبوں کی طرح اور یہ مفلسوں اور غریبوں کی طرح کھانا انسان کو سدا صحت مند اور جوان رکھتا ہے اور یہ صحت مندی اور جوانی باقی رہنا باقی رکھنا ایک بہت بڑا کمال ہے۔ آئیے  میں آ پ کو زندگی کی چند مثالیں دیتا ہوں جنہوں نے  اپنی زندگی کا مشن صرف کھانا ہی بنایا تھا اور آخر میں میری گزارش یہی ہو گی کہ زندگی کو کھانے ، چٹخارے ، چسکا اور باربی کیو کے نام پر ضائع نہ کریں ۔  میرے پاس ایک میڈیکل کالج کے پرنسپل آئے موصوف ریٹائر منٹ بہترین گزارر رہے ہیں ، پروفیسرآف میڈیسن تھے میں نے ان سے پوچھااپنی زندگی کے تجربات میں بیماریوں کی وجہ بتا سکتےہیں کیونکہ جتنے میڈیکل کالج اب ہیں پہلے نہیں تھے میڈیکل سٹورجتنے اب ہیں پہلے نہیں تھے بیماریاں اور مریض جتنے اب ہیں پہلے نہیں تھے ۔ شاید میرا سوال ابھی پورا ہی نہیں ہوا تھا بے ساختہ بولے اس سب کی وجہ دراصل ! بیکری ہے ہر وہ چیز جو بیکری سے ملتی ہے وہ آلودگی ، زہر اور بیماری ہے آج آپ کہ ملک کا قانون بن جائے ڈاکٹر صاحب اپنی ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے بولے کہ تمام بیکریاں بند اور پورے ملک میں بیکری کا کوئی سامان نہیں بنے گا ڈاکٹر صاحب دعوے سے کہنے لگے کہ نوے فیصد بیماریاں ختم ہو جائیں گی ۔ چن مثالیں ملاحظہ فرمائیں کھانے کی ۔
1. گاما پہلوان کی روزانہ کی خوراک چھ گیلن دودھ ، تین سیر تازہ مکھن ، دو بکروں کا گوشت ، بیس پاؤنڈ بادام، پھلوں کی تین ٹوکریاں  مہاراجہ پٹیالہ دیتا تھا ۔ اس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو درخواست دی کہ مجھے خوراک دی جائے انہوں نےگورنر پنجاب کو درخواست بھیجی ۔  اس وقت کے گورنر پنجاب سر فرانسس نے درخواست مسترد کر دی ۔
2. اوکاڑہ کے قریب ایک شخص انیس ڈونگے سالن کے کھا جاتا تھا ۔ 
3. ایک چوہدری صاحب جتنے دن کے لئے سفر پر جاتے کوئی شخص اتنے دن کا صبح وشام کا کھانا دیتا پھر اس کو بیٹھ کر کھاتا پھر آگے چلتا ۔
4.ایک شخص چرخی یعنی کنویں کی کھدائی میں بہت صاحب کمال تھا بیس آدمیوں کا کھانا اکٹھا پورے دن میں کھا گیا ۔ پھر وہ کہتا تھا کہ مجھے نہ چیڑیں اکیلا کام کرتا تھا ، کنویں میں سے مٹی منوں کے حساب سے ایک چرخی میں نکلتی تھی اور وہ اکیلا یہ سب کام کرتا تھا ۔
5. نواب آف بہاولپور کا ایک مزاحیہ ملازم تھا جس کا قد چھوٹا تھا اور اسے پکارنے میں "لڈو" کہتے تھے ۔ ایک مرتبہ نواب صاحب کے سامنے دس کلو میٹھے چاول کھا گیا ۔
6. سر گودھا کی طرف ایک صاحب سو روٹیاں روزانہ کھا تا ہے ورنہ مجبوری میں بیس پچیس کھا کر گزارا کر لیتا ہے۔
7. دیہات میں شادی تھی ، انہوں نے پندرہ کلو چاول تول کر دیئے کہ شادی والے گھر دے آؤ ، وہ راستے ہی میں کھاگیا ۔ بنیادی طور پر کسان تھا ، چاول کھانے کے بعد کھیتوں میں اپنے کام لگ گیا ، جب واپس  شام کو گھر آیا تو گھر والوں نے کہا وہ چال کہاں ہیں ؟ کہا وہ تو میں سارے کھا گیا ۔
8. میں صحرا میں گیا رحیم یار خان کے قریب وہاں ایک صاحب کا تزکرہ سنا ، دیکھنے والے نے بتایا کہ بیالس انڈے ، بارہ کلو گوشت ، پچاس روٹی ایک نشست میں بیٹھ کر کھانے کی شرط تھی دس ہزار روپے انعام تھا ، ورنہ دس ہزار دینا تھا ۔ وہ شخص شرط جیت گیا ۔ ویسے وہ شخص تین چار کلو دودھ عام پی جاتا ہے ۔
9. صحرا میں ایک مخلص نے واقعہ سنایا کہ ہم نے ہرن شکار کیا ، ہم دو آدمی تھے وہ بھی ہمراہ تھا بارہ پندرہ کلو کا ہر ن  اکیلا بھون کر کھا گیا ۔  میں نے بھی کچھ کھا یا ۔
10. رمضان المبارک میں افطاری کے موقع پر ایک شخص نے روزہ افطار کیا ۔ ہوٹل والا تھک گیا اور عاجز آ گیا ۔ چونکہ بوفے سسٹم تھا ، روک نہیں سکتا تھا ۔ لیکن اسکو وخت پڑ گیا دس بارہ  بندو ں کا کھانا آ سانی سے کھا گیا۔ جب ہاتھوں سے کھاتے کھاتے تھک جاتا پلیٹ سے ڈائریکٹ منہ لگا کر کھانا شروع کر دیتا۔
11. پشاور میں ایک صاحب کنو اس طرح  کھاتے کہ آدھا کنو توڑ کر چھلکا سمیت کھا جاتے ، اس طرح مستقل بے شمار کنو کھاتے۔ اس شخص کو لوگ سادہ کہتے تھے۔ کھاتے ہوئے کہتا کہ بہن میری مری ہے اور مرغی کی ٹانگیں کوئی او ر کھا ئے اتنا بڑا ظلم ۔ مرغی کی کوئی ٹانگ چاہے جتنی بے شمار ہوں نہیں چھوڑتا تھا اور کھا جاتا تھا۔
12. ایک اور صاحب ہر قسم کا کھانا کھاتے ہیں اور کھاتے جاتے ہیں ۔ اگر اچھا نہ لگے تو اس کو قے کر کے پھر کھانا شروع کر دیتے ہیں ۔ 
13. ایک صاحب فرنی یعنی کھیر کی ساری دیگ چاٹ جاتے ہیں اور بائیس نان بھی ساتھ کھاتے ہیں ۔
14. پشاور میں ایک میاں صاحب دعوت میں آئے ، خوب کھایا پتہ چلا کہ فلاں جگہ کھانا اچھا ہے تو وہ الٹی کر کے پھر وہاں چلے گئے۔
15. غلہ منڈی میں اور بازاروں میں پلے دار ( پانڈی) یعنی مزدور بہت کھاتے ہیں ، اور اکثر یت بہت زیادہ کھاتی ہے ۔
16. ایک اللہ والے فرمانے لگے بہت بڑے دستر خوان پر ہمارے دوست نے بہت کھایا ، اتنا کہ لوگ حیران ، اٹھتے ہوئے ٹھنڈی سانس بھری پوچھا کہ خیریت تو ہے؟ کہا کہ دکھ اس بات کا کہ یہ بچ کیوں گیا؟
 ماہنامہ عبقری "اگست 2015ء شمارہ نمبر 110" صفحہ نمبر24



No comments:

Post a Comment