پاک فوج کے شہید جون کی نرالی شان :۔
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم ! آپ نے گزشتہ شمارے میں لکھا تھا کہ اگر آپ کے پاس پاک فوج کے حوالے سے کوئی واقعہ ہو تو ضرور لکھیں تو اس حوالے سے میرے پاس ایک واقعہ ہے جو مجھے ایک ریٹائر ڈ فوجی نے باتوں باتوں میں میری دکان پر بیٹھ کر سنایا تھا ۔ مجھے افسوس یہ ہے کہ میں اس ریٹائرڈ فوجی کا نام نہ پوچھ سکا ۔ اب یہ واقعہ اسی ریٹائر ڈ فوجی کی زبانی سنیے:۔
پاک فوج میں نوکری کرنے کا الگ ہی مزہ اور جزبہ ہوتا ہے ۔ گھر والوں سے مہینوں دور رہنے کے باوجود پاک فوج کا جوان جزبہ حب الوطنی سے سر شار بار ڈر پر دشمن کی طرف سینہ کر کے سارا دن اور ساری رات کھڑا رہتا ہے ۔ اس جوان کو اپنے بہن بھائیوں ، ماں باپ، بیوی بچوں ، اور اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز اپنے ملک کی سرحد کی حفاظت ہوتی ہے ۔ میں پاک فوج میں ایک سپاہی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتا رہا ہوں ۔ اب میں ایک ریٹائرڈ فوجی کی حیثیت سے زندگی کے دن رات کاٹ رہا ہوں مگر اب بھی جب مجھے پاک فوج میں گزری سہانی یادیں آتی ہیں تو میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔ میرے سارے دور میں ایک واقعہ ایسا ہوا جس نے میرے جزبے کو اور زیادہ بڑھا دیا میں ساری زندگی اللہ پاک سے بارڈر پر دشمن سے لڑتے ہوئے شہادت کی موت مانگتا رہا مگر شاید میرے اللہ پاک کو ایسا منظور نہ تھا ۔ یہ 1984ء کا واقعہ ہے جب انڈیا میں اندرا گاندھی کا قتل ہوا تھا ، اندرا گاندھیکے قتل کے بعد بارڈر پر حالات بہت ہی کشیدہ ہو گئے ، ایسے معلوم ہوتا تھا کہ ابھی انڈیا نے حملہ کیا کہ کیا ۔ میری ڈیوٹی ان دنوں سیالکوٹ سیکٹر پر تھی ، ہمیں حکم ملا کہ جلد از جلد بارڈر کے قریب مورچہ کھودیں ۔ ہماری پوری ٹیم پورے جزبے کیساتھ مورچے کھود رہی تھی ، میں بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مصروف تھا ۔ ہم صبح سے مورچے کھود رہے تھے ، اس دوران ہم نے نماز ظہر اداکی کھانا کھایا ، ہم سارا دن دشمن سے لڑائی کی باتیں کر رہے تھے اور اپنے وطن کی ایک ایک انچ کی حفاظت کی قسمیں کھا رہے تھے ، ہم میں ایک ایسے سپاہی بھی موجود تھے جنہوں نے 1965 ء اور 1971 ء کی جنگیں لڑی تھیں ، وہ ہمیں دشمن کی بزدلی کی باتیں سنا رہے تھے ۔ مورچے کھودتے کھودتے مجھے محسوس ہوا کہ کیسے مٹی میں کسی کی ٹانگ ہے ۔ میں نے اوزار سائیڈ پر رکھے اور ہاتھ سے مٹی ہٹانی شروع کر دی۔ میرے ساتھیوں نے بھی اس کام میں میری مدد کی ۔ کچھ ہی دیر میں ہم نے مٹی میں پاک فوج کے ایک شہید جوان کو نکالا جو کہ بالکل صحیح حالت میں تھا ، خاکی وردی بھی بالکل صحیح حالتمیں تھی ، اس کی گردن پر ایک گولی کا نشان تھا ، اس کے جسم کا درجہ حرارت بھی نارمل تھا اور وہ ایسے لیٹا تھا جیساکہ ابھی ابھی سویا ہے ۔ ہم نے جب پاک فوج کے شہید جوان کی ایسی شان دیکھی تو ہمارے منہ سے تکبیر کےنعرے نکلنا شروع ہو گئے اور نہ جانے کب تک ہم ایسے ہی نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے رہے ، ہماری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ہم نے بڑے ادب سے اس کا جسد خاکی مورچے سے نکال کر ہیڈ کوارٹر میں اطلاع کی ۔ ہمارے افسران آئے انہوں نے اس شہید کا ریکارڈ چیک کیا تو معلوم ہوا کہ 1965 ء کی جنگ میں یہ جوان لاپتہ ہو گیا تھا ۔ اس کے گھر والوں کو اطلاع دی ، اس کا جسد خاکی لے کر جب جا رہے تھے میں بھی ان کے ساتھ اس کے گاؤں گیا اور اس کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا ۔ آج بھی جب اس شہید کا جسد خاکی میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو میری آنکھیں اس حسرت سے بھیگ جاتی ہیں کہ اے کاش میں بھی اپنے وشن کی حفاظت کرتا کرتا اس دنیا فانی سے رخصت ہو کر ہمیشہ کیلئے امر ہو جاتا۔
ماہنامہ عبقری "اگست 2015ء شمارہ نمبر 110" صفحہ نمبر38
پاک فوج میں نوکری کرنے کا الگ ہی مزہ اور جزبہ ہوتا ہے ۔ گھر والوں سے مہینوں دور رہنے کے باوجود پاک فوج کا جوان جزبہ حب الوطنی سے سر شار بار ڈر پر دشمن کی طرف سینہ کر کے سارا دن اور ساری رات کھڑا رہتا ہے ۔ اس جوان کو اپنے بہن بھائیوں ، ماں باپ، بیوی بچوں ، اور اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز اپنے ملک کی سرحد کی حفاظت ہوتی ہے ۔ میں پاک فوج میں ایک سپاہی کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتا رہا ہوں ۔ اب میں ایک ریٹائرڈ فوجی کی حیثیت سے زندگی کے دن رات کاٹ رہا ہوں مگر اب بھی جب مجھے پاک فوج میں گزری سہانی یادیں آتی ہیں تو میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔ میرے سارے دور میں ایک واقعہ ایسا ہوا جس نے میرے جزبے کو اور زیادہ بڑھا دیا میں ساری زندگی اللہ پاک سے بارڈر پر دشمن سے لڑتے ہوئے شہادت کی موت مانگتا رہا مگر شاید میرے اللہ پاک کو ایسا منظور نہ تھا ۔ یہ 1984ء کا واقعہ ہے جب انڈیا میں اندرا گاندھی کا قتل ہوا تھا ، اندرا گاندھیکے قتل کے بعد بارڈر پر حالات بہت ہی کشیدہ ہو گئے ، ایسے معلوم ہوتا تھا کہ ابھی انڈیا نے حملہ کیا کہ کیا ۔ میری ڈیوٹی ان دنوں سیالکوٹ سیکٹر پر تھی ، ہمیں حکم ملا کہ جلد از جلد بارڈر کے قریب مورچہ کھودیں ۔ ہماری پوری ٹیم پورے جزبے کیساتھ مورچے کھود رہی تھی ، میں بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مصروف تھا ۔ ہم صبح سے مورچے کھود رہے تھے ، اس دوران ہم نے نماز ظہر اداکی کھانا کھایا ، ہم سارا دن دشمن سے لڑائی کی باتیں کر رہے تھے اور اپنے وطن کی ایک ایک انچ کی حفاظت کی قسمیں کھا رہے تھے ، ہم میں ایک ایسے سپاہی بھی موجود تھے جنہوں نے 1965 ء اور 1971 ء کی جنگیں لڑی تھیں ، وہ ہمیں دشمن کی بزدلی کی باتیں سنا رہے تھے ۔ مورچے کھودتے کھودتے مجھے محسوس ہوا کہ کیسے مٹی میں کسی کی ٹانگ ہے ۔ میں نے اوزار سائیڈ پر رکھے اور ہاتھ سے مٹی ہٹانی شروع کر دی۔ میرے ساتھیوں نے بھی اس کام میں میری مدد کی ۔ کچھ ہی دیر میں ہم نے مٹی میں پاک فوج کے ایک شہید جوان کو نکالا جو کہ بالکل صحیح حالت میں تھا ، خاکی وردی بھی بالکل صحیح حالتمیں تھی ، اس کی گردن پر ایک گولی کا نشان تھا ، اس کے جسم کا درجہ حرارت بھی نارمل تھا اور وہ ایسے لیٹا تھا جیساکہ ابھی ابھی سویا ہے ۔ ہم نے جب پاک فوج کے شہید جوان کی ایسی شان دیکھی تو ہمارے منہ سے تکبیر کےنعرے نکلنا شروع ہو گئے اور نہ جانے کب تک ہم ایسے ہی نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے رہے ، ہماری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ہم نے بڑے ادب سے اس کا جسد خاکی مورچے سے نکال کر ہیڈ کوارٹر میں اطلاع کی ۔ ہمارے افسران آئے انہوں نے اس شہید کا ریکارڈ چیک کیا تو معلوم ہوا کہ 1965 ء کی جنگ میں یہ جوان لاپتہ ہو گیا تھا ۔ اس کے گھر والوں کو اطلاع دی ، اس کا جسد خاکی لے کر جب جا رہے تھے میں بھی ان کے ساتھ اس کے گاؤں گیا اور اس کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا ۔ آج بھی جب اس شہید کا جسد خاکی میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو میری آنکھیں اس حسرت سے بھیگ جاتی ہیں کہ اے کاش میں بھی اپنے وشن کی حفاظت کرتا کرتا اس دنیا فانی سے رخصت ہو کر ہمیشہ کیلئے امر ہو جاتا۔
ماہنامہ عبقری "اگست 2015ء شمارہ نمبر 110" صفحہ نمبر38
No comments:
Post a Comment