Friday, August 21, 2015

جنات کا پیدائشی دوست

جنات کا پیدائشی دوست :

دمشق کا قبرستان اور تابعی کی قبر مبارک:۔
میں اس وقت دمشق میں تھا ، یہ دمشق کا بہت پرانا قبرستان جس میں بڑے بڑے صحابہ ، اہل بیت ، اولیاء ، محدثین کامل ا کمل اور بہت بڑے بزرگ تھے ۔ میرے جی میں آیا کے آج کسی ایسے تابعی رحمۃاللہ علیہ ٰ کی قبر پر جاؤں جس نے ساری زندگی دین کی حدیث، قرآن ، اور مسند کی خدمت کی ہو۔ میں ایک بہت پرانی قبر جس پر کتبہ نہیں تھا لیکن میرے روحانی احساس اور ادراک نے بتایا کہ یہ کسی بہت بڑے تابعی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر ہے ۔میں اس کے پاس مراقب ہوا اور میرا مراقبہ طویل ہو گیا لیکن مجھے کوئی احساس نہ ہوا ، میں بہت پریشان  ہوا ایسے محسوس ہوتا تھا کہ قبر بالکل خالی ہے۔
تھوڑی دیر میں ساری کائنات  کھل گئی:۔
تھک ہار کر میں اٹھا میں اگلی قبر پر پہنچا میرے ادراک نے اس کو بھی بہت بڑا تابعی رحمۃ اللہ علیہ کہا، میں اس کے پاس مراقب ہوا بس تھوڑی ہی  دیرمیں ساری کائنات کھل گئی ۔ میں نے آنکھوں سے ایک بہت وسیع میدان دیکھا ، اتنا وسیع میدان شاید کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنا وسیع میدان نہیں دیکھا لیکن اس میدان میں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ،خوشبوہی خوشبو، پھول ہی پھول اور پھل ہی پھل تھے ۔ میں حالت مراقبہ میں اس میدان میں چلا جارہا تھا ۔
میرے کانوں نے آج تک ایسا قرآن نہیں سنا :۔
بہت خوش تھا ، مسرور تھا اور اس میدان میں چلتے چلتے ایک صاحب کو دیکھا جو نماز پڑھ رہے تھے ۔ ان کا نماز میں قرآن پڑھنے کا ا نداذایسا دلفریب اور دلکش تھا کہ میرے کانوں نے آج تک ویسا قرآن کبھی نہیں سنا ۔ میں حیران و پریشان اس قرآن کو سنے جارہا تھا مجھے ساری دنیا ساری کائنات اور ساری کائنات کے سارے راز و رموز بھول گئے ، قرآن کی  لذت ، قرآن کی چاشنی ، اور قرآن کی آشنائی کچھ ایسی تھی کہ میں اپنی عقل کھو بیٹھا اور میری عقل دنگ رہ گئی ، میں حیران و پریشان کہ یہ کیا ہوا ؟ بس مجھے کچھ اورپتہ نہیں تھا چونکہ میں خود قرآن جانتا تھا ، پڑھ سکتا ہوں اس کو سمجھتا بھی ہوں ۔ اور میری زبان گنگ ، میرا لہجہ خشک،میری عقل جامد، میرا شعور اور ادراک بالکل جامد اور ساکت ،میں اس آواز سے آگے نہیں پڑھ پارہا تھا ۔ میں اگلی آیت کا انتظار کرتا پھر اس آیت کیلذت میں کھو جاتا اور ایسی لذت  ، ایسی چاشنی، ایسا انوکھا احساس کہ میں بالکل حیران اور پریشان رہ گیا ۔ بہت  دیر تک وہ صاحب قرآن پڑھتے رہے پھر انہوں نے لمبا رکوع کیا ور بہت طویل سجدہ کیا ۔
جنت کے میوؤں کا سرور اور حرص:۔
اسی طرح انہوں نے دو رکعت پڑھی، وقت کا احساس نہ رہا جب انہوں نے سلام پھیرا تو سلام پھیرنے کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے اور میرا نام لےکر مجھے سلام کیا۔ میری خیریت پوچھی تھوڑی ہی دیر میں غیبی طور پر بہت انواع و اقسام کے قیمتی میوے سامنے آئے ، میں ان  میوؤں ہیں گم ہو گیا اور میں کھانے لگا ہر میوے نے اپنی لذتدی ، ہر میوے نے اپنی چاشنی دی اور ہر میوے کے اندر انوکھا ایک سرور تھا ۔ کہ میں اور کھا جاؤں پر اچانک مجھے احساس ہوا کہ ان سے پوچھوں تو سہی یہ کون ہیں ؟ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟
صحا بہ کی  صحبت میں بیٹھنے والے تابعی سے ملاقات:۔
کہنے لگے میں دراصل اندلس کے ایک دور افتادہ گاؤں کا باسی ہوں ، مجھے اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام ﷺ کا زمانہ ملا لیکن میں ان کی زیارت نہ کر سکا ۔ میں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم  اجمعین کی زیارت کی ۔ میں اس دور میں مدینہ منورہ آیا جس دور میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، کی تربت  تو دیکھی مگر ان کی زیارت نہیں کی ۔ میں بڑے بڑے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حلقے میں بیٹھا پھر جب صحابہ رضوان اللہ علیہم  اجمعین مد ینہ سے باہر علوم کو پھیلانے کے لئے نکلے تو میں نے ان کا علم کی پیاس کے لئے پیچھا کیا کسی کو رائے پایا اور کسی کو دمشق اور کسی کو مکہ ، الغرض میں پھر ان سے علوم سیکھتا رہا اور علوم کی پیاس بجھاتا رہا ۔ میری زندگی اسی کیفیت میں گزرتے گزرتے آخر کار مجھے موت آ گئی اور میں یہاں دفن ہو گیا۔
موت کے بعد ملی نعمتوں کا تزکرہ :۔
صدیوں سے دفن قیامت کا انتظار کر رہا ہوں ، ان علوم نبوت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت کچھ عطا فرمایا ہے ۔ اپنی نعمتیں ، جنت، خیریں ، برکتیں ،خوشیاں ، عزتیں ،  عافیتیں اور کمال اتنا کچھ دیا کہ میں خود حیران اور پریشان ہوں کہ مجھے اتنی نعمتیں اللہ پاک عطا فرمائیں ۔
لاکھوں ، کروڑوں ، کے آزمودہ سات عمل :۔
میں نے ان سے سوال کیا کچھ زندگی کے ایسے عمل ہیں ، اگر مجھے بتانا چا ہیں  جن سے آپ کو فائدہ پہنچا ہو اور جن کے بارے میں آپ سمجھتے ہوں ، آپ نے زندگی میں بہت عمل کیے پر یہ عمل ایسے تھے جو آپ کی زندگی میں بہت کامل اور اکمل اور بہت مکمل تھے اور آپنے اپنی زندگی میں ان سے بہت کچھ حاصل کیا ۔ کیا آپ مجھے   بتانا چاہیں گے َ ،  انہوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری فرمانے لگے ! سات عمل ایسے ہیں جو میں نے اپنی زندگی میں جب بھی کیے اور پائے اور پورے قبرستان میں لاکھوں کروڑوں لوگ دفن ہیں ، ایک قبر کے اوپر قبر ہے ، دوسری کے اوپر تیسری اسی طرح تہہ در تہہ لیکن میں اگر نظر دوڑاتا ہوں تو قبرستان میں جتنے بھی لوگ ہیں ۔ ان میں اکثریت کی  بخشش ان سات اعمال کی وجہ سے اور اکثریت کی نسلوں کی خوشحالی  جو وہ بعد میں چھوڑ کر آئے وہ بھی یہ سات اعمال ہیں ۔
دنیا و قبر میں کام آنے والے سات اعمال :۔
میں ان کی بات پر چونک پڑا اور بولا کیا وہ سات اعمال دنیا میں بھی کام آئے؟ فرمانے لگے ہاں ! ان سات اعمال نے دنیا میں خوشحال رکھا  اور اپنی نسلوں کو نصحیت وصیت کر کے آیا ، میری نسلوں نے بھی جب عمل کئے تو وہ بھی دنیا میں خوشحال رہے اور ہر نعمت ان کو سدا میسر رہی اور اس قبرستان میں موجود بے شمار لوگوں کو میں نے جنہوں نے بھی یہ اعمال کیے وہ  یہاں بھی خوشحال ہیں ، دنیا میں بھی خوشحال تھے ، ان کی نسلوں نے ان سات اعمال کو کیا ہے ان کی نسلیں اس دنیا اور اس دنیا میں خوشحال ہیں ، مجھے حیرت بھی ہوئی اور دلچسپی بڑھ گئی اور اپنی دلچسپی سے بہت زیادہ شیدائی ہو ا اور اب میرے جی میں تھا کہ مجھے جلدی سے سات اعمال بتائیں ۔
سات اعمال پانے ہیں تو پہلے وضو کرو:۔
 مجھے فرمانے لگے ان سات اعمال سے اگر کچھ پانا ہے تو پہلے آپ وضو کر لیں ۔  ساتھ بہتے پانی سے وضوکیا ، وضو کر کے فوراً مجھے کہا آپ نے  وضو کے ساتھ مسواک کا استعمال نہیں کیا ۔ میں نے کہا جی میں  نے نہیں کیا ،
پہلا عمل :۔ بس میں نے پہلا عمل " مسواک" بتانا تھا   مسواک کرنے سے جہاں خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے ، وہاں مسواک کرنے والے کی بات میں وزن ، رعب و دبدبہ ، اور طاقت ہوتی ہے ۔ مسواک کرنے والے کی بات کو لوگ محبت سے سنتے ہیں اور محبت دیتے ہیں ۔ مسواک کرنے والے کے لہجے میں اللہ پاک ایک  تاثیر ڈال دیتے ہیں اور وہ  تاثیر ایسی ہوتی ہے جو دلوں پر اثر کر جاتی ہے ۔ مسواک کرنے والے کی زندگی میں میٹھے   بول بکھرنا  شروع ہو جا تے  ہیں اور اکثر  مسواک کرنے والے یا تو کڑوے بولوں سے کنارہ کر لیتے ہیں یا آہستہ آہستہ ان سے کڑوے بول چھنتے چلے جاتے ہیں ، اور  وہ میٹھے بول پاتے چلے جاتے ہیں اور ایسا خود بخود ہوتا ہے انہیں اس کے لئے کوئی محنت نہیں  کرنی پڑتی ۔
مسواک سے رزق ، دولت ، مال :۔
مسواک کرنے والا معاشرے میں ہر دلعزیز ہوتا ہے جن ہاتھوں سے مسواک دانتوں تک جاتی ہے اور جو ہاتھ مسواک پکڑتے ہیں ۔ ان ہاتھوں میں پیسہ ، رقم ، دولت اور رزق ایسے آتاہے کہ جیسے پہاڑ سےپانی تیزی سے گرتا ہے وہ ہاتھ کبھی خالی نہیں رہتے ۔ وہ ہاتھ ہرے بھرے رہتے ہیں جو ہاتھ مسواک پکڑتے ہیں ان ہاتھوں  میں  طاقت ہوتی ہے ، وہ ہاتھ اگر کہیں گرفت ڈال دیں تو بہت بڑے حادثوں اور گرنے سے بچ جاتے ہیں  ۔
میں نے زندگی میں کبھی مسواک کو نہیں چھوڑا:۔
صحابی بابا مزید فرمانے لگے ! میں حیرت سے کھڑا دمشق کے قبر کے اس تابعی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھتا رہا،  مسواک کی تاثیر جو وہ مجھے بتا رہے تھے ، وہ اپنی بات کرتے ہوئی  رک گئے وہ خلاؤں میں گھورنے لگے ااور کہنے لگے کہ میں نے زندگی میں کبھی بھی مسواک کو نہیں چھوڑا ، آج مجھے اس کا احساس ہوا میں نے سنا  تھا کہ جو شخص مسواک کرتا ہے اس کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے میں اس کا خود تجربہ کر چکا ہوں ۔
موت کے آخری وقت کاتجربہ:۔
صحابی بابا کہنے لگے ! مجھے اس شخص نے کہا موت کے آخری لمحے کا آپ نے تجربہ نہیں کیا مگر میں نے اس کا خوب تجربہ کیا ،  یہ مسواک ہی کی برکت تھی ، آخری لمحوں میری سانسوں کو بہت کشادہ کیا میرے سینے کو تنگ ہونے سے بچایا اور گھٹن مجھ سے دور ہوئی اور مجھ پر سختی نہیں ہوئی جب سانس میرے جسم کے انگ انگ تار تار اور ریشے ریشے سے نکل رہی تھی تو اس وقت میں ایک انوکھی حیرت میں تھا اور ایک انوکھے احساس میں تھا اور وہ احساس یہ تھا کہ موت کی سختی کہتے کسے ہیں ؟ میرے کانوں  میں ایک غیبی آواز آئی ، یہ تیرے اس مسواک کے عمل کے مستقل اہتمام کی وجہ سے ہے جو تو زندگی بھر کرتا رہا ۔
میری نسلوں کی خوشحالی کا راز:۔
وہ تابعی رحمۃ اللہ علیہ  اپنی بات کو بڑھاتے ہوئے آگے بڑھے اور کہنے لگے کہ بس میں زندگیمیں اپنے لمحوں کو  مسواک سے کبھی دور نہ کر سکا اور ہمیشہ میں نے مسواک کی قدر کی ، مسواک کا ادب یا مسواک کا احترام کیا ، اور اس کی و جہ سے میری نسلیں اس وقت خشحال ہیں ، تنگدست نہیں ، مفلس نہیں ہیں بلکہ ان کا رزق ان کی صحت ان کی  چیں ان کی نسلیں ان کی اولادیں ان کے بیٹے سب کچھ وسیع اور وسیع تر ہے ۔
دوسرا عمل وضو ہے :۔
دوسرا عمل وضو ہے ، اس تابعی رحمۃ اللہ علیہ نے جو بتایا وہ اس سے بھی زیادہ حیر ت انگیز  تھا ، کہنے لگے ! میں نے ہمیشہ باوضو رہنےکی کوشش کی اور  وضو کو اپنے لئے ہر سانس مجبوری بنایا اور اپنی نسلوں کو بھی اس کا عادی بنا یا ، ایک بہت بڑے صحابی رضی اللہ تعالی ٰ عنہ ! تھے جو دیہات میں رہتے تھے میں ایک بار ان کے پاس گیا ان کو میں نے ہر لمحہ وضو میں رہتے دیکھا ۔
صحابی رسولؐﷺ  کی کمر درد کا علاج:۔
میں نے ان سے پوچھاآپ کے عمل کو میں نے دیکھا ، آپ ہر لمحہ باوضو رہتے ہیں ، اس عمل کی کوئی تاثیرآپ کے مشائدے میں ہوتووہ  بتا دیجئے مجھ سے کہنے لگے! میں نے اس عمل کی تاثیر یہ پائی ہے کہ مجھے بہت پرانی کمر درد ہوئی ، وہ اس لئے کہ میں ایک دفعہ اونٹ سے گر گیا تھا ۔ میں بہت عرصہ اس کا علاج کرتا رہا آخر ایک بڑے صحابی رضی اللہ عنہ ، نے مجھے اس کا حل یہی بتایا کہ کمر کی درد کا علاج ہر وقت باوضو رہنا ہے ۔ وہ  فرمانے لگے کہ میں کمر کی  تکلیف کے لے سب دوائیں ، علاج معا لجے چھوڑ کر میں نے باوضو رہنا شروع کر دیا ، میری کمر کا درد بالکل ٹھیک ہو گیا ۔۔ وہ دیہاتی صحابی رضی اللہ عنہ ، فرمانے لگے کہ میں نے پھر یہ کمر کے درد کے لئے اور بے شمار لوگوں کو بتایا جس کو بھی بتایا اس کی کمر کا درد سو فیصد کسی کا جلدی کسی کا دیر سے لیکن ٹھیک ہو گیا ۔
باوضو رہنے والے کے ساتھ ہر وقت چالیس فرشتے :۔
اس کا ایک اور نفع بتایا کہ باوضو رہنے والے کے ساتھ ہمیشہ چالیس فرشتے  ہر وقت اس سے بلائیں ، آفات، مصائب ، پریشانیاں ، تکالیف اور مسائل ہٹاتے اور ٹلواتے رہتے ہیں اور وہ فرشتے ہر وقت اس کے ساتھ رہتے ہیں ، کوئی تکلیف دینے والا اگر اس کو تکلیف دینا چاہے تو اس کے لئے فوراً ڈاھال بن جاتے ہیں ، کوئی جادو کرنے والا جادو کرے تو اس کے لئے فوراً اس عمل کو روکتے ہیں ۔ اگر اس عمل سے نہیں رکتا تو اس شخص کی حفاظت کرتے ہیں اور جادوگر کو سزا دیتے ہیں ۔ حوادث سے بچاتے ہیں ، مشکلات سے بچاتے ، فاقوں سے بچاتے ، غربت سے بچاتے ہیں ، اس کے رزق کی کشادگی میں اللہ پاک کی مدد سے اس کا ساتھ دیتے ہیں ۔ مزید فرمانے لگے کہ ہر وقت میں خود باوضو رہا ہوں ۔
تازہ میت پر بڑھے آگ کے شعلے اور محافظ فرشتے :۔
یہ بات کرتے ہوئے ، وہ دمشق کے  قبرستان کے عظیم القد ر تابعی رحمۃاللہ  علیہ! جو مجھے حالت مراقبہ میں ملے رک گئے اور رکتے ہوئے دائیں بائیں دیکھا ، اور پھر اپنے لہجے اور سانسوں کو برقرار رکھتے ہوئے فرمانے لگے ! میں نے زندگی میں آج تک کوئی صاحب قبر نہیں دیکھا ، صدیاں ہو گئی ہیں اور صدیوں میں میتیں اب تک آ رہی ہیں ، میں ہر میت میں یہ سات چیزیں تلاش کرتا ہوں اور جن میں بھی یہ سات چیزیں ہوتی ہیں ۔ ان سے سو فیصد میرا دل مطمئن ہے کہ وہ بخشے بخشائے ہیں ۔ ایک میت کی طرف میں نے دیکھا اس کی طرف آگ کا شعلہ بڑھا، وہ تازہ میت  قبرستان میں آئی تھی لیکن اچانک کچھ فرشتے آئے ، انہوں نے ہاتھ سے اس شعلے کو پکڑ ا اور دور پھینک دیا ، تھوڑی ہی دیر میں پھر شعلہ آیا پھر انہوں نے پکڑ ا اور دور پھینک دیا ۔ ( جاری ہے ) 
 ماہنامہ عبقری "اگست 2015ء شمارہ نمبر 110" صفحہ نمبر39،40






No comments:

Post a Comment