Saturday, August 22, 2015

اُف یہ زندگی کا ناپائیدار سفر

 اُف یہ زندگی کا ناپائیدار سفر:۔

گاڑی میں بیٹھے ساتھیوں  سے جو اچانک کسی چیز کے گاڑی کے سامنے آ جانے کے بعد لگا ئے گئے بریک کے جھٹکے سے بیدار ہوئے تھے ، یہ حقیر ایک ایک کر کے معلوم کرنے لگا آپ کہاں جارہے ہیں ؟  دو نے کہا ! آپکے ساتھ جا رہے ہیں ، میں نے  پوچھا کہاں ؟  بولے سونی پت ایک صاحب جن کو راتہ میں اترنا تھا انہوں نے اس منزل کا نام لیا ۔ یہ حقیر اپنی یادہانی کے طور پر جو کچھ دیر سے چلی ذہن کی کیسٹ کی وجہ سے دل و دماغ پر سوار تھا ، بولا کیا آپ لوگوں کا قرآن مجید پر ایمان نہیں ہے ؟ قرآن مجید تو فرما رہا ہے ! بے شک ہماری ہی طرف ان کالوٹنا ہے پھر ہمارے ہی پاس ان کا حساب ہے ۔ دہلی سے سونی پت کا کار کے سفر میں ذرا سے جھٹکے نے جیسے ان نیند میں مدہوش ساتھیوں کو بیدار کر دیا تھا ، اس حقیر کو غفلت  کی زندگی کے سفر میں اچانک اس جھٹکے سے اس طرف توجہ ہوئی۔
سونی پت  شہر میں بستی کے لوگوں کا مشورہ مطلوب تھا ، اس حقیر نے اپنے ایک ذمہ دار کو فون کیا ، فلاں فلاں صاحبان کو ضرور بلا لیں ، انہوں نے اس میں سے دو صاحبان کے بارے میں بتایا کہ ان میں سے ایک کا انتقال دو سال قبل اور ایک کا ڈیڑھ سال قبل ہو گیا ہے ، اچانک جیسے ذہن میں ایک جھٹکا لگا ہو ، سونی پت میں ابتدا میں ساتھ دینے والے اور تعلق رکھنے والوں کی ذہن میں فہرست بنانے لگا ، جو ہماری طرح زندگی کے پلان بناتے تھے ، اور ان میں سے بہت سے خیر کے کاموں کے بھی خاکے بناتے تھے ۔ پھر آس پاس کی بستیوں کے ان لوگوں سے ہوتے ہوئے ، دل و دماغ اپنی بستی اور اپنے عزیزوں ، رفیقوں کی طرف منتقل ہوتا گیا جو ہمارے ساتھ رہتے تھے اور ہو سکتا ہے کہ ہماری ہی طرح اس دنیا میں لمبی مدت تک رہنے کی امید پر خاکے بناتے رہے ہوں مگر ان کی زندگی کا سفر ختم ہو گیا ، اچانک ایسا لگا کہ ساتھ رہنے والے اکثر لوگ اتنے شفیق اور عنایت فرمانے والے کتنے اکابرین ، اپنی دولت مناصب اور شان پر فخر کرنے والے کتنے لوگ ، جو اپنی اپنی  سطح سے اس دنیا میں ایک وقار ، شان اور مقبولیت اور مقام رکھتے تھے  اس زمین کا حصہ بن گئے۔ اب یا ان کی زندگی ایک قصہ پارینہ بن گئی یا ان کی یادیں زندگی گزارنے کا حصہ ہو گئیں ۔ نبی رحمت ﷺ نے کیسا ہوشیار فرمایا ہے ! دنیا میں ایسے رہو ف جیسے مسافر یا راستہ پار کرنے والا ! اف ایسی ناپائیدار زندگی اور خواب کی طرح ختم ہونے والی زندگی جس میں انسان چلتی ریل گاڑی کی طرح پیدا ہونے کے بعد سورا ہو جاتا ہے اور جس کا گھر آیا ، موت کے راستہ سے اتر جاتا ہے ۔
آدھی صدی کی ہماری مختصر زندگی میں کتنے سوار بلکہ کتنے ہمارے سامنے سوار ہو کر  اتر کر چلے گئے ، کتنے لوگوں کو اپنے سامنے اترتا  چڑھتا  دیکھ کر اور اپنےہی ساتھوں کتنے جنازوں کو نہلا کر ۔ کفناکر، اور دفنا کر، اور نہلاتے دفناتے دیکھ کر اور جنازوں  میں  روز روز شریک ہو کر بھی آدمی اس طرح جئے جیسے وہ اسی دنیا کا مکین ہے ، کیسی حماقت ہے ۔ اور انسان غفلت میں زندگی کے اس ناپائیدار سفر  میں  نہ جانے کیسے کیسے طویل خواب دیکھتا ہے خوش  قسمت ہیں وہ لوگ جن کو کوئی اچانک بریک کا جھٹکا بیدار کر دیتا ہے اور وہ زندگی کے اس سفر کو ، سفر سمجھ کر بیداری کےساتھ اپنے حقیقی گھر آخرت کی تیاری کےلیے گزارنے لگتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جو ہوشیار ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کی حیات لوگوں کے لئے مشعل راہ اور مینارہ نور بن  جاتی ہے ۔ جو ہمیشہ کے گھر آخرت کی تیاری کے لئے  ہوشیار اور دنیا  کے دھوکہ کے سفر کی ناپائیداری کے لئے خبر دار رہتا ہے ، یہ انسان کی زندگی کو چولوں کی ٹھیک رکھنے کی شاہ کلید ہے ، کاش ! ہم ان خوش قسمت ہوشیار سمجھ دار لوگوں میں شامل ہوں !!!!!!!!
 ماہنامہ عبقری "اگست 2015ء شمارہ نمبر 110" صفحہ نمبر43





No comments:

Post a Comment