ایک بچےکے ایمان کی آزمائش کا واقعہ :
مسند احمد میں ہے، رسولﷺ نے فرمایا کہ اگلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا اس کے ہاں ایک جادو گر تھا جب جادو گر بوڑھا ہوا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں میری موت کا وقت قریب ہے مجھے کوئی بچہ سونپ دو میں اسےجادو سکھا دوں ۔ چنانچہ ایک ذہین لڑکے کو وہ تعلیم دینے لگا ،لڑکا اس کے ہاں جاتا تو راستے میں ایک راہب کا گھر پڑتا ،جہاں وہ عبادت میں اور وعظ و نصیحت میں مشغول ہوتایہ بھی کھڑا ہو جاتا، اور اس کی عبادت کا طریقہ دیکھتا اور وعظ سنتا ۔ آتے جاتے یہاں رک جایا کرتا ۔ جادوگر بھی مارتا اور باپ بھی کیونکہ وہاں وہ دیر سے پہنچتا اور یہاں بھی دیر سے آتا ۔ ایک دن بچے نے راہب کے سامنے شکایت پیش کی۔ راہب نے کہا جب جادوگر تم سے پوچھے کیوں دیر ہو گئی تو کہنا کہ گھر والوں نے روک لیا تھا ۔ یونہی ایک زمانہ گزر گیا کہ ایک وہ جادو سیکھتا اور دوسری طرف کلام اللہ اور دین اللہ سیکھتا تھا ۔ ایک دن یہ دیکھتا ہے کہ راستے میں ایک زبردست ہیبت ناک سانپ بیٹھا ہے جس نے لوگوں کی آمدورفت بند کر رکھی ہے ۔ اس نے اپنے دل میں ساچا کہ آج موقع ہے کہ میں امتحان لوں راہب کا دین خدا کو پسند ہے یا جادوگر کا ۔ اس نے ایک پتھر اٹھا کر یہ کہہ کر اس پر پھینکا کہ ا ے خدایا اگر تیرے نزدیک راہب کا دین جادو گر کی تعلیم سے زیادہ محبوب ہے تو اس جانور کو اس پتھر سے ہلاک کر دے ۔ پتھر لگتےہی وہ جانور ہلاک ہو گیا اور لوگوں کو راستہ مل گیا ۔ لڑکے نے راہب کو اس واقعہ کی خبر دی ۔ اس نے کہ پیارے بچے آج کے دن تو مجھ سے افضل ہے اب خدا کی طرف سے تیری آزمائش ہو گی اور اگر ایسا ہوا تو لوگوں کو میری خبر نہ کرنا ۔ اب اس بچے کے پاس حاجت مند لوگوں کا تانتا لگ گیا ۔ اس کی دعا سے مادرزاد اندھے، کوڑھی ، جزامی اور ہر قسم کے بیمار اچھے ہونے لگے۔
بادشاہ کے ایک نابینا وزیر کے کان میں یہ بات پڑی وہ بڑے تحفے تحائف لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا مجھے شفا دے دے ، سب تحفے تجھے دوں گا ۔ اس نےکہا کہ شفاء میرے ہاتھ میں نہیں ، شفاء دینے والا اللہ وحد لاشریک ہے۔ اگر تو اس پر ایمان لانے کا وعدہ کرے تو میں تمہارے لئے دعا کروں ۔ اس نے اقرار کیا ، بچے نے دعا کی ، اللہ پاک نے اسے شفاء دے دی ۔ وہ بادشاہ کے دربار میں گیااس کی آنکھیں بالکل روشن تھیں بادشاہ نے متعجب ہو کر پوچھا تجھے آنکھیں کس نے دیں ؟ اس نے کہا میرے رب نے ۔ بادشاہ نے کہا یعنی میں نے دی ہیں ؟ وزیر نے کہا نہیں نہیں میرا اور تیرا رب صرف اللہ پاک ہے ۔ اب باشاہ نے اس پر ظلم شروع کر دیا ، پوچھنے لگا تجھے یہ تعلیم کس نے دی ؟ آخر اس نے بتایا کہ میں نے اس بچے کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے ۔ بادشاہ نے بچے کو بلایا ۔ اور کہا اب تم جادو میں کامل ہو گئے ہو ۔بیمار کو شفاء دیتے ہو۔ اس نے کہا غلط ہے میں کسی کو شفاء نہیں دے سکتا نہ جادو گر ہوں ، شفاء اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے۔ وہ کہنے لگا اللہ پاک میں ہوں ۔ اس نے کہا ہر گز نہیں ۔ باشاہ نے کہا پھر تو میرے سوا کسی اور کو رب مانتا ہے ؟ اس نے کہا میرا اور تیرا رب "اللہ" ہے ۔ اس نے بچے کو سزائیں دینی شرو ع کر دیں ، یہاں تک کہ راہب کا پتہ لگا لیا تو راہب کو کہا اسلام چھوڑ دے ۔ اس نے انکار کیا تو اسے آرے سے چراوا دیا ۔
پھر اس نوجوان بچےسے کہا تو بھی اسلام سے پھر جا ۔اس نے بھی انکار کیا تو بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے جاؤ اگر دین سے باز آ جائے تو اچھا ہے ورنہ وہیں سے دھکا دے دینا ۔ چنانچہ سپاہی اسے لے گئے اور جب اسے دھکا دینے لگے تو اس نے اللہ پاک سے دعا کی
( اے اللہ پاک جس طرح تو چاہے مجھے اس سے نجات دے ) دعا کی ۔ دعا کے ساتھ ہی موج اٹھی اور سارے سپاہی ہلاک ہو گئے ۔ پھر بچہ بادشاہ کے پاس آیا او ر کہنے لگا ! میرے اللہ پاک نے مجھے بچا لیا اور کہا اے بادشاہ ! تو چاہے کتنی بھی تدبیریں کر لے مجھے ہلاک نہیں کر سکتا ۔ صرف ایک صورت ہے جس طرح میں کہوں اگر تو اس طرح کرے تو میں مر سکتا ہوں ۔ اس بچے نے کہا تم لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو پھر کھجور کے تنے پر مجھے سولی چڑھا ؤ اور تیر کو کمان پر چڑھا ؤ اور کہہ "بِسْمِ اللہِ رَبِّ ھَذَا الْغُلَامِ" ( یعنی اللہ پاک کے نام سے جو اس بچے کا رب ہے ) پڑھ کر تیر میری طرف پھینک وہ مجھے لگے اور میں مر جاؤں گا ۔ بادشاہ نے یہی کیا تیر بچے کی کنپٹی میں لگا ۔ چاروں طرف سے لوگوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں ! ہم اس بچے کے رب پر ایمان لائے۔یہ حال دیکھ کر بادشاہ کے ساتھی بہت گھبرائے اور کہنے لگے ہم تو اس بچے کی تر کیب سمجھے ہی نہیں ۔ دیکھئے اس کا اثر کیا پڑا سب لوگ دین اسلام میں داخل ہو گئے ہم نے تو اس لئے قتل کیا تھا کہ کہیں اس کا مذہب پھیل نہ جائے لیکن جو ڈر تھا وہی ہوا ہے سب مسلمان ہو گئے ۔ باشاہ نے کہا اچھا یہ کرو تمام محلوں اور راستوں میں خندقیں کھدوؤ ان میں لکڑیاں بھر و اور آگ لگا دو جو اس دین سے پھر جائے، اسے چھوڑ دو ، ورنہ پھینک دو ، مسلمانوں نے صبر اور اللہ پاک کے سہارے آگ میں جلنا منظور کیا ۔ ایک عورت جس کی گود میں دودھ پیتا چھوٹا سا بچہ تھا ذرا جھجک محسوس ہوئی تو اس بچے کو خدا نے بولنےکی طاقت دی ۔ اس نے کہا اماں کیا کر رہی ہے ؟ تم تو حق پر ہو ، صبر کرو اور اسمیں کود پڑو۔
یہ شہادت گاہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا ۔
ماہنامہ عبقری "اگست 2015ء شمارہ نمبر 110" صفحہ نمبر27
بادشاہ کے ایک نابینا وزیر کے کان میں یہ بات پڑی وہ بڑے تحفے تحائف لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا مجھے شفا دے دے ، سب تحفے تجھے دوں گا ۔ اس نےکہا کہ شفاء میرے ہاتھ میں نہیں ، شفاء دینے والا اللہ وحد لاشریک ہے۔ اگر تو اس پر ایمان لانے کا وعدہ کرے تو میں تمہارے لئے دعا کروں ۔ اس نے اقرار کیا ، بچے نے دعا کی ، اللہ پاک نے اسے شفاء دے دی ۔ وہ بادشاہ کے دربار میں گیااس کی آنکھیں بالکل روشن تھیں بادشاہ نے متعجب ہو کر پوچھا تجھے آنکھیں کس نے دیں ؟ اس نے کہا میرے رب نے ۔ بادشاہ نے کہا یعنی میں نے دی ہیں ؟ وزیر نے کہا نہیں نہیں میرا اور تیرا رب صرف اللہ پاک ہے ۔ اب باشاہ نے اس پر ظلم شروع کر دیا ، پوچھنے لگا تجھے یہ تعلیم کس نے دی ؟ آخر اس نے بتایا کہ میں نے اس بچے کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے ۔ بادشاہ نے بچے کو بلایا ۔ اور کہا اب تم جادو میں کامل ہو گئے ہو ۔بیمار کو شفاء دیتے ہو۔ اس نے کہا غلط ہے میں کسی کو شفاء نہیں دے سکتا نہ جادو گر ہوں ، شفاء اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے۔ وہ کہنے لگا اللہ پاک میں ہوں ۔ اس نے کہا ہر گز نہیں ۔ باشاہ نے کہا پھر تو میرے سوا کسی اور کو رب مانتا ہے ؟ اس نے کہا میرا اور تیرا رب "اللہ" ہے ۔ اس نے بچے کو سزائیں دینی شرو ع کر دیں ، یہاں تک کہ راہب کا پتہ لگا لیا تو راہب کو کہا اسلام چھوڑ دے ۔ اس نے انکار کیا تو اسے آرے سے چراوا دیا ۔
پھر اس نوجوان بچےسے کہا تو بھی اسلام سے پھر جا ۔اس نے بھی انکار کیا تو بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے جاؤ اگر دین سے باز آ جائے تو اچھا ہے ورنہ وہیں سے دھکا دے دینا ۔ چنانچہ سپاہی اسے لے گئے اور جب اسے دھکا دینے لگے تو اس نے اللہ پاک سے دعا کی
اَلّٰلھُمَّ
اکْفِنِیھِمْ بِمَا شِئْتَ
( اے اللہ پاک جس طرح تو چاہے مجھے اس سے نجات دے ) اس دعا کے ساتھ ہی پہاڑ ہلا اور سب سپاہی لڑھک گئے صرف بچہ باقی بچا ۔ وہاں سے بادشاہ کے پاس گیا ، بادشاہ نے کہا یہ کیا ہوا ؟ میرے سب سپاہی کہاں ہیں ؟ بچے نے کہا خدانے مجھے بچا لیا وہ سب ہلاک ہو گئے۔ بادشاہ نے دوسرے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے کشتی میں بیٹھا کر سمندر میں پھینک دو ۔ سپاہیوں نے سمندر کے بیچ پھینکنا چاہا تو بچے نے پھر
اَلّٰلھُمَّ اکْفِنِیھِمْ بِمَا شِئْتَ
یہ شہادت گاہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا ۔
ماہنامہ عبقری "اگست 2015ء شمارہ نمبر 110" صفحہ نمبر27
No comments:
Post a Comment