Saturday, April 25, 2015

ہرن اور جانوروں کے شکاری ضرور پڑھیں۔


حال دل
جو میں نے دیکھا سنا اور سوچا۔
ہرن اور جانوروں کے شکاری ضرور پڑھیں۔
میں اپنے آپ کو صحرا نشین کہوں یا صحرا گرد بہرحال ویرانوں، تنہایؤں اور ان جگہوں پر جہاں انسانی زندگی نہیں ہر طرف ہو کا عالم ہے مجھے کچھ نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی ان جگہوں سے پیار، محبت، الفت ائر شناسائی ہے، جاتا ہوں اور بہت جاتاہوں۔ صحرا میں کہیں دور ایسی جگہ جہاں انسان نہیں ہوتے تاحد نظر ریت ہی ریت۔۔۔۔۔۔۔ ٹیلے ہی ٹیلے ہاں۔۔۔۔۔۔۔ صدیوں آباد قدرتی تالابوں (ٹوبوں) پر آباد وہ صحرا نشین جو نسل در نسل یہاں رہ رہے ہیں جنہیں ابھی تک جدید معاشرے کی وہ تہذیب، خوشبو، ہوائیں اور بے وفائی نہیں پہنچی۔ ان بادہ نشینوں کے درمیان بیٹھ کر حق اور ہوکی آوازیں جب دل سے نکلتی ہیں تو دل پکار اٹھتا ہے کہ زرہ زرہ اس حق اور آوازدل کا ساتھ دے رہا ہے بلکہ ذرہ ذرہ بھی اس آواز میں میرے ساتھ شامل ہے۔ ویرانوں نے مجھے کچھ پیغام بھی دیئے وہ پیغام پھر میں آبادیوں میں آکر اپنے درس میں بالمشافہ اور غائبانہ یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے بھی پوری دنیا تک پہنچاتا ہوں اور وہ آوازیں لوگ بہت دلچسپی سے سنتے ہیں، ان میں سبق بھی، منزل بھی، راستہ اور عبرت بھی۔۔۔ اگر بات عبرت تک چلی تو ایک بات بتاتا چلوں میں پاکستانی صحراؤں کی ان پٹیوں تک جاتا ہوں جہاں سوائے پرندوں شکاری اور ہرن کے شکاری کے اور کوئی ذی روح جا نہیں سکتا۔ میرے پا شکاریوں کے بے شمار واقعات ہیں ایک نہیں کئی۔ کیونکہ انسان جب شکار کیلئے بندوق تانے رات کے اندھیرے میں طاقتور جیپوں کے ذریعے صحرا میں گردش کر رہا ہوتا ہے، اس کی آنکھوں میں شکار کے نشے کی ایک پٹی ہوئی جو اس کھلتی ہے جب تڑپتا ہو ہرن اس کے سامنے ہوتا ہے اور اس کی باچھیں پھٹی ہوئی ہوتی ہیں اس کی آنکھوں میں چمک ہوتی ہیلیکن اس وقت اس ہرن کی آنکھوں کی چمک زائل ہو چکی ہوتی ہے، جاتی دہ چمک ایک پیغام ضرور دیتی ہے کہ تجھے خیال آیا۔۔۔۔ کہ تو نے صرف یہ شکار ضرورت کیلئے نہیں خواہش کیلئے کیا ہے۔ ہاں! میں شکار کو حرام نہیں کہتا لیکن ضرورت اور خواہش کے شکار میں فرق ہے اور بے شمار شکاری گائیڈ مجھے ایسے ملے، کتنے لوگوں کو فالج ہوا، کتنوں کی ٹانگیں کٹیں، اکثر اندھے ہو جاتے ہیں اور کتنے ایسے تھے جو ارب پتی تھے آج وہ فقیر ہیں۔ مجھے خود شکاریوں نے اور ان کے گائیڈوں نے یہ بات بتائی کہ جب گولی چلتی ہے تو گولی نہیں دیکھتی کہ سامنے ہرنی ہے یا ہرن۔ حاملہ ہے یا بچوں کو دودھ پلانے والی۔ بس گولی چلتی ہے۔۔۔۔۔ اور یہ اس زخمی ہرن پر دوڑتا ہے اور جا کر اس کی گردن پر ذبیح کے نام پر چھری چلاتا ہے لیکن اس اندر سے نکلنے والی آہ جس کے بچے ماں کے دودھ کے پیاسے یا پھر جس کا پیٹ جب چاک کرتے ہیں اندر سے بچے جو ان کے کسی کام کے نہیں ہوتے وہ تڑپتے تڑپتے ان کے سامنے مر جاتے ہیں کیا انہیں کوئی پیغام نہیں ملتا انہیں ملے نہ ملے عرش والے کو ایک پیغام دے کر یہ بیٹھے ان کی بوٹیاں نوش رہے ہوتے ہیں اور ہر بوٹی کا ذرہ ذرہ پکار رہا ہوتا ہے کہ خیال کر تیری قسمت کے فیصلے بدل چکے ہیں،  تیرا نصیب اندھیری رات میں کھو رہا، تیری چاندنی ڈوب گئیہے، تیری دولت چھن گئی ہے، تیری صحت کو زوال آگیا ہے اور ایسا ہوتا ہے میرے قریب کے رشتہ دار جس کو دن رات بس شکار کا شوق تھا، وہ بڑے بڑے افسران کو ہرن کے بچے دینا اور ان کو گفٹ کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتا تھا مجھے پتا آج وہ ایک کرائے کے مکان میں نہایت ذلت کی زندگی گزار رہا بلکہ پچھلے دنوں وہ ایک کرائے کے موٹر سائیل پر جا رہا تھا قرض لینے والوں نے موٹرسائیکل پکڑ لی اسے تھپڑ مارے اور اس کا موٹر سائیکل رکھ لیا بہت لوگوں نے اس کو دیکھااور سنا ایک بار میں نے خود اس کہا بہت اور مشغلے پڑے ہیں یہ ہرن مارنے کا مشغلہ چھوڑدے۔ میرے بات کو نہایت ذلت آمیز مذاق کے ساتھ اس نے ہواؤں میں اڑا دیا۔ میں خاموش ہوگیا۔ لیکن وہ خاموش نہ ہوا وقت کے دھارے بدلتے گئے اور چھاؤں دھوپ میں اور حتیٰ کہ ایسی دھوپ کڑی دھوپ جس دھوپ میں ہرنوں کی آہیں ان کے بچوں کی سسکیاں ان کی پیاسیں، ریت میں تڑپنا، اس کے قہقہے، اس کی ہڈیاں چبانے کی آوازیں، گوشت نوچنے کی کیفیت۔۔۔۔ یہ سب کچھ اسی دھوپ میں شامل تھے لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد اس دھوپ نے دیکھا اور آسمان نے اس کی گواہی دی یہ سسک سسک کر رویا، یہ بلک بلک کر تڑپا لیکن اسے ہرن کی ماں، ہرن کے بچوں اور خود ہرن کی سسکیاں سنائی نہ دیں۔ اے کاش! اس کو پہلے سمجھ آجاتی مجھے کتنے لوگ ایسے ملے جن کی ٹانگیں کٹیں، بظاہر کسی بیماری کے نام پر لیکن بنیاد اس ہرن کی سسکیاں، تڑپ اور چبھن تھی۔ وہ آقاﷺ مدینے والے کا واقعہ یاد آیا کہ کسی نے ہرن کو پکڑ کر درخت کے نیچے باندھا ہو اتھا اور مدینے والےﷺ نے دور سے یا رسول اللہﷺ یا رسول اللہﷺ یا رسول اللہﷺ کی آواز سنی۔ آپﷺ تشریف لے گئے۔ اس واقعہ کا مفہوم ہے اس ہرنی نے عرض کیا آپ ﷺ مجھے چھوڑ دیں میں بچوں کو دودھ پلا کر واپس آجاؤں گی آپ ﷺ نے پوچھا اگر تو واپس نہ آئی تو ہرنی نے کہا مجھے وہ سزا دی جائے جو  ٹیکس والوں کو قیامت کے دن ملے۔ میں جب صحراؤں میں جاتا ہوں، مجھے وہ سزا یاد آجاتی ہے پھر وہاں لوگ مجھے واقعات سناتے ہیں، شکاری لوگ جو مجھے درد بھری کہانیاں سناتے ہیں مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمیں دوسروں کے انجام سے عبرت آخر کیوں نہیں ہوتی؟ دوسروں کا انجام آخر کیوں بھول جاتے ہیں؟ کیا شوق اور عشق آنکھوں پر پٹی ڈال دیتے ہیں؟ اگر جائز طریقوں سے شوق ہے تو میں اس کو خود روا ہوں لیکن میری درخواست ہے نہ سسکائیں، نہ تڑپائیں کوئی اور جائز شوق پورے کر لیں۔ لیکں۔۔۔! جانوروں کو شکار اور ہرن کے شکار کو شوق نہ بنائیں۔ ورنہ عرشی فیصلے تیرے خلاف ہو جائیں گے، فرشی نظام تجھ پر سمٹ جائیگا۔ دنیا تجھ سے روٹھ جائے گی، عزت کو کھو بیٹھے گا، شہرت اور گمنامی میں اور گمنامی سے ذلت کی طرف تیرے قدم اٹھنا شروع ہو جائیں گے۔آ۔۔۔۔ جلدی کر اپنی سوچوں کو بدل، اپنی سوچوں اور جذبوں کو بدل۔ میں بعض اوقات کسی راستے سے گزر رہا ہوتا ہوں بظاہر کچھ نظر نہیں آتا لیکن مجھے کانوں میں کچھ سسکیاں محسوس ہوتی ہیں میں ادھر اُدھر دیکھتا ہوں لیکن میر وجدان اور میرے دل کی آواز مجھے اس کا جواب دیتی ہے یہ کسی ایسی حاملہ ہرنی کی سسکیاں ہیں یا کسی ایسی دودھ پلانے والی ہرنی کی آہیں ہیں جو نکلی تھی بچوں کو خوراک کیلئے کچھ پانی اور گھاس کھا کر پھر جا کر انہیں دودھ پلاؤں گی اور کسی شکاری کی اندھی گولی کا شکار بن گئی اور وہ تڑپتے تڑپتے اپنی آہوں اور بے زبان دبددعاؤں کے ذریعے اس گولی مارنے اور شوق سے سرشار شخص کا نصیب ڈبو گئی۔ تو کیا خیال ہے۔۔۔!!! نصیب بچانا ہے یا ڈبونا ہے۔۔۔۔۔؟ 


No comments:

Post a Comment