Tuesday, February 23, 2016

مایوس نہ ہوں! زندگی کو زندگی کی طرح بسر کرنا سیکھ لیں


آدمی کو مغموم رہنے سے ایک غیرفطری قسم کی طمانیت محسوس ہوتی ہے۔ آپ نے اپنے ملنے جلنے والوں ہی میں ایسے کئی افراد دیکھے ہوں گے جنہیں بیمار رہنے کا شوق ہے اسی طرح بعض لوگ رنج و الم سے لذت حاصل کرتے ہیں۔احمد پہلونٹی کا بچہ تھا۔ باپ کپڑے کی ایک چھوٹی سی د کان کا مالک تھا جب بڑے سرمایہ دار اس میدان میں اترے تو اس کا کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ اس مصیبت کا مداوا اس نے ایک عجیب سے احساس برتری میں پایا‘ وہ بڑے پیمانے کی تجارت کو حقارت سے دیکھنے لگا‘ گویا کاروبار کے متعلق منفی زاویہ نظر کا سبق اسے بچپن ہی میں مل چکا تھا‘

 اس کی اپنی تو کوئی چھوٹی دکان تھی نہیں مگرباپ کے نقش قدم پر چلنا ضروری تھا چنانچہ اس نے ایک چھوٹی دکان پرنوکری کرلی۔ بچپن میں احمد اکثر بیمار رہتا چونکہ پہلا بچہ تھا اس لیےماں کی ساری توجہات اسی پر مرکوز رہتیں لیکن چند سال بعد یکے بعد دیگرے گھر میں ایک بچی اور بچے نے قدم رکھا اور والدین کی توجہ اب تینوں بچوں میں بٹ گئی احمد کیلئےوہ پہلا سا التفات نہ رہا‘ چنانچہ وہ بے زار رہنے لگا‘ والدین سمجھے کہ بچہ واقعی بیمار ہے کچھ عرصے بعد اسے پھر ویسی ہی توجہ ملنے لگی جیسی پہلے ملتی تھی۔ عمر کے اس دور میں احمد نے دو ایسےسبق سیکھے جومستقبل میں اس کے اطوار کی بنیاد بن گئے لیکن یہ سبق تھے بہت نقصان دہ۔ ایک سبق یہ تھا کہ اپنے اوپر خوب افسردگی اور بے زاری طاری کرلو تو تمہاری طرف توجہ دی جائے گی‘ بچپن میں یہ حربہ کامیاب رہتا ہے لیکن بڑے ہوکر کام نہیں دیتا۔ عام لوگ مردہ دلی کو پسند نہیں کرتے اور ایسے افراد سے کنی کتراتے ہیں۔ احمد کو بڑے ہوکر یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے تھی لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔ اس کے تحتُ الشعور میں لڑکپن کی وہی باتیں جمی ہوئی تھیں اور اب بھی اس کے جذبات اسی بچگانہ اصول کے تابع تھے کہ ابا اماں کی توجہ کھینچنے کیلئے منہ بسورنا ضروری ہے۔ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا مگر منہ بسورنے کی عادت نہ گئی۔ دوسرا سبق اس نے بچپن میں یہ سیکھا کہ آدمی کو مغموم رہنے سے ایک غیرفطری قسم کی طمانیت محسوس ہوتی ہے۔ آپ نے اپنے ملنے جلنے والوں ہی میں ایسے کئی افراد دیکھے ہوں گے جنہیں بیمار رہنے کا شوق ہے اسی طرح بعض لوگ رنج و الم سے لذت حاصل کرتے ہیں۔ ایسے لوگ دراصل زندگی کی ہمہ گیری سے گھبراتے‘ اس کے نشیب و فراز سے ڈرتے اور حقائق کا سامنا کرنے سے جی چراتے ہیں۔ حزن و ملال اور یاس و ناامیدی کی تاریکیوں میں ہمہ وقت گھرے رہنا ہی انہیں تسکین دیتا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے ساتھ دوسروں کو بھی افسردگی اور مایوسی کے تاریک غاروں میں دھکیل دیتے ہیں۔ مسرت اور شگفتگی کوئی خدادا عطیہ نہیں۔ آدمی خواہ کسی حال میں ہو وہ چاہے تو خوشی اور مسرت کے سامان پیدا کرسکتا ہے یہی وہ سبق تھا جو احمد کو سیکھنا تھا لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ بچپن میں رٹے ہوئے اسباق کو فراموش کردیا جائے۔ یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ پُرانی عادت یک لخت ترک کردینا آسان نہیں زندگی کےمتعلق زاویہ نظر بدلنا تو اور بھی مشکل ہے‘ تاہم نئی راہیں کون تلاش نہیں کرتا۔ زندگی سنوارنے کیلئے ہم میں سے ہر ایک کو بارہا اپنے طور طریقے بدلنے پڑتے ہیں آخر ہم انسان ہیں‘ جھاڑ جھنکار نہیں کہ ایک تودۂ خاک میں جڑپکڑلیں‘ تو عمر بھر کے لیے وہیں کے ہورہیں‘ ناپختہ احساسات اور بچپن سے ذہن میں بیٹھے ہوئے غلط تصورات کو زندگی بھر کے لیے اپنے اوپر طاری کرلینے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ انسان ایک خزاں رسیدہ درخت کی مانند کملایا مُرجھایا رہتا ہے۔ہم میں سے اکثر لوگ چھوٹی چھوٹی شکایات‘ حقیر سے تفکرات اور معمولی معمولی دشواریوں کے مقابلے میں اضمحلال اور یاس و الم میں مبتلا رہنے کےعادی ہوچکے ہیں۔ کوئی بات ذرا بھی خلاف مزاج ہوجائے تو خود اعتمادی کو ٹھیس لگتی محسوس ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ ہر بات پر بیزاری کا اظہار ہمارے لیے وقار کامسئلہ بن جاتا ہے لیکن اداس اوربیزار رہنا زندگی کی توہین ہے بلکہ کفران نعمت میں داخل ہے۔ صحت مندانہ زاویہ نظریہ ہے کہ آپ زندگی کو اللہ کی عطا کردہ نعمت تصور کیجئے ایسی نعمت جو دوبارہ نہ ملے گی لہٰذا اسے بوجھ نہ سمجھئے اور اس کے ایک ایک لمحے کو انتہائی قیمتی اور بیش بہا جان کر کام میں لانے کی سعی کیجئے یاد رکھیے! اگر ہم زندگی کو زندگی کی طرح بسر کرنا سیکھ لیں تو دنیا میں ہم سے زیادہ مطمئن اور خوش و خرم انسان کوئی اور نہ ہوگا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرلینے کے بعد احمد کے لیے بس ایک آسان سے نسخے پر عمل کرنا باقی رہ گیا جب کوئی مشکل سر اٹھاتی تو وہ اپنے آپ سے سوال کرتا کہ اسے کس طرح حل کرسکتا ہوں بہت غور و فکر کے بعدجو حل سامنےآتا اس کے مطابق عمل کرتا۔ دراصل افسردگی اور بیزاری کے زہر کا تریاق عمل سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ذہن پر نقش کرلینی چاہیے کہ دنیا کی ساری مصیبتیں آپ ہی کیلئے خاص نہیں ہیں۔ دوسروں کو بھی ایسے ہی مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کوئی بھی مشکل ایسی نہیں جو حل نہ ہوسکے اور کوئی عقدہ ایسا نہیں جو وا نہ ہوسکے۔ ذرا کاپی پنسل لے کر بیٹھیے اور ان چیزوں کی فہرست بنائیے جن سے محرومی آپ کو صدمہ پہنچائے گی دیکھئے ایمانداری سے کام لیجئے اس فہرست میں وہ چیزیں بھی لکھئے جن سے بعض اوقات آپ کو شکایت ہوتی ہے۔ اسی طرح فہرست بناتے چلے جائیے آپ دیکھیں گے کہ خاصی طویل بن جائے گی بلکہ جب بھی آپ اس پر نظرثانی کریں گے اس میں اضافہ ہوگا۔ اب آپ ملنے جلنے والوں میں سے کسی ایسے شخص کا انتخاب کیجئے جو عموماً شگفتہ نظر آتا ہو۔ اس کے متعلق ایسی باتوں کی فہرست تیار کیجئے جنہیں وہ برداشت کرتا ہو لیکن یہ باتیں آپ کے نزدیک قطعی ناقابل برداشت ہوں‘ یہاں یہ احمقانہ عذر پیش نہ کیجئے کہ میں تو عام لوگوں سے زیادہ حساس واقع ہوا ہوں‘ یہ قابل فخر بات نہیں‘ اس کا مطلب یہ کہ آپ زندگی بسر نہیں کرتے بلکہ اس کے بخیے ادھیڑنے میں لگے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بعض لوگ دوسروں سے کسی قدر زیادہ حساس ہوتے ہیں لیکن حساس ہونے کا یہ مطلب کہاں ہے کہ آپ تکلیف ہی تکلیف محسوس کرتے جائیں حقیقتاً حساس آدمی اسے کہیں گے جو دوسروں کی نسبت اگر تکلیف زیادہ محسوس کرتا ہے تو خوشی کے موقع پر خوش بھی دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے‘ مصیبت نازل ہو تو خود کو بدنصیب ٹھہرانے کے بجائے یہ سوچنے کی کوشش کیجئے کہ دنیا میں آپ سے بھی زیادہ بدنصیب لوگ نہ جانے کتنے ہوں گے پھر ذرا برنارڈ شاہ کے اس مقولے پر غور فرمائیے کہ جس طرح اپ کو دولت پیدا کیے بغیر اس سے استفادے کا حق نہیں اسی طرح مسرت کےاسباب پیدا کیے بغیر مسرور ہونے کا حق بھی نہیں۔ مشہور ماہر نفسیات ایلفرڈایڈلر کے پاس مالیخولیا کا مریض آتا تو وہ مریض سے کہتا: روزانہ کوئی ایسی تدبیر سوچو کہ کسی دوسرے شخص کو تمہارے باعث خوشی اور مسرت حاصل ہو۔ احمد نے بھی اس نسخے پر عمل کیا۔ ایک مرتبہ اس نے مجھے بتایا: ہردم خوش و خرم رہنے کی کوشش کرتا ہوں اور جب بھی کوئی مشکل سامنے آتی ہے تو سوچتا ہوں گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن اطمینان قلب پھر بھی نصیب نہیں ہوتا۔ مجھے ہنسی آگئی۔ میں نے اسے سمجھایا: بھلے آدمی‘ تم نے بزرگوں کا یہ قول نہیں سنا کہ ایمان عمل کے بغیر بے کار ہے‘ جو کچھ سوچتے ہو اس پر عمل بھی تو کیا کرو‘ محض دل کو اس بات کا دلاسا دینا کافی نہیں کہ سب ٹھیک ہوجائے گا‘ اس کےبعد احمد کی شخصیت میں واقعی انقلاب سا آگیا۔ وہ شاداں و فرحاں رہتا ہے اور اپنی عمر سے زیادہ بوڑھا نظر نہیں آتا۔ارشدحسین‘ لاہور

تین سورتیں ، تین دن اور ہر مشکل حل


میں عبقری کے قارئین کے احسانات کو دیکھتے ہوئے اپنا ایک نہایت طاقتور آزمودہ عمل ان کی خدمت میں نذر کررہی ہوں۔ یقیناً اس عمل سے قارئین بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ ہمارا خاندانی عمل ہے‘ ہمارے گھرانے میں کوئی بھی مشکل ہو‘ چاہے وہ پیسوں کی ہو‘ رزق کی یا لڑکی کے رشتے کی‘ یا شادی کا مسئلہ‘ بچوں کے سکولز داخلے کا مسئلہ یا اچھے رزلٹ کیلئے ہر مشکل کا حل اس میں موجود ہے۔ 

’’سورۂ یٰسین‘
سورۂ رحمٰن‘
 سورۂ واقعہ‘‘


پانچ عورتیں مل کر تین تین بار ہر سورۂ کو پڑھیں اور آخر میں چار قل پڑھ کر سب ایک ہی مقصد کیلئے دعا کریں۔ اللہ کے حکم سے تین روز کرنےسے وہ مشکل حل ہوجائے گی اور اللہ کے حضور دعا قبول ہوگی۔ یہ عمل 12 بجے دوپہر سے پہلے یا عصر کے بعد کرنا ہے۔قرآن پاک کی ان تین سورتوں کے پڑھنے سے ایسے ایسے کمالات ہوتے ہیں کہ دل میں عظمت قرآن کی دھاک بیٹھ جاتی ہے۔یہ تین سورتیں ہماری لاتعداد کی آزمودہ ہیں۔ آپ بھی آزمائیں اور دعاؤں میں یاد رکھیں۔

حترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! عبقری رسالہ میں پچھلے چند سالوں سے ہرماہ باقاعدگی سے پڑھ رہی ہوں۔ اس میں موجود چھوٹے چھوٹے ٹپس بہت باکمال ہوتے ہیں۔ عبقری تو جیسے ہمارے گھر کا ڈاکٹر بھی ہے اور عامل بھی۔ اس ماہنامہ کی وجہ سے ہماری بہت سے پریشانیاں و مشکلات تو ایسے ٹھیک ہوئی ہیں جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ 
(مسز سیدہ حنا اعظم گیلانی‘ لاہور)

ایک درود‘ سات برکتیں


یہ درود سلسلہ قادریہ کے معمولات میں سے ہے‘ جو شخص روزانہ پڑھتا ہے اس کو سات نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔


 1۔ رزق میں برکت۔
 2۔ تمام کام آسان۔
 3۔ نزع کے وقت کلمہ نصیب۔
 4۔ جان کنی کی سختی سے حفاظت۔
 5۔ قبر میں وسعت۔
 6۔ کسی کی محتاجی نہ ہو۔
 7۔مخلوق خدا کا دلدادہ ہو۔
 اس کے علاوہ حضور نبی کریم ﷺ کی زیارت کیلئے مجرب ہے۔درود پاک یہ ہے:۔

(بشیراحمد رانا‘ اسلام آباد)

اللہ اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے


عاشق رسولؐ کی چادر نے آتش فشاں ٹھنڈا کردیا

 جب میں نے بارگاہ رسالت میں عجیب کرامت کا تذکرہ کیا تو حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے ابوذر اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے بھی ہیں جو زمین میں سیر کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کی بھی ڈیوٹی فرمادی ہے کہ وہ میری آل کی امدادو اعانت کرتے رہیں۔کھانے میں عظیم برکت: حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بارگاہ رسالت کے تین مہمانوں کو اپنے گھر لائے اور خود حضور اکرم ﷺ کی خدت اقدس میں حاضر ہوگئے اور گفتگو میں مصروف رہے یہاں تک کہ رات کا کھانا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے دسترخوان نبوتﷺ پر کھالیا اور بہت زیادہ دیر گزر جانے کے بعد مکان پر واپس تشریف لائے۔ ان کی بیوی نے عرض کیا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنے گھر پر مہمانوں کو بلا کر کہاں غائب رہے؟

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ کیا اب تک تم نے مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا؟ بیوی صاحبہ نے کہا کہ میں نے کھانا پیش کیا مگر ان لوگوں نے صاحب خانہ کی غیرموجودگی میں کھانا کھانے سے انکار کردیا۔ یہ سن کر آپ اپنے صاحبزادے حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پر بہت زیادہ خفا ہوئے اور وہ خوف و دہشت کی وجہ سے چھپ گئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کےسامنے نہیں آئے پھر جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا غصہ فرو ہوگیا تو آپ مہمانوں کے ساتھ کھانے کیلئے بیٹھ گئے اور سب مہمانوں نے خوب شکم سیر ہوکر کھانا کھالیا۔ ان مہمانوں کا بیان ہے کہ جب ہم کھانےکے برتن میں سے لقمہ اٹھاتے تھے تو جتنا کھانا ہاتھ میں آتا تھا اس سے کہیں زیادہ کھانا برتن میں نیچے سے ابھر کر بڑھ جاتا تھا اور جب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو کھانا بجائے کم ہونے کے برتن میں پہلے سے زیادہ ہوگیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے متعجب ہوکر اپنی بیوی صاحبہ سے فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ برتن میں کھانا پہلے سے کچھ زائد نظر آتا ہے۔ بیوی صاحبہ نے قسم کھا کر کہا واقعی یہ کھانا تو پہلے سے تین گنا بڑھ گیا ہے پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس کھانے کو اٹھا کر بارگاہ رسالت ﷺ میں لے گئے جب صبح ہوئی تو ناگہاں مہمانوں کا ایک قافلہ دربار رسالت ﷺ میں اترا جس میں بارہ قبیلوں کے بارہ سردار تھے اور ہر سردار کے ساتھ بہت سے دوسرے شتر سوار بھی تھے۔ ان سب لوگوں نے یہی کھانا کھایا اور قافلہ کے تمام سردار اور تمام مہمانوں کا گروہ اس کھانے کو شکم سیر کھاکر آسودہ ہوگیا لیکن پھر بھی اس برتن میں کھانا ختم نہیں ہوا۔ (بخاری شریف ج1 ص506 مختصراً) فرشتوں نے چکی چلائی: حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا بیان ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے مجھے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو بلانے کیلئے ان کے مکان پر بھیجا تو میں نے وہاں یہ دیکھا کہ ان کےگھر میں چکی بغیر کسی چلانے والے کے خودبخود چل رہی ہے جب میں نے بارگاہ رسالت میں عجیب کرامت کا تذکرہ کیا تو حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے ابوذر اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے بھی ہیں جو زمین میں سیر کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کی بھی ڈیوٹی فرمادی ہے کہ وہ میری آل کی امدادو اعانت کرتے رہیں۔ (ازالۃ الخفاء مقصد 2 ص273) قبر والوں سے گفتگو:امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایک مرتبہ ایک نوجوان صالح کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے فلاں! اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ولمن خاف مقام ربہ جنتان (یعنی جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈر گیا اس کیلئے دو جنتیں ہیں) اے نوجوان! بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟ اس نوجوان صالح نے قبر کے اندر سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نام لے کر پکارا اور بآواز بلند دو مرتبہ جواب دیا کہ میرے رب نے یہ دونوں جنتیں مجھے عطا فرمادی ہیں۔(حجۃ اللہ علی العالمین ج2 ص860 بحوالہ حاکم) مدینہ کی آواز نہاوند تک: امیرالمومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو ایک لشکر کا سپہ سالار بنا کر نہاوند کی سر زمین میں جہاد کیلئے روانہ فرمادیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جہاد میں مصروف تھے کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مسجد نبوی ﷺ کے منبر پر خطبہ پڑھتے ہوئے ناگہاں یہ ارشاد فرمایا کہ یاساریۃ الجبل (یعنی اے ساریہ! پہاڑ کی طرف اپنی پیٹھ کرلو) حاضرین مسجد حیران رہ گئے کہ حضرت ساریہ تو سرزمین نہاوند میں مصروف جہاد ہیں اور مدینہ منورہ سے سینکڑوں میل کی دوری پر ہیں۔ آج امیرالمومنین نے انہیں کیونکر اور کیسے پکارا؟ لیکن نہاوند سے جب حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا قاصد آیا تو اس نے یہ خبر دی کہ میدان جنگ میں جب کفار سے مقابلہ ہوا تو ہم کو شکست ہونے لگی۔ اتنے میں ناگہاں ایک چیخنے والے کی آواز آئی جو چلا چلا کر یہ کہہ رہا تھا کہ اے ساریہ! تم پہاڑ کی طرف اپنی پیٹھ کرلو۔ حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ یہ تو امیرالمومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی آواز ہے۔ یہ کہا اور فوراً ہی انہوں نے اپنے لشکر کو پہاڑ کی طرف پشت کرکے صف بندی کا حکم دیا اور اس کے بعد جو ہمارے لشکر کی کفار سے ٹکر ہوئی تو اچانک جنگ کا پانسہ ہی پلٹ گیا اور چشم زدن میں اسلامی لشکر نے کفار کی فوجوں کو روند ڈالا اور عساکر اسلامیہ کے قاہرانہ حملوں کی تاب نہ لاکرکفارکا لشکر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نکلا اور افواج اسلام نے فتح مبین کا پرچم لہرا دیا۔ (مشکوٰۃ باب الکرامات ص546، حجۃ اللہ ج 2 ص860، تاریخ الخلفاء ص 85) چادر دیکھ کر آگ بجھ گئی: روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی خلافت کے دور میں ایک مرتبہ ناگہاں ایک پہاڑ کے غار سے ایک بہت ہی خطرناک آگ نمودار ہوئی جس نے آس پاس کی تمام چیزوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیا جب لوگوں نے دربار خلافت میں فریاد کی تو امیرالمومنین نے حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو اپنی چادر مبارک عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تم میری یہ چادر لے کر آگ کے پاس چلے جاؤ۔ چنانچہ حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس مقدس چادر کو لے کر روانہ ہوگئے اور جیسے ہی آگ کے قریب پہنچے یکایک وہ آگ بجھنے اور پیچھے ہٹنے لگی یہاں تک کہ وہ غار کے اندر چلی گئی اور جب یہ چادر لے کر غار کے اندر داخل ہوگئے تو وہ آگ بالکل ہی بجھ گئی اور پھر کبھی بھی ظاہر نہیں ہوئی۔ (ازالۃ الخفاء مقصد 2 ص172) ا بولبیب شاذلی

حلال کمائیں‘ چین کی نیند پائیں


اللہ سے باتیں کرنا سیکھ لیں!: اللہ والو!اللہ سے باتیں کرنا سیکھ لیں‘ اللہ سے راز و نیاز کرنا سیکھ لیں!چلتے چلتے باتیں کریں!سوتے سوتے باتیں کریں!جاگتے جاگتے باتیں کریں! اٹھیں تو باتیں کریں! ارے پاکی میں ہیںتو باتیں کریں! ناپاکی میں ہیں توباتیں کریں !وضو میں ہیں توباتیں کریں!بے وضو ہیں توباتیں کریں!اس کریم کے ساتھ راز و نیاز کریں! اس کریم کے ساتھ باتیں کریں! اس کو اپنے دکھڑے سنائیں !اللہ جل شانہ سے باتیں کریں! نہیں آتیں تب بھی کریں!بولنا نہیں آتاتب بھی بولیں! ایک وقت آئے گاکہ آپ کو بولنا آ جائے گا!ایک وقت آئے گا آپ کو کرنا آجائے گا! پھر ایک وقت آئے گاکہ صرف ایک مس کال پر آپ کے سارے کام ہو جائیں گے! جیسے اس اللہ کے بندے نے ایک طرف کھڑے ہو کر صرف مس کال دی تھی کہ اس کاکام ہوگیا۔ لیکن اس کاکام تب ہوا جب نیت ٹھیک کرلی تھی،اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اس نے حلال کھانا ہے ۔کوئی بات نہیں ۔۔ہفتہ وار درس سے اقتباس درس روحانیت وامن)  
اگرمیرے بچے معیاری سکولوںسے ، قیمتی لباسوں سے، بہترین گاڑیوں سے، عمدہ چیزوں سے اورپرتکلف آسائشوں سے محروم ہیںکوئی بات نہیں اگرمیں زندگی کی اعلیٰ آسائشوں اور اعلیٰ چیزوں سے محروم رہوں! کوئی حرج ہی نہیں۔ اللہ!شفاء دینے والی اور شفاء لینے والی ذات:گزشتہ دنوں کی بات ہے میں ایک مریض کے پاس اس کی عیادت کیلئے گیا ۔تقریباً 33,32 کلو اس کا وزن رہ گیا تھا۔ میں نے جاتے ہی ان کو ترغیب دی کہ آپ بیمار ہیں آپ کی دعا قبول ہوگی ،لہٰذا آپ دعا کریں ۔اس اللہ کے بندے نے عشاء کے وقت ایسی دعا کی۔اس کے ہاتھ اوپر جاتے اورپھر نیچے آتے تھے ۔ اس کی دعائیںاس کے دل کی کیفیتوں سے نکل رہی تھیں اور وہ کیفیات مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھیں۔جانے وہ دل ہی دل میں اللہ سے کیامانگ رہا تھا؟ وہ مریض جو بستر مرگ پر ہے جس کو کینسر کی وجہ سے سارے جہان نے لاعلاج قرار دیا ہے۔ شفاء دینے والاتووہ کریم ہے، بظاہربس انتظار ہو رہا ہے۔ میں بھی دعا مانگ رہا تھا، وہ بھی دعا مانگ رہا تھا ،مریض اور میں دونوں ایک ساتھ آمین کہہ رہے تھے۔کافی دیر دعا مانگی۔ اس کی آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ اس کے دل سے بھی آنسو بہہ رہے تھے اور میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ کریم کی کریمی ایسے عرشِ الٰہی سے برس پڑی ہے اور میں دل میں کہہ رہا تھا:’’ الٰہی اس کو عاجز تو نے کیا ہے! یہ تو صحت مند تھا!اللہ اس کو مریض تو نے بنایا ہے! یہ تو چلتا پھرتا تھا!میرے پاس بھی آتا تھا! اے اللہ! یہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا! اس کے جسم کی ساری طاقتیںساری قوتیں تو نے لے لیں!دی ہوئی بھی تیری تھیں۔ الٰہی! تو خود تو فرماتا ہے اپنے حبیب سرور کونینﷺ کے ذریعے سے کہ جب میرا بندہ مریض ہوتا ہے اور میرے سامنے عاجز اور بے بس ہوتا ہے،اور اس حال میںجب وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میںاس کا سوال رد نہیں کرتا۔ الٰہی!آج اس کے سوال کورد نہ کر ۔اس شخص نے دعا کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرے۔ ہاتھ منہ پر پھیرنے کے بعد بڑی دیر تک وہ انہیںکیفیتوں میں ڈوبا رہا۔ وہ شخص آنسوؤں میں ڈوبا رہا۔ پھر اس نے اپنے رومال سے اپنے آنسو پونچھے اور میں نے ان سے اجازت چاہی اور واپس آیا تب میں نے سوچا! آج کی عبادت تو مجھے نفع دے گئی ۔ تو ہو کسی بھی حال میں،مولا سے لو لگائے جا:اللہ والو! اللہ سے مانگناسیکھو ۔اس کے در پر محتاج بن جائو،اس کے غلام بن جائو ، اس کے در کے فقیر بن جائو ۔ساعتیں مانگنے کی آ گئی ہیں ۔گھڑیاں مانگنے کی چل پڑی ہیں۔ اس کریم سے مانگنا سیکھو۔وہ تو تھوڑے سے مانگنے پر بھی بہت عطا کر دیتا ہے ۔ بڑا کریم ہے!بڑا رحیم ہے!یوں اپنی نیت کو سنوارو! یوں اپنے جذبے کو سنوارو!اپنے اندر دیانتداری اور سچائی کا جذبہ پیدا کرو۔ آخرایک دن کریم کی رحمت برس پڑتی ہےاور پھر اس کی عطا ئیںبندوں پرایسے آتی ہیں کہ ہم اور آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔اس سے مانگنا سیکھیں ۔حلال کمائیں ،چین کی نیند پائیں:حلال کے راستوں کی طرف بڑھیں۔ حلال سے نسلیں پلتی ہیں۔ حلال سے چین آتا ہے۔ حلال سے سکون آتا ہے۔ کرا چی کے ایک تاجر نے مجھے سامان دکھایا میں نے پوچھا جناب یہ ایک نمبر ہے یا دو نمبر ہے؟ میرے ہاتھ سے وہ چیز واپس لے کروہ کہنے لگا ’’بھیا میں نے رات کو چین سے سونا ہے، یہ ایک نمبر ہے۔ اتنے سے لفظ اس نے کہے’’ میں نے رات کو چین سے سونا ہے ،یہ ایک نمبر ہے۔‘‘ زندگی کے خوش قسمت ساتھی:زندگی میں اللہ نے ایک موقع دیا ہے اپنی آمدنی کا خیال رکھیں کہ ان نسلوں کو کیا کھلا کر جا رہے ہیں؟ ان نسلوں کو کیسے پال رہے ہیں ؟کتنی خوش قسمت بیوی ہے جو حلال کا تقاضاکرے ‘شوہر کی ساتھی بن جائے اوروہ دونوںحلال کے راستوں پر چل پڑیں۔ کتنا خوش نصیب شوہر ہے جو حلال کی کمائی لا کراپنی بیوی کا ساتھی بن جائے اوروہ دونوں حلال کے راستوں پر چل پڑیں۔ کتنا خوش قسمت بھائی ہے جو حلال کمائی گھر لاکر بہن کا ساتھی بن جائے ۔کتنی خوش قسمت بہن ہے جو اپنے بھائی کو حلال کمانے کی ترغیب دے کر اپنے بھائی کی ساتھی بن جائے۔ اللہ والو! آج ہمیںموقع ملا ہے۔ کسی کو مال پر بٹھایا،کسی کو خزانے پربٹھایا، کسی کو جنس پر بٹھایا ،کسی کو کسی اورچیز پر بٹھایا۔ کامیاب کون ہے؟: اب یہ دیکھیں کہ یہاں کون ان مواقع سے فائدہ اٹھاکراللہ کے ساتھ اپنے معاملات کو حلال کر رہا ہے۔ دیانت و امانت کا معاملہ کررہا ہے‘ سچائی اور صداقت کا معاملہ کر رہا ہےجو بھی یہ سب کررہا ہے بس وہ کامیاب ہو گیا۔بچہ فاقوں سے بلک رہا ہے مگر اس نے حلال روزگارکیاتو یہ کامیاب ہو گیا ۔اس کےبچے کے ہر رونے پر عرش الٰہی سے اللہ کی رحمتیں اتر رہیں۔اگرچہ اس کی ضرورتیں پوری نہیں ہو رہی ہیں لیکن اس نے حلال روزگار کرنے کا طے کررکھا ہے ۔اس نے حرام کا طے نہیں کیا ہوا اس نے اپنے اقتدار کا غلط استعمال نہیں کیا۔ (حکیم محمد طارق محمود چغتائی

اللہ کی خوشنودی کیلئے ایک دوسرے سے خالص محبت کرنے والوں کا رتبہ


حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگو! سنو اور سمجھو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو نہ انبیاء ہیں اور نہ شہدا ہیں‘ ان کے بیٹھنے کے خاص مقام اور اللہ تعالیٰ سے ان کے خاص قرب اور تعلق کی وجہ سے انیباء اور شہداء ان پر رشک کریں گے۔ ایک دیہاتی آدمی نے جومدینہ منورہ سے دور (دیہات کا) رہنے والاآیا ہوا تھا (متوجہ کرنے کیلئے) اپنے ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ کی طرف اشارہ کیا اور عرض کیا: یارسول اللہﷺ! کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو نہ انبیاء ہوں گے اور نہ شہداء، انبیاء اور شہداء ان کے بیٹھنے کے خاص مقام اور ان کے اللہ تعالیٰ سے خاص قرب اور تعلق کی وجہ سے ان پر رشک کریں گے۔ آپ ان کا حال بیان فرمادیجئے یعنی ان کی صفات بیان فرمادیجئے۔ اس دیہاتی کے سوال سے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ غیرمعروف افراد اور مختلف قبیلوں کے لوگ ہوں گے جن میں باہمی کوئی ایسی رشتہ داریاں بھی نہیں ہوں گی کہ جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے قریب ہوں، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کیلئے ایک دوسرے سے خالص و سچی محبت کی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کیلئے نور کے منبر رکھیں گے جن پر ان کوبٹھائیں گے‘ پھر اللہ تعالیٰ ان کے چہروں اور کپڑوں کو نور والابنادیں گے۔ قیامت کے دن جب عام لوگ گھبرا رہے ہوں گے ان پرکسی قسم کی گھبراہٹ نہ ہوگی‘ وہ اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ (مسند احمد)
الحب للہ

45 سالہ کنواری لڑکی کی ماں باپ سے فریاد


گزشتہ دنوں مرحوم تجمل الٰہی شمسی صاحب کی نواسیوں کی شادی کی تقریب میں جانا ہوا‘ٹیبل پر کھانے کی میز پر ایک جہاں دیدہ شخص بیٹھے ہوئے تھے باتوں ہی باتوں میں میرا تعارف ہوا تو ان کے گھر عبقری بہت ذوق وشوق سے پڑھا جاتا تھا‘ موصوف چند ماہ پہلے رنڈوے ہوئے تھے۔ بیوی کے وصال کے بعد احباب اور رشتہ داروں کا تقاضا ہے کہ آپ سنت پوری کرتے ہوئے فوراً شادی کرلیں۔ قریب بیٹھے ایک صاحب نے ازراہ مذاق کہا حکیم صاحب آپ ہی انہیں کہہ دیجئے یہ شادی کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ان کی بات سن کر ان کے ماتھے پر بل آگئے



 اور کہنے لگے ایک ہمارا دور تھا آج میں ساٹھ سال سے اوپر ہوگیا ہوں کہ جب بیٹی کی بلوغت کے بعد اس کی صرف اور صرف شادی کا فکر ہوتا تھا‘ جانچ پرکھ کی جاتی تھی لیکن جو آج کی جانچ پرکھ ہے وہ اصل ذریعہ ہے جس کی وجہ سے شادی میں تاخیر ہوتی ہے موصوف ایک لمبا سانس لے کر مزید کہنے لگے کہ بیوی کے وصال کے بعد احباب کے تقاضا نے مجھے شادی کیلئے مجبور کیا‘ میں تو ایک بات پر حیران ہوا کہ جن رشتوں کو ہم دیکھتے ہیں چالیس سے پینتالیس سال کی خواتین کنواری عام طور پر مل رہی ہیں۔ مجھے افسوس بھی ہوا اور حیرت بھی تو پتہ چلا کہ شادی کی تاخیر کی بنیاد معیار اور پرسنیلٹی ہے۔ اور وہ پرسنیلٹی کیا ہے؟ کہ خود مجھے ایک پینتالیس سال کی کنواری لڑکی کیلئے جب رشتہ کی بات چلی تو ان کی ڈیمانڈ سترلاکھ کی پراڈو گاڑی‘ فلاں چیزیں‘ اتنا بڑا گھر وغیرہ۔ جو خواتین دیکھنے گئی تھیں ان کا تبصرہ یہ تھا کہ لڑکی کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے اور وہ حیرت سے ماں باپ کا منہ دیکھ رہی تھی۔ یعنی اس کے دل کی آواز تھی اور وہ والدین کو حال دل سے پکار رہی تھی کہ میرے ساتھ پینتالیس سال تک تو زیادتی کرچکے ہیں اب تو مزید زیادتی نہ کریں۔ اب تو میں بظاہر اولاد پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں رہی مجھے اماں کون کہے گا اب تو میں ہی اماں ابا کہہ رہی ہوں۔ موصوف اپنی بات کرتے کرتے غصے میں آگئے اور کہنے لگے جن کے گھر میں ایک کمرہ ہے اور تین وقت کی روٹی بمشکل ہے ان کی ڈیمانڈ بھی اتنی زیادہ ہے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ چلو میں تو بوڑھا ہوں لیکن یہ سب کچھ جوانوں کیلئے ہورہا ہے اور مجھے کہنے لگے کہ حکیم صاحب آپ مجھے شادی کا نہ کہیے گا اللہ بخشے میری بیوی بس اس نے میرے ساتھ جو اچھا سلوک‘ اچھی زندگی گزاری وہ اتنی شاندار ہے کہ مجھے یہ ڈیمانڈیں اور ڈیمانڈوں کے بعد پھر ایک اور انجام نظر آتا ہے جن کی نظر پہلے دن دولت مال گاڑیاں‘ کوٹھیاں‘ جائیداد پر ہے ابتدا ہی خراب ہوئی ہے انتہا کا کیا ہوگا؟ پھر اپنے نانا مرحوم کے بارے میں فرمانے لگے کہ وہ بہت عقلمند اور جہاں دیدہ انسان تھےاور بنیے تھے میں چونک پڑا میں نے کہا بنیے تو ہندو کو کہتے ہیں کہنے لگے نہیں اصل میں جو صابن آٹا گھی چاول کا کام کرتا ہے بنیا اس کو کہتے ہیں۔ایک دن ہمارے گھر تشریف لائے پندرہ بیس سال سے ایک صاحب ہمارے ہاں دروازے پر سبزی دینے آتے تھے‘ سبزی کی ریڑھی تھی وہ گلی گلی اسی پر سبزی بیچتے تھے ایک دن وہ صاحب ہمیں سبزی دینے آئے‘ نانا مرحوم بیٹھے تھے دیکھ کر کہنے لگے اس نے سبزی کم تولی ہے‘ ہم حیران ہوئے کہ پندرہ بیس سال سے ان سے سبزی لے رہے بہت اچھے انسان ہیں۔ کہنے لگے میں تجربہ کرکے بتاتا ہوں ان سے سبزی تولائی تو انہوں نے ایسے صفائی سے ڈنڈی ماری کہ ہم حیران ہوگئے اور ان پندرہ بیس سالوں میں ہم انہیں بالکل پرکھ نہ سکے۔ دوسری بات نانا کی یہ بتائی کہ نانا مرحوم نے فرمایا عورت کا خصم اس کا شوہر ہے اور شوہر کا خصم اس کا کاروبار ہے یعنی عورت اگر اپنے شوہر کی نہیں تو پھر کسی چیز کی بھی نہیں اور کسی قابل نہیں اور مرد اگر کاروبار کا نہیں تو پھر اس کو شوہر کہلوانے کا حق نہیں۔ میرے نانا نےاپنے تجربات میں تیسری بات یہ بتائی کہ سب سوٹوں (کپڑوں) پر نمبر لکھ کررکھیں۔ مثلاً ہر سوٹ پر نمبرنگ ہو‘ قمیص پر نمبر ایک‘ بنیان پر بھی ایک نمبر ہو‘ شلوار پر بھی ایک نمبر ہو۔ اس طرح کبھی کپڑے گم نہیں ہوتے۔قارئین! بڑوں کے تجربات اور مشاہدات میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے۔ آپ بھی آزمائیں اور استفادہ حاصل کریں۔

Friday, February 12, 2016

Monthly Ubqari Magazine February 2016



Monthly Ubqari Magazine February 2016
to download PDF file click below

Monday, February 1, 2016

گمشدہ چیز فرد اور سرمایہ پانے کا وظیفہ

گمشدہ چیز فرد اور سرمایہ پانے کا وظیفہ :۔
بے راہ روی کا شکار شوہر پلٹ آیا :۔
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم !آج میں اپنی ایک دوست کا مشاہدہ لکھ رہی ہوں ، اس کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ اس کا شوہر بہت ظالم تھا ۔ہر وقت مار کٹائی کرتا رہتا ، اس کا زیور بیچ کر کھا گیا اس کے جہیز میں ساتھ آئے جانور بھی بیچ کر کھا گیا ۔اس کے شوہر کو ایک عورت نے کالے جادو کے ذریعے اپنے جال میں پھنسا لیا تھا اور ان کے آپس میں ناجائز تعلقات تھے ۔ میری دوست بہت زیادہ پریشان تھی۔ہر وقت کے لڑائی جھگڑوں سے تنگ آ کر میری دوست کے سسر جو کہ رشتہ میں اس کے تایا لگتے تھے خود اپنی بھتیجی کو لے کر اپنے بھائی کے گھر آئے اور کہا کہ میرا بیٹا بے غیرت ہو گیا ہے میں اسے اس کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتا نہیں دیکھ سکتا آپ اسے فی الحال اپنے گھر میں ہی رکھیں ۔
خیر میری دوست چند دنوں بعد میرے پاس آئی اور اپنی ساری داستان غم مجھے سنائی ۔ میں نے اسے تسلی دی اور ہر وقت پڑھنے کیلئے یارب موسی یا رب کلیم ﷽ کا وظیفہ پڑھنے کو دیا اور عبقری کے کچھ سابقہ شماروں میں اس کے عمل کے واقعات بھی پڑھائے جس سے اس کو امید کی کرن نظر آئی اور اس نے وعدہ کیا کہ میں اب ہر وقت اٹھتے ، بیٹھتے پاک ناپاک یہی وظیفہ پڑھوں گی۔اس وظیفہ کے پڑھنے کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد اس کے شوہر سے کالا جادو ختم ہو گیا وہ خود آ کر معافی مانگ کر لے گیا آگے عید الاضحیٰ تھی اس کے شوہر نے جانور بیچے جو کہ تقریباًآٹھ لاکھ کے بک گئے جس پر وہ خود بہت زیادہ حیران ہوا اور اس بچت میں سے میری دوست کو اس کے بیچے ہوئے جانور لا کر دیئے اور زیور بنوا کر دیا ۔ میری دوست نے کچھ عرصہ پڑھنے کے بعد یہ عمل چھوڑ دیا ۔ اس عمل کا چھوڑنا تھا کہ چند دنوں بعد دوبارہ اس کے شوہر کا رویہ بدلا اور وہی مار دھاڑگالم گلوچ شروع ہو گئی جب پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ اسی جادو گرنی نے ایک درخت پر عمل کر کے باندھ دیا ہے جب بھی ہوا چلی ہے اور وہ کپڑا ہلتا ہے ۔تو ان کی آپس میں لڑائی شروع ہو جاتی ایک مرتبہ تو میری دوست کے شوہر نے اس کو اتنا مارا کے وہ لہو لہان ہو گئی۔اس کے سسر نے علاج معالجہ کے بعد دوبار اپنے بھائی کے گھر چھوڑ گئے ۔ اب کی بار میرے پاس آئی اور اپنی داستان سنائی تو میں نے کہا میں نے جو تمہیں کہا تھا کہ یہ وظیفہ کبھی چھوڑنا نہیں پڑھتی رہنا تم کو یہ وظیفہ چھوڑنا نہیں چاہیے تھا۔ کیونکہ تمہارا مقابلہ ایک جادو گرنی سے ہے ۔ اس کے بعد میری دوست نے درج بالا وظیفہ اور زیادہ توجہ ، دھیان اور یقین سے پڑھنا شروع کر دیا ۔ پانچ چھ ماہ مسلسل پڑھتی رہی اب تو یہ حال ہو گیا کہ اٹھتی ، بیٹھتی ، چلتی، پھرتی ہر وقت پڑھتی رہتی ۔ اس کی زبان پر ہر وقت یارب موسی یا رب کلیم ﷽ رہتا ۔اسے مختلف اچھے اور برے خواب آنا شروع ہو گئے ۔ اب اس کا شوہر بہت زیادہ بدل گیا ہے اپنے بچوں کیلئے اور سب سے زیادہ اپنی بیوی کیلئے تڑپتا ہے ورنہ پہلے تو اسے کہہ گیا تھا کہ تمہیں طلاق دیکر اس جادوگرنی کو ساتھ لے کر بیرون ملک چلا جاؤں گا ۔ ہر رشتہ دار کو فون کر کے بتاتا کہ اب کی بار میں نے اسے چھوڑ دینا ہے ۔ وہ بیچاری بہت زیادہ پریشان ہوتی رو رو کر اپنا برا حال کر لیتی کھانا ۔ پینا چھوڑ دیتی  میرے پاس جب بھی آتی میں یہی کہتی کہ بس پڑھتی رہو، پڑھتی رہو، پڑھتی رہو ۔پڑھنا ہر گز نہ چھوڑنا چاہے جیسے بھی حالات آ جائیں ۔ پھر ایک دن وہ آیا اور اس کو منا کر لے گیا اور کہا کہ تم جیسے چاہو گی ویسے ہی ہو گا۔ میری دوست نے اپنے شوہر سے کہا کہ تم پانچ وقت کے نمازی بن جاؤ، گھر سے دور نہ رہو مجھے اور بچو ں کو وقت دو ۔ الحمدللہ! اب اس کا شوہر راہ راست پر آ گیا ہے ۔ اس نے مجھے بتایا کہ اب بھی وہ جادو گرنی اسے کال پر کال کرتی رہتی ہے مگر وہ اٹھاتا نہیں میں نے اپنی دوست کو کہا کہ تم یہ ذکر ہر گز نہ چھوڑنا انشاءاللہ وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے تم پریشان نہ ہو خوش رہو اورورد جاری و ساری رکھو اللہ پاک کی رحمت سے تمہارا شوہر تمہارے ساتھ ہے اب وہ اس کا کالا جادو انشاءاللہ کبھی اثر نہیں کرے گا ۔ اس کے رشتہ دار سب حیران کہ یہ کایا کیسے پلٹی ، اس لڑکی نے ایسا کیا جادو کیا کہ اس کالی جادوگرنی سے اپنے شوہر اور بچوں کو بچا لیا ۔وہ سب میری دوست سے آ آ کر پوچھتے ہیں کہ تم نے ایسا کیا پڑھا کہ اتنے مشکلات کے بھنور سے بڑے آرام سے نکل آئی نقصان سے ، بے عزتی سے اور طلاق سے بچ گئی ۔ تمہارا شوہر جو کہ تمہیں دیکھنا پسند نہیں کرتا تھا اب تمہارے بغیر ایک پل نہیں رہتا ، کام پر جانے کے بعد شام ہونے سے پہلے گھر آ جاتا ہے گھر آتے ہی سلام کے بعد سب سے پہلے تمہیں آواز دیکر بلاتا ہے ۔ سب دوست احباب کو بھول گیا ہے ۔ آخر تم نے کیا جادو کیا ہے ؟میری دوست تمام پوچھنے والوں کو یہی وظیفہ بتاتی ہے ۔ اب تو اسکا شوہر بھی سارا دن یہی وظیفہ پڑھتا ہے ۔

عبقری روحانی اجتماع کے حسین مناظر

عبقری روحانی اجتماع کے حسین مناظر :۔


آج کے اس پر فتن دور میں ہر ایک پریشان ہے اور سکون کی تلاش میں سر گرداں ہے کوئی ایسا نہیں جو مطمئن ہو۔امیر ہو یا غریب مرد ہو یا عورت ہر کوئی پریشان ہے ۔ کسی کو مفلسی تنگ کئے ہوئے تو کوئی جادو جنات کا مارا ہوا ہے کوئی بے اولادی کا روگ پالے ہوئے ہے تو کوئی اولاد ہوتے ہوئے ان کی اصلاح کی فکر میں ہے کسی کو جسمانی بیماریوں نے گھیرا ہوا ہے تو کوئی روحانی بیماریوں سے پریشان ہے ان ہی پریشان حال لوگوں کیلئے کچھ درد دل رکھنے والے لوگ اپنی کوشش اور جدوجہد کرتے رہتے ہیں تاکہ عوام الناس کی پریشانیوں میں نجات ہو سکے اور ان کی مشکلیں حل ہو سکیں ان ہی کوششوں کا ایک سلسلہ لاہور میں منعقد ہوا ۔ عبقری کا روحانی اجتماع نومبر 2015 بروز جمعہ، ہفتہ، اتوار مورخہ 20،21،22 کو منعقد ہوا ایڈیٹر عبقری شیخ الوظائف حضرت حکیم محمد طارق محمود چغتائی دامت برکاتہم اپنی دواؤں اور درس سے فیض پہنچا رہے ہیں ۔لیکن اس دفعہ یہ نئی کاوش انہتائی سود مند ثابت ہوئی ۔ موسم سرما کے باوجود لوگوں نے اس روح پرور اجتماع میں شرکت کی ۔ توقع سے زیادہ لوگوں کی آمد ہوئی ۔ یہاں تک کہ مزید خیمے لگائے گئے ۔ پاکستان کے دور دراز علاقوں سے لوگ تشریف لائے ۔ کوئی اپنی بکری بیچ کر حاضر ہوا تو کسی نے اپنا زیور بیچا تو کوئی کسی سے ادھار لیکر پہنچا تو کچھ حضرات پیسے جمع کرتے ہوئے آئے تو وہیں امیر اپنی شاہانہ آسائش کو بالائے طاق رکھ کر شریک ہوئے ۔نہ ان کو ان کے مزاج کا کھانا ملا نہ آرام ملا ۔ مگر جاتے ہوئے سب خوش تھے ۔ ایک خاتون کے بیگ میں موجود ایک لپ اسٹک کی قیمت ایک لاکھ تھی وہ بھی عام لوگوں کے ساتھ شریک ہوئی ۔ اس میں لاکھوں کروڑوں کی گاڑیوں اور کوٹھیوں والے بھی شریک ہوئے اپنی غرض جو لے کر آیا تھا وہ دعائیں دیتا ہوا گیا ۔ طعام و قیام کا معقول انتظام تھا حضرت حکیم صاحب نے اپنے قیمتی اوقات میں سے وقت نکال کر نہایت محبت سے اس اجتماع کا اہتمام کیا ان کے قیمتی درس نے جہاں آنے والوں کو فائدہ پہنچایا وہاں جہاں جہاں سننے والے تھے ان کو بھی فائدہ پہنچا اور فیض یاب ہوئے اجتماع میں شرکت کیلئے آئے خوش نصیبوں کو تسبیح خانہ میں نہایت خوبصورت خواب آئے جس میں انہیں بزرگوں کی زیارتیں ہوئیں ۔ جس کا اظہار انہوں نے دوران اجتماع لوگوں سے کیا ۔ بہت سے ایسے خوش نصیب بھی تھے جن کی من کی مرادیں صرف دوران اجتماع ہی پوری ہوئیں ۔ الحمدللہ ! اب ہم اس اجتماع میں حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی چھ نشستوں کا مختصر تعارف بیان کرتے ہیں الحمدللہ !اجتماع کا آغاز 19 نومبر کو مغرب کی نماز کے بعد حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کے پرسوز درس سے ہوا اجتماع میں مرد خواتین اور بچوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ مردوں کیلئے ساڑھے چار کنال کے وسیع و عریض تسبیح خانہ میں رہائش و طعام کا بہترین انتظام کیا گیا تھا چوبیس گھنٹے بجلی و پانی کا انتظام تھا ۔اجتماع کے پہلے دن صبح فجر کی نماز کے بعد حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم اپنی پہلی نشست میں درس روحانیت و امن دیا ۔ درس کے بعد ذکر، مراقبہ اور آنسوؤں سے لبریز دعا ہوئی ۔ دوپہر ایک بجے جمعۃ المبارک کا خطبہ شروع ہوا جو مولانا ولید حاحب خلیفہ حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے دیا رات عشاء کے بعد ایک اور نشست ہوئی یہ حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی دوسری نشست تھی جس میں آپ حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کا درس ،ذکر،مراقبہ اور پر سوز دعا ہوئی ۔ دعا کے بعد شرکاء کو سونے کی اجازت دی گئی ۔ صبح فجر کے بعد حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی تیسری نشست ہوئی جس میں درس، مراقبہ اور دعا ہوئی اور مہمانوں کی لذیذ کھانے ، حلوہ اور چائے سے تواضع ہوئی ۔ نماز ظہر کے بعد حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی چوتھی نشست ہوئی جس میں درس کے بعد حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم مہمانوں میں گھل مل گئے ۔ اور مہمانوں سے باری باری ان کے طبی و روحانی مشاہدات سنے مہمانوں نے بخل شکنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دلوں کے راز آزمودہ نسخہ جات و روحانی بھید اس محفل میں سب کو بتائے ۔ جس سے لوگوں کو بھر پور فائدہ ہوا ۔ اس کے بعد نماز عشاء کے بعد پانچویں نشست میں درس، ذکر ، مراقبہ اور دعا ہوئی ۔ اس کے بعد 22 نومبر 2015 بروز اتوار کو نماز فجر کے بعد حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی چھٹی اور آخری نشست ہوئی جس میں حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے پر سوز درس، ذکر ، مراقبہ، اور دعا کے بعد برکت والا دم کیا ۔ بروز اتوار آخری دعا میں شرکت کیلئے لاہور اور گرد نوح سے بھی کثیر تعداد میں شہریوں نے شرکت کی اور تسبیح خانہ درا التوبہ اور تسبیح خانہ کی گلیوں میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہ بچی ۔ مزید حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے بے اولادوں کیلئے خصوصی اسم اعظم کا دم کیا جس کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا تھا اس دم کیلئے بہت سے لوگ گھروں سے اکتالیس لونگ اور ایک سیب ہمراہ لائے بے اولادوں کیلئے حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے ایک دوا بھی دی جو کہ نہایت ہی ارزاں قیمت ایک سو روپے میں دستیاب تھی ۔ لوگوں نے ان تین دنوں میں اللہ پاک سے خوب مانگا اور خوب پایا ۔ آخری دن دعا کے بعد مہمانوں کیلئے ناشتے کا وسیع انتظام تھا اور اس دن لنگر کی خاص بات یہ تھی کہ حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے اپنے ہاتھوں سے تمام مہمانوں کو لنگر تقسیم کیا جس سے مہمانوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ہر کسی کے چہرے پر خوشی تھی ہر کوئی مسرور تھا ۔ اس اجتماع کی ایک اور خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں خواتین کا علیحدہ انتظام تھا ۔ عورتیں اور بچے کثیر تعداد میں شریک ہوئے جہاں عورتوں کا انتظام تھا وہاں بے پناہ رش ہونے کے باوجود عورتوں نے نہایت نظم و ضبط اور برداشت کا مظاہرہ کیا ۔ لاکھوں کے بیڈز پر سونے والی بہنوں نے سردیوں کی راتوں میں فرش پر پر سکون نیند سوتی رہیں ۔بعض بہنوں نے دوران اجتماع خط لکھ کر دفتر ماہنامہ عبقری میں جمع کروائے جس میں لکھا تھا کہ ان کی سالہا سال کی بیماریا ں حیرت انگیز طور پر ختم ہو رہی ہیں اور دل کو عجب سکون مل رہا ہے انہیں دوران دعا خوب رونا آ رہا ہے۔اور دعا ہے کہ وہ اگلے اجتماع میں ضرور شریک ہوں ۔ اجتماع گزرنے کے بعد حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے وہ محبین اور ساتھی جنہوں نے دن رات کر کے اجتماع کے انتظامات ، کو سنبھالا اور تمام خدمات سر انجام دیئے ۔ حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے ان تمام حضرات کو بلایا ان حضرات کا نہایت اکرام کیا شکریہ ادا کیا ۔ اور ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ نہایت خوبصورت جائے نماز اور تسبیح کا ہدیہ دیا ۔ جسے پا کر ہر خدمت ، والا نہایت مسرور اور خوش تھا اور اپنی قسمت پر ناز کر رہا تھا ۔  

موٹاپا اور معدہ کے پرانے مریض متوجہ ہوں

موٹاپا اور معدہ کے پرانے مریض متوجہ ہوں !


ایک صاحب میرے پاس علاج کی غرض سے بہت دور سے آئے ایک لقمہ کھا لیں تو طبیعت ہمیشہ بوجھل بوجھل چائے کا گھونٹ پی لیں ۔ تو جلن ، دودھ پئیں تو معدہی پھول جائے ۔ اعصاب تھکے ہوئے مزاج میں غصہ اور چڑ چڑا پن ، طبیعت میں ہر وقت اکتاہٹ، بے زاری ، گھبراہٹ بے چینی، پیٹ پھول چکا، چند قدم چلیں سانس پھول جاتا تھا ، جوڑوں اور گھٹنوں کےلئے رنگ برنگی نامعلوم کتنی گولیاں کھاتے تھے ، اعصاب کمر ہر وقت دبواتے رہتے ، ازدواجی زندگی بہت کمزور سے کمزور تر اور طبیعت میں ہر وقت گرانی اور بے چینی ، ذہنی تناؤ اعصابی کھچاؤ جس کو وہ ہر وقت ٹینشن اور ڈیپریشن کہتے رہے تھے ۔ کئی ڈاکٹروں سے اور ماہر نفسیات سے علاج بھی کر چکے لیکن طبیعتت میں ا بھی تک وہی بے چینی اور وہی بے زاری ۔ مصروف تاجر تھے اندرون بیرون ملک کاروباری سفر کرتے رہتے تھے ان کے پاس ایک چھوٹا بیگ تھا جو رنگ برنگی گولیوں ، کیپسول ، دواؤں اور انسولین کے انجکشن سے اکثر بھرا رہتا تھا ۔ عمر کوئی زیادہ نہیں تھی لیکن ستر سال کے نظر آتے تھے بقول ان کے کہ ہر وقت منفی سوچیں ،خودکشی کے خیالات ، ذہنی اعصابی کھچاؤ، تناؤ جس نے مجھے مریض بنا دیا جسم پرہلکی ہلکی ورم اور صبح سو کر اٹھتے تھے تو چہرہ اور آنکھیں سوجھی ہوئی ہوتی تھیں ۔ منہ سے بدبو آتی حالانکہ بقول ان کے دو وقت تو ہر حال میں برش کرتا ہوں تھوڑی سی بات سن لیں دل دھڑکتا تھا ہر وقت انجانا خوف، انجانی فکر اور انجانی سوچیں ان کو پریشان کیے رکھتی تھیں ۔ یہ کچھ مختصر سی کیفیات میں نے ان کی بتائیں حالانکہ وہ تو خود بیماریوں کا مجموعہ تھے او ر بیماریاں شاید ان کو نہیں چھوڑتیں تھیں اور یہ جو کچھ میں نے لکھا ہے اس ساری کیفیت میں ان کے آنسو بھی شامل تھے جس کو میرے ٹشو جو میں انہیں بار بار دے رہا تھا ان کا ساتھ بنے ہوئے تھے ۔ میں نے انہیں تین پرہیز بتائے تین غذائیں بتائیں اور تین مہینے بتائے ۔ پہلا پرہیز :۔ بیکری اور بیکری سے ملنے والی تمام چیزیں ۔ دوسرا پرہیز :۔ سفید آٹے کی بنی ہوئی تمام چیزیں اور تیسرا پرہیز :۔ ہر قسم کا گوشت اور جو تین چیزیں استعمال کرنے کیلئے دیں موٹے آٹے کی روٹی امرود کے ساتھ کھائیں یعنی امرود بطور سالن جی چاہے ہلکی نمک مرچ ، سرخ یا کالی مرچ اس پر چھڑک سکتے ہیں چاہیں تو صرف امرود  کھائیں چاہے ایک وقت میں ایک کلو دو کلو اس سے بھی زیادہ جی بھر کر کھائیں ۔ کھائیں تو ایسا امرود کھائیں جو گلنے کے قریب ہو یعنی نہایت نرم سے نرم تر ہو سخت اور کچا ہر گز نہ ہو۔تو پہلی چیز امرود ۔ دوسری چیز :۔چھان بوری والی روٹی اور تیسری چیز :۔دو چمچ شہد تازہ پانی میں گھول کر دن میں تین بار پئیں قارئین ! یہ تین چیزیں میں نے انہیں بتائیں اور تاکید کی کہ تین ماہ زیادہ نہیں تو دو ماہ ورنہ ایک ماہ تو ڈٹ کر ضرور کریں پھر مجھے ملیں ۔ جی چاہے دوائیں چھوڑ دیں بہتر یہی ہے کہ آہستہ آہستہ چھوڑیں ۔ انہوں نے دوا کا تقاضا کیا میں نے انہیں دوانہ دی اور ان کو منت کر کے روانہ کر دیا ۔ کچھ عرصہ کے بعد میرے پاس آئے موصوف بہت خوش تھے اور ان کی آدھے سے زیادہ گولیاں اور دوائیں ختم ہو چکی تھیں ۔ کہنے لگے میں نے بہت علاج کرایا مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ نیوزی لینڈ گیا وہاں ایک بہت بڑا فزیشن تھا جس کی بھاری فیس میں نے ادا کی اسے اپنا چیک اپ کرایا وہ کہنے لگے آپ سب کچھ چھوڑ دیں اور صرف پھل کھائیں اور انہوں نے مجھے پھلوں کی باقاعدہ لسٹ دی اور اس کی تاکید کی ۔ انہوں نے مجھے اچھا خاصا وقت دیا میں ہوں ہاں کرتا رہا بہر حال آ کر وہ سب کاغذ پھاڑ دیئے اور اپنا وقت ضائع ہونے پر غصہ آیا ۔ مجھے اب جا کر احساس ہوا کہ وہ نیوزی لینڈ کا ڈاکٹر صحت مند بات کہہ چکے تھے اور میں غلط تھا وہ درست بھی تھے اور ان کا مشورہ تندرست بھی تھا ۔ مجھے اس لسٹ میں آج تک امرود یاد ہے اور چھان بوری کی روٹی بھی یاد ہے جو انہوں نے کہی کہ اگر آپ کا زیادہ بھی دل چاہے تو یہ تھوڑی سی کھا سکتے ہیں ورنہ زیادہ آپ پھل کھائیں پہلے پہل میں نے جب امرود کے ساتھ روٹی کھائی تو سب مجھ سے مذاق کرنے لگے اور میں خود بھی اسے مذاق سمجھ رہا تھا پر آپ کا مجھے کسی نے بتایا تھا اور میں نے آپ کی بات اس دفعہ ماننے کا پورا فیصلہ کر لیا تھا ۔اور میں نے آپ کی بات اس دفعہ ماننے کا پورا فیصلہ کر لیا تھا اور آپ کی بات مان کر مجھے احساس ہوا کہ میں کن رنگ برنگی غذاؤں اور فائیو سٹار ریسٹورنٹ میں بھٹکا رہا دراصل میرے ساتھ زیادتی ہاسٹل سے شروع ہوئی جب میں نے ہاسٹل کے لذیذ مسالہ دار کھانوں سے دل بہلایا اور مجھے ہاسٹل میں ملتا ہی وہی تھا باہر جاتا تو بھی وہی کھانے اور انہی ذائقوں سے بھرے اور اٹے کھانے بس ان کھانوں کا ایسا چسکا پڑا کہ ان کھانوں نے مجھے اور کسی چیز کا نہ چھوڑا ۔ حتیٰ کہ میں ان ذائقوں کی وجہ سے اپنی زندگی کی حقیقی لذت ہوتی ہی کیا ہے ۔ اے کاش! میں آپ کے پاس پہلے آ جاتا پھلوں ، سے اور امرود سے دوستی لگا لیتا ۔ قارئین ! یہ ایک واقعہ ہے جس نے آپ کے اندر واقعی خود احساس پیدا کیا ہو گا میرے پاس یہ ایک واقعہ نہیں ہے بیسیوں واقعات ہیں ایک شخص بواسیر کی پرانی مرض میں مبتلا تھا میں نے بس صرف ایک بات کہی یا اپنی مانیں یا میری مانیں اگر میری ماننی ہے تو صرف اور صرف یہی تین غذائیں تین پرہیز اور تین مہینے ۔قارئین ! اس مریض نے تو صرف ایک مہینہ یہ کیا اور ایک مہینے میں آدھی بلکہ آدھی سے زیادہ دوائیں بھی ختم ستر فیصد سے زیادہ صحت یاب اور کہنے لگا کہ مجھے زندگی کا چین ، سکھ ، سکون اور راحت ابھی نصیب ہوئی ہے ۔ ایک انوکھی بات کہوں کیا آپ کو یقین آئے گا ؟ آپ کسی بھی بیماری میں مبتلا ہیں وہ مرض آپ کو ڈاکٹر نے بتائی ہے یا آپ خود اس کا احساس رکھتے ہیں وہ لاعلاج ہے اور آپ بالکل مایوس ہو چکے ہیں صرف یہی تین علاج اور تین پرہیز سختی سے کریں اور تین مہینے کریں اکتانا نہیں ، گھبرانا نہیں اور تھوڑی سی محنت سے جی چرانا نہیں ۔ بس میری مان کر دیکھیں ، مریض کسی قسم کا ہو اور مرض کسی قسم کی ہو بس یہ تین آپ کے ساتھی ہیں ۔جن دنوں میں امرود نہیں ملتا ان دنوں میں ہم کیا کریں ؟ ٹکڑے ٹکڑے کر کے فریج میں برف بنالیں یا اس کو شیک کر کے چینی ڈال کر اس کو پکائیں گاڑھی کھیر کی طرح بن جائے اس کو فریج میں محفوظ رکھیں اور بھی کوئی طریقہ آپ کر لیں بہر حال امرود سے دوستی ان چھنے آٹے سے دوستی شہد سے دوستی آئیں ان سے دوستی لگا کر دیکھیں ۔   

امتحان میں آسان پرچوں کیلئے

امتحان میں آسان پرچوں کیلئے:۔


محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم ! آپ نے اس رسالے کی مدد سے انسانیت کیلئے بہت سی خدمات سر انجام دیں میں آپ کی ان خدمات سے بہت خوش ہوں ہر ماہ عبقری پڑھتا ہوں عبقری واقعی لاجواب ہے ایک آسان عمل پیش خدمت ہے ۔ ہر پرچے کے دن کمرہ امتحان میں جانے سے پہلے یہ آیت صرف سات مرتبہ پڑھیں  حَسْبَکَ اللَّهُ هُوَ الَّذي أَيَّدَکَ بِنَصْرِهِ وَ بِالْمُؤْمِنينَ۔

مراقبے سے علاج

مراقبے سے علاج :۔



Meditation یعنی مراقبہ جہاں ازل سے روحانیت کی ترقی اور مشکلات کے حل کا علاج رہا ہے وہاں جدید سائنس نے اسے امراض کا یقینی علاج بھی قرار دیا ہے ۔ ہزاروں تجربات کے بعد عبقری کے قارئین کیلئے مراقبے سے علاج پیش خدمت ہے سوتے وقت اگر باوضو اور پاک سوئیں تو سب سے بہتر ورنہ کسی بھی حالت میں صرف 10 منٹ بستر پر بیٹھ کر بلا تعداد العظمۃ اللہ ورد کریں اول و آخر 3 بار درود شریف پڑھیں پھر  لیٹ جائیں جس مرض کا خاتمہ یا الجھن کا حل چاہتے ہوں اس کو ذہن میں رکھ کر یہ تصور کریں کہ آسمان سے سنہرے رنگ کی روشنی میرے سر سے سارے جسم میں داخل ہو کر اس مرض کو ختم یا الجھن کو حل کر رہی ہے اور اس وظیفے کی برکت سے میں سو فیصد اس پریشانی سے نکل گیا /گئی ہوں ۔ یہاں تک کہ اس تصور کو دہراتے دہراتے نیند آ جائے ۔ شروع میں تصور بناتے ہوئے آپ کو مشکل ہو گی لیکن بعد میں آپ پر جب اسکے کمالات کھلیں گے تو حیرت کا انوکھا جہان اور مشکلات کا سو فیصد حل خود آپ کو حیرت زدہ کر دیگا ۔  

آخری سٹیج پر پہنچا کینسر بالکل ٹھیک

آخری سٹیج پر پہنچا کینسر بالکل ٹھیک :۔



محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم !میرے پاس ایک عمل ہے جو کہ کینسر کیلئے بہت ہی آزمودہ و لاجواب ہے ۔ اللہ نہ کرے کسی کو کینسر ہو اگر کسی کو یہ نامراد بیماری لگ جائے چاہے وہ آخری سٹیج پر کیوں نہ پہنچ جائے ۔ اگر اللہ پاک نے زندگی رکھی ہے تو چالیس دن میں ضرور مکمل شفاء یاب ہو گا ۔ عمل یہ ہے اول و آخر گیارہ بار درود ابراہیمی اور درمیان میں ایک بار سورہ مریم پڑھ کر پانی پر دم کریں اور وہی پانی سارا دن مریض کو پلائیں ۔ چالیس دن تک ایک بھی ناغہ نہ ہو ۔ انشاءاللہ اگر اللہ پاک نے چاہا تو ضرو بالضرور شفاء نصیب ہو گی ۔

دعوت خیر کی برکت

دعوت خیر کی برکت :۔


انہوں نے فون ملا کر میری طرف بڑھایا کہ بریرہ آپ سے بات کرنے کیلئے رو رہی ہے ۔کئی روز سے مجھے پریشان کر رکھا ہے کہ آپ حضرت سے فون پر بات نہیں کراتے ذرا اس بچی سے بات کر لیجئے ۔ میں نے بات کی اس بچی سے جس کی ابھی عمر چار سال بھی نہیں ہو گی ۔ بڑی معصوم آواز میں سلام کر کے خیریت معلوم کی اور بولی حضرت ہمارے لئے دو دعائیں کر دیجئے میں نے کہا ہاں بتاؤ میں اپنی بیٹی کیلئے کون سی دعا کروں ؟ وہ بولی ایک تو یہ دعا کر دیجئے کہ عید جلدی آ جائے کیونکہ آپ ہمارے گھر عید کے روز ہی آتے ہیں میرا دل آپ سے ملنے کو بہت چاہ رہا ہے عید جلدی آ جائے ی تو آپ جلدی آ جائیں گے ۔ دوسری دعا یہ کر دیجیئےٓ کہ اللہ پاک مجھے دین کی سچی داعی بنا دے اور میرے بھائی تاج کو اور ہماری سب بہنوں کو بھی دین کا داعی بنا دے اس حقیر کی طبیعت بھی کچھ سست چل رہی تھی اور کچھ بے نظم مصروفیات میں حد درجہ تھکان ہو رہی تھی اس ننھی سی بچی کی ایسی بامقصد اور ننھی ننھی باتوں نے دل و دماغ کو تروتازہ کر دیا وہ بچی ہمارے رفیق عزیز سید محمودالحسن کی چھوٹی بچی ہے جن کا بانی ندوہ حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری رحمۃاللہ علیہ کے خانوادہ سے تعلق ہے یہ بستی دین اور اہل دین خصوصاً علم سے ایسی دور ہو گئی ہے کہ چند اشخاص کو چھوڑ کر یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اس بستی کو ایسی ایسی اہل ہستیوں کے وطن ہونے کاشرف حاصل ہے ۔ یہ حقیر آج تک اپنے رب کریم کا شکر ادا کر رہا ہے کہ دعوت کو ہمارا فرض منصبی بنا کر اللہ پاک نے ہر بگاڑ کیلئے شاہ کلید ہمیں عطا کر دی ہے اس فرض منصبی سے غفلت کے جرم کا بہ تکلف اعتراف اور اس کا یہ تصنع شور اللہ پاک نے اپنے فضل سےہم نااہلوں سے کروا دیا ہے اس کے صدقہ میں بے شعور بچے اور کم سن بچیاں دعوت کے جذبہ کی طلب سے سرشار نظر آتی ہیں اور دعوت اور اس کے مقام کی مقبولیت اور محبوبیت ہے کہ اس شور کے صدقہ میں معصوم بچیاں عید جلدی آنے کی دعائیں کراتی ہیں کہ دعوت کی آواز لگانے والے سے عید کے دن ان کو ملنا نصیب ہو جائے ۔

امت کی چودہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے  ۔ کہ جس دور اور جس عہد اور جس علاقہ میں کسی شخص نے انسانیت کی خیر خواہی اور اس کو باطل کے اندھیروں سے نکال کر اور دین حق کی روشنی میں لانے کی آواز لگائی اس دور میں اور اس عہد میں اس مقام پر ان شخصیات کو عزت و محبوبیت کی دولت سے مالا مال کیا گیا عزت و سر بلندی اور وقار نے ان کے قدم چومے مایوسی ، نامرادی آس و مراد میں بدلی و محکومیت و مغلومبیت کے غار سے نکل کر حاکمیت اور غلبہ کی سر بلندی پر چڑھنا نصیب ہوا ہے ۔اور جس دور اور جس مقام پر ملت کے افراد نے اپنے فرض منصبی سے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا دین حق کی اشاعت اور اس کا حق رسالت ادا کرنے کے بجائے کتمان حق کے مرتکب ہوئے ذلت و خواری ان مقدر بنی اور دنیا کے سامنے ان کو ذلیل و خوار ہو کر رہنا پڑا امام مالک کا مشہور ارشاد ہے کہ اس امت کے بعد والے اسی راہ پر چل کر فلاح و کامیابی حاصل کی وہ فلاح اور کامیابی کی راہ اپنے نبی ﷺ کی اتباع میں آپ کہہ دیجئے ۔ یہ میراراستہ ہے میں اللہ پاک کی طرف بلاتا ہوں بصیرت کے ساتھ میں بھی اور میرے متبعین بھی اپنی اصل راہ اپنا طریق اپنی شناخت اور پہچان بنانا ہے کاش امت اس گر کو اپنا کر اپنی زبوں حالی اور ذلت کا علاج پتوں کو دھونے کے بجائے درخت کی جڑوں کو سینچنے سے کرے۔

جنات کا پیدائشی دوست


جنات کا پیدائشی دوست :۔ (قسط نمبر 76)

استاد فوقانی ثانی اور محدث جن کی عیادت:۔استاد فوقانی ثانی سے میری محبت پیار اور دلچسپی بڑھ گئی مجھے احساس ہوا کہ ان کے اند ر اللہ پاک نے کوئی اور خصوصی صفات رکھی ہیں ویسے تو صفات ہر انسان اور جن میں ہوتی ہیں اور اولیاء نیک یا عام جنات میں بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں میری سب سے پہلی ملاقات ان سے اس وقت ہوئی تھی جب میں اپنی جناتی سواری پر سفر کرتا ہوا ایک دور افتادہ پہاڑی غار میں ایک محدث جن کی عیادت کرنے جا رہا تھا ۔مجھے عبدالسلام جن نے بتایا کہ وہ بہت بیمار ہیں اور مسلسل آپ کو یاد کرتے ہیں میں انہیں ڈھونڈتا ڈھانڈتا آخر پہنچ گیا وہ اٹھ کر بیٹھ گئے بہت خوش ہوئے میں نے ان کیلئے کچھ شفائی تدابیر کیں جس کی وجہ سے انہیں اسی وقت فوری فائدہ ہوا او ردل کا اور جسم کا سکون میسر ہوا ۔ بہت خوش ہوئے مجھ سے فرمانے لگے میرا ایک شاگرد ہے میں اسے بلوانا چاہتا ہوں ۔آپ اس سے ملاتات کرو وہ کائنات کے تہہ در تہہ سربستہ رازوں کو بہت اچھی طرح جانتا ہے اور یہ تہہ در تہہ سربستہ راز اللہ پاک نے اس پر بہت کھولے ہیں وہ کبھی ایک جگہ بیٹھا نہیں حتیٰ کہ اپنی شادی کے دن بھی وہ بیٹھا کسی باکمال سے ملاقات  کر رہا تھا اور بیوی اس کا انتظار کر رہی تھی وہ ہمیشہ کھو جوں میں اور تلاشوں میں زندگی کے دن رات گزارتا ہے اس کا ہر پل ہر سانس ہرلمحہ  ہر لحظہ کائنات کے رازوں میں لگا رہتا ہے اس کی زندگی اس کی سانسیں اور اس کا وجود اتنا زیادہ قیمتی ہے کہ اے کاش! میری زندگی کے باقی سال بھی اسے لگ جائیں تھوڑی ہی دیر ہوئی وہ ہمارے پاس آ گئے ایک اونچی اوررعب دار آواز میں سلام کیا اور بیٹھ گئے اور بیٹھتے ہی انہوں نے اس محدث استاد کے پاؤں اور کندھے دبانے شروع کر دئیے ۔ میری طرف انہوں نے کوئی بھی توجہ نہ دی میں ان کی خدمت میں بیٹھا رہا تھوڑی ہی دیر میں اس محدث نے میرا تعارف اس جن سے کرایا کہنے لگےاس کانام فوقانی ہے ۔
استاد فوقانی ثانی جن سے گفتگو اور کائنات کے سر بستہ راز :۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ استاد فوقانی ثانی جن میری طرف مائل ہوئے اور یوں سلسلہ گفتگو کا چلنا شروع ہو گیا ۔ گفتگو میں کچھ ایسی باتیں سامنے آئیں جن کا تعلق کائنات کے سربستہ رازوں میں سے ہے اگر میں ان کا اظہار کروں تو عام عقل انسانی اور انسانی شعور احساس و ادراک اس کو کبھی سمجھ نہ پائیں لیکن آج کی نشست میں میں کچھ ایسی چیزیں اپنے قارئین کو بطور امانت پہنچانا چاہتا ہوں جس کا انہیں بہت یقینی فائدہ اور ان کو یقینی نفع ہو گا ۔
ایک تسبیح اور بے حساب مغفرت :۔ پہلی چیز جو استاد فوقانی ثانی جن نے بتائی وہ یہ تھی اگر کوئی بندہ یہ چاہتا ہے کہ میرا خاتمہ ایمان پر ہو اور آخری وقت میں کلمہ نصیب ہو اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کا سچا قرب اور سچا ساتھ ملے قبر جنت بن جائے محشر کا حساب و کتاب سوال و جواب نہایت آسان ہو اور آخرت میں پل صراط کا راستہ سہولت سے پار ہو جائے نامہ اعمال قیامت کے دن اللہ پاک بے حساب بخش دے جنت میں استقبال ہو فرشتوں کا ساتھ ہو حوروں کی قدردانی نصیب ہو تو ایسا آدمی اگر روزانہ صرف ایک تسبیح  یاتواب اس کیفیت کے ساتھ پڑھے اور یہ صرف سوتے وقت پڑھنی ہے اول و آخر تین بار درود شریف اور کیفیت یہ ہو کہ یااللہ !میں دنیا کا سب سے بڑا مجرم ہوں ساری دنیا کی بخشش ہوگئی لیکن میری نہیں ہو سکتی ہاں تیر ی شان کریمی ہو گی تو ہو جائے گی اور میرے جرم ناقابل معافی ہیں لہذا اپنے اس صفاتی نام کی برکت سے مجھے بخشش کاسامان دے بس یہ ایک تسبیح ہو لیکن ہو ایسی جو جسم کے روئے روئے اور انگ انگ کو اللہ پاک کی ذات کی طرف متوجہ کر دے ۔
استاد فوقانی ثانی جن کی بات نے مجھے حیران کر دیا :۔ اس استاد فوقانی ثانی جن نے یہ کیا عجیب حیرت انگیز بات بتائی میں خود حیران ہو گیا میں لفظ یا تواب کی طرف اگر دیکھتاہوں تو سمجھ آتی ہے اور جب اس استاد فوقانی ثانی جن کے لہجے رویے اور سچے انداز کی طرف پھر بھی سمجھ آتی ہے اور بہت زیادہ آتی ہے میں ان کی بات سن رہا تھا ۔
عام سے مسلمان جن کا لاجواب خاتمہ بالخیر :۔ اسی دوران استاد فوقانی ثانی جن  نے ایک بات سنائی کہنے لگے ہمارے جنات کی دنیا میں ایک شخص تھا کوئی بہت بڑا نیک متقی نہیں تھا بلکہ عام سا مسلمان تھا میں نے اس کے مرنے سے تقریباً بہت سال پہلے اسے یہی عمل بتایا تھا کہ وہ شخص سوتے ہوئے وضو ہے یا نہیں ہے پاک ہے یا نہیں ہے ہر جگہ ہر حالت میں بس ایک تسبیح رات سوتے وقت اول و آخر تین بار درود شریف یا تواب کی پڑھے ابھی تھوڑا عرصہ پہلے وہ فوت ہوا تو مجھے اس کے گھر والوں نے بتایاکہ آخری لمحے میں کہنے لگا کہ قرآن لے آؤ۔قرآن سامنے لایا گیا تو وہ قرآن کو بہت خوش الحانی سے بہترین لہجے سے اور خوبصوت آواز سے پڑھنے لگ گیا حالانکہ وہ بالکل ان پڑھ تھا وہ قرآن نہیں پڑ سکتا تھا لیکن اس وقت وہ بہترین انداز سے قرآن پڑھ رہا تھا اور قرآن پڑھے جارہا تھا حتیٰ کہ اسی نشست میں اس نے بہت خوبصورت انداز میں قرآن کا ڈیڑھ پارہ پڑھ لیا اور قرآن واپس کیا اور سب کو متوجہ کیا لوگو! میں اپنے گناہوں سے معافی مانگتا ہوں اللہ پاک کی نافرمانی سے معافی مانگتا ہوں جس کا دل دکھایا ان سب تک میرا پیغام پہنچا دینا میں معافی مانگتا ہوں اللہ پاک پر ایمان ، فرشتوں پر ایمان ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں پر ایمان لاتا ہوں آخرت کے دن پر ایمان لاتا ہوں خیر اور شر اللہ پاک کی طرف سے ہے اس پر ایمان لاتا ہوں مرنے کے بعد کی زندگی ہے اس پر ایمان لاتا ہوں ، لوگوں میرے ایما ن پر گواہ رہنا ، میری توبہ کے گواہ رہنا  میرے توبہ کے گواہ رہنا بس اس طرح کی خیر کی باتیں کرتا ، کلمے کا ورد کرتا کرتا وہ اپنی زندگی  پا گیا ۔
یہ ایک موت نہیں :۔ ایسی بے شمار اعلیٰ قسم کی کئی شاندار اموات میں نے اپنی زندگی میں پائی ہیں استاد فوقانی ثانی جن مزید کہنے لگا ورد بہت مختصر لیکن اس کا کمال بہت زیادہ ہے کیونکہ ہر شخص نے مرنا ہے وہ انسان ہو یا جن ، موت ایک حقیقت ہے اور جو موت کی حقیقت کو پا گیا اور جو موت کو بھول گیا وہ زندگی کو بھی ہمیشہ کیلئے بھول گیا موت اصل ہے زندگی اصل نہیں اور آخری لمحے قیامت تک موت کا ذائقہ ہر ذی روح کو چکھنا ہے ۔ قارئین ! یہ تجربہ اور انوکھا مشاہدہ اس کے بعد میں نے بے شمار لوگوں کو بتانا شروع کر دیا اور بہت عرصہ دراز تک میں نے اس کو بتایا اور اب بھی بتا رہا ہوں ۔
علامہ صاحب کا انوکھا خواب :۔ ایک رات میں سویا ہوا تھا میں نے ایک خواب دیکھا اور وہ انوکھا خواب تھا ۔ میرے پاس بہت سے لوگ تھے جن کے خوبصورت لباس ، خوبصورت چہرے اور خوبصورت جسم تھے وہ کوئی جنتی سوارئیوں پر سوار تھے۔ مجھے علم نہیں کہ وہ سواریاں کیا تھیں بس ایک احساس ہو رہا تھا کہ تیز رفتار سواریاں ہیں جو لمحوںمیں لاکھوں میلوں کا سفر طے کر لیتی ہیں ۔ وہ سب میری طرف دیکھ کر مسکرا رہے ان کی مسکراہٹ ایسی تھی کہ میں نے بھی مسکرانا شروع کر دیا وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو تیرے اس یا تواب کی وجہ سے آخرت میں سر خرو ہوئے۔جب اللہ پاک کے سامنے حاضر ہوئے تو اللہ پاک نے ہمارے اس اسم اور توبہ کی وجہ سے مغفرت کا پروانہ دیا ہم سارے کے سارے آپ سے ملنے آئے ہیں اور یہ خوشخبری دینے آئے ہیں کہ آپ کی وجہ سے جتنے لوگوں کی بخشش ہوئی وہ دن رات آپ کیلئے بہت زیادہ دعائیں کرتے ہیں کہ یا اللہ پاک جو ہماری بخشش کا ذریعہ بنا  یااللہ پاک اس کی بخشش بھی کر دے اور اسے بھی معاف کر دے اور اسے بھی ہماری طرح اعلیٰ سے اعلیٰ بہتر جنت عطا فرما اور مزید ہنستے ہنستے مجھے انہوں نے ایک بات کہی کہ حضرت علامہ صاحب آپ اگر اس عمل کو پوری دنیا کیلئے پھیلا دیں تو بے شمار لوگوں کا فائدہ ہو گا کئی خطا وار اور گناہ گار بخشے جائیں گے اور کئی لوگ اللہ کا قرب پائیں گے اور اللہ پاک کی محبت پائیں گے ۔
مغفرت کی ماسٹر آپ کی خدمت میں :۔ قارئین ! جب میں اس خواب سے بیدار ہوا تو میرے دل میں آیا کہ اس عمل کو اور اس کیمیا نسخے کو پھیلانا چاہیے یہ ایک چابی ہے بلکہ ماسٹر کی ہے مخلوق خدا کا آخرت ، اللہ پاک کے ساتھ تعلق ، اللہ پاک کے نبی ﷺ کے ساتھ تعلق اس سے بہتر اور کس طرح ہو سکتا ہے بس یہ جذبہ ہے جس نے مجھے فوقانی ثانی جن کے اس عمل کو پھیلانے پر مجبور کیا ۔
استاد فوقانی ثانی جن کا انسانی روپ میں آنا :۔انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہنے لگے کہ ایک میدانی علاقے میں جہاں سخت شدت کی گرمی تھی میں جارہا تھا تو اس میدانی علاقے میں جہاں سخت شدت کی گرمی تھی میں جا رہا تھا تو اس میدانی علاقے میں مجھے ایک جھونپڑی نظر آئی ۔ وہ انسانوں کی جھوپنڑی تھی ۔ اس میں تین مرد ، پانچ عورتیں اور انیس بچے تھے ۔ وہ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے  ان کی باتوں سے مجھے محسوس ہوا کہ یہ ایک فیملی ہے جس میں بچے بھی ہیں جوڑے بھی ہیں اور کچھ بوڑھے لوگ بھی ہیں وہ نیک لوگوں کا گھرانہ نظر آتا تھا لیکن غریب لوگوں کا ۔ وہ اس بات پر بیٹھے فکر کر رہے تھے کہ ہم سارے گھر والے کیسے نمازی بن جائیں قرآن پاک کی تلاوت روز کیسے کریں ہمارا دل اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ سے کیسے جڑ جائے یہ فکر اور غم تھا جو انہیں بٹھائے بیٹھا تھا ۔
استاد فوقانی ثانی جن کو ملیں برکات :۔ مجھے ان کے سچے جذبے نے ان کے قریب بیٹھنے کا مزہ دیا چونکہ میں جن تھا اور ان کے قریب بیٹھا تھا ان کو پتہ نہیں چل رہا تھا لیکن مجھے احساس ہوا کہ ان کے قریب بیٹھنے سے مجھے برکات ملیں ۔ اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ ان لوگوں کو یاتواب کا عمل بتا دوں میں ایک مسافر پردیسی کے روپ میں نمودار ہوا جو کہ یہاں سے گزر رہا تھا اور میں نے اپنی شکل انسانی بنا لی اور میں انسانوں کے روپ میں ان کے سامنے جب پہنچا تو انہوں نے میرا استقبال کیا ، اور مجھے پردیسی مسافر سمجھ کر میری خاطرا مدارت کی ۔
استاد فوقانی ثانی جن کا جھونپڑی مکینوں کیلئے تحفہ :۔ میں نے ان کی خاطر مدارت قبول کی اور جاتے جاتے میں نے انہیں کہا کہ آپ نے میری اتنی خدمت کی ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ کو ایک تحفہ دے کر جاؤں اور پھر میں نے انہیں کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا خاتمہ ایمان پر ہو قیامت کے دن اللہ پاک کا سامنا ہو اور اللہ پاک راضی ہو  اور اللہ پاک آپ کو دیکھ کر مسکرائے ،اور آپ کی مغفرت ہو تو صرف یہ کام کریں کہ یا تواب کی ایک تسبیح سوتے وقت پڑھنے کی مکمل ترکیب بتا دی وہ میری بات سن کر بہت خوش ہوئے ان کے گھر میں کوئی تحفہ یا ہدیہ تو نہیں تھا لیکن ان کی چاہت تھی کہ کسی طرح ہم اس پر دیسی کو کوئی ہدیہ دے کر ہی بھیجیں ۔انہوں نے اصرار کیا میں نے انکار کیا کیونکہ وہ بہت سفید پوش اور غریب لوگ تھے میں وہاں سے چل پڑا اور چلتے چلتے مجھے ایک ایسے فرد سے واسطہ پڑا کہ جو طرح طرح کی بیماریوں ،تکالیف، مصائب اور پریشانیوں  میں مبتلا تھا ۔
دنیا کے غریب آخرت کے امیر:۔ میں نے محسوس کیا زندگی میں تو اس نے تکلیفیں ، پریشانیاں  ،دکھ بہت دیکھے لیکن آخرت میں بھی اگر یہ تکلیفیں ، پریشانیاں ، دکھ دیکھے گا تو دنیا بھی گئی اور آخرت بھی ۔ لہذا یہ دنیا میں تو غریب رہے لیکن آخرت کا امیر رہے ۔ میں نے اسے یہی تسبیح اور یہی وظیفہ یا تواب کا یہ عمل بہت تفصیل سے بتایا اس کے کچھ فائدے برکات اور کمالات اسے بتائے ۔ وہ حیران ہوا مجھے سے کہنے لگا میں سارا دن فارغ ہوں اگر میں سارا دن ہی یاتواب پڑھتا رہوں میں نے کہا پڑھ سکتے ہو اور عمل تو یہی ہے کہ سوتے ہوئے ایک تسبیح نہایت خشوع و خضوع ، دھیان توجہ  بے چینی ، بے کلی ، بے قراری سے کرنا ہے اور اس کے کمالات آخرت میں وہ کھلیں گے جو آپ سوچ نہیں سکتے ۔ اس نے پڑھنا شروع کر دیا پھر میں کچھ عرصہ کے بعد گزرا تو دیکھاتو وہ پریشان اور ویران شخص نہیں تھا ۔
سجی سجائی جنت آنکھوں کے سامنے :۔ مجھے حیرت ہوئی کہ وہ حیران و پریشان شخص آخر کہاں گیا ؟میں نے لوگوں سے پوچھا تو  لوگ کہنے لگے وہ فوت ہو گیا ۔ میں نے کہا اس کی موت کی حالت مجھے بتا سکتے ہیں اس کو کتنی بری یا اچھی موت آئی ۔ کہنے لگے ہاں ہم بتاتے ہیں وہ تین دن پہلے بالکل ٹھیک ہو گیا ایسے تھا جیسے اس کی بیماری ہے ہی نہیں تین دن کے بعد جب آخری لمحہ اس کا پہنچا وضو کیا نماز پڑھی نماز پڑھنے کے بعد اس نے دو نفل پڑھے دو نفل کے بعد مسلسل یاتواب پڑھتا رہا ۔اور اللہ پاک سے اپنے گناہوں کی رو رو کر اونچے اونچے بولوں میں معافی مانگتا رہا ۔ اس نے سب کو بولایا ۔ کہا دیکھو میں نے زندگی میں کوئی بڑے گناہ نہیں کیے اور کچھ زیادہ نیکیاں نہیں کیں ۔ ایک نیکی ہے میرے پاس ایک درویش ملا تھا اس نے مجھے آخری وقت میں سوتے وقت یاتواب کی ایک تسبیح پڑھنے کو کہا تھا ۔آج جنت سجی سجائی میری آنکھوں کے سامنے ہے ا س کے حسین مناظر اور اس کے کمالات اس کی خشبو ئیں اس میں فرشتے غلام ، حوریں اللہ پاک نے سب پردے مجھ سے ہٹا دیئے ہیں ۔اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں قبر میں مجھے بچھو ، سانپ اور اندھیرا نظر نہیں آرہا ہے ۔ قبر میں مجھے بچھونے ، حور ، نورانیت اور نور نظر آ رہا ہے لوگو ! تم بھی کبھی اس یا تواب کو نہ بھولنا جو بھی پڑھتا ہے اسے حیرت انگیز طور پر آخرت کی بہتری ملتی ہے اور دنیا میں بھی اس کے بہت فوائد ملتے ہیں  ۔ (جاری ہے ) 

ربیع الآخر میں خاتمہ بالخیر کے اعمال لیجئے

ربیع الآخر میں خاتمہ بالخیر کے اعمال لیجئے:۔


یہ اسلامی سال کا چوتھا مہینہ ہے اسے ربیع الآخر بھی کہا جاتا ہے اس کا نام رکھتے وقت ربیع کا موسم تھا یعنی ربیع کا اخیر تھا اس لئے اس کا نام ربیع الآخر رکھا گیا مگر ربیع الاول کی مناسبت سے اس کا نام ربیع الثانی مشہور ہو گیا ۔
اس ماہ کے نوافل حسب ذیل ہیں جو اکثر صوفیاء پڑھتے رہے ہیں ۔
شب اول کے نوافل:۔ عابدوں کا کہنا ہے کہ جب ربیع الثانی کا چاند نظر آ جائے تو اس کی شب اول میں بعد نماز مغرب آٹھ رکعت نفل دو دو رکعت کی نیت سے پڑھے اور پہلی رکعت میں سورہ الفاتحہ کے بعد سورہ الکوثر تین بار اور دوسری میں سورہ الکافرون تین بار پھر تیسری چوتھی ،پانچویں ، چھٹی ، ساتویں ، آٹھویں رکعت میں سورہ الفاتحہ کے بعد سورہ اخلاص تین تین بار ہر رکعت میں پڑھے انشاءاللہ تعالیٰ اس نماز کے پڑھنے والے کو بے شمار ثواب ملے گا اور بے شمار نمازوں کا اجر عطا ہو گا ۔
چار رکعت نفل:۔ جواہر غیبی میں ہے کہ اس مہینہ کی پہلی ، پندرہویں ، انتیسویں تاریخوں میں چار رکعت نفل پڑے ہر رکعت میں سورہ الفاتحہ کے بعد سورہ اخلاص پانچ بار پڑھے اس کے لئے ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ہزار برائیاں مٹائی جاتی ہیں اناءاللہ پروردگار عالم روز محشر مغفرت فرمائیں گے۔
انجام بخیر کا وظیفہ :۔ جو شخص پورا ماہ بعد نماز عشاء یہ وظیفہ روزانہ 1111 مرتبہ پڑھے گا وہ موت کے وقت کلمہ پڑھتا ہوا اس دنیا سے رخصت ہوگا بعض بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس وظیفے میں خاتمہ بالخیر کی بے حد تاثیر ہے اس وظہفہ سے خاتمہ بالخیر ہوتا ہے ۔
فاطر السموات ولارض انت ولی فی الدنیا الاخرۃ توفنی مسلما والحقنی باالصلحین۔ (سورہ یوسف 101)
اے آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا رفیق ہے تو مجھ کو اپنی فرمانبرداری میں دنیا سے اٹھا لے اور مجھ کو پانے نیک بندوں میں داخل کر لے ۔
بابرکت دعا :۔ ماہ ربیع الثانی بھی نہایت افضل مہینہ ہے اور اس ماہ میں بھی زیادہ سے زیادہ درود پاک پڑھنا چاہئے ۔
ابن عباس سے مروی ہے کہ ایک بار اسرافیل حضرت نبی ﷺ کے پاس  اتر کر آئے اور کہا
سبحن اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم عدد ما علم اللہ ومثل ما علیم اللہ
پڑھئے جو کوئی اس کو ایک بار پڑھے گا خدا اس کو ان لوگوں کے زمرہ میں لکھے گا جو خدا کی بکثرت یاد کرنے والے ہیں اور وہ رات و دن خدا کی یاد میں لگے رہنے والوں سے بھی افضل ہو جائے گا اور یہ کلمات اس کیلئے جنت میں داخلہ کا ذریعہ بن جائیں گے اور جس طرح درخت کے پتے جھڑتے ہیں اسی طرح اس کے گناہ جھڑ جائیں گے اور خدا کی اس پر نظر رہے گی اور اس کو دوزخ کا عذاب نہ دے گا اور حدیث میں آیا ہے جو کوئی
سبحن اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم عدد ما علم اللہ ومثل ما علیم اللہ و دوام ملک اللہ
پڑھے گا دنیا اور اہل دنیا چاہے ختم ہو جائیں لیکن اس کے پڑھنے والے کا ثواب نہ ختم ہو گا ۔