Monday, February 1, 2016

دعوت خیر کی برکت

دعوت خیر کی برکت :۔


انہوں نے فون ملا کر میری طرف بڑھایا کہ بریرہ آپ سے بات کرنے کیلئے رو رہی ہے ۔کئی روز سے مجھے پریشان کر رکھا ہے کہ آپ حضرت سے فون پر بات نہیں کراتے ذرا اس بچی سے بات کر لیجئے ۔ میں نے بات کی اس بچی سے جس کی ابھی عمر چار سال بھی نہیں ہو گی ۔ بڑی معصوم آواز میں سلام کر کے خیریت معلوم کی اور بولی حضرت ہمارے لئے دو دعائیں کر دیجئے میں نے کہا ہاں بتاؤ میں اپنی بیٹی کیلئے کون سی دعا کروں ؟ وہ بولی ایک تو یہ دعا کر دیجئے کہ عید جلدی آ جائے کیونکہ آپ ہمارے گھر عید کے روز ہی آتے ہیں میرا دل آپ سے ملنے کو بہت چاہ رہا ہے عید جلدی آ جائے ی تو آپ جلدی آ جائیں گے ۔ دوسری دعا یہ کر دیجیئےٓ کہ اللہ پاک مجھے دین کی سچی داعی بنا دے اور میرے بھائی تاج کو اور ہماری سب بہنوں کو بھی دین کا داعی بنا دے اس حقیر کی طبیعت بھی کچھ سست چل رہی تھی اور کچھ بے نظم مصروفیات میں حد درجہ تھکان ہو رہی تھی اس ننھی سی بچی کی ایسی بامقصد اور ننھی ننھی باتوں نے دل و دماغ کو تروتازہ کر دیا وہ بچی ہمارے رفیق عزیز سید محمودالحسن کی چھوٹی بچی ہے جن کا بانی ندوہ حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری رحمۃاللہ علیہ کے خانوادہ سے تعلق ہے یہ بستی دین اور اہل دین خصوصاً علم سے ایسی دور ہو گئی ہے کہ چند اشخاص کو چھوڑ کر یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اس بستی کو ایسی ایسی اہل ہستیوں کے وطن ہونے کاشرف حاصل ہے ۔ یہ حقیر آج تک اپنے رب کریم کا شکر ادا کر رہا ہے کہ دعوت کو ہمارا فرض منصبی بنا کر اللہ پاک نے ہر بگاڑ کیلئے شاہ کلید ہمیں عطا کر دی ہے اس فرض منصبی سے غفلت کے جرم کا بہ تکلف اعتراف اور اس کا یہ تصنع شور اللہ پاک نے اپنے فضل سےہم نااہلوں سے کروا دیا ہے اس کے صدقہ میں بے شعور بچے اور کم سن بچیاں دعوت کے جذبہ کی طلب سے سرشار نظر آتی ہیں اور دعوت اور اس کے مقام کی مقبولیت اور محبوبیت ہے کہ اس شور کے صدقہ میں معصوم بچیاں عید جلدی آنے کی دعائیں کراتی ہیں کہ دعوت کی آواز لگانے والے سے عید کے دن ان کو ملنا نصیب ہو جائے ۔

امت کی چودہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے  ۔ کہ جس دور اور جس عہد اور جس علاقہ میں کسی شخص نے انسانیت کی خیر خواہی اور اس کو باطل کے اندھیروں سے نکال کر اور دین حق کی روشنی میں لانے کی آواز لگائی اس دور میں اور اس عہد میں اس مقام پر ان شخصیات کو عزت و محبوبیت کی دولت سے مالا مال کیا گیا عزت و سر بلندی اور وقار نے ان کے قدم چومے مایوسی ، نامرادی آس و مراد میں بدلی و محکومیت و مغلومبیت کے غار سے نکل کر حاکمیت اور غلبہ کی سر بلندی پر چڑھنا نصیب ہوا ہے ۔اور جس دور اور جس مقام پر ملت کے افراد نے اپنے فرض منصبی سے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا دین حق کی اشاعت اور اس کا حق رسالت ادا کرنے کے بجائے کتمان حق کے مرتکب ہوئے ذلت و خواری ان مقدر بنی اور دنیا کے سامنے ان کو ذلیل و خوار ہو کر رہنا پڑا امام مالک کا مشہور ارشاد ہے کہ اس امت کے بعد والے اسی راہ پر چل کر فلاح و کامیابی حاصل کی وہ فلاح اور کامیابی کی راہ اپنے نبی ﷺ کی اتباع میں آپ کہہ دیجئے ۔ یہ میراراستہ ہے میں اللہ پاک کی طرف بلاتا ہوں بصیرت کے ساتھ میں بھی اور میرے متبعین بھی اپنی اصل راہ اپنا طریق اپنی شناخت اور پہچان بنانا ہے کاش امت اس گر کو اپنا کر اپنی زبوں حالی اور ذلت کا علاج پتوں کو دھونے کے بجائے درخت کی جڑوں کو سینچنے سے کرے۔

No comments:

Post a Comment