Tuesday, February 23, 2016

مایوس نہ ہوں! زندگی کو زندگی کی طرح بسر کرنا سیکھ لیں


آدمی کو مغموم رہنے سے ایک غیرفطری قسم کی طمانیت محسوس ہوتی ہے۔ آپ نے اپنے ملنے جلنے والوں ہی میں ایسے کئی افراد دیکھے ہوں گے جنہیں بیمار رہنے کا شوق ہے اسی طرح بعض لوگ رنج و الم سے لذت حاصل کرتے ہیں۔احمد پہلونٹی کا بچہ تھا۔ باپ کپڑے کی ایک چھوٹی سی د کان کا مالک تھا جب بڑے سرمایہ دار اس میدان میں اترے تو اس کا کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ اس مصیبت کا مداوا اس نے ایک عجیب سے احساس برتری میں پایا‘ وہ بڑے پیمانے کی تجارت کو حقارت سے دیکھنے لگا‘ گویا کاروبار کے متعلق منفی زاویہ نظر کا سبق اسے بچپن ہی میں مل چکا تھا‘

 اس کی اپنی تو کوئی چھوٹی دکان تھی نہیں مگرباپ کے نقش قدم پر چلنا ضروری تھا چنانچہ اس نے ایک چھوٹی دکان پرنوکری کرلی۔ بچپن میں احمد اکثر بیمار رہتا چونکہ پہلا بچہ تھا اس لیےماں کی ساری توجہات اسی پر مرکوز رہتیں لیکن چند سال بعد یکے بعد دیگرے گھر میں ایک بچی اور بچے نے قدم رکھا اور والدین کی توجہ اب تینوں بچوں میں بٹ گئی احمد کیلئےوہ پہلا سا التفات نہ رہا‘ چنانچہ وہ بے زار رہنے لگا‘ والدین سمجھے کہ بچہ واقعی بیمار ہے کچھ عرصے بعد اسے پھر ویسی ہی توجہ ملنے لگی جیسی پہلے ملتی تھی۔ عمر کے اس دور میں احمد نے دو ایسےسبق سیکھے جومستقبل میں اس کے اطوار کی بنیاد بن گئے لیکن یہ سبق تھے بہت نقصان دہ۔ ایک سبق یہ تھا کہ اپنے اوپر خوب افسردگی اور بے زاری طاری کرلو تو تمہاری طرف توجہ دی جائے گی‘ بچپن میں یہ حربہ کامیاب رہتا ہے لیکن بڑے ہوکر کام نہیں دیتا۔ عام لوگ مردہ دلی کو پسند نہیں کرتے اور ایسے افراد سے کنی کتراتے ہیں۔ احمد کو بڑے ہوکر یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے تھی لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔ اس کے تحتُ الشعور میں لڑکپن کی وہی باتیں جمی ہوئی تھیں اور اب بھی اس کے جذبات اسی بچگانہ اصول کے تابع تھے کہ ابا اماں کی توجہ کھینچنے کیلئے منہ بسورنا ضروری ہے۔ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا مگر منہ بسورنے کی عادت نہ گئی۔ دوسرا سبق اس نے بچپن میں یہ سیکھا کہ آدمی کو مغموم رہنے سے ایک غیرفطری قسم کی طمانیت محسوس ہوتی ہے۔ آپ نے اپنے ملنے جلنے والوں ہی میں ایسے کئی افراد دیکھے ہوں گے جنہیں بیمار رہنے کا شوق ہے اسی طرح بعض لوگ رنج و الم سے لذت حاصل کرتے ہیں۔ ایسے لوگ دراصل زندگی کی ہمہ گیری سے گھبراتے‘ اس کے نشیب و فراز سے ڈرتے اور حقائق کا سامنا کرنے سے جی چراتے ہیں۔ حزن و ملال اور یاس و ناامیدی کی تاریکیوں میں ہمہ وقت گھرے رہنا ہی انہیں تسکین دیتا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے ساتھ دوسروں کو بھی افسردگی اور مایوسی کے تاریک غاروں میں دھکیل دیتے ہیں۔ مسرت اور شگفتگی کوئی خدادا عطیہ نہیں۔ آدمی خواہ کسی حال میں ہو وہ چاہے تو خوشی اور مسرت کے سامان پیدا کرسکتا ہے یہی وہ سبق تھا جو احمد کو سیکھنا تھا لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ بچپن میں رٹے ہوئے اسباق کو فراموش کردیا جائے۔ یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ پُرانی عادت یک لخت ترک کردینا آسان نہیں زندگی کےمتعلق زاویہ نظر بدلنا تو اور بھی مشکل ہے‘ تاہم نئی راہیں کون تلاش نہیں کرتا۔ زندگی سنوارنے کیلئے ہم میں سے ہر ایک کو بارہا اپنے طور طریقے بدلنے پڑتے ہیں آخر ہم انسان ہیں‘ جھاڑ جھنکار نہیں کہ ایک تودۂ خاک میں جڑپکڑلیں‘ تو عمر بھر کے لیے وہیں کے ہورہیں‘ ناپختہ احساسات اور بچپن سے ذہن میں بیٹھے ہوئے غلط تصورات کو زندگی بھر کے لیے اپنے اوپر طاری کرلینے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ انسان ایک خزاں رسیدہ درخت کی مانند کملایا مُرجھایا رہتا ہے۔ہم میں سے اکثر لوگ چھوٹی چھوٹی شکایات‘ حقیر سے تفکرات اور معمولی معمولی دشواریوں کے مقابلے میں اضمحلال اور یاس و الم میں مبتلا رہنے کےعادی ہوچکے ہیں۔ کوئی بات ذرا بھی خلاف مزاج ہوجائے تو خود اعتمادی کو ٹھیس لگتی محسوس ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ ہر بات پر بیزاری کا اظہار ہمارے لیے وقار کامسئلہ بن جاتا ہے لیکن اداس اوربیزار رہنا زندگی کی توہین ہے بلکہ کفران نعمت میں داخل ہے۔ صحت مندانہ زاویہ نظریہ ہے کہ آپ زندگی کو اللہ کی عطا کردہ نعمت تصور کیجئے ایسی نعمت جو دوبارہ نہ ملے گی لہٰذا اسے بوجھ نہ سمجھئے اور اس کے ایک ایک لمحے کو انتہائی قیمتی اور بیش بہا جان کر کام میں لانے کی سعی کیجئے یاد رکھیے! اگر ہم زندگی کو زندگی کی طرح بسر کرنا سیکھ لیں تو دنیا میں ہم سے زیادہ مطمئن اور خوش و خرم انسان کوئی اور نہ ہوگا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرلینے کے بعد احمد کے لیے بس ایک آسان سے نسخے پر عمل کرنا باقی رہ گیا جب کوئی مشکل سر اٹھاتی تو وہ اپنے آپ سے سوال کرتا کہ اسے کس طرح حل کرسکتا ہوں بہت غور و فکر کے بعدجو حل سامنےآتا اس کے مطابق عمل کرتا۔ دراصل افسردگی اور بیزاری کے زہر کا تریاق عمل سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ذہن پر نقش کرلینی چاہیے کہ دنیا کی ساری مصیبتیں آپ ہی کیلئے خاص نہیں ہیں۔ دوسروں کو بھی ایسے ہی مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کوئی بھی مشکل ایسی نہیں جو حل نہ ہوسکے اور کوئی عقدہ ایسا نہیں جو وا نہ ہوسکے۔ ذرا کاپی پنسل لے کر بیٹھیے اور ان چیزوں کی فہرست بنائیے جن سے محرومی آپ کو صدمہ پہنچائے گی دیکھئے ایمانداری سے کام لیجئے اس فہرست میں وہ چیزیں بھی لکھئے جن سے بعض اوقات آپ کو شکایت ہوتی ہے۔ اسی طرح فہرست بناتے چلے جائیے آپ دیکھیں گے کہ خاصی طویل بن جائے گی بلکہ جب بھی آپ اس پر نظرثانی کریں گے اس میں اضافہ ہوگا۔ اب آپ ملنے جلنے والوں میں سے کسی ایسے شخص کا انتخاب کیجئے جو عموماً شگفتہ نظر آتا ہو۔ اس کے متعلق ایسی باتوں کی فہرست تیار کیجئے جنہیں وہ برداشت کرتا ہو لیکن یہ باتیں آپ کے نزدیک قطعی ناقابل برداشت ہوں‘ یہاں یہ احمقانہ عذر پیش نہ کیجئے کہ میں تو عام لوگوں سے زیادہ حساس واقع ہوا ہوں‘ یہ قابل فخر بات نہیں‘ اس کا مطلب یہ کہ آپ زندگی بسر نہیں کرتے بلکہ اس کے بخیے ادھیڑنے میں لگے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بعض لوگ دوسروں سے کسی قدر زیادہ حساس ہوتے ہیں لیکن حساس ہونے کا یہ مطلب کہاں ہے کہ آپ تکلیف ہی تکلیف محسوس کرتے جائیں حقیقتاً حساس آدمی اسے کہیں گے جو دوسروں کی نسبت اگر تکلیف زیادہ محسوس کرتا ہے تو خوشی کے موقع پر خوش بھی دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے‘ مصیبت نازل ہو تو خود کو بدنصیب ٹھہرانے کے بجائے یہ سوچنے کی کوشش کیجئے کہ دنیا میں آپ سے بھی زیادہ بدنصیب لوگ نہ جانے کتنے ہوں گے پھر ذرا برنارڈ شاہ کے اس مقولے پر غور فرمائیے کہ جس طرح اپ کو دولت پیدا کیے بغیر اس سے استفادے کا حق نہیں اسی طرح مسرت کےاسباب پیدا کیے بغیر مسرور ہونے کا حق بھی نہیں۔ مشہور ماہر نفسیات ایلفرڈایڈلر کے پاس مالیخولیا کا مریض آتا تو وہ مریض سے کہتا: روزانہ کوئی ایسی تدبیر سوچو کہ کسی دوسرے شخص کو تمہارے باعث خوشی اور مسرت حاصل ہو۔ احمد نے بھی اس نسخے پر عمل کیا۔ ایک مرتبہ اس نے مجھے بتایا: ہردم خوش و خرم رہنے کی کوشش کرتا ہوں اور جب بھی کوئی مشکل سامنے آتی ہے تو سوچتا ہوں گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن اطمینان قلب پھر بھی نصیب نہیں ہوتا۔ مجھے ہنسی آگئی۔ میں نے اسے سمجھایا: بھلے آدمی‘ تم نے بزرگوں کا یہ قول نہیں سنا کہ ایمان عمل کے بغیر بے کار ہے‘ جو کچھ سوچتے ہو اس پر عمل بھی تو کیا کرو‘ محض دل کو اس بات کا دلاسا دینا کافی نہیں کہ سب ٹھیک ہوجائے گا‘ اس کےبعد احمد کی شخصیت میں واقعی انقلاب سا آگیا۔ وہ شاداں و فرحاں رہتا ہے اور اپنی عمر سے زیادہ بوڑھا نظر نہیں آتا۔ارشدحسین‘ لاہور

No comments:

Post a Comment