اللہ سے باتیں کرنا سیکھ لیں!: اللہ والو!اللہ سے باتیں کرنا سیکھ لیں‘ اللہ سے راز و نیاز کرنا سیکھ لیں!چلتے چلتے باتیں کریں!سوتے سوتے باتیں کریں!جاگتے جاگتے باتیں کریں! اٹھیں تو باتیں کریں! ارے پاکی میں ہیںتو باتیں کریں! ناپاکی میں ہیں توباتیں کریں !وضو میں ہیں توباتیں کریں!بے وضو ہیں توباتیں کریں!اس کریم کے ساتھ راز و نیاز کریں! اس کریم کے ساتھ باتیں کریں! اس کو اپنے دکھڑے سنائیں !اللہ جل شانہ سے باتیں کریں! نہیں آتیں تب بھی کریں!بولنا نہیں آتاتب بھی بولیں! ایک وقت آئے گاکہ آپ کو بولنا آ جائے گا!ایک وقت آئے گا آپ کو کرنا آجائے گا! پھر ایک وقت آئے گاکہ صرف ایک مس کال پر آپ کے سارے کام ہو جائیں گے! جیسے اس اللہ کے بندے نے ایک طرف کھڑے ہو کر صرف مس کال دی تھی کہ اس کاکام ہوگیا۔ لیکن اس کاکام تب ہوا جب نیت ٹھیک کرلی تھی،اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اس نے حلال کھانا ہے ۔کوئی بات نہیں ۔۔ہفتہ وار درس سے اقتباس درس روحانیت وامن)
اگرمیرے بچے معیاری سکولوںسے ، قیمتی لباسوں سے، بہترین گاڑیوں سے، عمدہ چیزوں سے اورپرتکلف آسائشوں سے محروم ہیںکوئی بات نہیں اگرمیں زندگی کی اعلیٰ آسائشوں اور اعلیٰ چیزوں سے محروم رہوں! کوئی حرج ہی نہیں۔ اللہ!شفاء دینے والی اور شفاء لینے والی ذات:گزشتہ دنوں کی بات ہے میں ایک مریض کے پاس اس کی عیادت کیلئے گیا ۔تقریباً 33,32 کلو اس کا وزن رہ گیا تھا۔ میں نے جاتے ہی ان کو ترغیب دی کہ آپ بیمار ہیں آپ کی دعا قبول ہوگی ،لہٰذا آپ دعا کریں ۔اس اللہ کے بندے نے عشاء کے وقت ایسی دعا کی۔اس کے ہاتھ اوپر جاتے اورپھر نیچے آتے تھے ۔ اس کی دعائیںاس کے دل کی کیفیتوں سے نکل رہی تھیں اور وہ کیفیات مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھیں۔جانے وہ دل ہی دل میں اللہ سے کیامانگ رہا تھا؟ وہ مریض جو بستر مرگ پر ہے جس کو کینسر کی وجہ سے سارے جہان نے لاعلاج قرار دیا ہے۔ شفاء دینے والاتووہ کریم ہے، بظاہربس انتظار ہو رہا ہے۔ میں بھی دعا مانگ رہا تھا، وہ بھی دعا مانگ رہا تھا ،مریض اور میں دونوں ایک ساتھ آمین کہہ رہے تھے۔کافی دیر دعا مانگی۔ اس کی آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ اس کے دل سے بھی آنسو بہہ رہے تھے اور میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ کریم کی کریمی ایسے عرشِ الٰہی سے برس پڑی ہے اور میں دل میں کہہ رہا تھا:’’ الٰہی اس کو عاجز تو نے کیا ہے! یہ تو صحت مند تھا!اللہ اس کو مریض تو نے بنایا ہے! یہ تو چلتا پھرتا تھا!میرے پاس بھی آتا تھا! اے اللہ! یہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا! اس کے جسم کی ساری طاقتیںساری قوتیں تو نے لے لیں!دی ہوئی بھی تیری تھیں۔ الٰہی! تو خود تو فرماتا ہے اپنے حبیب سرور کونینﷺ کے ذریعے سے کہ جب میرا بندہ مریض ہوتا ہے اور میرے سامنے عاجز اور بے بس ہوتا ہے،اور اس حال میںجب وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میںاس کا سوال رد نہیں کرتا۔ الٰہی!آج اس کے سوال کورد نہ کر ۔اس شخص نے دعا کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرے۔ ہاتھ منہ پر پھیرنے کے بعد بڑی دیر تک وہ انہیںکیفیتوں میں ڈوبا رہا۔ وہ شخص آنسوؤں میں ڈوبا رہا۔ پھر اس نے اپنے رومال سے اپنے آنسو پونچھے اور میں نے ان سے اجازت چاہی اور واپس آیا تب میں نے سوچا! آج کی عبادت تو مجھے نفع دے گئی ۔ تو ہو کسی بھی حال میں،مولا سے لو لگائے جا:اللہ والو! اللہ سے مانگناسیکھو ۔اس کے در پر محتاج بن جائو،اس کے غلام بن جائو ، اس کے در کے فقیر بن جائو ۔ساعتیں مانگنے کی آ گئی ہیں ۔گھڑیاں مانگنے کی چل پڑی ہیں۔ اس کریم سے مانگنا سیکھو۔وہ تو تھوڑے سے مانگنے پر بھی بہت عطا کر دیتا ہے ۔ بڑا کریم ہے!بڑا رحیم ہے!یوں اپنی نیت کو سنوارو! یوں اپنے جذبے کو سنوارو!اپنے اندر دیانتداری اور سچائی کا جذبہ پیدا کرو۔ آخرایک دن کریم کی رحمت برس پڑتی ہےاور پھر اس کی عطا ئیںبندوں پرایسے آتی ہیں کہ ہم اور آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔اس سے مانگنا سیکھیں ۔حلال کمائیں ،چین کی نیند پائیں:حلال کے راستوں کی طرف بڑھیں۔ حلال سے نسلیں پلتی ہیں۔ حلال سے چین آتا ہے۔ حلال سے سکون آتا ہے۔ کرا چی کے ایک تاجر نے مجھے سامان دکھایا میں نے پوچھا جناب یہ ایک نمبر ہے یا دو نمبر ہے؟ میرے ہاتھ سے وہ چیز واپس لے کروہ کہنے لگا ’’بھیا میں نے رات کو چین سے سونا ہے، یہ ایک نمبر ہے۔ اتنے سے لفظ اس نے کہے’’ میں نے رات کو چین سے سونا ہے ،یہ ایک نمبر ہے۔‘‘ زندگی کے خوش قسمت ساتھی:زندگی میں اللہ نے ایک موقع دیا ہے اپنی آمدنی کا خیال رکھیں کہ ان نسلوں کو کیا کھلا کر جا رہے ہیں؟ ان نسلوں کو کیسے پال رہے ہیں ؟کتنی خوش قسمت بیوی ہے جو حلال کا تقاضاکرے ‘شوہر کی ساتھی بن جائے اوروہ دونوںحلال کے راستوں پر چل پڑیں۔ کتنا خوش نصیب شوہر ہے جو حلال کی کمائی لا کراپنی بیوی کا ساتھی بن جائے اوروہ دونوں حلال کے راستوں پر چل پڑیں۔ کتنا خوش قسمت بھائی ہے جو حلال کمائی گھر لاکر بہن کا ساتھی بن جائے ۔کتنی خوش قسمت بہن ہے جو اپنے بھائی کو حلال کمانے کی ترغیب دے کر اپنے بھائی کی ساتھی بن جائے۔ اللہ والو! آج ہمیںموقع ملا ہے۔ کسی کو مال پر بٹھایا،کسی کو خزانے پربٹھایا، کسی کو جنس پر بٹھایا ،کسی کو کسی اورچیز پر بٹھایا۔ کامیاب کون ہے؟: اب یہ دیکھیں کہ یہاں کون ان مواقع سے فائدہ اٹھاکراللہ کے ساتھ اپنے معاملات کو حلال کر رہا ہے۔ دیانت و امانت کا معاملہ کررہا ہے‘ سچائی اور صداقت کا معاملہ کر رہا ہےجو بھی یہ سب کررہا ہے بس وہ کامیاب ہو گیا۔بچہ فاقوں سے بلک رہا ہے مگر اس نے حلال روزگارکیاتو یہ کامیاب ہو گیا ۔اس کےبچے کے ہر رونے پر عرش الٰہی سے اللہ کی رحمتیں اتر رہیں۔اگرچہ اس کی ضرورتیں پوری نہیں ہو رہی ہیں لیکن اس نے حلال روزگار کرنے کا طے کررکھا ہے ۔اس نے حرام کا طے نہیں کیا ہوا اس نے اپنے اقتدار کا غلط استعمال نہیں کیا۔ (حکیم محمد طارق محمود چغتائی
اگرمیرے بچے معیاری سکولوںسے ، قیمتی لباسوں سے، بہترین گاڑیوں سے، عمدہ چیزوں سے اورپرتکلف آسائشوں سے محروم ہیںکوئی بات نہیں اگرمیں زندگی کی اعلیٰ آسائشوں اور اعلیٰ چیزوں سے محروم رہوں! کوئی حرج ہی نہیں۔ اللہ!شفاء دینے والی اور شفاء لینے والی ذات:گزشتہ دنوں کی بات ہے میں ایک مریض کے پاس اس کی عیادت کیلئے گیا ۔تقریباً 33,32 کلو اس کا وزن رہ گیا تھا۔ میں نے جاتے ہی ان کو ترغیب دی کہ آپ بیمار ہیں آپ کی دعا قبول ہوگی ،لہٰذا آپ دعا کریں ۔اس اللہ کے بندے نے عشاء کے وقت ایسی دعا کی۔اس کے ہاتھ اوپر جاتے اورپھر نیچے آتے تھے ۔ اس کی دعائیںاس کے دل کی کیفیتوں سے نکل رہی تھیں اور وہ کیفیات مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھیں۔جانے وہ دل ہی دل میں اللہ سے کیامانگ رہا تھا؟ وہ مریض جو بستر مرگ پر ہے جس کو کینسر کی وجہ سے سارے جہان نے لاعلاج قرار دیا ہے۔ شفاء دینے والاتووہ کریم ہے، بظاہربس انتظار ہو رہا ہے۔ میں بھی دعا مانگ رہا تھا، وہ بھی دعا مانگ رہا تھا ،مریض اور میں دونوں ایک ساتھ آمین کہہ رہے تھے۔کافی دیر دعا مانگی۔ اس کی آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ اس کے دل سے بھی آنسو بہہ رہے تھے اور میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ کریم کی کریمی ایسے عرشِ الٰہی سے برس پڑی ہے اور میں دل میں کہہ رہا تھا:’’ الٰہی اس کو عاجز تو نے کیا ہے! یہ تو صحت مند تھا!اللہ اس کو مریض تو نے بنایا ہے! یہ تو چلتا پھرتا تھا!میرے پاس بھی آتا تھا! اے اللہ! یہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا! اس کے جسم کی ساری طاقتیںساری قوتیں تو نے لے لیں!دی ہوئی بھی تیری تھیں۔ الٰہی! تو خود تو فرماتا ہے اپنے حبیب سرور کونینﷺ کے ذریعے سے کہ جب میرا بندہ مریض ہوتا ہے اور میرے سامنے عاجز اور بے بس ہوتا ہے،اور اس حال میںجب وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میںاس کا سوال رد نہیں کرتا۔ الٰہی!آج اس کے سوال کورد نہ کر ۔اس شخص نے دعا کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرے۔ ہاتھ منہ پر پھیرنے کے بعد بڑی دیر تک وہ انہیںکیفیتوں میں ڈوبا رہا۔ وہ شخص آنسوؤں میں ڈوبا رہا۔ پھر اس نے اپنے رومال سے اپنے آنسو پونچھے اور میں نے ان سے اجازت چاہی اور واپس آیا تب میں نے سوچا! آج کی عبادت تو مجھے نفع دے گئی ۔ تو ہو کسی بھی حال میں،مولا سے لو لگائے جا:اللہ والو! اللہ سے مانگناسیکھو ۔اس کے در پر محتاج بن جائو،اس کے غلام بن جائو ، اس کے در کے فقیر بن جائو ۔ساعتیں مانگنے کی آ گئی ہیں ۔گھڑیاں مانگنے کی چل پڑی ہیں۔ اس کریم سے مانگنا سیکھو۔وہ تو تھوڑے سے مانگنے پر بھی بہت عطا کر دیتا ہے ۔ بڑا کریم ہے!بڑا رحیم ہے!یوں اپنی نیت کو سنوارو! یوں اپنے جذبے کو سنوارو!اپنے اندر دیانتداری اور سچائی کا جذبہ پیدا کرو۔ آخرایک دن کریم کی رحمت برس پڑتی ہےاور پھر اس کی عطا ئیںبندوں پرایسے آتی ہیں کہ ہم اور آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔اس سے مانگنا سیکھیں ۔حلال کمائیں ،چین کی نیند پائیں:حلال کے راستوں کی طرف بڑھیں۔ حلال سے نسلیں پلتی ہیں۔ حلال سے چین آتا ہے۔ حلال سے سکون آتا ہے۔ کرا چی کے ایک تاجر نے مجھے سامان دکھایا میں نے پوچھا جناب یہ ایک نمبر ہے یا دو نمبر ہے؟ میرے ہاتھ سے وہ چیز واپس لے کروہ کہنے لگا ’’بھیا میں نے رات کو چین سے سونا ہے، یہ ایک نمبر ہے۔ اتنے سے لفظ اس نے کہے’’ میں نے رات کو چین سے سونا ہے ،یہ ایک نمبر ہے۔‘‘ زندگی کے خوش قسمت ساتھی:زندگی میں اللہ نے ایک موقع دیا ہے اپنی آمدنی کا خیال رکھیں کہ ان نسلوں کو کیا کھلا کر جا رہے ہیں؟ ان نسلوں کو کیسے پال رہے ہیں ؟کتنی خوش قسمت بیوی ہے جو حلال کا تقاضاکرے ‘شوہر کی ساتھی بن جائے اوروہ دونوںحلال کے راستوں پر چل پڑیں۔ کتنا خوش نصیب شوہر ہے جو حلال کی کمائی لا کراپنی بیوی کا ساتھی بن جائے اوروہ دونوں حلال کے راستوں پر چل پڑیں۔ کتنا خوش قسمت بھائی ہے جو حلال کمائی گھر لاکر بہن کا ساتھی بن جائے ۔کتنی خوش قسمت بہن ہے جو اپنے بھائی کو حلال کمانے کی ترغیب دے کر اپنے بھائی کی ساتھی بن جائے۔ اللہ والو! آج ہمیںموقع ملا ہے۔ کسی کو مال پر بٹھایا،کسی کو خزانے پربٹھایا، کسی کو جنس پر بٹھایا ،کسی کو کسی اورچیز پر بٹھایا۔ کامیاب کون ہے؟: اب یہ دیکھیں کہ یہاں کون ان مواقع سے فائدہ اٹھاکراللہ کے ساتھ اپنے معاملات کو حلال کر رہا ہے۔ دیانت و امانت کا معاملہ کررہا ہے‘ سچائی اور صداقت کا معاملہ کر رہا ہےجو بھی یہ سب کررہا ہے بس وہ کامیاب ہو گیا۔بچہ فاقوں سے بلک رہا ہے مگر اس نے حلال روزگارکیاتو یہ کامیاب ہو گیا ۔اس کےبچے کے ہر رونے پر عرش الٰہی سے اللہ کی رحمتیں اتر رہیں۔اگرچہ اس کی ضرورتیں پوری نہیں ہو رہی ہیں لیکن اس نے حلال روزگار کرنے کا طے کررکھا ہے ۔اس نے حرام کا طے نہیں کیا ہوا اس نے اپنے اقتدار کا غلط استعمال نہیں کیا۔ (حکیم محمد طارق محمود چغتائی
No comments:
Post a Comment