Tuesday, February 23, 2016

اللہ اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے


عاشق رسولؐ کی چادر نے آتش فشاں ٹھنڈا کردیا

 جب میں نے بارگاہ رسالت میں عجیب کرامت کا تذکرہ کیا تو حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے ابوذر اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے بھی ہیں جو زمین میں سیر کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کی بھی ڈیوٹی فرمادی ہے کہ وہ میری آل کی امدادو اعانت کرتے رہیں۔کھانے میں عظیم برکت: حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بارگاہ رسالت کے تین مہمانوں کو اپنے گھر لائے اور خود حضور اکرم ﷺ کی خدت اقدس میں حاضر ہوگئے اور گفتگو میں مصروف رہے یہاں تک کہ رات کا کھانا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے دسترخوان نبوتﷺ پر کھالیا اور بہت زیادہ دیر گزر جانے کے بعد مکان پر واپس تشریف لائے۔ ان کی بیوی نے عرض کیا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنے گھر پر مہمانوں کو بلا کر کہاں غائب رہے؟

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ کیا اب تک تم نے مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا؟ بیوی صاحبہ نے کہا کہ میں نے کھانا پیش کیا مگر ان لوگوں نے صاحب خانہ کی غیرموجودگی میں کھانا کھانے سے انکار کردیا۔ یہ سن کر آپ اپنے صاحبزادے حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پر بہت زیادہ خفا ہوئے اور وہ خوف و دہشت کی وجہ سے چھپ گئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کےسامنے نہیں آئے پھر جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا غصہ فرو ہوگیا تو آپ مہمانوں کے ساتھ کھانے کیلئے بیٹھ گئے اور سب مہمانوں نے خوب شکم سیر ہوکر کھانا کھالیا۔ ان مہمانوں کا بیان ہے کہ جب ہم کھانےکے برتن میں سے لقمہ اٹھاتے تھے تو جتنا کھانا ہاتھ میں آتا تھا اس سے کہیں زیادہ کھانا برتن میں نیچے سے ابھر کر بڑھ جاتا تھا اور جب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو کھانا بجائے کم ہونے کے برتن میں پہلے سے زیادہ ہوگیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے متعجب ہوکر اپنی بیوی صاحبہ سے فرمایا کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ برتن میں کھانا پہلے سے کچھ زائد نظر آتا ہے۔ بیوی صاحبہ نے قسم کھا کر کہا واقعی یہ کھانا تو پہلے سے تین گنا بڑھ گیا ہے پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس کھانے کو اٹھا کر بارگاہ رسالت ﷺ میں لے گئے جب صبح ہوئی تو ناگہاں مہمانوں کا ایک قافلہ دربار رسالت ﷺ میں اترا جس میں بارہ قبیلوں کے بارہ سردار تھے اور ہر سردار کے ساتھ بہت سے دوسرے شتر سوار بھی تھے۔ ان سب لوگوں نے یہی کھانا کھایا اور قافلہ کے تمام سردار اور تمام مہمانوں کا گروہ اس کھانے کو شکم سیر کھاکر آسودہ ہوگیا لیکن پھر بھی اس برتن میں کھانا ختم نہیں ہوا۔ (بخاری شریف ج1 ص506 مختصراً) فرشتوں نے چکی چلائی: حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا بیان ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے مجھے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو بلانے کیلئے ان کے مکان پر بھیجا تو میں نے وہاں یہ دیکھا کہ ان کےگھر میں چکی بغیر کسی چلانے والے کے خودبخود چل رہی ہے جب میں نے بارگاہ رسالت میں عجیب کرامت کا تذکرہ کیا تو حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے ابوذر اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے بھی ہیں جو زمین میں سیر کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کی بھی ڈیوٹی فرمادی ہے کہ وہ میری آل کی امدادو اعانت کرتے رہیں۔ (ازالۃ الخفاء مقصد 2 ص273) قبر والوں سے گفتگو:امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایک مرتبہ ایک نوجوان صالح کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے فلاں! اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ولمن خاف مقام ربہ جنتان (یعنی جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈر گیا اس کیلئے دو جنتیں ہیں) اے نوجوان! بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟ اس نوجوان صالح نے قبر کے اندر سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نام لے کر پکارا اور بآواز بلند دو مرتبہ جواب دیا کہ میرے رب نے یہ دونوں جنتیں مجھے عطا فرمادی ہیں۔(حجۃ اللہ علی العالمین ج2 ص860 بحوالہ حاکم) مدینہ کی آواز نہاوند تک: امیرالمومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو ایک لشکر کا سپہ سالار بنا کر نہاوند کی سر زمین میں جہاد کیلئے روانہ فرمادیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جہاد میں مصروف تھے کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مسجد نبوی ﷺ کے منبر پر خطبہ پڑھتے ہوئے ناگہاں یہ ارشاد فرمایا کہ یاساریۃ الجبل (یعنی اے ساریہ! پہاڑ کی طرف اپنی پیٹھ کرلو) حاضرین مسجد حیران رہ گئے کہ حضرت ساریہ تو سرزمین نہاوند میں مصروف جہاد ہیں اور مدینہ منورہ سے سینکڑوں میل کی دوری پر ہیں۔ آج امیرالمومنین نے انہیں کیونکر اور کیسے پکارا؟ لیکن نہاوند سے جب حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا قاصد آیا تو اس نے یہ خبر دی کہ میدان جنگ میں جب کفار سے مقابلہ ہوا تو ہم کو شکست ہونے لگی۔ اتنے میں ناگہاں ایک چیخنے والے کی آواز آئی جو چلا چلا کر یہ کہہ رہا تھا کہ اے ساریہ! تم پہاڑ کی طرف اپنی پیٹھ کرلو۔ حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ یہ تو امیرالمومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی آواز ہے۔ یہ کہا اور فوراً ہی انہوں نے اپنے لشکر کو پہاڑ کی طرف پشت کرکے صف بندی کا حکم دیا اور اس کے بعد جو ہمارے لشکر کی کفار سے ٹکر ہوئی تو اچانک جنگ کا پانسہ ہی پلٹ گیا اور چشم زدن میں اسلامی لشکر نے کفار کی فوجوں کو روند ڈالا اور عساکر اسلامیہ کے قاہرانہ حملوں کی تاب نہ لاکرکفارکا لشکر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نکلا اور افواج اسلام نے فتح مبین کا پرچم لہرا دیا۔ (مشکوٰۃ باب الکرامات ص546، حجۃ اللہ ج 2 ص860، تاریخ الخلفاء ص 85) چادر دیکھ کر آگ بجھ گئی: روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی خلافت کے دور میں ایک مرتبہ ناگہاں ایک پہاڑ کے غار سے ایک بہت ہی خطرناک آگ نمودار ہوئی جس نے آس پاس کی تمام چیزوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیا جب لوگوں نے دربار خلافت میں فریاد کی تو امیرالمومنین نے حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو اپنی چادر مبارک عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تم میری یہ چادر لے کر آگ کے پاس چلے جاؤ۔ چنانچہ حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس مقدس چادر کو لے کر روانہ ہوگئے اور جیسے ہی آگ کے قریب پہنچے یکایک وہ آگ بجھنے اور پیچھے ہٹنے لگی یہاں تک کہ وہ غار کے اندر چلی گئی اور جب یہ چادر لے کر غار کے اندر داخل ہوگئے تو وہ آگ بالکل ہی بجھ گئی اور پھر کبھی بھی ظاہر نہیں ہوئی۔ (ازالۃ الخفاء مقصد 2 ص172) ا بولبیب شاذلی

No comments:

Post a Comment