نبی کریمﷺ کی انگلیوں سے نکلا پانی افضل ترین۔
شیخ الوظائف حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی
منافقین کی منفاقت کے بعد صحابہ کا عشق: اچانک تبوک کیلئے جہاد کاحکم جاری ہوگیا۔۔۔۔۔اس عقل والوں کے لئے نکتہ ہے۔۔۔۔! سمجھ والوں کیلئے ایک نکتہ ہے۔۔۔! عشق والوں کیلئے ایک کیفیت ہے۔۔۔ اور دیوانوں کیلئے ایک دل لگی ہے۔۔۔۔۔ جو ہر حال میں اور ہر کیفیت میں چلے گا، دل مانے یا نہ مانے طبیعت چاہے یا نہ چاہے، رزق حالات، کاروبار، صحت اور طبیعت اجازت دے یا نہ دے جو ہر حال میں اور ہر کیفیت میں اللہ اور رسولﷺ کی بتائی ہوئی زندگی پر چلے گا اسے اللہ جل شانہ کبھی محروم نہیں فرمائیں گے۔۔۔۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نہ صرف اسے بلکہ اس کی نسلوں کو بھی پالیں گے۔اور اس کے رزق و صحٹ میں برکت اور عزت و روحانیت میں ہمیشہ اضافہ فرماتے رہیں گے اور یہ اللہ کا ازل سے وعدہ ہے۔
بھرکے پیاسے صحابہ ؓاللہ تعالیٰ کے کلمہ حق کیلئے جوق در جوق نکلے، جو تھوڑا بہت سامانِ سفر تھا وہ ختم ہو گیا، کیفیت یہ ہو گئی کہ صحابہ کرامؓ کا بھوک اور پیاس کے سبب برا حال ہو چکا تھا،صحابہ کرام کی قیمتی زندگیوں کو بچانے کی خاطر ایک اونٹ ذبح کیا گیا۔ اس کی اوجھڑی نکالی اور اس اوجھڑی کو نچوڑ کر اس گندا بدبودار نکالا اور اس پانی کو پیا۔
ؑعمرؓ کی سفارش اور سرورکونین ﷺ کی شفقت:
حضرت عمر فاروقؓ فوراً نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کیا کہ یا رسول ﷺ اب تو اللہ کی مدد کیلئے دعا فرمائیں! بھوک اور پیاس کی کیفیت نے مجاہدین کوبدحال کردیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا اچھا ایسا کرو صحابہؓ میں جس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب لاؤ اور یہاں لا کر ڈھیر لگاؤ۔کسی کے پاس سے سوکھا ٹکڑا ملا، کسی کے پاس ایک کھجور ملی، کسی سے پنیر کا ٹکڑا ملا اس طرح کرتے کرتے وہ غذا کا ایک چھوٹا سے ڈھیر بن گیا۔ مشکیزوں کے ایک ایک گھونٹ پانی کو جمع کرنے سے برتن میں اتنا پانی ہو گیا کہ آپ ﷺ کے ہاتھ کے اوپر ہو گیا۔ آپ ﷺ نے انگلیاں اٹھائیں اور انگلیوں سے پانی کے چشمے بہہ نکلے جو خوراک کے ڈھیر جمع کیا تھا جس میں پنیر، کھجور اور روٹی تھی۔ ان سب کو ایک چاردر سے ڈھانپ دیااور پھیر نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ایک ایک کرکے آؤ اور آکر اس ڈھیر سے اپنی اپنی جھولیاں بھر لو۔ ہر ایک نے اپنی بساط سے بڑھ کر لیا۔ مجھ جیسے کچھ مریض لوگ زیادہ لینے والے بھی ہوتے تھے۔ صحابہؓ تو ویسے بھی سارے عشق کے مریض تھے، اللہ کی عبادت اور رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اللہ کے تعلق میں اور کملی والے ﷺ کی عطا میں یہ برکت والی خوراک اور یہ رسول ﷺ کی انگلیوں سے نکلا ہو ا پانی پھر جانے نصیب ہو یا نہ ہو وہ بھرتے ہی چلے گئے، ادھر پانی سے مشکیزے بھی بھرے جا رہے تھے جانوروں کو بھی پلایا جا رہا ہے اور کچھ پانی ذخیرہ بھی کیا جا رہا ہے۔
افضل ترین پانی سرور کونین کی انگلیوں سے نکلا ہو پانی ہے:
اکثر علماء لکھتے ہیں دنیا کا سب سے افضل اور متبرک پانی وہی پانی ہے جو میرے آقا مبارکﷺ کے ہاتھ مبارک سے نکلا ہوا ہے۔ سوچو تو سہی اتنی وفائیں کرنے والے حبیب ﷺ اور ان کے ساتھ ہم اس طرح بے وفائی کریں! ان کی بتائی ہوئی راہوں کو چھوڑ کر الگ راہوں میں ہم اپنی کامیابیاں تلاش کریں اور ہم سے بڑھ کر بے عقل کون ہوگا؟
شجر و حجر کے اشاروں پر عمل کریں:
سرور کونین ﷺ تشریف لے جا رہے تھے، حضرت جابر ؓ سے فرمایا: جابرؓ مجھے حاجت کیلئے جانا ہے یہاں کوئی اوڑھ نہیں ہے، سامنے جو جھاڑیاں ہیں ان کو جا کر کہہ دو کہ اللہ کے نبی ﷺ کیلئے اوڑھ بناؤ، آپﷺ نے اتنا ہی فرمایا۔حضرت جابرؓ نے ان جھاڑیوں کے پا جا کر یہ پیغام دیا، اللہ اکبر! آج بھی آسمان گواہ ہے، ان جھاڑیوں کو چشم فلک نے دیکھا وہ جھاڑیاں ایسے چلتی ہوئی آئیں اور ساری جھاڑیوں نے سرور کونینﷺ کیلئے اوڑھ بنائی اور آپ ﷺ نے تقاضہ فرمایا اور جب آپ ﷺ تشریف لے گئے تو ساری جھاڑیاں ہٹیں اور واپس اپنی جگہ پر جا کر زمین میں پیوست ہو گئیں۔
ٹہنی کا پیغمبر اسلام کی شہادت کا اقرار:
ایک بدو آرہا تھا، آپﷺ نے اس بدو سے فرمایا تو مجھ پر ایمان نہیں لاتا اور فرمایا کہ سامنے درخت کی جو ٹہنی ہے اگر وہ اپنی شاخ سے کٹ کر چلتی ہوئی یہاں میرے پاس آئے اور میرے رسالت اور نبوت کی گواہی دیدے تو کیا تم ایمان لے آؤ گے؟ بدو جواب دیا کہ ہاں میں آپ پر ایمان لے آؤں گا۔ آپ ﷺ نے اس ٹہنی کو انگلی سے اشارہ فرمایا تو اللہ کے امر سے وہ ٹہنی اپنی شاخ سے جدا ہو کر چلتی ہوئی آپ ﷺ کے پاس آئی زمین چیرتی ہوئی آئی اور آپ ﷺ کے سامنے آکر کھڑی ہوئی۔ آپ ﷺ نے پوچھا میں کون ہوں؟ اس ٹہنی نے آپ ﷺ کی نبوت کی گواہی دی کہ آپ آخری نبی ﷺ ہیں۔ آپ ﷺ نے دوبارہ پوچھا میں کون ہوں؟ پھر اس نے آپ ﷺ کی اور صفت بیان کی اور نبوت کی گواہی دی،آپ ﷺ نے بدو سے فرمایا کہ اب تو مان گیا؟ وہ ٹہنی ابھی وہیں کھڑی تھی اس بدو نے اقرار کرتے ہوئے کہا: ”اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَ شْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْ لُہ“آپ ﷺ نے ٹہنی کو حکم فرمایا کہ چلی جا وہ ٹہنی ویسے چلتی ہوئی گئی اور ویسے ہی اس درخت سے لگ گئی، نہ جوڑ نہ جھول، پتہ ہی نہ چلا کہ ٹہنی کہاں سے ٹوٹی تھی۔ ایسی محبت کرنے والے حبیب ﷺ کے ساتھ بے وفائی کرنے کو جانے یہ دل کیسے مان جاتا ہے!
شیخ الوظائف حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی
منافقین کی منفاقت کے بعد صحابہ کا عشق: اچانک تبوک کیلئے جہاد کاحکم جاری ہوگیا۔۔۔۔۔اس عقل والوں کے لئے نکتہ ہے۔۔۔۔! سمجھ والوں کیلئے ایک نکتہ ہے۔۔۔! عشق والوں کیلئے ایک کیفیت ہے۔۔۔ اور دیوانوں کیلئے ایک دل لگی ہے۔۔۔۔۔ جو ہر حال میں اور ہر کیفیت میں چلے گا، دل مانے یا نہ مانے طبیعت چاہے یا نہ چاہے، رزق حالات، کاروبار، صحت اور طبیعت اجازت دے یا نہ دے جو ہر حال میں اور ہر کیفیت میں اللہ اور رسولﷺ کی بتائی ہوئی زندگی پر چلے گا اسے اللہ جل شانہ کبھی محروم نہیں فرمائیں گے۔۔۔۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نہ صرف اسے بلکہ اس کی نسلوں کو بھی پالیں گے۔اور اس کے رزق و صحٹ میں برکت اور عزت و روحانیت میں ہمیشہ اضافہ فرماتے رہیں گے اور یہ اللہ کا ازل سے وعدہ ہے۔
بھرکے پیاسے صحابہ ؓاللہ تعالیٰ کے کلمہ حق کیلئے جوق در جوق نکلے، جو تھوڑا بہت سامانِ سفر تھا وہ ختم ہو گیا، کیفیت یہ ہو گئی کہ صحابہ کرامؓ کا بھوک اور پیاس کے سبب برا حال ہو چکا تھا،صحابہ کرام کی قیمتی زندگیوں کو بچانے کی خاطر ایک اونٹ ذبح کیا گیا۔ اس کی اوجھڑی نکالی اور اس اوجھڑی کو نچوڑ کر اس گندا بدبودار نکالا اور اس پانی کو پیا۔
ؑعمرؓ کی سفارش اور سرورکونین ﷺ کی شفقت:
حضرت عمر فاروقؓ فوراً نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کیا کہ یا رسول ﷺ اب تو اللہ کی مدد کیلئے دعا فرمائیں! بھوک اور پیاس کی کیفیت نے مجاہدین کوبدحال کردیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا اچھا ایسا کرو صحابہؓ میں جس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب لاؤ اور یہاں لا کر ڈھیر لگاؤ۔کسی کے پاس سے سوکھا ٹکڑا ملا، کسی کے پاس ایک کھجور ملی، کسی سے پنیر کا ٹکڑا ملا اس طرح کرتے کرتے وہ غذا کا ایک چھوٹا سے ڈھیر بن گیا۔ مشکیزوں کے ایک ایک گھونٹ پانی کو جمع کرنے سے برتن میں اتنا پانی ہو گیا کہ آپ ﷺ کے ہاتھ کے اوپر ہو گیا۔ آپ ﷺ نے انگلیاں اٹھائیں اور انگلیوں سے پانی کے چشمے بہہ نکلے جو خوراک کے ڈھیر جمع کیا تھا جس میں پنیر، کھجور اور روٹی تھی۔ ان سب کو ایک چاردر سے ڈھانپ دیااور پھیر نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ایک ایک کرکے آؤ اور آکر اس ڈھیر سے اپنی اپنی جھولیاں بھر لو۔ ہر ایک نے اپنی بساط سے بڑھ کر لیا۔ مجھ جیسے کچھ مریض لوگ زیادہ لینے والے بھی ہوتے تھے۔ صحابہؓ تو ویسے بھی سارے عشق کے مریض تھے، اللہ کی عبادت اور رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اللہ کے تعلق میں اور کملی والے ﷺ کی عطا میں یہ برکت والی خوراک اور یہ رسول ﷺ کی انگلیوں سے نکلا ہو ا پانی پھر جانے نصیب ہو یا نہ ہو وہ بھرتے ہی چلے گئے، ادھر پانی سے مشکیزے بھی بھرے جا رہے تھے جانوروں کو بھی پلایا جا رہا ہے اور کچھ پانی ذخیرہ بھی کیا جا رہا ہے۔
افضل ترین پانی سرور کونین کی انگلیوں سے نکلا ہو پانی ہے:
اکثر علماء لکھتے ہیں دنیا کا سب سے افضل اور متبرک پانی وہی پانی ہے جو میرے آقا مبارکﷺ کے ہاتھ مبارک سے نکلا ہوا ہے۔ سوچو تو سہی اتنی وفائیں کرنے والے حبیب ﷺ اور ان کے ساتھ ہم اس طرح بے وفائی کریں! ان کی بتائی ہوئی راہوں کو چھوڑ کر الگ راہوں میں ہم اپنی کامیابیاں تلاش کریں اور ہم سے بڑھ کر بے عقل کون ہوگا؟
شجر و حجر کے اشاروں پر عمل کریں:
سرور کونین ﷺ تشریف لے جا رہے تھے، حضرت جابر ؓ سے فرمایا: جابرؓ مجھے حاجت کیلئے جانا ہے یہاں کوئی اوڑھ نہیں ہے، سامنے جو جھاڑیاں ہیں ان کو جا کر کہہ دو کہ اللہ کے نبی ﷺ کیلئے اوڑھ بناؤ، آپﷺ نے اتنا ہی فرمایا۔حضرت جابرؓ نے ان جھاڑیوں کے پا جا کر یہ پیغام دیا، اللہ اکبر! آج بھی آسمان گواہ ہے، ان جھاڑیوں کو چشم فلک نے دیکھا وہ جھاڑیاں ایسے چلتی ہوئی آئیں اور ساری جھاڑیوں نے سرور کونینﷺ کیلئے اوڑھ بنائی اور آپ ﷺ نے تقاضہ فرمایا اور جب آپ ﷺ تشریف لے گئے تو ساری جھاڑیاں ہٹیں اور واپس اپنی جگہ پر جا کر زمین میں پیوست ہو گئیں۔
ٹہنی کا پیغمبر اسلام کی شہادت کا اقرار:
ایک بدو آرہا تھا، آپﷺ نے اس بدو سے فرمایا تو مجھ پر ایمان نہیں لاتا اور فرمایا کہ سامنے درخت کی جو ٹہنی ہے اگر وہ اپنی شاخ سے کٹ کر چلتی ہوئی یہاں میرے پاس آئے اور میرے رسالت اور نبوت کی گواہی دیدے تو کیا تم ایمان لے آؤ گے؟ بدو جواب دیا کہ ہاں میں آپ پر ایمان لے آؤں گا۔ آپ ﷺ نے اس ٹہنی کو انگلی سے اشارہ فرمایا تو اللہ کے امر سے وہ ٹہنی اپنی شاخ سے جدا ہو کر چلتی ہوئی آپ ﷺ کے پاس آئی زمین چیرتی ہوئی آئی اور آپ ﷺ کے سامنے آکر کھڑی ہوئی۔ آپ ﷺ نے پوچھا میں کون ہوں؟ اس ٹہنی نے آپ ﷺ کی نبوت کی گواہی دی کہ آپ آخری نبی ﷺ ہیں۔ آپ ﷺ نے دوبارہ پوچھا میں کون ہوں؟ پھر اس نے آپ ﷺ کی اور صفت بیان کی اور نبوت کی گواہی دی،آپ ﷺ نے بدو سے فرمایا کہ اب تو مان گیا؟ وہ ٹہنی ابھی وہیں کھڑی تھی اس بدو نے اقرار کرتے ہوئے کہا: ”اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَ شْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْ لُہ“آپ ﷺ نے ٹہنی کو حکم فرمایا کہ چلی جا وہ ٹہنی ویسے چلتی ہوئی گئی اور ویسے ہی اس درخت سے لگ گئی، نہ جوڑ نہ جھول، پتہ ہی نہ چلا کہ ٹہنی کہاں سے ٹوٹی تھی۔ ایسی محبت کرنے والے حبیب ﷺ کے ساتھ بے وفائی کرنے کو جانے یہ دل کیسے مان جاتا ہے!