Thursday, April 30, 2015

نبی کریمﷺ کی انگلیوں سے نکلا پانی افضل ترین۔

نبی کریمﷺ کی انگلیوں سے نکلا پانی افضل ترین۔
شیخ الوظائف حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی
منافقین کی منفاقت کے بعد صحابہ کا عشق: اچانک تبوک کیلئے جہاد کاحکم جاری ہوگیا۔۔۔۔۔اس عقل والوں کے لئے نکتہ ہے۔۔۔۔! سمجھ والوں کیلئے ایک نکتہ ہے۔۔۔! عشق والوں کیلئے ایک کیفیت ہے۔۔۔ اور دیوانوں کیلئے ایک دل لگی ہے۔۔۔۔۔ جو ہر حال میں اور ہر کیفیت میں چلے گا، دل مانے یا نہ مانے طبیعت چاہے یا نہ چاہے، رزق حالات، کاروبار، صحت اور طبیعت اجازت دے یا نہ دے جو ہر حال میں اور ہر کیفیت میں اللہ اور رسولﷺ کی بتائی ہوئی زندگی پر چلے گا اسے اللہ جل شانہ کبھی محروم نہیں فرمائیں گے۔۔۔۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نہ صرف اسے بلکہ اس کی نسلوں کو بھی پالیں گے۔اور اس کے رزق و صحٹ میں برکت اور عزت و روحانیت میں ہمیشہ اضافہ فرماتے رہیں گے اور یہ اللہ کا ازل سے وعدہ ہے۔
بھرکے پیاسے صحابہ ؓاللہ تعالیٰ کے کلمہ حق کیلئے جوق در جوق نکلے، جو تھوڑا بہت سامانِ سفر تھا وہ ختم ہو گیا، کیفیت یہ ہو گئی کہ صحابہ کرامؓ کا بھوک اور پیاس کے سبب برا حال ہو چکا تھا،صحابہ کرام کی قیمتی زندگیوں کو بچانے کی خاطر ایک اونٹ ذبح کیا گیا۔ اس کی اوجھڑی نکالی اور اس اوجھڑی کو نچوڑ کر اس گندا بدبودار نکالا اور اس پانی کو پیا۔
ؑعمرؓ کی سفارش اور سرورکونین ﷺ کی شفقت:
حضرت عمر فاروقؓ فوراً نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کیا کہ یا رسول ﷺ اب تو اللہ کی مدد کیلئے دعا فرمائیں! بھوک اور پیاس کی کیفیت نے مجاہدین کوبدحال کردیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا اچھا ایسا کرو صحابہؓ میں جس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب لاؤ اور یہاں لا کر ڈھیر لگاؤ۔کسی کے پاس سے سوکھا ٹکڑا ملا، کسی کے پاس ایک کھجور ملی، کسی سے پنیر کا ٹکڑا ملا اس طرح کرتے کرتے وہ غذا کا ایک چھوٹا سے ڈھیر بن گیا۔ مشکیزوں کے ایک ایک گھونٹ پانی کو جمع کرنے سے برتن میں اتنا پانی ہو گیا کہ آپ ﷺ کے ہاتھ کے اوپر ہو گیا۔ آپ ﷺ نے انگلیاں اٹھائیں اور انگلیوں سے پانی کے چشمے بہہ نکلے جو خوراک کے ڈھیر جمع کیا تھا جس میں پنیر، کھجور اور روٹی تھی۔ ان سب کو ایک چاردر سے ڈھانپ دیااور پھیر نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ایک ایک کرکے آؤ اور آکر اس ڈھیر سے اپنی اپنی جھولیاں بھر لو۔ ہر ایک نے اپنی بساط سے بڑھ کر لیا۔ مجھ جیسے کچھ مریض لوگ زیادہ لینے والے بھی ہوتے تھے۔ صحابہؓ تو ویسے بھی سارے عشق کے مریض تھے، اللہ کی عبادت اور رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اللہ کے تعلق میں اور کملی والے ﷺ کی عطا میں یہ برکت والی خوراک اور یہ رسول ﷺ کی انگلیوں سے نکلا ہو ا پانی پھر جانے نصیب ہو یا نہ ہو وہ بھرتے ہی چلے گئے، ادھر پانی سے مشکیزے بھی بھرے جا رہے تھے جانوروں کو بھی پلایا جا رہا ہے اور کچھ پانی ذخیرہ بھی کیا جا رہا ہے۔
افضل ترین پانی سرور کونین کی انگلیوں سے نکلا ہو پانی ہے:
اکثر علماء لکھتے ہیں دنیا کا سب سے افضل اور متبرک پانی وہی پانی ہے جو میرے آقا مبارکﷺ کے ہاتھ مبارک سے نکلا ہوا ہے۔ سوچو تو سہی اتنی وفائیں کرنے والے حبیب ﷺ اور ان کے ساتھ ہم اس طرح بے وفائی کریں! ان کی بتائی ہوئی راہوں کو چھوڑ کر الگ راہوں میں ہم اپنی کامیابیاں تلاش کریں اور ہم سے بڑھ کر بے عقل کون ہوگا؟
شجر و حجر کے اشاروں پر عمل کریں:
سرور کونین ﷺ تشریف لے جا رہے تھے، حضرت جابر ؓ سے فرمایا: جابرؓ مجھے حاجت کیلئے جانا ہے یہاں کوئی اوڑھ نہیں ہے، سامنے جو جھاڑیاں ہیں ان کو جا کر کہہ دو کہ اللہ کے نبی ﷺ کیلئے اوڑھ بناؤ، آپﷺ نے اتنا ہی فرمایا۔حضرت جابرؓ نے ان جھاڑیوں کے پا جا کر یہ پیغام دیا، اللہ اکبر! آج بھی آسمان گواہ ہے، ان جھاڑیوں کو چشم فلک نے دیکھا وہ جھاڑیاں ایسے چلتی ہوئی آئیں اور ساری جھاڑیوں نے سرور کونینﷺ کیلئے اوڑھ بنائی اور آپ ﷺ نے تقاضہ فرمایا اور جب آپ ﷺ تشریف لے گئے تو ساری جھاڑیاں ہٹیں اور واپس اپنی جگہ پر جا کر زمین میں پیوست ہو گئیں۔
ٹہنی کا پیغمبر اسلام کی شہادت کا اقرار:
ایک بدو آرہا تھا، آپﷺ نے اس بدو سے فرمایا تو مجھ پر ایمان نہیں لاتا اور فرمایا کہ سامنے درخت کی جو ٹہنی ہے اگر وہ اپنی شاخ سے کٹ کر چلتی ہوئی یہاں میرے پاس آئے اور میرے رسالت اور نبوت کی گواہی دیدے تو کیا تم ایمان لے آؤ گے؟ بدو جواب دیا کہ ہاں میں آپ پر ایمان لے آؤں گا۔ آپ ﷺ نے اس ٹہنی کو انگلی سے اشارہ فرمایا تو اللہ کے امر سے وہ ٹہنی اپنی شاخ سے جدا ہو کر چلتی ہوئی آپ ﷺ کے پاس آئی زمین چیرتی ہوئی آئی اور آپ ﷺ کے سامنے آکر کھڑی ہوئی۔ آپ ﷺ نے پوچھا میں کون ہوں؟ اس ٹہنی نے آپ ﷺ کی نبوت کی گواہی دی کہ آپ آخری نبی ﷺ ہیں۔ آپ ﷺ نے دوبارہ پوچھا میں کون ہوں؟ پھر اس نے آپ ﷺ کی اور صفت بیان کی اور نبوت کی گواہی دی،آپ ﷺ نے بدو سے فرمایا کہ اب تو مان گیا؟ وہ ٹہنی ابھی وہیں کھڑی تھی اس بدو نے اقرار کرتے ہوئے کہا: ”اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَ شْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْ لُہ“آپ ﷺ نے ٹہنی کو حکم فرمایا کہ چلی جا وہ ٹہنی ویسے چلتی ہوئی گئی اور ویسے ہی اس درخت سے لگ گئی، نہ جوڑ نہ جھول، پتہ ہی نہ چلا کہ ٹہنی کہاں سے ٹوٹی تھی۔ ایسی محبت کرنے والے حبیب ﷺ کے ساتھ بے وفائی کرنے کو جانے یہ دل کیسے مان جاتا ہے!

Tuesday, April 28, 2015

جنات کا پیدائشی دوست قسط 67

جنات کا پیدائشی دوست قسط 67

حضرت حکیم صاحب کے ساتھ رمضان کے فائدے

حضرت حکیم صاحب کے ساتھ رمضان کے فائدے

عینک سے چھٹکارا، پر سکون نیند، ٹینشن اور دیمک سے نجات کے متلاشی متوجہ ہوں۔

عینک سے چھٹکارا، پر سکون نیند، ٹینشن اور دیمک سے نجات کے متلاشی متوجہ ہوں۔

سرور کریم صلی اللہ علیہ وسالم کی انگلیوں سے نکلا پانی افضل ترین

سرور کریم صلی اللہ علیہ وسالم کی انگلیوں سے نکلا پانی افضل ترین

Saturday, April 25, 2015

عبقری کے تمام نسخے اور وظائف اب ایک عنوان کے تحت

عبقری کے تمام رسائل کے نسخے اور روحانی وظائف کو اب ان کے عنوانات کے تحت کر دیا گیا ہے جس سے قارئین کسی بھی وقت عنوان کے تحت نسخہ ڈھونڈ سکتے ہیں

ہرن اور جانوروں کے شکاری ضرور پڑھیں۔


حال دل
جو میں نے دیکھا سنا اور سوچا۔
ہرن اور جانوروں کے شکاری ضرور پڑھیں۔
میں اپنے آپ کو صحرا نشین کہوں یا صحرا گرد بہرحال ویرانوں، تنہایؤں اور ان جگہوں پر جہاں انسانی زندگی نہیں ہر طرف ہو کا عالم ہے مجھے کچھ نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی ان جگہوں سے پیار، محبت، الفت ائر شناسائی ہے، جاتا ہوں اور بہت جاتاہوں۔ صحرا میں کہیں دور ایسی جگہ جہاں انسان نہیں ہوتے تاحد نظر ریت ہی ریت۔۔۔۔۔۔۔ ٹیلے ہی ٹیلے ہاں۔۔۔۔۔۔۔ صدیوں آباد قدرتی تالابوں (ٹوبوں) پر آباد وہ صحرا نشین جو نسل در نسل یہاں رہ رہے ہیں جنہیں ابھی تک جدید معاشرے کی وہ تہذیب، خوشبو، ہوائیں اور بے وفائی نہیں پہنچی۔ ان بادہ نشینوں کے درمیان بیٹھ کر حق اور ہوکی آوازیں جب دل سے نکلتی ہیں تو دل پکار اٹھتا ہے کہ زرہ زرہ اس حق اور آوازدل کا ساتھ دے رہا ہے بلکہ ذرہ ذرہ بھی اس آواز میں میرے ساتھ شامل ہے۔ ویرانوں نے مجھے کچھ پیغام بھی دیئے وہ پیغام پھر میں آبادیوں میں آکر اپنے درس میں بالمشافہ اور غائبانہ یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے بھی پوری دنیا تک پہنچاتا ہوں اور وہ آوازیں لوگ بہت دلچسپی سے سنتے ہیں، ان میں سبق بھی، منزل بھی، راستہ اور عبرت بھی۔۔۔ اگر بات عبرت تک چلی تو ایک بات بتاتا چلوں میں پاکستانی صحراؤں کی ان پٹیوں تک جاتا ہوں جہاں سوائے پرندوں شکاری اور ہرن کے شکاری کے اور کوئی ذی روح جا نہیں سکتا۔ میرے پا شکاریوں کے بے شمار واقعات ہیں ایک نہیں کئی۔ کیونکہ انسان جب شکار کیلئے بندوق تانے رات کے اندھیرے میں طاقتور جیپوں کے ذریعے صحرا میں گردش کر رہا ہوتا ہے، اس کی آنکھوں میں شکار کے نشے کی ایک پٹی ہوئی جو اس کھلتی ہے جب تڑپتا ہو ہرن اس کے سامنے ہوتا ہے اور اس کی باچھیں پھٹی ہوئی ہوتی ہیں اس کی آنکھوں میں چمک ہوتی ہیلیکن اس وقت اس ہرن کی آنکھوں کی چمک زائل ہو چکی ہوتی ہے، جاتی دہ چمک ایک پیغام ضرور دیتی ہے کہ تجھے خیال آیا۔۔۔۔ کہ تو نے صرف یہ شکار ضرورت کیلئے نہیں خواہش کیلئے کیا ہے۔ ہاں! میں شکار کو حرام نہیں کہتا لیکن ضرورت اور خواہش کے شکار میں فرق ہے اور بے شمار شکاری گائیڈ مجھے ایسے ملے، کتنے لوگوں کو فالج ہوا، کتنوں کی ٹانگیں کٹیں، اکثر اندھے ہو جاتے ہیں اور کتنے ایسے تھے جو ارب پتی تھے آج وہ فقیر ہیں۔ مجھے خود شکاریوں نے اور ان کے گائیڈوں نے یہ بات بتائی کہ جب گولی چلتی ہے تو گولی نہیں دیکھتی کہ سامنے ہرنی ہے یا ہرن۔ حاملہ ہے یا بچوں کو دودھ پلانے والی۔ بس گولی چلتی ہے۔۔۔۔۔ اور یہ اس زخمی ہرن پر دوڑتا ہے اور جا کر اس کی گردن پر ذبیح کے نام پر چھری چلاتا ہے لیکن اس اندر سے نکلنے والی آہ جس کے بچے ماں کے دودھ کے پیاسے یا پھر جس کا پیٹ جب چاک کرتے ہیں اندر سے بچے جو ان کے کسی کام کے نہیں ہوتے وہ تڑپتے تڑپتے ان کے سامنے مر جاتے ہیں کیا انہیں کوئی پیغام نہیں ملتا انہیں ملے نہ ملے عرش والے کو ایک پیغام دے کر یہ بیٹھے ان کی بوٹیاں نوش رہے ہوتے ہیں اور ہر بوٹی کا ذرہ ذرہ پکار رہا ہوتا ہے کہ خیال کر تیری قسمت کے فیصلے بدل چکے ہیں،  تیرا نصیب اندھیری رات میں کھو رہا، تیری چاندنی ڈوب گئیہے، تیری دولت چھن گئی ہے، تیری صحت کو زوال آگیا ہے اور ایسا ہوتا ہے میرے قریب کے رشتہ دار جس کو دن رات بس شکار کا شوق تھا، وہ بڑے بڑے افسران کو ہرن کے بچے دینا اور ان کو گفٹ کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتا تھا مجھے پتا آج وہ ایک کرائے کے مکان میں نہایت ذلت کی زندگی گزار رہا بلکہ پچھلے دنوں وہ ایک کرائے کے موٹر سائیل پر جا رہا تھا قرض لینے والوں نے موٹرسائیکل پکڑ لی اسے تھپڑ مارے اور اس کا موٹر سائیکل رکھ لیا بہت لوگوں نے اس کو دیکھااور سنا ایک بار میں نے خود اس کہا بہت اور مشغلے پڑے ہیں یہ ہرن مارنے کا مشغلہ چھوڑدے۔ میرے بات کو نہایت ذلت آمیز مذاق کے ساتھ اس نے ہواؤں میں اڑا دیا۔ میں خاموش ہوگیا۔ لیکن وہ خاموش نہ ہوا وقت کے دھارے بدلتے گئے اور چھاؤں دھوپ میں اور حتیٰ کہ ایسی دھوپ کڑی دھوپ جس دھوپ میں ہرنوں کی آہیں ان کے بچوں کی سسکیاں ان کی پیاسیں، ریت میں تڑپنا، اس کے قہقہے، اس کی ہڈیاں چبانے کی آوازیں، گوشت نوچنے کی کیفیت۔۔۔۔ یہ سب کچھ اسی دھوپ میں شامل تھے لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد اس دھوپ نے دیکھا اور آسمان نے اس کی گواہی دی یہ سسک سسک کر رویا، یہ بلک بلک کر تڑپا لیکن اسے ہرن کی ماں، ہرن کے بچوں اور خود ہرن کی سسکیاں سنائی نہ دیں۔ اے کاش! اس کو پہلے سمجھ آجاتی مجھے کتنے لوگ ایسے ملے جن کی ٹانگیں کٹیں، بظاہر کسی بیماری کے نام پر لیکن بنیاد اس ہرن کی سسکیاں، تڑپ اور چبھن تھی۔ وہ آقاﷺ مدینے والے کا واقعہ یاد آیا کہ کسی نے ہرن کو پکڑ کر درخت کے نیچے باندھا ہو اتھا اور مدینے والےﷺ نے دور سے یا رسول اللہﷺ یا رسول اللہﷺ یا رسول اللہﷺ کی آواز سنی۔ آپﷺ تشریف لے گئے۔ اس واقعہ کا مفہوم ہے اس ہرنی نے عرض کیا آپ ﷺ مجھے چھوڑ دیں میں بچوں کو دودھ پلا کر واپس آجاؤں گی آپ ﷺ نے پوچھا اگر تو واپس نہ آئی تو ہرنی نے کہا مجھے وہ سزا دی جائے جو  ٹیکس والوں کو قیامت کے دن ملے۔ میں جب صحراؤں میں جاتا ہوں، مجھے وہ سزا یاد آجاتی ہے پھر وہاں لوگ مجھے واقعات سناتے ہیں، شکاری لوگ جو مجھے درد بھری کہانیاں سناتے ہیں مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمیں دوسروں کے انجام سے عبرت آخر کیوں نہیں ہوتی؟ دوسروں کا انجام آخر کیوں بھول جاتے ہیں؟ کیا شوق اور عشق آنکھوں پر پٹی ڈال دیتے ہیں؟ اگر جائز طریقوں سے شوق ہے تو میں اس کو خود روا ہوں لیکن میری درخواست ہے نہ سسکائیں، نہ تڑپائیں کوئی اور جائز شوق پورے کر لیں۔ لیکں۔۔۔! جانوروں کو شکار اور ہرن کے شکار کو شوق نہ بنائیں۔ ورنہ عرشی فیصلے تیرے خلاف ہو جائیں گے، فرشی نظام تجھ پر سمٹ جائیگا۔ دنیا تجھ سے روٹھ جائے گی، عزت کو کھو بیٹھے گا، شہرت اور گمنامی میں اور گمنامی سے ذلت کی طرف تیرے قدم اٹھنا شروع ہو جائیں گے۔آ۔۔۔۔ جلدی کر اپنی سوچوں کو بدل، اپنی سوچوں اور جذبوں کو بدل۔ میں بعض اوقات کسی راستے سے گزر رہا ہوتا ہوں بظاہر کچھ نظر نہیں آتا لیکن مجھے کانوں میں کچھ سسکیاں محسوس ہوتی ہیں میں ادھر اُدھر دیکھتا ہوں لیکن میر وجدان اور میرے دل کی آواز مجھے اس کا جواب دیتی ہے یہ کسی ایسی حاملہ ہرنی کی سسکیاں ہیں یا کسی ایسی دودھ پلانے والی ہرنی کی آہیں ہیں جو نکلی تھی بچوں کو خوراک کیلئے کچھ پانی اور گھاس کھا کر پھر جا کر انہیں دودھ پلاؤں گی اور کسی شکاری کی اندھی گولی کا شکار بن گئی اور وہ تڑپتے تڑپتے اپنی آہوں اور بے زبان دبددعاؤں کے ذریعے اس گولی مارنے اور شوق سے سرشار شخص کا نصیب ڈبو گئی۔ تو کیا خیال ہے۔۔۔!!! نصیب بچانا ہے یا ڈبونا ہے۔۔۔۔۔؟