آج کل میں اپنے ایک دوست
سے رپورٹنگ سیکھ رہا ہوں‘ وہ بڑی مشکل سے اپنے ساتھ لے جاتا ہے کیونکہ بہت مصروف ہے۔
بہرحال جب بھی مجھے موقع ملتا ہے اپنی موٹرسائیکل پر کیمرہ لے کر اس کے ساتھ چل پڑتا
ہوں۔ کہیں آگ لگی ہو‘ گولیاں چل رہی ہوں‘ لوگ زخمی ہوں وہ بالکل نہیں ڈرتا‘ نہ گھبراتا
ہے بلکہ تصاویر کھینچتا رہتا ہے۔ وہ اپنے پیشے میں کامیاب ہے۔ جان کی پرواہ نہیں کرتا
جبکہ میں ایسی جگہوں سے ڈر جاتا ہوں۔ زخمیوں کو دیکھ نہیں سکتا‘ توان پر خبر یا تصویر
کیسے بناؤں؟ وہ کہتا ہے تم کوئی اور کام کرو۔ (اسد علی‘ لاہور)
مشورہ
اپنے پیشے میں کامیاب ہونے
کیلئے جان کی پرواہ نہ کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ انسانی جان پیشے سے زیادہ قیمتی ہے۔ اپنی
جان ہو یا کسی
دوسرے انسان کی‘ پہلا فرض جان بچانا ہوتا ہے۔ وہ لمحات جو زخمیوں کی تصاویر بنانے میں صرف ہورہے ہیں ان کی جان بچانے کی تدابیر کرنے میں استعمال ہوسکتے ہیں‘ یہ زیادہ بڑا کام ہوگا۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو زخمیوں کو نہیں دیکھ سکتے یا خون سے گھبرا جاتے ہیں مگر یہ سب زندگی کے حقائق ہیں۔ ان کا سامنا کرنے کی ہمت کرنے والے ہی دوسروں کی مدد کرسکتے ہیں۔ کام انسان کوئی بھی کرے لیکن انسانی ہمدردی کو
دوسرے انسان کی‘ پہلا فرض جان بچانا ہوتا ہے۔ وہ لمحات جو زخمیوں کی تصاویر بنانے میں صرف ہورہے ہیں ان کی جان بچانے کی تدابیر کرنے میں استعمال ہوسکتے ہیں‘ یہ زیادہ بڑا کام ہوگا۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو زخمیوں کو نہیں دیکھ سکتے یا خون سے گھبرا جاتے ہیں مگر یہ سب زندگی کے حقائق ہیں۔ ان کا سامنا کرنے کی ہمت کرنے والے ہی دوسروں کی مدد کرسکتے ہیں۔ کام انسان کوئی بھی کرے لیکن انسانی ہمدردی کو
اولین
ترجیح دے۔
لڑکی کی بدتمیزی
دوست کی منگنی میں گیا وہاں
ایک لڑکی کو دیکھا وہ بے حد خوبصورت نظر آرہی تھی‘ اسنے اتنا میک اپ کیا تھا جتنا
کوئی شادی شدہ لڑکی بھی نہ کرے۔ تقریب کے اختتام پر سب لوگ جانے لگے‘ میں نے اس کو
بھی والدین کے ساتھ جاتے دیکھا۔ وہ لوگ تو بے حد مظلوم لگے کیونکہ لڑکی ان سے بہت بدتمیزی
سے بات کررہی تھی۔ میں نے اس کو اپنانے کےجو خواب دیکھے تھےوہ ڈھیر ہوگئے۔ بعد میں
موقع دیکھ کر اپنےدوست سے اس کے بارے میں پوچھا وہ بتانے لگا کہ وہ تو نفسیاتی مریضہ
ہے۔ محلے والے اس کو پاگل کہتے ہیں‘ تب ایک بار پھر مجھے اس کا خیال آیا اور ہمدردی
سی ہوگئی۔ کیا ایسی لڑکیاں ٹھیک ہوسکتی ہیں‘ اگر وہ مارتی پیٹتی بھی ہوں۔ (عارف رحیم‘
جھنگ)
مشورہ
سو میں سے ایک شدید ذہنی
مریض یامریضہ پر ایسا وقت آتا ہے جب وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتے۔ لہٰذا ان سے
کوئی رشتہ نہیں تو صرف ہمدردی ہی ٹھیک ہے۔ آپ کیلئے بہتر یہی ہے کہ اس کو بھول جائیں۔
جب یہ معلوم ہوگیا کہ وہ نفسیاتی مریضہ ہے تو اس کو والدین کی توجہ ضروری ہوگی۔ بعض
نفسیاتی امراض جو موروثی ہونے کے ساتھ شدید بھی ہوں تو بار بار حملہ آور ہوتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنی مشکل اور صبر آزما ہوتی ہے۔
بھول جاتی ہوں
میں اپنی بہت سی اہم چیزیں
رکھ کر بھول جاتی ہوں۔ پھر کتنی کتنی دیر ذہن پر زور ڈالتی رہتی ہوں مگر کچھ یادہی
نہیں آتا۔ زیور رکھ کر بھول گئی تو راتوں کی نیند اڑ گئی۔ پھر ایک روز جوتے کے ڈبے
سے ملا۔ ایک مرتبہ ضروری کاغذات کسی جگہ رکھ دئیے وہ بعد میں پتہ نہیں کسی طرح بچوں
کی الماری میں پہنچ گئے۔ جب وہاں کی صفائی کی تو نظر آئے۔ میں بتا نہیں سکتی‘ اس عادت
پر خود بھی پریشان رہتی ہوں اور دوسروں سے بھی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ (شیزہ، کراچی)
مشورہ
اگر انسان ذہن کا صحیح استعمال کرتا رہے تو بھول کی شکایت اور ذہن
پر زور ڈالنے کی ضرورت نہ ہو۔ کاغذات، زیورات اور دوسری اہم چیزوں کے رکھنے کی جگہ
بنائیں اور ان چیزوں کو وہیں رکھیں۔ خاص طور پر جب کوئی چیز رکھ رہی ہوں تو حاضر دماغ
رہیں اور اہم چیزوں کو کچھ عرصہ میں چیک کرتی رہیں۔ بھول اس وقت ہوتی ہے جب انسان اپنی
چیزوں کو سنبھال کر رکھنے کے باوجود حاضر دماغ نہیں ہوتا۔ وہ کام کچھ کررہا ہوتا ہےاور
سوچ کوئی اور ہوتی ہے۔
ڈاکٹر بن کر دیکھو
بچپن سے میں خواب دیکھتی تھی کہ ڈاکٹر بن کر مریض دیکھ رہی ہوں۔
میٹرک سائنس سے کیا‘ کالج میں داخلہ لیا ہی تھا کہ والدہ کا انتقال ہوگیا‘ گھر سنبھالنا
پڑا‘ ایک سال بعد شادی ہوگئی۔ میں نے اپنی بیٹی کو سائنس میں میٹرک کروایا مگر وہ آگے
چل کر صحافت پڑھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اسے صحافی اچھے لگتے ہیں۔ میں اس کو بہت سمجھاتی
ہوں کہ دیکھو تم ڈاکٹر بن کر زیادہ اچھی لگو گی لیکن اس کو میرے جذبات کی پرواہ نہیں۔
شروع سے اپنی دھن کی پکی لگتی ہے پتہ نہیں کس طرح لوگ اپنے بچوں کو اپنی مرضی پر چلاتے
ہیں۔ یہاں یہ حال ہے کہ بچے ماں کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ دراصل ان کےباپ نے
ان کو بہت آزادی دی ہے۔ (فرزانہ‘ لاہور)
مشورہ
ہر بچے کی اپنی الگ شخصیت
ہوتی ہے۔ اس لیے بچوں کو اپنی ذاتی آرزوؤں اور تمناؤں کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا
جاسکتا کیونکہ بہت ممکن ہے آپ کی توقعات اور آرزوئیں ایسی ہوں جن کو پورا کرنے کی
بچے میں استعداد ہی موجود نہ ہو۔ خط میں بیان کی گئی خواہش سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ
آپ نے اپنی بیٹی کی شخصیت اور وجود کو اپنی ذات سے الگ اور منفرد تسلیم نہیں کیا جبکہ
صحافی بننے کی خواہش یہ ظاہر کررہی ہے کہ وہ علیحدہ اور مختلف ذہنی صلاحیتوں کی مالک
ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ آپ دونوں الگ الگ دور میں رہیں۔ آپ کے بچپن میں لڑکیاں
صرف ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں گی جبکہ بیٹی کے زمانہ میں لڑکیوں کیلئےا ور بھی کئی میدان
ہیں۔ جہاں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ اپنی مرضی کا پیشہ یا جاب پسند کرنے کا مطلب والدین
کی نافرمانی یا ان کی اہمیت نہ دینا نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment