Saturday, July 18, 2015

کیا رمضان 2014ء نے ہمیں بہتر بنایا

کیا رمضان 2014ء نے ہمیں بہتر بنایا

الحمداللہ ! اللہ تعالی نے زندگی دی اور آپ لوگوں کہ ساتھ ہم نے بھی سال 2014ء کا رمضان گزارا۔ مسجدوں میں وہی منظر اور ترتیب رہی جو کہ ہمیشہ سے ہے کہ پہلے پانچ یا چھ روزے فل رش رہا اس کہ بعد نمازی تیزی سے کم ہونے لگےاور آخری دس دنوں میں ایک بار میں نے دیکھا کہ نو عدد نوجوان لڑکے اپنے ایک دوست کی گاڑی کو جو سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی اسے سٹارٹ کرنے کے لئے جتے ہوئے تھے۔ کوئی ساڑھے تین بجے سے وہ اسی کام پر لگ گئے تھے ہر کوئی مکینک بن رہا تھا ہر کوئی مشورہ دے رہا تھا ہر کوئی حصہ ڈال رہا تھا حتی کہ میں عصر کی نماز پڑھ کر واپس آیا تو واپسی پر انہیں وہیں کھڑے ہنسی مذاق کرتے اور گاڑی پر جھکے دیکھا کسی کے دل میں ذرا خیال نہیں آیا۔ کہ میں رمضان کے مہینے میں یہاں وقت ضائع کر رہا ہوں اور عصر کی جماعت فوت ہو رہی ہے تب اللہ تعالی کا وہ فرمان بڑا یاد آیا بسم اللہ الرحمان الرحیم والعصر ان الانسان لفی خسر عصر کہ وقت کی قسم انسان خسارے میں ہے۔
ایک صاحب کو میں نے بار بار دیکھا کہ ہم مغرب کی نماز پڑھ کر واپس جارہے ہوتے تو وہ ہمیں ایک کونے میں چھپ کر سگریٹ پیتے نظر آتے شائد گھر والوں سے چھپ کر افطاری کہ بعد نشہ پورا کر رہے ہوتے تھے ایک بار میں تراویح پڑھ کر واپس جارہا تھا کہ ایک گھر کہ باہر بہن بھائی کھیل رہے تھے چھوٹے بچے نے اچانک معصومیت سے پوچھا انکل آپ کہاں سے آ رہے ہیں ؟ میں نے جواب دیا میں تراویح پڑھ کر آ رہا ہوں بچہ اپنی بہن سے کہنے لگا تو ہمارے ابو کیوں تراویح پڑھنے نہیں جاتے بہن بولی وہ ٹی وی جو دیکھتے رہتے ہیں ایک صاحب نے پورا رمضان کبھی تراویح نہیں پڑھی ایک روز میں پوچھ بیٹھا کہ آپ تراویح کے لئے کیوں نہیں آتے ان کا جواب سنیں بولے میرے مسلک کی مسجد بہت دور ہے میں وہاں جا نہیں سکتا اس لئے اس مسجد میں نہیں آتا واہ مزا آ گیا جواب سن کرآپ کو مزا آیا؟ رمضان کے مہینے میں ہر شام عصر کی نماز پڑھ کر پھل وغیرہ لینے بازار جاتا خصوصاً میں نےآم خریدنے ہوتے تھے ہر روز میری دکانداروں سے بحث اور تلخ کلامی ہوتی تھی وجہ سنیں ہر دکاندار کا حال یہ تھا کہ ان کے دو مطالبے ہوتے تھے جو میں کبھی نہیں مانتا تھا اور نتیجتاً بعث مباحثہ ہوتا تھا ان کا مطالبہ نمبر ایک یہ ہوتا قیمت ہم اپنی مرضی کی لیں گئے مطالبہ نمبر دو آپ پھل کو ہاتھ بھی نہ لگائیں جو ہمارا دل کرے گا ہم دیں گئے بڑے اور اچھے آم کو وہ ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتے اور خود سوراخ والا یا چھوٹے اور نرم آم اٹھا اٹھا کر ڈالتے اتنے ایماندار لوگ تھے کہ جس آم میں سوراخ ہوتا اسے خوبصورت چھوٹا سٹکر لگا کر چھپایا ہوتا تھا کیا ہم انہی بزرگوں کے پیروکار ہیں جن میں امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ بھی گزرے ہیں۔  جو اپنے شاگرد کو منع کر کہ گئے تھے کہ اس کپڑے کے تھان میں ایک معمولی سوراخ ہے اس لئے اسے بیچنا نہیں اور خود کسی کام سے چلے گئے واپس آئے تو شاگرد بھول کر وہ تھان بیچ چکا تھا آپ رحمتہ اللہ علیہ کو بہت افسوس ہوا گھوڑے پر گئے اور کئی گھنٹے ڈھونڈ کر اس آدمی کو تلاش کیا اور اس سے معافی مانگی اور فرمایا کہ لائیں وہ کپڑا واپس کر کہ اپنے پیسے واپس لے لیں وہ آدمی سخت متاثر ہوا اور کہنے لگا حضور میں راضی میرا رب راضی مجھے کوئی اعتراض نہیں آپ جائیں مگر حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نہیں میں نے عیب والی چیز بیچی ہے بہت اصرار کہ بعد کپڑا واپس لے گئے اور ہم سٹیکر سے آم کاعیب چھپا کر بیچتے ہیں کیا بنے گا ہمارا عبقری کہ ہی ایک شمارے میں پڑھا تھا کہ ایک صاحب جو کپڑا بیچتے تھے وہ بادل اور اندھیرے میں جب روشنی کم ہوتی ہے اس روز کپڑا بیچنے نہیں نکلتے تھے کہ لوگ اس مال کو ٹھیک سے دیکھ نہیں سکیں گئے۔

No comments:

Post a Comment