Saturday, November 12, 2016

مکار عورت‘ معصوم بچہ اور عقل مند شہزادہ


نوعمر شہزادہ محل کے باہر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا‘ وہ عورتوں کی طرف متوجہ ہوا اور صورت حال معلوم کی‘ دانش مند شہزادہ سمجھ گیا‘ فیصلہ کچھ غلط ہوا ہے‘ دونوں عورتوں اور ان کے ساتھیوں کو اپنے پاس بلا کر سارا ماجرا پوچھا‘ قافلے والوں نے کہا شہزادہ عالم ہم بہت دور سے سفر کرکے آرہے تھے

۔کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا‘ اس کا کنبہ زیادہ تھا اور مالی حالت اچھی نہ تھی‘ ہروقت اللہ سے دعائیں مانگتا رہتا کہ آسانیاں پیدا کردے۔ اب اس کے بچے بڑے ہوگئے‘ کام کاج انہوں نے سنبھال لیا اور باپ سے کہا کہ کچھ کام نہ کریں صرف جب راہٹ چل رہا ہو تو ایک کیارہ پانی لے لو دوسرے کیارے کو لگادیا کریں۔ بس یہی اس کی ڈیوٹی تھی۔ ایک راہٹ چل رہا تھا بیٹھے بیٹھے کسان کی آنکھ لگ گئی جب آنکھ کھلی تو دوڑ کرکھیت کی طرف گیا کہ پانی اگلے کیارے کو لگائے وہاں دیکھا تو سفید ریش شخص اگلے کیارے کو پانی لگارہا ہے‘ حیران ہوکے اس سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟
یہ میری ڈیوٹی تھی مگر میں سو گیا تھا تو وہ شخص کہنے لگا میں تمہارا ’’بخت‘‘ ہوں جب بندہ سوجاتا ہے تو میں جاگتا ہوں مگر یہ بات کسی سے نہ کرنا۔ یوں وقت گزرتا گیا ایک مرتبہ پھر اسی شخص ’’بخت‘‘ سے اس کی پھر ملاقات ہوگئی۔ اس شخص نے کہا اب میں تجھ سےجارہا ہوں‘کوئی ڈھیری چن لے‘ باقی سب چیزیں تجھ سے چلی جائیں گی۔ کسان نے اس سے مہلت مانگی میں گھر بچوں سے مشورہ کرلوں۔ شام ہوئی کسان گھر آیا‘ اپنے بیٹوں کو بلایا اور بتایا کہ ایک ’’بخت‘‘ ہم سے جارہا ہے‘ اس نے کہا ہے کہ کوئی ڈھیری رکھ لو باقی سب کچھ چلا جائے گا۔ ہرآدمی نےاپنی اپنی رائے دی کسی نے کہا مال مویشی رکھ لو‘ کسی نے زمین‘کسی نے کچھ‘ کسی نے کچھ کہا۔ اس کی ایک بہو خاموش بیٹھی باتیں سنتی رہی‘ کسان نے خاموش بیٹھی بہو سےپوچھا تم بھی کچھ کہو‘ وہ کہنےلگی‘ اسے کہو سب کچھ لے جائے‘ بس ہمارے پاس صرف ’’اتفاق‘‘ رہنے دے‘ یہ سن کر سب ہنسنے لگے کہ سب کچھ چلا گیا تو اتفاق سے کیا کروگی۔ مگر کسان کہنے لگا مجھے اس کی بات بہت پسند آئی ہے۔اگلے دن وہ شخص (بخت) سے پھرملاقات ہوئی اس نے کسان سے پوچھا کیا فیصلہ ہوا‘کسان نے کہا سب کچھ لے جاؤ اتفاق ہمارے پاس رہنے دو۔اب وقت گزرتا گیا‘ دو سال‘ چار سال گزر گئے‘ مگر سب کا سب گھر پر ہی تھا۔ کسان کی اس شخص (بخت) سے پھرملاقات ہوئی‘ کسان نے کہا تو، تو کہتا تھا کہ سب کچھ چلا جائے گا‘ مگر ہر چیز وہیں کی وہیں ہے۔بخت نے کہا جو چیز تو نے چنی تھی‘ جہاں وہ ہو‘ وہاں سے کوئی چیز نہیں جاتی۔تو جناب! گھر ہو‘ محلہ ہو‘ سکول ہو‘ شہر ہو‘ ملک ہو اتفاق جہاں ہوگا کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اتفاق سے رہنے کی توفیق دے۔ (غ۔ا۔ چ) عقل مند شہزادہ بچو! بہت پرانے زمانے کی بات ہے‘ کسی ملک پر ایک نیک دل بادشاہ حکومت کرتا تھا‘ رعایا اس سے بہت خوش تھی‘ وہ بہت رحم دل اور انصاف پسند تھا‘ اس بادشاہ کا ایک خوبصورت اور عقلمند بیٹا بھی تھا‘ ایک دفعہ کا ذکر ہے بادشاہ کی عدالت میں ایک مقدمہ لایا گیا دو عورتوں نے ایک بچے کے متعلق دعویٰ تھا‘ دونوں بضد تھیں کہ بچے میرا ہے‘ بادشاہ نے حالات جاننے کے بعد ایک ماں کے حق میں فیصلہ دےدیا‘ اب ایک عورت خوشی خوشی بچہ لے کر محل سے نکل آئی لیکن دوسری عورت غم و رنج کی تصویر بنی ہوئی تھی‘ زارو قطار رو رہی تھی‘ نوعمر شہزادہ محل کے باہر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا‘ وہ عورتوں کی طرف متوجہ ہوا اور صورت حال معلوم کی‘ دانش مند شہزادہ سمجھ گیا‘ فیصلہ کچھ غلط ہوا ہے‘ دونوں عورتوں اور ان کے ساتھیوں کو اپنے پاس بلا کر سارا ماجرا پوچھا‘ قافلے والوں نے کہا شہزادہ عالم ہم بہت دور سے سفر کرکے آرہے تھے‘ جنگل میں دریا کے کنارے رات پڑگئی‘ ہم سوگئے‘ ان دونوں عورتوں کے پاس اپنا اپنا بچہ تھا‘ رات کو بھیڑیا آیا اور ایک بچے کو کھاگیا‘ صبح صرف ایک بچہ تھا‘ اب دونوں عورتیں دعوے دار ہیں کہ بچہ میرا ہے‘ دوسری کا بچہ بھیڑیا کھاگیا‘ شہزادے نے دونوں عورتوں سے پوچھا بچہ کس کا ہے‘ دونوں کہنے لگیں حضور یہ بچہ میرا ہے‘ اس کے بچے کو بھیڑیا کھاگیاہے‘ شہزادے نے دونوں کو حلف اٹھانے کا کہا‘ دونوں نے حلف اٹھا لیا‘ شہزادے نے کچھ دیرسوچا اور دونوں عورتوں سےمخاطب ہوا‘ تم دونوں کہتی ہو بچہ میرا ہے‘ اب اس کا حل یہ ہے ‘ بچہ آدھا آدھا دونوں کو دے دیا جائے‘ شہزادے نے لکڑی کا تختہ منگوایا اس پر بچے کو سُلا کر تلوار سونت لی اور بولا درمیان سے بچے کے دو حصے کرکے دونوں کو دے دوں گا۔ اب شہزادے نے غور کیا ایک عورت بالکل خاموش رہی لیکن دوسری تڑپ کر بولی نہیں شہزادہ حضور میں جھوٹی ہوں یہ بچہ اس عورت کا ہے‘ اسے دےدیں‘ دعویٰ سے دست بردار ہوتی ہوں۔ عقلمند شہزاد سمجھ گیا کہ حق پر کون ہے‘ اس نے اس کی حقیقی ماں کے حوالے بچہ کردیا‘ وہ دعائیں دیتی ہوئی چلی گئی‘ دوسری مکار عورت بہت مایوس ہوئی۔ پیارے بچو نیک دل بادشاہ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی حضرت داؤد علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے اور عقلمند شہزاد ان کا بیٹا حضرت سلمان علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے جو عقلمندی میں اپنے والد سے بھی بڑھ گئے تھے۔ (محمدفاران ارشد بھٹی‘ خان گڑھ) اے اللہ! تونے سچ کہا ہندوستان میں ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں‘ جن کو لوگ منشی صاحب کہتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک گاؤں سے گزر رہے تھے کہ گاؤں کے لوگ جمع ہیں اور سامنے کسی آدمی کا جنازہ رکھا ہے۔ منشی صاحب وہیں کھڑے ہوگئے‘ لوگوں نے کہا: ’’منشی صاحب آپ جنازہ پڑھائیں‘‘ منشی صاحب نے کہا میں نہیں پڑھاتا۔ گھر سے پیغام آیا کہ منشی صاحب ہی پڑھائیں گے لوگوں نے اس آدمی کی بیوی سے پوچھا کہ منشی صاحب کا نام تم نے کیوں لیا تو اس نے کہا: یہ آدمی جو فوت ہوا ہے اس نے فوت ہونے سے پہلے کہا تھا کہ میراجنازہ منشی صاحب پڑھائیں۔ لوگوں نے کہا: آج اتفاق سے آئے ہوئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہماری بات پوری ہوگئی۔ منشی صاحب نے جنازہ پڑھایا۔ اپنے ہاتھوں سے اس میت کو قبر میں اتارا‘ دفن کیا اور چلے گئے۔ جب دفتر میں پہنچے جیب میں دیکھا تو ملازمت کا کارڈ غائب تھا۔ خیال آیا کہ جب میں نے اس بزرگ کو قبر میں اتارا تو وہ کارڈ بھی قبر میں گرگیا۔ ملازمت کا مسئلہ تھا‘ اسی وقت واپس آئے‘ گاؤں کے لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ انہیں ابھی ابھی دفن کیا ہے‘ میری ملازمت کا مسئلہ ہے تھوڑا سا مٹی کو ہٹاؤ تاکہ میں اپنا کارڈ اٹھالوں۔ سب لوگ جمع ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ منشی صاحب بڑے اللہ والے ہیں‘ کوئی بات نہیں۔ مٹی کو ہٹایا‘ جب اس کے کفن کے قریب پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ساری قبر گلاب کے پھولوں سے بھری پڑی ہے۔ منشی صاحب کو اپنی ملازمت بھول گئی۔ سیدھے اس عورت کے گھر گئے اور جاکر کہا کہ اماں بتاؤ: یہ جو بزرگ تھا اس کا عمل کیا تھا‘ بوڑھی عورت نے عجیب بات کہی‘ اس نے کہا: یہ تو ان پڑھ تھا‘ زبانی اس نے چندسورتیں یاد کررکھی تھیں لیکن لکھنا آتا تھا نہ پڑھنا۔ مجھے اس کے نکاح میں آئے پینتالیس سال ہوگئے ہیں۔ ایک کام یہ روزانہ کرتا تھا کہ جب صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہوجاتا تو قرآن سامنے رکھ لیتا اور اس کی سطروں پر انگلی رکھ کر کہتا اے اللہ! تو نے یہ بھی سچ کہا‘ یہ بھی سچ کہا‘ یہ بھی سچ کہا‘‘(انتخاب:سانول چغتائی‘ رانجھو چغتائی‘ اماں زیبو چغتائی‘ بُھورل چغتائی‘ احمد پور شرقیہ
 

No comments:

Post a Comment