Sunday, November 13, 2016

اُسے اعزاز کے ساتھ مرنا چاہیے


اُسے اعزاز کے ساتھ مرنا چاہیے 
یہ ایک قانون قدرت ہے‘ اٹل حقیقت ہے کہ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اس وقت جتنے بھی زندہ انسان ہیں سب نے مرجانا ہے اور قبر میں منوں مٹی کے نیچے دب جانا ہے مگر انسان اس حقیقت کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ اگر تیار ہوتا ہے تو اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ اس زندگی میں انسان کی اکڑ‘ تکبر‘ اپنے کو برتر اور دوسرےکو حقیر سمجھنے کی عادت ختم نہیں ہوتی۔ انسان اتنا غافل ہوجاتا ہے کہ مرنے کیلئے بھی ایسا طریقہ چاہتا ہے جو کہ اس کیلئے باعث اعزاز ہو اور مرنے پر بھی لوگ ایسی بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ جہاں ان کی امارت کی جھلک نظر آئے۔ ہاشمی صاحب نے واقعہ سنایا کہ ان کے والد سی ایم ایچ لاہور میں داخل تھے‘ وہاں ایک بہت بڑے عہدہ دار بھی داخل تھے‘ ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق کینسر آخری مراحل میں تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ مریض چند دنوں کا مہمان ہے۔ اس کو گھر لے جائیں‘ ان کے اہل خانہ بضد تھے کہ نہیں موت
ہسپتال میں ہونی چاہیے۔ یہی باتیں ہورہی تھیں کہ اس مریض کا داماد جو کہ بہت بڑا عہدہ دار تھا‘ وہ آگیا‘ اس کے سامنے مسئلہ رکھا گیا تھوڑی دیر بعد وہی داماد ڈاکٹر صاحب سے انتہائی اونچی آواز میں بات کررہا تھا اور لڑرہا تھا وہ بضد تھا کہ ہسپتال کا بہت اعلیٰ کمرہ کھول دیا جائے جو کہ صرف ملک کی ایک اہم شخصیت کیلئے مخصوص ہے تاکہ مریض کو اس کمرہ میں منتقل کردیا جائے تاکہ آخری وقت میں جو بھی عزیز و اقارب ملنے کیلئے آئیں تو وہ مرعوب ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مریض تو مررہا ہے لیکن اس کی موت اعزاز کے ساتھ ہونی چاہیے اور اس نے انگریزی کا ایک فقرہ استعمال کیا کہ He should die with dignity۔ سوچنے کا مقام ہے کہ آخرت کی کوئی فکر نہیں کہ قبر کا پرچہ کیسے حل ہوگا مگر یہ فکر ہے کہ موت اعزاز کے ساتھ ہو‘ کاش! ہم آخرت کیلئے بھی فکرمند ہوجائیں۔ (سید واجد حسین بخاری‘ احمدپور شرقیہ)
 

No comments:

Post a Comment