Monday, November 14, 2016

’’شکریہ‘‘ کو صرف ایک لفظ نہ سمجھئے!


 
ماتحت تو شاید ہر بات پر افسر کو شکریہ کہہ دے لیکن افسر کسی ملازم کا شکریہ ادا کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ اسی طرح جب ہم کوئی چیز خریدیں تو لاشعوری طور پر گویا دکاندار پر احسان کرتے ہیں اور شکریہ ادا کرنا غیرضروری بلکہ غلط سمجھتے ہیں۔ ہمیں یہ اعتراف کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ تہذیبی و اخلاقی طور پر انسان ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہورہا ہے۔ سائنس نے بہت ترقی کرلی‘ سائنسی ایجادات کا سیلاب آگیا‘ جدید طرز زندگی کے لوازمات بیشتر گھروں میں آگئے‘ لیکن زبان و بیان‘ شائستگی اورسلجھے ہوئے انداز و اطوار جو ہماری قدیم معاشرت کا لازمی جزو تھے‘ ناپید ہوگئے ہیں۔ مسلمانوں کی بیشتر اچھی عادات غیرمسلموں نے اپنالیں‘ انہی میں سے ایک اچھی عادت ’’شکریہ‘‘ کہنے کی بھی ہے۔ آپ اس خیال سے متفق ہوں گے کہ ہمارے ہاں یہ عادت بہت کم ہے کیونکہ ہم اپنے بچوں کو شکریہ کہنا کم ہی سکھاتے ہیں۔ اس کے برعکس آپ نے مغربی اقوام کو
چھوٹی چھوٹی باتوں پر شکریہ کہتےسنا ہوگا۔ہمارے ہاں اونچے طبقے کے افراد تو کیا متوسط طبقے کے لوگ بھی حفظ مراتب ذہن میں رکھ کر شکریہ کہتے ہیں‘ مثلاً ماتحت تو شاید ہر بات پر افسر کو شکریہ کہہ دے لیکن افسر کسی ملازم کا شکریہ ادا کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ اسی طرح جب ہم کوئی چیز خریدیں تو لاشعوری طور پر گویا دکاندار پر احسان کرتے ہیں اور شکریہ ادا کرنا غیرضروری بلکہ غلط سمجھتے ہیں۔ ہوٹل میں بیرے اور ریلوے اسٹیشن پر قلی کا شکریہ ادا کرنا بعض لوگوں کے خیال میں شاید باعث توہین ہو مگر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ بہت سے لوگ جنہیں ہم دل میں چھوٹا سمجھتے ہیں۔ ہمارے شکریے کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں اور ان کے لیے اس لفظ کی اہمیت بھی زیادہ ہے۔ شاید آپ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ شکریے کا ایک لفظ ان کے دلوں میں خوشی کے کیسے پھول کھلا دیتا ہے؟ دکانوں کے سیلزمین، سبزی فروش اور دیگر پھیری والے، پٹرول پمپ کے ملازمین ایسے کسی انسان کو شکریہ کہہ دینے سے آپ کی عزت ہرگز نہیں گھٹے گی۔ بلکہ یقین کیجئے اس میں اضافہ ہی ہوگا۔ اگر آپ شکریہ کہنے کی عادت ڈال لیں تو جلد محسوس کریں گے کہ خود آپ کو بھی یہ لفظ زیادہ سننے کو مل رہا ہے۔خوش خلقی بھی چھوت کی بیماری کی طرح ایک دوسرے کو لگتی ہے۔ آپ دوسروں کے ساتھ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں تو خود ان میں بھی یہی مثبت عادات پیدا ہوجاتی ہیں جس کی آج کے دور میں اشد ضرورت ہے۔ خاص طور پر ہم گفتگو میں شائستگی کھوتے جارہے ہیں۔ نئی نسل کا انداز گفتگو تو تشویشناک حد تک اخلاقی سطح سے گرتا محسوس ہوتا ہے۔ اگرآپ کو کسی ایسی جگہ کھڑے ہونے یا کسی ایسی بس میں سوار ہونے کا اتفاق ہو جس میں چار پانچ نوجوان سوار ہوں تو شاید آپ کے دل دکھ اور تاسف سے بھر جائے گا۔ آپ سوچیں گے کہ کیا یہی وہ نسل ہے‘ جسے ہم مستقبل کے معمار کہتے ہیں؟ جنہیں دنیا بھر کی آسائشیں مہیا کرنے کی کوشش میں اپنی اپنی بساط کے مطابق بیشتر والدین ہلکان ہورہے ہیں؟ ۔اچھی عادات اپنانا زیادہ مشکل نہیں‘ یاد دہانی کیلئے ہم کچھ باتوں کا تذکرہ کرتے چلیں‘ مناسب مواقع پر پڑوسیوں کے ہاں کھانے پینے کی اشیاء یا تحفے بھجواتے رہیے۔ راستے میں ملنے والوں کو سلام میں پہل کیجئے‘ اردگرد کے لوگوں کی خوشی غمی میں شرکت کیجئے‘ اپنی حیثیت کی پرواہ کیے بغیر کسی کا کوئی چھوٹا موٹا کام کردیجئے۔ کسی کیلئے دروازہ کھول کر رک جائیے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں دھیرے دھیرے ہمارے ماحول کو خوبصورت اور خوشگوار بنادیں گی۔ یہ باتیں اپنا کر آپ نہ صرف دوسروں کیلئے خوشی کا باعث بنیں گے بلکہ آپ بہتر انداز میں زندگی کا سامنا کرسکیں گے۔ چلیں زیادہ نہیں تو ان عادات میں سے کسی ایک عادت کو اپنالیجئے۔ شکریہ کہنے کی عادت ہی ڈال لیں اور اپنے بچوں میں بھی یہ عادت پختہ کیجئے اور اگر کسی کا شکریہ ادا کرنے نہ جاسکتے ہوں تو فون یا میل کے ذریعے ہی شکریہ کہہ دیں۔ یقین جانئے! یہ ایک لفظ نہ صرف آپ بلکہ دوسروں کی زندگی میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔(بشکریہ! پیام آگہی)

No comments:

Post a Comment