Wednesday, August 5, 2015

بغیر کشتی کے سمندر پار کرنے والے:

بغیر کشتی کے سمندر پار کرنے والے:

قیس بن حجاج نے جن صاحب سے یہ روایت سنی ہے وہ نقل کرتے ہیں جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے مصر فتح کیا تو  تو ان کے پاس اہل مصر اس مہینہ میں آئے جس کو ،بونہ، ان کی زبان میں کہتے ہیں بونہ عجمی زبان میں ایک مہینے کا نام ہے اور ان سے کہا اے امیر! ہمارے اس نیل کے لئے ایک طریقہ ہے اس میں پانی بغیر اس طریقے کے نہیں رہتا ہے ان سے پوچھا کہ وہ طریقہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا جب اس مہینے کی بارہویں را ت گزر جاتی ہے تو ہم ایک ایسی کنواری لڑکی کی طرف قصد کرتے ہیں جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی ہوتی ہے اس کے ماں باپ کو ہم راضی کر لیتے ہیں  اور اسے ہم زیور اور لباس فاخرہ سے جہاں تک ہو سکتا ہے مزین کرتے ہیں پھر ہم اس لڑکی کو دریائے نیل میں ڈال دیتے ہیں تو ان سے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا یہ بات اسلام میں نہیں ہو سکتی اسلام ہر اس رسم کو گرا دیتا ہے جو اس سے پہلے ہے چنانچہ اہل مصر ان تین مہینوں میں بونہ اور ابیب اور مسری میں ٹھہرے رہے دریائے نیل بالکل بھی جاری نہ ہوا یہاں تک کے ان لوگوں نے جلا وطنی کا ارداہ کیا جب یہ بات  حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو لکھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب دیا کہ تم نے یہ بات ٹھیک کہی کہ اسلام اپنے سے پہلی رسموں کو مٹا دیتا ہے میں تمہارے پاس یہ پرچہ بھیجتا ہوں جب تمہارے پاس میرا خط پہنچے تو اس پرچہ کو نیل کے اندر ڈال دینا جب حضر ت عمررضی اللہ تعالی عنہ کا خط ابن العاص رضی اللہ تعالی عنہ  کے پاس آیا اس پرچہ کو کھول کر پڑھا تو اس پرچہ میں صرف اتنا مضمون تھا : " اللہ کا بندہ عمر امیرالمومنین کی طرف سے اہل مصر کے دریائے نیل کے لئے ،امابعد ! اگر تو اپنی طرف سے جاری ہوتا تھا تو مت جاری ہو اور اگر اللہ واحد قہار نے تجھ کو جاری کیا تھا تو ہم اللہ واحد قہار سے سوال کرتے ہیں کہ تجھ کو جادی کردے"حضرت ابن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ پرچہ دریائے نیل میں اس روز سے ایک دن پہلے جس میں کہ یہ لوگ لڑکی کو بھینٹ چڑھاتے تھے ڈال دیا ۔ادھر اہل مصر جلا وطنی کا اور مصر سے چلے جانے کا اس لئے ارادہ کئے ہوئے تھے۔ کہ ان کی معاش کامعاملہ دریائے نیل کے بغیر دوست نہ ہو سکتا تھا بھینٹ چڑھانے والے دن جب لوگوں نے صبح دیکھا کہ اللہ پاک نے دریائے نیل کا پانی سولہ ہاتھ اونچا بہا دیا ہے اور یہ برا طریقہ اہل مصر سے ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا ( اور آج تک دریائے نیل نہیں سوکھا ہے) عروۃ الاعمیٰ مولیٰ بنی سعد نے بیان کیا کہ ابوریحانہ سمندر میں سوار ہوئے اور یہ نبی کریم ﷺ کے صحابی ہیں یہ سلائی کا کام کرتے تھے ان کی سوئی سمندر میں جا پڑی تو انہوں نے کہا اے رب! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو میری سوئی ضرور واپس کر دے وہ سوئی سطح سمندر پر ظاہر ہوئی اور انہوں نے اسے اٹھا لیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی ٰ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ نے حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تحرین بھیجا تو میں بھی ان کے پیچھے گیا میں نے ان میں تین باتیں دیکھیں میں نہیں جانتا کہ ان میں سے کون سی زیادہ عجیب ہے ؟ جب ہم سمندر کے کنارے پہنچے انہوں نے کہا اللہ پاک کا نام لو اور اس میں گھس جاؤ چنانچہ ہم نے اللہ پاک کا نام لیا اور اس میں اتر گئے اور اس سے پار ہو گئے اور ہمارے اونٹوں کے تلوے تک بھی تر  نہیں  ہوئے تھے ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت علاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں سے کہا کہ ہمارے ساتھ دارین چلو تاکہ ہم ان دشمنوں سے غزوہ کریں جو وہاں ہیں مسلمانوں نے فوراً اس کی تیاری کی حضرت علاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو لے کر چلے اور سمندرکے کنارے آ گئے تاکہ کشتیوں میں سوار ہوں تو دیکھا کہ مسافت بہت بعید ہے  دشمنوں تک کشتی کے ذریعے نہیں پہنچ سکتے دشمن بھاگ جائیں گئے یہ اپنے گھوڑوں سمیت سمندر میں کود پڑے اور کہہ رہے تھے ۔
یَا اَرْحَمَالرَّاحِمِیْنَ یَا حَکِیْمُ یَا کَرِیْمُ یَا اَحَدُ یَا صَمَدُ یَا حَیُّ یَا مُحْیُ یَا قَیُّومُ یَا ذَاالْجَلاَلِ وَ الْاِکْرَمِ لاَ اِلہَ اِلَّا اَنْتَ یَا رَبَّنَا۔
اور سارے لشکر کو حکم دیا کہ گھس جائیں چنانچہ سارے لشکر نے ایسا ہی کیا سمندر نے انہیں اللہ پاک کے حکم سے پار کرا دیا یہ اس طرح سمندر پر چل رہے تھے جیسا کہ نرم ریت پر چلا جاتا ہے اونٹوں کے پیر نہیں گھستے تھے اور گھوڑے سواروں کی رکاب تک پانی نہیں پہنچا تھا ۔ اور یہ مسافت کشتی کے لیے ایک دن رات کی تھی اس سمندر کو دوسرے کنارے تک پار کیا اور اپنے دشمنوں سے لڑے اور ان پر غالب بھی آ گئے اور ان مال غنیمت جمع کیا اس کے بعد واپس آئے تو سمندر کو ایک دوسری جانب سے پار کر رہے تھے کہ اپنی پہلی جگہ پر لوٹ آئے اس کے بعد جب ہم لوٹے اور ان کے ساتھ چلے زمین کے ایک جنگل میں اور ہمارے پاس پانی نہیں تھا ہم نے ان سے اس بات کی شکایت کی انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی اس کے بعد دعا کی تو اچانک ڈھال کے برابر ایک ابر نمودار ہوا پھر اس ابر نے اپنی مشکیں لٹکا دیں اور ہم نے پیا اور اونٹوں کی بھی پلایا اور ان کی وفات ہو گئی ہم نے ان کو ریت میں دفن کیا ہم تھوڑی دور تک چلے تھے کہ ہم نے کہا کے درندے آئیں گئے اور ان کو کھا جائیں گئے ہم ان کی قبر کی طرف واپس ہوئے تو ان کو قبر میں نہ دیکھا۔ایک روایت میں یہ اضافہ ہے جب ہم کو ان مکعبر کسریٰ کے گورنر نے دیکھا تو اس نے کہا خدا کی قسم ہم ان کامقابلہ نہ کریں گے تو وہ ایک کشتی میں بیٹھ کر فارس چلا گیا ( حیاۃ الصحابہ حصہ دوئم) ماہنامہ عبقری "اگست 2015ء شمارہ نمبر 110" صفحہ نمبر 5 

No comments:

Post a Comment