Monday, August 17, 2015

نفسیاتی ، گھریلو، الجھنیں اور آزمودہ یقینی علاج

نفسیاتی  ، گھریلو، الجھنیں اور آزمودہ یقینی علاج:

وہ مجھے سمجھ ہی نہیں سکی:
میری ایک شادی ناکا م ہو گئی۔ایک سال بعد دوسری شادی ہوئی ، اس بار کسی حد تک خود کو بدلا مگر اب بھی بھوک بر داشت نہیں ۔ اگر کھانا وقت پر تیار نہ ہو تو باورچی خانے میں جاکر ایک دو برتن توڑ دیتا ہوں ۔  غصہ نکل جاتا ہے ۔ تو اپنے کمرے میں جا کر سو جاتا ہوں ۔ پھر اٹھتا ہوں تو موڈ ٹھیک ہوتا ہے  مگر
میری بیوی نہیں سمجھتی وہ مجھے سمجھ ہی نہیں سکی۔  کھانا بن جانے کے بعد میز پر لگا دیتی ہے اور خود مجھ سے بات نہیں کرتی ۔ میں پوچھتا ہوں خفا ہو تو کہتی ہے کہ ہاں خفا ہوں ۔ میں آپ سے بات نہیں کروں گی ۔ اس پر مجھے اور غصہ آتا ہے اور میں بھی ناراض ہو جاتا ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ وہ مجھے چھوڑ کر جائے ( فیصل ' کرچی)۔
مشورہ:   ہونا تو یہ چاہیے کہ ان اسباب پر غور کیا جائے جن کی وجہ سے کھانا بنانے میں دیر ہوتی ہے ۔ برتن توڑ دینا ، غصہ پر قابو نہ رکھنا ، موڈ خراب کر لینا اور پھر یہ توقع کرنا کہ دوسرے شخص پر اس کا اثر اچھا ہو ، وہ اپنا مزاج خوشگوار رکھے جیسے کہ کوئی بات ہی نہیں ہوئی ۔ یہ ناممکن ہے آپ کی اپنی بیوی سے توقعات بہت زیادہ ہیں ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ شادی کامیاب ہو تو اپنے منفی رویے پر قابو رکھیں ۔
صبر اور شکر :
کئی دن مسلسل محنت کرنے کے بعد انٹرویو دینے گھر سے نکلا ، ابھی راتے ہی میں تھا کہ اندھیرا چھانے لگا، آندھی آ گئی ، ساتھ ہی طوفانی بارش شروع ہو گئی ۔ کپڑے گیلے ہو گئے ، حلیہ اتنا عجیب ہو گیا کہ گھر واپس آنا پڑا۔ دوستوں کو معلوم ہو ا تو خوب ہنسے ، میں نے سوچا یہ کتنے بے حس ہیں مجھ پر جو گزری وہ میں ہی جانتا ہوں ، کیا معلوم اب میری قسمت میں کیا لکھا ہے؟ اتنا اچھا موقع ختم ہو گیا ۔ یہی خیال آتا رہتا ہے ،کسی سے بات کرنے اور کہیں فون کرنے کو دل نہیں چاہتا ۔ ذہن پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔( جمشید ' سیالکوٹ)
مشورہ : بارش، آندھی ، طوفان ، زلزلہ ، برف باری یہ سب یہ سب قدرت کی طرف سے ہے ۔ ان حالات میں ہر انسان کے کام اور مختلف مقاصد میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ ان پر کسی کا اختیار نہیں ۔ اس لئے صبر اور اس کے ساتھ شکر کے لینا اچھا ہے۔ جن حالت کو بدلنے پر اختیار نہیں ان کو قبول کرنا ہی ہے۔ آپ انٹر ویو کے لئے جا رہے تھے کیا پتہ جاب ملتی یا نہ ملتی حالات تو پہلے بھی غیریقینی تھے ، لہذا پچھتاوے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اب پہلے سے زیادہ سر گرم ہو کر جاب تلاش کریں ۔ زندگی کا مشکل اور ناموافق حالات نئے زینے بن جاتے ہیں جن کےذریعے تر قی کی جاسکتی ہے۔
 قصور پر معذرت:
 گھر والے کہتے ہیں کہ تم ہمیں برادری  میں بیٹھنے اور نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑو گے ۔ میرا قصور صرف اتنا ہے کہ اپنے ساتھ جاب کرنے والی ایک بیوہ خاتون سے شادی کا وعدہ کر بیٹھا ہوں ۔ ان کے دو بچے ہیں ، دونوں ہوسٹل میں رہتے ہیں ۔ وہ عمر میں مجھ سے  کافی بڑی ہیں ۔ کتنی بڑی ہیں یہ نہیں معلوم ۔ کبھی کبھی میں ان کی باتوں سے گھٹن محسوس کرتا ہوں ۔ یہ بھی سوچتا ہوں کہ ان کی تیز مزاجی شوہر کے انتقال کی وجہ ہو گی مگر  میں ان کے سامنے مجبور ہو جاتا ہوں اور انکا ر نہیں کر سکتا ۔ ( محمد اسلم' لاہور)
مشورہ: آپ  نے گھر والوں کو ناپسندیدگی کے حوالے سے بات شروع کی مگر دراصل نا پسندیدگی آپ کی طرف سے بھی ۔ جس رشتے کی بنیاد ہی گھٹن ، گھبراہٹ ، مجبوری پر رکھی جائے وہ کس طرح نبھایا جا سکے گا ۔ اپنے قصور پر معذرت طلب کر لیں ۔ ایک ساتھ مردوخواتین اکثر مختلف اداروں میں کام کرتے ہیں ۔ ان سے ذاتی معاملات پر گفتگو نہ ہی ہو تو زیادہ پر سکون ہو کر ذمہ داریاں انجام دی جا سکتی ہیں 
 تکلیف دہ احساس :
گھر کے حالات سے مجبور ہر کر میٹرک کرتے ہی ایک دفترمیں کمپیوٹر آپریٹر  کے فرئض انجام دینے شروع کر دیئے دو سال ہو گئے ، میرے دوست انٹر کر کے مختلف یوینورسٹیوں کا ذکر کرتے ہیں ، میں ان کے سامنے چپ رہتا ہوں کیونکہ اب سہ مجھ سے بہت آگے نکل گئے ہیں ، میں ساری زندگی یہ چھوٹی سی ملازمت نہیں کرنا چاہتا مگر کامم کئے بغیر گزارہ بھی نہیں ۔ اگر اپنی تعلیم کے برابر لڑکوں سے دوتی رکھتا ہوں تو اس قوم کا تکلیف دہ احساس نہیں ہوتا ۔( ایم اقبال ' پشاور)
 مشورہ:  آپ کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے والے لڑکے بہت آگے نہیں نکلے، صرف دو سال کا فرق آیا ہے ۔ آپ بھی شام کے اوقات میں پڑھنا شروع کر دیں ۔ دو سال میں انٹر کر لیں گے ، اس کو بعد شام کو ہی کسی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیں ۔ اپنی کیریئر پلاننگ کرتے وقت رجحان کا اندازہ بھی لگائیں ۔ اگر آپ نے ایسا پیشہ اپنا لیا جو ذہنی صلاحیتوں اور دلچسپی کے مطابق ہو تو زندگی زیادہ بہترگزرنےکی امید کی جاسکے گی کیونکہ مرضی کا کام کرتے ہوئے انسان اعصابی تناؤ سے دور رہتا ہے۔
 نفسیاتی مریض:
ہم دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں ۔ آٹھویں  تک وہ ٹھیک رہا لیکن اس کے بعد اس نے بغیر کسی وجہ کے کئی کئی دن غائب رہنا شروع کر دیا اور اب ایک ماہ بعد گھر آیا ہے ۔ امی نفسیاتی مریضہ ہیں ، ابو بہت بیمار رہتے ہیں ۔ بڑی بہن جاب کرتی ہے جیسے تیسے گھر چل رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے بھائی پر کسی نے کچھ کروا دیا ہے۔ ایک روز اس کے دوست نے بتایا کہ وہ نشہ کرنے لگاہے لیکن اس نے کبھی ہم سے کوئی رقم نہیں مانگی ۔ بال بڑھ گئے ہیں ،   کپڑے میلے رہتے ہیں ، کھانے پینے  کا بھی ہوش نہیں ، ہم دونوں بہنیں اس کو دیکھ کر روتی رہتی ہیں ۔( غ'ملتان)
مشورہ: بھائی نفسیاتی مریض معلوم ہوتا ہے۔ اس کو اپنے حلیے کی فکر نہیں ، گھر اور باہر کا احساس نہیں ، بات بھی صحیح طرح نہیں کر سکتا ۔ یہ ساری علامات شدید ذہنی نفسیاتی مرض کو ظاہر کر رہی ہیں ۔ ایسے لوگوں کو ان کے حال پر نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ دونوں بہنوں کے لیے اس کا خیال رکھنا ، علاج کروانا ، حلیہ درست کروانا ،،بے حد مشکل کام ہے۔ خاندان کے کسی فرد سے مدد لی جا سکتی ہے۔ دراصل شدید ذہنی مریضوں کو لوگ لا علاج سمجھ کر ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ شدید ذہنی امراض کا شکار لوگ بہت بہتر ہو جاتے ہیں لیکن ان کا علاج طویل عرصہ تک ہوتا رہے ۔ ان میں اکثر پر ذہنی مرض بار بار حملہ آور ہوتا ہے ۔ کیفیت کتنی ہی خراب ہو مایوس نہیں ہو نا چاہیے ۔ بہتری کے لئے کوشش کرنی ہی ہوتی ہے۔
 ماہنامہ عبقری "اگست 2015ء شمارہ نمبر 110" صفحہ نمبر25



No comments:

Post a Comment