Thursday, August 13, 2015

ساس بہو میں دوستی کرانے ے آسان مشورے

 ساس بہو میں دوستی کرانے ے آسان مشورے:


آخر شادی سے پہلے جو لڑکی حور پری لگتی ہے وہ شادی کے بعد چڑیل کیوں لگتی ہے؟ وہ شادی کے فوراً بعد د ل سے کیوں اترنے لگتی ہے اس کے خلاف لفظوں کے تیر کیوں چلائے جاتے ہیں ۔ شاید اس لئے کہ ساس بننے سے پہلے وہ ماں اور بیوی ہوتی ہے  ۔ گھر کی دنیا اس کے گرد گھومتی ہے۔ ہر معاملے میں اس کی رائے کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ اس کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ہے   تو اسے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں بہو اس کی جگہ نہ لے ۔ دوسری طرف جب بہو نئے گھر میں آتی ہے تو اس گھر کے متعلق اس نے بہت سے خواب دیکھے ہوتے ہیں ۔ جنہیں پورا کرنے کا موقع شادی کے بعد ملتا ہے ، چنانچہ وہ چاہتی ہے کہ گھر کے سیاہ سفید کا مالک اسے بنا دیا جائے ۔ گھر کی تزئین و آرائش سے لے کر دیگر امور وہ اپنی مرضی و منشاء کے مطابق چلائے ۔ اس سلسلے میں جب اسے جائز نصیحت یا مشورہ دیا جاتا ہے تو وہ اسے اپنی توہین سمجھتی ہے پھر اس کے دل میں ساس کے خلاف نفرت کے جزبات پیدا ہونے لگتے ہیں ۔ ساس بہو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس طرح ایک میان میں دو تلواریں نہیں رکھی جا سکتیں بالکل اسی طرح ساس بہو بھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتی ہیں اگر یہ دونوں ساتھ رہیں تو آئے دن ان کے درمیان نوک جھونک ہوتی رہتی ہے اسی لئے ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر شادیاں خواتین کی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہیں کیونکہ عورت ہی ہے جو گھر کو بناتی ہے اوربگاڑتی ہے ۔ اب چاہے یہ عورت ساس کے روپ میں ہو یا بہو کے روپ میں ۔ ان تمام حقائق کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ساس بہو کے رشتے کی بنیاد نفرت و عداوت ہے ۔ کیا ان میں دوستی کا رشتہ قائم نہیں ہو سکتا ؟  
ساس بہو ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں یہ کوئی حتمی رائے نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں اگر تھوڑی سی کوشس کریں تو ساس بہو کے رشتے میں نفرت و عداوت کو ختم کر کے اس کی جگہ دوستی اور محبت پیدا کی جاسکتی ہے جو ان کی گھریلو زندگی پر خوشگوار اثرات مرتب کرے گا اور ان کا گھر ایک آئیڈیل گھر بن جائے گا ۔ لوگ ان پر رشک کریں گے اس کےلئے دونوں کو مندرجہ ذیل باتوں پر عمل کرنا چاہیے ۔ ساس کو چاہیے کہ بہو کو اپنی بیٹی سمجھے ۔ جس طرح وہ اپنی بیٹی کو تکلیف پہنچانے کا سوچ نہیں سکتی بالکل اسی طرح بہو کو بھی پریشان نہ کرے ۔ اگر اس سے کو غلطی ہو بھی جائے تو درگزر سے کام لے۔ ڈانٹنے کی بجائے پیار سے سمجھائے اور جو کام قابل ستائش ہو اس کی تعریف کرے تاکہ اس کی حو صلہ افزائی ہو۔   گھریلو معاملات میں بہو سے بھی مشورہ لیا جائے تو وہ بھی خود کو گھر کا ایک فرد سمجھے اور ان معاملات  میں دلچسپی لے ۔ ساس کو گھر کی باتیں محلے والوں اور رشتے داروں کو نہیں بتانی چاہئیں ۔ بہو کو بھی کچھ باتوں کا خیال رکھنا چایئے ۔  اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ گھر کے تمام افراد پر یکساں توجہ د ینی چاہیے ۔ سارے  گھر والوں کی خواہشات و ضرورتوں کا خیال  رکھے۔ اگر کوئی غلطی ہو جائے اسے فوراً دور کرے۔ لوگوں کی باتوں میں آنے کے بجائے خود حقیقت  معلوم کرنے کی کوشش کرے ۔  گھر کی باتوں کو میکے میں جا کر نہ بتائے ایسا کرنے سے بات ختم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہے  اور دونوں گھرانوں میں رنجشیں جنم لیتی ہیں ۔ سا س بہو ان باتوں پر دھیان دیں تو ان کا رشتہ دوستی  میں  تبدیل ہو سکتا ہے ۔ ایک دوسرے  کی خامیوں کو تلاش کرنے کے بجائے خوبیوں پر نظر رکھیں کیونکہ ہر انسان خوبیوں و خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے کہیں اچھائی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے تو کہیں برائی کا ۔تعلقات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ خوشگوار تعلقات کے لئے ضروری ہے کہ فرد کی خوبیوں پرنظر رکھی جائے ۔ ورنہ برائیوں کو زیادہ اہمیت دینے سے رشتو ں میں دراڑ پڑ جاتی ہے ( نعمت جہاں )
 ماہنامہ عبقری "اگست 2015ء شمارہ نمبر 110" صفحہ نمبر19


No comments:

Post a Comment