میرے دل سے دعا نکلتی ’’یااللہ! حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی ایڑیوں میں شفاء عطا فرما‘‘ یقین جانیے! شاید ایک نہیں تو دو دنوں میں ہی میرا اپنا درد ختم ہوگیا اور آج تک کبھی محسوس نہیں ہوا کہ مجھے کبھی ایڑی میں درد ہوا تھا۔
پچھلے سال عیدالفطر کے دنوں کی بات ہے کہ میرے بائیں پاؤں کی ایڑی میں درد شروع ہوگیا‘ درد اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ نماز میں تشہد کی حالت میں بیٹھنے سے بھی بہت تکلیف محسوس ہوتی تھی اور ہروقت چلنا پھرنا بھی دشوار محسوس ہوتا تھا۔ میں نے اللہ پاک سے شفاء مانگنی شروع کردی کیونکہ جانتا تھا کہ میڈیسن سے اس درد کا علاج نہیں ہوسکتا۔ ایک دفعہ حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے درس میں دعا کی قبولیت کے چند اوقات کا تذکرہ فرمایا تھا جن میں سے ایک لمحہ وہ بھی تھا جب نماز سے پہلے تکبیر کہنے والا ’’ کہہ رہا ہوتا ہے اور فرمایا تھا کہ مکبر کے یہ الفاظ کہتے کہتے دل ہی دل میں جو دعا مانگی جائے فوراً قبول ہوتی ہے اور یہ حقیقت ہے۔ اسی طرح ایک مرتبہ درس روحانیت و امن کے بعد تسبیح خانہ لاہور میں جو مجالس مجذوبی ہوتی ہے اس میں حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا تھا کہ جب میں نیند پوری نہ کروں اور زیادہ دیر جاگتا رہوں تو پھر میری ایڑیوں میں درد شروع ہوجاتا ہے چونکہ اس وقت مجھے بھی ایڑی میں درد ہورہا تھا لہٰذا تب پتہ چلا کہ محترم حضرت حکیم صاحب کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی۔ اس لیے میں نے اپنے درد کو بھلا کر حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کے درد کی شفاء مانگنی شروع کردی اور جونہی تکبیر کہنے والا درج بالا الفاظ پر پہنچتا میرے دل سے دعا نکلتی ’’یااللہ! حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی ایڑیوں میں شفاء عطا فرما‘‘ یقین جانیے! شاید ایک نہیں تو دو دنوں میں ہی میرا اپنا درد ختم ہوگیا اور آج تک کبھی محسوس نہیں ہوا کہ مجھے کبھی ایڑی میں درد ہوا تھا۔اس واقعے سے مجھ پر دو باتیں کھلیں۔ ایک تو وہ حدیث کہ بندہ جب کسی کی غیرموجودگی میں اس کیلئے دعا مانگتا ہے تو دائیں کندھے پر بیٹھا ہوا ایک فرشتہ کہتا ہے آمین!۔ الٰہی پہلے اسے عطا فرما (جو دعا مانگ رہا ہے) اور دوسری بات یہ کھلی کہ واقعی تکبیر کے ان الفاظ کے پڑھتےوقت بندہ جو بھی دعا دل ہی دل میں مانگے وہ قبول ہوتی ہے۔ الحمدللہ! میری تو فوراً قبول ہوئی اور لفظ بہ لفظ قبول ہوئی۔ اللہ پاک حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کو ہر طرح کی عافیت اور شفاء عطا فرمائے اور ان کی نسلوں کو سدا فتنوں سے بچائے۔ آمین! (محمدعثمان بشیر‘ شرقپور)
No comments:
Post a Comment