محترم حضرت حکیم صاحب! حوا کی ایک 21 سالہ بیٹی ہوں‘ جو اپنے نفس کے جال میں پھنسی ہوئی اور اس جال سے نکلنے کا طریقہ تو حضور نبی کریمﷺ نے بتایا لیکن اس کا استعمال کرنا آپ کے درس سے مجھے ملا اور اللہ کی رحمت سے آپ کی ذات امید بن کر ملی۔ مجھے حسرت ہی رہی کہ اپنا حال کسی کو سناؤں۔ میں سات سال کی تھی کہ بیمار ہوئی اور کافی علاج کے بعد اللہ نے صحت دی۔ مگر اس کے ساتھ جسم میں ایک اور تکلیف شروع ہوگئی میری دائیں ٹانگ میں ایک گلٹی سی بن گئی جس میں وقتاً فوقتاً شدید درد ہوتا لیکن جھجک کی وجہ سے کسی کو بتا نہیں سکی۔ اپنی سگی بہن کو بھی نہیں۔ اسی طرح وقت گزرتا رہا
اور مجھے حیض آنا شروع ہوگئے لیکن نارمل نہیں تھے۔ میں نے کبھی کبھار اپنی بڑی بہن کو یہ تکلیف بتائی لیکن انہوں نے توجہ نہ دی۔ میں شروع سے ہی بہت سلم سمارٹ اور خوبصورت تھی۔ نامعلوم کیوں میرے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ کہ میری کسی کیلئے کوئی اہمیت نہیں اور جب میری تکلیف میں گھر والوں نے مدد نہ کی تو آہستہ آہستہ میری نفسیات متاثر ہونے لگی اور میں گھنٹوں اکیلی بیٹھ کر اپنے آپ سے باتیں کرتی اور نفسیاتی مریض بننے لگی۔ میں اللہ اور اس کے حبیبﷺ کو بالکل نہیں جانتی تھی‘ کبھی کبھار نماز پڑھ لیتی۔ اکثر میرے ابو مجھے کہتے کہ شیشے کے سامنے کھڑی ہوکر کس سے باتیں کرتی ہو‘ تب مجھے اپنی اس عادت سے بھی خوف آنے لگا اور گھٹن اور بڑھنے لگی۔ عمر ایسی تھی جو توجہ مانگتی تھی پھر جب سکول سے نکل کر کالج میں گئی اور باہر کا ماحول دیکھا تو گھر والوں کی بے توجگی کی وجہ سے قدم بھٹک گئے اور میں غلط راہوں کی مسافر بن گئی۔ انہی غلط راہوں پر چلنے کی وجہ سے میں ایک بار بہت بڑی مصیبت میں پھنس گئی۔ ایک مرتبہ رات کو اپنی پریشانی کو لےکر چھت پر بے چینی سے ٹہل رہی تھی کہ بارش شروع ہوگئی اور میں بارش میں بھیگ رہی تھی اور ساتھ مجھے رونا آگیا کہ اچانک بارش میں بھیگتے ہوئے دل سے آواز آئی کہ سجدے میں چلی جا‘ میں سجدے میں گئی اور نامعلوم مجھے کیا ہوا اور میں خوب روئی‘ ادھر بارش تیز سے تیز ہورہی تھی اور ادھر میں بھی خوب رو رہی تھی اور اللہ سے معافی مانگ رہی تھی‘ بارش کے پانی اور آنسوؤں کے ساتھ ہی میری پریشانی بھی کہیں بہہ گئی اور جب میں اٹھی تو بالکل مطمئن تھی۔ چند دن بعد اللہ نے میری مصیبت بھی ٹال دی۔ اسی طرح کالج کا دور بھی ختم ہوا۔ پھر ایک کتاب ملی اس میں کلمہ طیبہ کا ورد شروع کیا‘کچھ دن ہی پڑھا کہ گھر والوں نے اس پر اعتراض کیا کہ ہر وقت تسبیح پر کیا پڑھتی ہو‘ میں جو پڑھتی تھی لکھ لیتی تھی۔ انہوں نے ڈانٹا کہ ایسے بلاوجہ وظیفےنہیں پڑھتے‘ میں پھر بھٹکی اور ذکر چھوڑ دیا اور پھر تنہائی کے گناہوں کی طرف راغب ہوگئی کیونکہ یہ گناہ چھپ کر کرتی تھی اس پر ڈانٹ نہیں پڑتی تھی۔ گناہوں کا راستہ پھر بھولا اور مزید بھٹکی‘ ایک سکول میں جاب کی اور وقت گھر سے باہر گزرا‘ میں سمجھی کہ اب پرسکون ہوجاؤں گی لیکن اس بات کا بالکل بھی ادراک نہیں تھا کہ گناہ میں سکون نہیں اصل سکون تو اللہ کے ذکر میں ہے۔ ٹانگ کی تکلیف بدستور قائم تھی اور گلٹی کا سائز بھی بڑا ہورہا تھا۔ شدید درد ایک دم اٹھتا‘کچھ دن ہوتا پھر رک جاتا‘ 2008ء میں مجھے گورنمنٹ جاب ملی اور میں اپنے آبائی گھر واپس آگئی۔ پانچ ماہ بعد میری منگنی ہوگئی‘ مجھے بس اطلاع دی گئی کہ تمہاری بات پکی ہوگئی ہے دو ماہ بعد تمہاری شادی ہے۔ 2009ء میں میری شادی ہوگئی‘ اپنی نئی زندگی کا آغاز مطمئن ہوکر کیا کہ اب تکلیفیں ختم ہوجائیں گی مگر نہیں! شادی کی پہلی رات ہی شوہر نے کہا کہ میں شادی کے قابل ہی نہیں‘ تم جانا چاہتی ہو تو چلی جاؤ۔ مگر میں نے گھر والوں کی خوشی خاطر یہ ظلم بھی برداشت کیا‘ جب تین ماہ بعد میری ٹانگ میں پھر درد شروع ہوا تو میں اپنے شوہر کو بتایا کہ مجھے اس طرح کافی عرصہ سے تکلیف ہے تو شوہر کو بہانہ مل گیا اس نے صرف گلٹی کی وجہ سے مجھے گھر بھیج دیا کہ اس کے ماں باپ کے گھر کی بیماری ہےوہی ٹھیک کروائیں جب ٹیسٹ ہوئے تو ڈاکٹر نے کہا کہ تشویش کی بات نہیں صرف چھوٹے سے آپریشن سے یہ ٹھیک ہوجائے گا مگر میرے شوہر نے مزید الزامات لگا کر مجھے طلاق دے دی۔ اسی دوران میں نے فیس بک استعمال کرنا شروع کردی‘ پھر ایک لڑکے کے ایس ایم ایس آنے شروع ہوگئے لیکن میں اب اس گناہ میں نہیں جانا چاہتی تھی‘ وہ بھی شاید میری تقدیر کا حصہ بننا چاہتا تھا‘ باز نہ آیا‘ میں نے بھی اس سے بات شروع کردی‘ مجھے ویسے بھی توجہ چاہیے تھی‘ میں بھی اس کی طرف مائل ہوگئی‘ میں نے اس سے کہا کہ ہماری شادی نہیں ہوسکتی مگر وہ نہ مانا اور کہا کہ میں سب کو منالوں گا۔ جب اس کے اور میرےگھروالے نہ مانے تو اس نے کہا کہ ہم کورٹ میرج کرلیتے ہیں۔ میں گھروالوں کے رویے سے تنگ تو تھی لیکن اس بات سے انہیں تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی۔ ایک رات اپنی دادی کے گھر تھی‘ رات ایک بجے کے بعد میری آنکھ کھلی‘ ٹائم دیکھنے کیلئے موبائل اٹھایا‘ ساتھ ہی فیس بک چیک کی‘ عبقری کے نام سے ایک وظیفہ تھا‘ اچھا لگا‘ نیچے ویب سائٹ تھی‘ میں نے ایسے ہی اوپن کرلی‘ جب کھلی تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ یہ راستہ تو میری منزل کا تھا۔ یہ وہ دنیا تھی جس کی مجھے تلاش تھی‘ میگزین پڑھا‘ وظائف شروع کیے‘ جس میں ایک پسند کی شادی کا بھی تھا لیکن ساتھ ہی لکھا تھا کہ وظائف کیلئے پانچ وقت کی نمازادا کریں اور گناہوں سے بچیں۔ میں نے کافی کچھ موبائل میں ڈاؤن لوڈ کیا اور واپس آگئی۔ نوے دن کا وظیفہ تھا‘ جو شروع کیا‘ ساتھ ہی نماز پڑھتی اور ہروقت آپ کے درس سنتی۔ وظیفے سے پسند کی شادی تو نہ ہوئی مگر پسند کا راستہ مل گیا‘ یہ راستہ میری منزل کی طرف جاتا تھا۔ اسی لڑکے سے فون پر بات کرتی وہ کورٹ میرج پر بضد تھا۔ والدین سے بات کی تو سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے شادی نہیں ہونے دیں گے اور میں خاموش ہوگئی۔ میرا دل ایک مرتبہ پھر ٹوٹا تو اللہ نے مجھے اپنی طرف بلالیا اور دل سے آواز آئی کہ اب راستہ حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کے درس سے ہوکر اللہ تک جائے گا۔ نیٹ پر آپ سے بیعت ہوئی‘ اب یقین تھا کہ منزل مل جائے گی‘ آپ کی طرف سے بیعت کارڈ ملا اور مجھے دل سے خوشی ہوئی۔ آپ کے درس ہروقت سنتی ہوں۔ میری زندگی اب بدل چکی ہے‘ تمام مایوسیاں‘ اداسیاں‘ تنہائیاں ختم ہوچکی ہیں۔ ہروقت اعمال کرتی رہتی ہوں۔ زندگی میں ایک سکون آگیا ہے۔ برے راستے چھوٹ چکے ہیں۔ موبائل سمز بدل چکی ہوں‘ فیس بک ایڈریس تبدیل کرلیا ہے۔ ہروقت مسنون اعمال کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ الحمدللہ! باپردہ ہوچکی ہوں۔ اب ڈیوٹی بھی کرتی ہوں‘ گھر کے کام کاج بھی کرتی ہوں۔ اب میں نے اپنی شادی کا مسئلہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ بس میرے لیے ایک دعا کردیجئے گا کہ اللہ مجھے کبھی اپنے سے دور نہ کرے اورگناہوں والی زندگی مجھے کبھی دوبارہ نہ ملے۔ آمین۔ (اللہ کی منگتی)
اور مجھے حیض آنا شروع ہوگئے لیکن نارمل نہیں تھے۔ میں نے کبھی کبھار اپنی بڑی بہن کو یہ تکلیف بتائی لیکن انہوں نے توجہ نہ دی۔ میں شروع سے ہی بہت سلم سمارٹ اور خوبصورت تھی۔ نامعلوم کیوں میرے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ کہ میری کسی کیلئے کوئی اہمیت نہیں اور جب میری تکلیف میں گھر والوں نے مدد نہ کی تو آہستہ آہستہ میری نفسیات متاثر ہونے لگی اور میں گھنٹوں اکیلی بیٹھ کر اپنے آپ سے باتیں کرتی اور نفسیاتی مریض بننے لگی۔ میں اللہ اور اس کے حبیبﷺ کو بالکل نہیں جانتی تھی‘ کبھی کبھار نماز پڑھ لیتی۔ اکثر میرے ابو مجھے کہتے کہ شیشے کے سامنے کھڑی ہوکر کس سے باتیں کرتی ہو‘ تب مجھے اپنی اس عادت سے بھی خوف آنے لگا اور گھٹن اور بڑھنے لگی۔ عمر ایسی تھی جو توجہ مانگتی تھی پھر جب سکول سے نکل کر کالج میں گئی اور باہر کا ماحول دیکھا تو گھر والوں کی بے توجگی کی وجہ سے قدم بھٹک گئے اور میں غلط راہوں کی مسافر بن گئی۔ انہی غلط راہوں پر چلنے کی وجہ سے میں ایک بار بہت بڑی مصیبت میں پھنس گئی۔ ایک مرتبہ رات کو اپنی پریشانی کو لےکر چھت پر بے چینی سے ٹہل رہی تھی کہ بارش شروع ہوگئی اور میں بارش میں بھیگ رہی تھی اور ساتھ مجھے رونا آگیا کہ اچانک بارش میں بھیگتے ہوئے دل سے آواز آئی کہ سجدے میں چلی جا‘ میں سجدے میں گئی اور نامعلوم مجھے کیا ہوا اور میں خوب روئی‘ ادھر بارش تیز سے تیز ہورہی تھی اور ادھر میں بھی خوب رو رہی تھی اور اللہ سے معافی مانگ رہی تھی‘ بارش کے پانی اور آنسوؤں کے ساتھ ہی میری پریشانی بھی کہیں بہہ گئی اور جب میں اٹھی تو بالکل مطمئن تھی۔ چند دن بعد اللہ نے میری مصیبت بھی ٹال دی۔ اسی طرح کالج کا دور بھی ختم ہوا۔ پھر ایک کتاب ملی اس میں کلمہ طیبہ کا ورد شروع کیا‘کچھ دن ہی پڑھا کہ گھر والوں نے اس پر اعتراض کیا کہ ہر وقت تسبیح پر کیا پڑھتی ہو‘ میں جو پڑھتی تھی لکھ لیتی تھی۔ انہوں نے ڈانٹا کہ ایسے بلاوجہ وظیفےنہیں پڑھتے‘ میں پھر بھٹکی اور ذکر چھوڑ دیا اور پھر تنہائی کے گناہوں کی طرف راغب ہوگئی کیونکہ یہ گناہ چھپ کر کرتی تھی اس پر ڈانٹ نہیں پڑتی تھی۔ گناہوں کا راستہ پھر بھولا اور مزید بھٹکی‘ ایک سکول میں جاب کی اور وقت گھر سے باہر گزرا‘ میں سمجھی کہ اب پرسکون ہوجاؤں گی لیکن اس بات کا بالکل بھی ادراک نہیں تھا کہ گناہ میں سکون نہیں اصل سکون تو اللہ کے ذکر میں ہے۔ ٹانگ کی تکلیف بدستور قائم تھی اور گلٹی کا سائز بھی بڑا ہورہا تھا۔ شدید درد ایک دم اٹھتا‘کچھ دن ہوتا پھر رک جاتا‘ 2008ء میں مجھے گورنمنٹ جاب ملی اور میں اپنے آبائی گھر واپس آگئی۔ پانچ ماہ بعد میری منگنی ہوگئی‘ مجھے بس اطلاع دی گئی کہ تمہاری بات پکی ہوگئی ہے دو ماہ بعد تمہاری شادی ہے۔ 2009ء میں میری شادی ہوگئی‘ اپنی نئی زندگی کا آغاز مطمئن ہوکر کیا کہ اب تکلیفیں ختم ہوجائیں گی مگر نہیں! شادی کی پہلی رات ہی شوہر نے کہا کہ میں شادی کے قابل ہی نہیں‘ تم جانا چاہتی ہو تو چلی جاؤ۔ مگر میں نے گھر والوں کی خوشی خاطر یہ ظلم بھی برداشت کیا‘ جب تین ماہ بعد میری ٹانگ میں پھر درد شروع ہوا تو میں اپنے شوہر کو بتایا کہ مجھے اس طرح کافی عرصہ سے تکلیف ہے تو شوہر کو بہانہ مل گیا اس نے صرف گلٹی کی وجہ سے مجھے گھر بھیج دیا کہ اس کے ماں باپ کے گھر کی بیماری ہےوہی ٹھیک کروائیں جب ٹیسٹ ہوئے تو ڈاکٹر نے کہا کہ تشویش کی بات نہیں صرف چھوٹے سے آپریشن سے یہ ٹھیک ہوجائے گا مگر میرے شوہر نے مزید الزامات لگا کر مجھے طلاق دے دی۔ اسی دوران میں نے فیس بک استعمال کرنا شروع کردی‘ پھر ایک لڑکے کے ایس ایم ایس آنے شروع ہوگئے لیکن میں اب اس گناہ میں نہیں جانا چاہتی تھی‘ وہ بھی شاید میری تقدیر کا حصہ بننا چاہتا تھا‘ باز نہ آیا‘ میں نے بھی اس سے بات شروع کردی‘ مجھے ویسے بھی توجہ چاہیے تھی‘ میں بھی اس کی طرف مائل ہوگئی‘ میں نے اس سے کہا کہ ہماری شادی نہیں ہوسکتی مگر وہ نہ مانا اور کہا کہ میں سب کو منالوں گا۔ جب اس کے اور میرےگھروالے نہ مانے تو اس نے کہا کہ ہم کورٹ میرج کرلیتے ہیں۔ میں گھروالوں کے رویے سے تنگ تو تھی لیکن اس بات سے انہیں تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی۔ ایک رات اپنی دادی کے گھر تھی‘ رات ایک بجے کے بعد میری آنکھ کھلی‘ ٹائم دیکھنے کیلئے موبائل اٹھایا‘ ساتھ ہی فیس بک چیک کی‘ عبقری کے نام سے ایک وظیفہ تھا‘ اچھا لگا‘ نیچے ویب سائٹ تھی‘ میں نے ایسے ہی اوپن کرلی‘ جب کھلی تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ یہ راستہ تو میری منزل کا تھا۔ یہ وہ دنیا تھی جس کی مجھے تلاش تھی‘ میگزین پڑھا‘ وظائف شروع کیے‘ جس میں ایک پسند کی شادی کا بھی تھا لیکن ساتھ ہی لکھا تھا کہ وظائف کیلئے پانچ وقت کی نمازادا کریں اور گناہوں سے بچیں۔ میں نے کافی کچھ موبائل میں ڈاؤن لوڈ کیا اور واپس آگئی۔ نوے دن کا وظیفہ تھا‘ جو شروع کیا‘ ساتھ ہی نماز پڑھتی اور ہروقت آپ کے درس سنتی۔ وظیفے سے پسند کی شادی تو نہ ہوئی مگر پسند کا راستہ مل گیا‘ یہ راستہ میری منزل کی طرف جاتا تھا۔ اسی لڑکے سے فون پر بات کرتی وہ کورٹ میرج پر بضد تھا۔ والدین سے بات کی تو سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے شادی نہیں ہونے دیں گے اور میں خاموش ہوگئی۔ میرا دل ایک مرتبہ پھر ٹوٹا تو اللہ نے مجھے اپنی طرف بلالیا اور دل سے آواز آئی کہ اب راستہ حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کے درس سے ہوکر اللہ تک جائے گا۔ نیٹ پر آپ سے بیعت ہوئی‘ اب یقین تھا کہ منزل مل جائے گی‘ آپ کی طرف سے بیعت کارڈ ملا اور مجھے دل سے خوشی ہوئی۔ آپ کے درس ہروقت سنتی ہوں۔ میری زندگی اب بدل چکی ہے‘ تمام مایوسیاں‘ اداسیاں‘ تنہائیاں ختم ہوچکی ہیں۔ ہروقت اعمال کرتی رہتی ہوں۔ زندگی میں ایک سکون آگیا ہے۔ برے راستے چھوٹ چکے ہیں۔ موبائل سمز بدل چکی ہوں‘ فیس بک ایڈریس تبدیل کرلیا ہے۔ ہروقت مسنون اعمال کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ الحمدللہ! باپردہ ہوچکی ہوں۔ اب ڈیوٹی بھی کرتی ہوں‘ گھر کے کام کاج بھی کرتی ہوں۔ اب میں نے اپنی شادی کا مسئلہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ بس میرے لیے ایک دعا کردیجئے گا کہ اللہ مجھے کبھی اپنے سے دور نہ کرے اورگناہوں والی زندگی مجھے کبھی دوبارہ نہ ملے۔ آمین۔ (اللہ کی منگتی)
No comments:
Post a Comment