اسباب
کی فراوانی آدمی کے اندر بے فکری پیدا کرتی ہے اور اسباب کی کمی سے آدمی کے اندر
فکرمندی کا جذبہ ابھرتا ہے۔
26 مئی 1987ء کو شہر کے اخبارات نے اپنے پہلے صفحہ پر جو خبریں نمایاں
طور پر دیں ان میں سے ایک خبر وہ تھی جو شہر کے سینئر سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ امتحان
سے متعلق تھی۔ اس امتحان میں
جن طالب علموں نے ٹاپ کیا
ان
میں اکثریت
لڑکیوں
کی ہے۔ اخبارات
کے نمائندوں نے ان ٹاپ کرنے والے طلباء و طالبات سے ملاقات کرکے ان کا انٹرویو لیا
اور اس کو باتصویر خبر کے طور پر شائع کیا۔ ان ممتاز طالب علموں کے حالات میں ایک نہایت
سبق کی بات تھی۔ اکثر ٹاپ کرنے والوں میں مشترک طور پر یہ بات پائی گئی کہ
وہ خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نہ تھے۔
درحقیقت ان
میں سے کچھ طالب علموں کو سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ غریب گھرانوں کا فرد
ہونے کی وجہ سے ان کے پاس لکھنے پڑھنے کیلئے مناسب جگہ نہ تھی‘ کتابیں بہت کم تھیں۔
مزید یہ کہ شوروغل ان کے ذہن کو منتشر کرتا رہتا تھا۔ تاہم وہ ان عوامل کو پار کرگئے
اور اپنے دل چسپی کے مضمون میں امتیازی نمبر حاصل کیا۔
اسباب کی فراوانی آدمی
کے اندر بے فکری پیدا کرتی ہے اور اسباب کی کمی سے آدمی کے اندر فکرمندی کا جذبہ ابھرتا
ہے۔ اسباب کی فراوانی آدمی کوبے عملی کی طرف لے جاتی ہے اور اسباب کی کمی کے مسئلہ
سے دوچار ہو۔ رکاوٹیں آدمی کیلئے زینہ ہیں۔ بشرطیکہ وہ ان کو زینہ کے طور پر استعمال
کرسکے۔
No comments:
Post a Comment