صحابہ اہل بیت کی
قبولیت دعا:۔
حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام فرماتے ہیں کہ ہم حضرت
مقداد بن اسع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ چلے ایک روز حضرت عمر و بن عبسہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ جانوروں کو چرانے کیلئے چلے تو میں دوپہر کو انہیں دیکھنے کیلئے
گیا پس اچانک ایک ابر نے ان پر سایہ ڈال رکھا تھا اور یہ ابر ان سے بالکل جدا نہ
تھا میں نے انہیں بیدار کیا تو انہو ں نے کہا یہ ایک ایسی شے ہے کہ اگر مجھے اس کی
خبر ہو گئی کہ تو نے اس بات کی کسی کو اطلاع دی تو میرے اور تیرے درمیان خیر نہیں
رہ جائے گی۔ راسی کہتے ہیں پس خدا کی قسم ! جب تک ان کی وفات نہ ہو گئی میں نے یہ
بات کسی سے نہیں کہی ۔
صحابہ کرام کی دعاؤں سے
بارش کا ہونا :۔حضرت انس رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد کے اس دروازہ سے داخل
ہوا جو ممبر کے سامنے تھا اور حضور ﷺ کھڑے ہوئے خطبہ فرما رہے تھے وہ آپ ﷺ کے
سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ جانور ہلاک ہو گئے اور راستے
بند ہو گئے آپ ﷺ اللہ سے ہم لوگوں کیلئے دعا فرمائیں کہ اللہ بارش دے ۔ حضرت انس
رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا اے میرے
اللہ ! ہم کو بارش دے، اے میرے اللہ! ہم کو بارش دے ، اے میرے اللہ ! ہم کو بارش
دے ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی ٰ عنہ نے فرمایا! خدا کی قسم ! آسمان میں نہ ابر
دیکھ رہے تھے نہ ابر کا کوئی ٹکڑا اور نہ ہمارے اور سلع پہاڑی کے درمیان کوئی مکان
اور گھر تھا ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی ٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سلع پہاڑی کے پیچھے سے
ڈھال کی مانند ایک ابر ظاہر ہوا، جب بیچوں بیچ آسمان پر پہنچا ، پھیل گیا ، پھر
برسا ۔ یہ کہتے ہیں خدا کی قسم ! اتنی بارش ہوئی کہ ہم نے چھ دن تک سورج نہیں
دیکھا ۔ پھر وہی شخص اسی دروازے سے اگلے جمعہ کو سامنے آیا اور حضور بنی کریمﷺ
کھڑے خطبہ فرمارہے تھے ۔ آپﷺ کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ !
مال ہلاک ہو گئے راستہ بند ہو گیا ۔ اللہ سے دعا کیجئے کہ بارش کو روک دے ۔ حضرت
انس رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ مبارک اٹھائے اور
فرمایا ! اے میرے اللہ ! ہمارے پاس ہو ہم پر نہیں ،ٹیلوں پر ہو، پہاڑوں پر ہو ،
پہاڑیوں پر ہو ، درخت کے اگنے کی جگہ پر ہو، حضرت انس رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کہتے
ہیں کہ فوراً بارش ختم ہو گئی اور ہم نکلے کہ دھوپ میں چل رہے تھے ۔ ایک دوسری
روایت میں اس طرح ہے کہ میں نے ابر کو دیکھا کہ دائیں اور بائیں پھٹ گیا اور برس
رہا تھا اور اہل مدینہ پر نہیں برس رہا
تھا ۔ ایک اور روایت میں اس طرح جو ہی آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور ہم
آسمان پر ابر کا کوئی ٹکڑا نہیں دیکھ رہے تھے ، پس قسم اس ذات کی کہ میرا نفس اس
کے ہاتھ میں ہے۔ ابھی آپ ﷺ نے ہاتھ نہیں رکھے تھے یہاں تک کہ پہاڑوں کی مانند ابر
اٹھے اور ابھی آپ ﷺ ممبر پر سے نہیں اترے تھے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ بارش آپ
ﷺ کی ڈاڑھی مبارک سے ٹپکنے لگی ۔ حضر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قصہ میں اس طرح
ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور واپس دونوں ہاتھ بھی لو
ٹائے نہیں تھے یہاں تک کہ فضا بدلی اور ابر آیا اور پھر برسا پس لوگوں نے ہر وہ
برتن بھر لیے جو ان کے پاس تھے ۔ پھر ہم چلے اور ہم نے غور سے دیکھا کہ اس بارش نے
لشکر سے تجاوز نہیں کیا تھا۔ خوات بن جبیر رضی اللہ تعالی ٰ عنہ ! نے فرمایا کہ
لوگوں کو حضر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کے زمانہ میں بہت سخت قحط پڑا آپ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ ، لوگو ں کو لیکر نکلے او ران کو دو رکعت نماز پڑھائی اور اپنی چادر کو
اس طرح پلٹا کہ اس کا دایاں حصہ بائیں حصہ پر کر لیا اور بائیں حصہ پر دائیں حصہ
پر کر لیا ۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے
اور کہا اے میرے اللہ پاک! ہم تجھ سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور تجھ سے بارش طلب کرتے
ہیں ابھی حضر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! اپنی جگہ سے ہٹے نہیں تھے یہاں تک کہ بارش
ہو گئی ۔ لوگ اسی طرح پر تھے کہ دیہات سے کچھ لوگ آئے اور حضر عمر رضی اللہ تعالیٰ
عنہ ! کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا ہم فلاں دن فلاں وقت اپنی وادی میں تھے کہ اچانک
ہمارے اوپر ایک ابر آیا ۔ ہم نے اس ابر میں یہ آواز سنی اے ابو حفص! مدد آ گئی ،
اے ابو حفص مدد آگئی !( ابو حفص حضر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کی کنیت ہے) مالک
الدار بیان کرتے ہیں کہ حضر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کے زمانہ میں لوگوں کو قحط
لگا ۔ ایک شخص نے حضور ﷺ ! کے روضہ اقدس ﷺ کے پاس آ کر کہا یارسول اللہ ﷺ اپنی امت
کیلئے اللہ پاک سے بارش طلب کیجئے ۔ اس
لیے کہ آپ ﷺ کی امت ہلاک ہوئی جا رہی ہے ۔ اس شخص کے خواب میں حضور ﷺ تشریف لائے
اور آپ ﷺ نے فرمایا ! کہ تو حضر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کے پاس جا اور انہیں
میرا سلام پہنچا اور ان کو خبر دے کہ لوگ بارش طلب کر رہے ہیں اور ان سے کہہ کہ
دانائی کو لازم پکڑ ۔ چنانچہ یہ شخص ان کے پاس آیا اور ان کو اطلاع دی ۔ یہ سن کر
حضر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! رو پڑے اور پھر فرمایا ۔ اے میرے رب! میں کوئی کو
تاہی نہیں کرتا ہوں مگر یہ کہ میں اس کام سے عاجز آ جاؤں ۔ آپ نے مسلمانوں کے پاس
اطلاع بھیجی اور حضر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! اس بات سے رکے ہوئے تھے ( کہ دعا
مانگیں ) اس کے بعد حضر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! نے کہا اللہ اکبر ! مصیبت اپنی
مدت کو پہنچ گئی ، پس دور ہو گئی جب کسی قسم کیلئے طلب کرنے کی اجازت دے دی گئی تو
ان سے مصیبت دور کر دی جاتی ہے ۔ شہر وں کے حکام کی طرف لکھا کہ اہل مدینہ کی اور
جو لوگ مدینہ کے گردا گرد ہیں ان کی امداد کرو ، ان کی مشقت انتہا کو پہنچ چکی ہے
اور لوگوں کو بارش طلب کرنے کیلئے نکالا ، خود بھی نکلے اور اپنے ساتھ حضرت عباس
رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کو لیکر نکلے پا پیادہ چلے نہایت مختصر خطبہ دیا پھر نماز
پڑھی اور اس کے بعد گھٹنے کے بل بیٹھ گئے اور کہا اے میرے اللہ پاک! ہم تیری ہی
عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے مدد طلب کرتے ہیں اے میرے اللہ پاک! ہماری مغفرت کر دے
اور ہم پر رحم کر اور ہم سے راضی ہو جا اس
کے بعد واپس ہوئے واپسی میں مکان نہیں پہنچے تھے یہاں تک کہ پانی کے کھلوں میں
گھسنا پڑا ۔
No comments:
Post a Comment