زور دار طمانچہ ہبتن ناک قہقہہ اور سناٹا:۔
محترم حضرت حکمن صاحب السلام علکمہ!آج مںت جو واقعہ لکھ رہی ہوں مجھے قوی امدت ہے کہ اس کو پڑھ کر لوگ ینری نہںا کریں گے ۔ خواہ انہںج محض لفاظ ہی سمجھں لکنے یہ سب کچھ سو فصدت سچ اور حققتو پر مبنی ہے اور اس کے گواہ مرای امی الحمدللہ حایت ہںی ۔ یہ واقعہ مرنی امی نے ہماری نانی سے سنا ہے۔
ہمارے نانا حضرت جناب وحدن الدین بہت اللہ والے تھے ۔ کئی لوگوں کے آسبڑ کا علاج سورہ مزمل پڑھ کر کرتے تھے ۔ ایسے ہی نانی بھی نہایت عبادت گزار اور پرہزے گار تھںے ۔ ہمارے نانا کی شہرت آس پاس کے علاقوں مںگ بھی تھی ۔ نانا کے پڑوس مںھ گوپال نامی ہندو رہتا تھا۔ ایک دن وہ نانا کے پاس آیا ۔ نانا اس سے بہت اچھی طرح ملے ۔ آنے کا مقصد پوچھا ۔ اس نے بتایا کہ اسے کہںڑ سے پتہ چلا ہے کہ نانا کے گھر کے پچھلے حصے مںت خزانہ دفن ہے ۔ اگر نانا اس کا ساتھ دیں تو وہ دونوں کروڑ پتی بن سکتے ہںر ۔ نانایہ سب سن کر غصے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے یہ کہتے ہوئے گھر سے نکال دیا کہ اللہ پاک کا دیا ہمارے پاس سب کچھ ہے ، ایسے خزانوں پر جنوں کا قبضہ ہو تا ہے ۔ ہمںت اس سے کوئی سرو کار نہںہ ۔ گوپال مایوس ہو کر واپس چلا گات ۔ نانا نے اس سے بات چتھ بھی چھوڑ دی۔ کچھ عرصہ بعد ایک دن مغرب کے بعد نانا کھانا کھا رہے تھے کہ گو پا ل روتا دھوتا دروازے پر آیا اور ناناکے قدموں مںا گر کر رونے لگا نانا نانی حراان تھے تب گوپال نے روتے روتے کہا کہ اسے خواب آیا ہےکہ اسے مسلمان ہو جانا چاہے ۔ نانا نے اسے گلے لگا کر خوشی کا اظہار کای اور کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے کھانا چھوڑ کر نانا اسی وقت گوپال کو مسجد کے امام کے پاس لے گئے اور کلمہ پڑھایا ۔ نانا بہت خوش تھے کہ ایک ہندو مسلمان ہو گاس ۔ گو پال کی بوای ،بیات بھی مسلمان ہو گئے تھے ۔ نانا نانی نے ان کو تحائف بھی دیئے ۔ اصل مںم گوپال نے مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچایا تھا۔ اس کے دل مںی خزانے کی ہوس تھی ۔ اسے کسی ہندو پنڈت نے بتایا تھا کہ کسی مسلمان کے خون کی بلی دو تو خزانہ تمہںگ مل سکتا ہے اور اگر مسلمان کمسن بچہ ہو تو اور اچھا ہے ۔ تب گوپال کے دل مںن شطاںنی منصوبہ آیا کہ مراے ماموں کی بلی دی جا سکے ۔ اس نے مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچایا تا کہ نانا کا اعتماد حاصل کر کے ماموں کی بلی دے سکے ۔ ماموں چار سال کے خوبصورت اور صحت مند بچے تھے ۔ اکثر ان کو گوپال کی بیےا اپنے گھر لے جاتی ۔ نانی بھی اعتراض نہ کرتی کوہنکہ وہ اب مسلمان ہو چکے تھے ۔ ایک روز ماموں دوپہر ہی سے گوپال کے گھر مںے تھے ۔ شام ہو گئی تھی نانا واپس آئے تو ماموں کا پوچھنے پر نانی نے بتایا کہ ماموں گوپال کے گھر مںی ہںن تب نانا نے بے زاری سے کہا کہ اب بہت دیر ہو گئی ہے اسے واپس بلا لو۔ اتنی دیر اسے مت چھوڑا کرو ، نانی نے جا کر آواز لگائی تو کوئی نہ بولا ۔ تھوڑی دیر بعد نانا نانی پریشان ہو کر باہر نکلے تو ہاں تالا لگا دیکھا ، پڑوسواں سےپتہ چلا کہ گوپال تو گاؤں سے چلا گاے ہے ۔ نانی تو بے ہوش ہو گئںہ ۔ نانا اٹھے وضو کر کے نماز پڑھ کر آنکھںھ بند کر کے کچھ پڑھتے رہے ، ان کا چہرہ ٹمٹا نے لگا ، چہرے پر پریشانی آ گئی ، جھٹکے سے آنکھںل کھول کر عجلت مںا مںپ ابھی آیا کہہ کر باہر نکل گئے ۔ ان کا رخ کچھ دور قبرستان کی جانب تھاوہ کافی اندھرکی اور ڈراؤنی رات تھی ۔ قبروں کے ساتھ برگد کا ایک بوڑھا درخت کھڑا تھا ۔ وہاں نانا نے درخت کے پاس ماموں کو کھڑے دیکھا ، ان کا سر منڈا ہوا اور جسم پر پلاد لمبا سا چغہ پہنا ہوا تھا اور ہاتھ مںٹ ایک رسی تھامے بڑے اطمناون سے کھڑے تھے ۔ بغرے کسی ڈر کے ۔ رسی ان کے ہاتھ سے ہوتی ہوئی شکستہ سی دیوارکے پچھے چلی گئی تھی جسے دوسری جانب سے بھی کوئی تھامے ہوئے تھے ، نانا سب سمجھ گئے سناٹے مں صرف گوپال کی ہلکی ہلکی آواز منتر پڑھتے ہوئے گونج رہی تھی ، تب ہی نانا نے دیکھا کہ وحشت ناک ، عجبم الخلقت چہرے والا ایک آسیہ وجود چختا ہوا اس رسی پر دوڑنے لگا ، کبھی وہ تزتی سے ماموں کی طرف آتا کبھی ویسے ہی چختے ہوئے واپس دیوار کے پچھے لوٹ جاتا ۔ اس کی آواز مںم جنون تھا ، جسےے وہ بہت بھوکا ہو ۔ نانا تزای سے آگے بڑھے اور آیۃ الکرسی پڑھتے ہوئے رسی کا سرا ماموں سے لے کر درخت سے باندھ دیا ۔ اسی لمحے نانا کو ایسے لگا کہ ماموں نندت سے جاگے ہوں وہ ابا جی کہہ کر ناناکی گود مںئ بے ہوش ہو کر گر گئے ۔ اسی لمحے وہ خوفناک وجود جو دوبارہ رسی پر دوڑ تا ہوا آیا اور رسی پرتز ی سے واپس پلٹا ۔اس بار اس کی چخا نہایت مکروہ اور دل دہلا دینے والی تھی ۔ نانا زور زور سے قرآنی آیات کو ورد کرنے لگے تب ہی ایک زور دار طمانچے کی آواز سے قبریں تک ہل گئںت ۔ ایک ہبت ناک قہقہہ گونجا اور سناٹا چھا گاھ ۔ نانا کو گھر لوٹنے کا خود بھی یاد نہںا۔ دوسری صبح قبرستان سے گوپال کی سفدی لٹھے کی مانند لاش ملی جسےا اس کا ایک ایک قطرہ خون نچوڑ لان گار ہو ۔ لاش کے منہ پر کسی غرئ انسانی ہاتھ کا بھر پور طمانچہ مارا گاو تھا ، وہ نانا کے بروقت پہنچنے اور قرآنی آیت کی برکت سے پڑا ، ورنہ وہ تھپڑ ماموں کے معصوم گالوں پر پڑھنے والا تھا ۔ بعد مںن گوپال کی بودی نے سچائی بتائی کہ گوپال پسےا کی حرص مںڑ اندھا ہو گاخ تھا ۔ یہ اللہ پاک کے لازوال کلام کی برکت سے ہوا کہ ماموں کی جان بچ گئی۔
No comments:
Post a Comment