Wednesday, October 14, 2015

وتر نماز کے بعد ایک مجرب عمل

وتر نماز کے بعد ایک مجرب عمل:۔

محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! یہ عمل ہماری ٹیچر نے تحفہ کے طور پر دیا اور سب طالبات نے اس کو نوٹ کرلیا ،آج تک میں پابندی سے یہ عمل کرتی ہوں عمل رات عشاء کی نماز میں وتر نماز کے بعد دو سجدے اس طریقے سے کریں کہ پہلے سجدے میں پانچ بار سبوح قدوس ربنا ورب  المئکۃ والروح پڑھیں ۔ پھر بیٹھ کر دونوں سجدوں کے درمیان ایک بار آیۃ الکرسی اور پھر دوسرے سجدے میں اس طرح درج بالا الفاظ پڑھیں ، اس طرح دو سجدوں کے اندر دس بار اور دو سجدوں کے درمیان ایک بار آیۃالکرسی پڑھی جائے گی۔ فضیلت اس کی یہ ہے کہ اس وظیفہ کو پڑھنے والا جائےنماز پر بیٹھتا ہے اٹھنے سے قبل اللہ پاک کی رحمت کا نزول اور ستر فرشتے اس کیلئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور کلمہ طیبہ نصیب ہوتا ہے اور شہادت کی موت نصیب ہوتی ہے جو اس کے پڑھنے کے بعد دعا مانگتا ہے تو اللہ پاک کے دربار عالیہ میں قبول ہوتی ہے بشرطیکہ اخلاص نیت سے عمل کرے ۔

3 comments:

  1. ارے بھائی اس عمل کا حوالہ تو لکھ دیتے

    ReplyDelete
  2. آگر میں کہوں کہ یہ موضوع حدیث ھے تو کیا آپ اس کے جواب میں کوئ حوالہ پیش کرینگے۔

    ReplyDelete
  3. : تاتارخانیہ میں مضمرات کے حوالہ سے جو لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا: جب کوئی مومن مرد یا عورت وتر کے بعد دو سجدے کرتے ہیں الخ
    یہ موضوع،باطل اور بے اصل حدیث ہے،نہ اس پر عمل جائز ہے،نہ اسے نقل کرنا۔الا یہ کہ اس کا بطلان بتانے کے لئے ہو،جیساکہ دیگر احادیث موضوعہ کا حکم ہے۔اور اس کے موضوع ہونے کا اندازہ اس کے رکیک (بودا) ہونے سے ہی ہو جاتاہے۔نیز اس میں ایسا مبالغہ ہےجو نقل و عقل سے میل نہیں کھاتا،کیوں کہ اجر بقدر مشقت ہوتاہے شرعاوعقلا۔اور سب سے افضل عمل وہ ہے جو مضبوط ہو۔بات صرف یہ ہے کہ بعض بد دینوں کا مقصد ان جیسی احادیث گھڑنے سے دین کی شبیہ کو بگاڑنا،خلق خدا کو گمراہ کرنا،لوگوں کو فسق میں پھنسا رکھنا اور عبادت میں مجاہدہ سے روکنا ہے۔اس لئے جن کو علوم حدیث اور اس کے طرق سے شناسائی نہیں،نہ صحیح وسقیم میں تمیز کا ملکہ ہے؛وہ ایسی چیزوں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔(مترجم مفتی ابوزاہر سورتی)

    ۲۔ علامہ حلبی کے اس تبصرہ کو علامہ شامی نے (رد المحتارجلد ثانی باب سجود التلاوة ) میں نقل کرنے کے بعد اتفاق فرمایا کہ یہ روایت بے اصل ہے ۔

    ۳۔ مفتی شبیر صاحب قاسمی نے (فتاوی تاتارخانیہ2/346 )میں اس روایت پر نوٹ لکھا : لم أجد هذا الحديث في كتب الأحاديث التي عندي .

    ۴۔ فتاوی دار العلوم زکریا (1/386) پر اس حدیث کے متعلق ایک فتوی کا خلاصہ لکھا ہے کہ : یہ روایت موضوع ہے، ان کلمات کے پڑھنے سے اتنے فضائل کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ البتہ’’ سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح‘‘کا پڑھنا حضور سے ثابت ہے۔واللہ اعلم

    خلاصہ کلام (اخونزادہ) :

    یہ روایت اور یہ فضیلت کسی بھی حدیث کی مستند کتاب میں موجود نہیں، فقہ کی بعض کتابوں نے لوگوں میں اس کے مشھور ہونے کو بیان کیا ہے اور ساتھ ساتھ اس کے من گھڑت ہونے کو بھی بیان کیا ہے ،لہذا اس روایت کا بیان کرنا اور پھیلانا جائز نہیں.

    واللہ اعلم ، کتبہ ابو معاذ المکی ، مع الاستفادۃ مما سطرہ المفتی عبد الباقی اخونزادہ الموقر

    ReplyDelete