بچے نے آیۃالکرسی پڑھی
! ڈاکو رقم واپس کر گئے :۔
یہ ایک سردیوں کی سیاہ رات تھی۔ تاریکی اور خاموشی اپنی
حدوں کو چھو رہی تھی۔ہوا کے جھکڑ پتوں کو ہلاتے اور درختوں کو جھکاتے ہوئے گزر
جاتے ، باہر کی ہر چیز جمنے لگی ، لوگ اپنے گھروں کے محفوظ کمروں میں سور ہے تھے ،
ایسا دکھائی دیتا تھا کہ لمبی سرد رات نے وقت کو جما دیا ہے ۔ گرد و نواح میں ایک
سڑک کے قریب پر اسرار نقل و حرکت تھی ۔ چار سائے پستول ہاتھ میں پکڑے حرکت کر رہے
تھے وہ آپس میں سرگوشیوں میں بات کر رہے تھے ۔ وہ ایک مالدار تاجر کے گھر پہنچ گئے
،۔ اب وہ اندر جانے کے راستوں کے بارے میں سوچنے لگے ۔ گھر کے اندر حمزہ ان کی ماں،
ان کی بیوی اور بچہ عبداللہ ڈاکوؤں سے بے خبر چین کی نیند سو رہے تھے ۔ ایک ڈاکو
نے دیوار پھلانگی اور دوسرے ساتھیوں کیلئے دروازہ کھول دیا ۔ ڈاکوؤں نے خاموشی کے
ساتھ اس کمرے کے سامنے اپنی جگہیں مقرر کر لیں جس میں حمزہ کا خاندان سو رہا تھا۔انہوں
نے دروازے کو توڑ ا،اور کمرے میں داخل ہو گئے ۔ حمزہ کا خاندان پھٹی پھٹی نگاہوں
سے ڈاکوؤں کو دیکھنے لگا ۔ ایک ڈاکو نے سخت آواز میں انہیں چپ رہنے کیلئے کہا۔
خاموشی کے یہ چند ناقابل برداشت لمحے تھے ، ایک کرخت آواز دوبارہ ابھری۔ اگر کسی
نے مدد طلب کی تو اسے اس کی سزا بھگتنی پڑے گی ۔ پھر سردار نے حکم دیا کہ قیمتی
اشیاء جمع کریں ، حمزہ نے ایک ڈاکو سے کہا
! یہ تم غلط کر رہے ہو تمہیں ایس ا نہیں کرنا چاہیے خدا کا خوف کرو ۔ جواباً ڈاکو
نے اپنی بندوق حمزہ کی کنپٹی پر رکھ دی اور دھاڑ کر کہا خاموش اس خوفناک منظر نے
تمام گھر کے افراد میں خوف پیدا کر دیا ۔ حمزہ کا بیٹا خوف کے عالم میں اپنی ماں
کا بازو پکڑ کر کھڑا تھا ۔ اس کا چھوٹا سا ذہن اپنے خاندان پر بیتنے والی مصیبت کا
احاطہ نہیں کر سکتا تھا ۔ وہ حیران تھا کہ اس کے گھر میں داخل ہونے والے اور ہر
چیز لے جانے والے یہ کون لوگ ہیں ؟ اور
ہمارے گھر کی تمام چیزیں کیوں لے جا رہے ہیں ؟ اس کے والد نے جواب دیا ! میرے بیٹے
یہ چور ہیں یہ انسانوں کا خیال نہیں رکھتے ۔ یہ سن کر ڈاکو ہنس پڑے اور جانے کیلئے
مڑے ۔ عبداللہ بولا ! بابا لیکن دادی اماں نے مجھے بتایا تھا اگر میں سونے سےپہلے
آیۃ الکرسی پڑھ لوں تو کوئی برائی ہمارے
گھر میں داخل نہیں ہو گی، اور اللہ پاک ہمیں اپنی حفاظت میں لے لے گا ۔ بابا میں
نے سونے سے پہلے آیۃ الکرسی پڑھ لی تھی ۔ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے ۔ یہ برے لوگ
ہمارے گھر میں کیسے داخل ہوئے ۔ کیا اللہ پاک نے ہمیں اپنی حفاظت میں نہیں لیا ۔
یہ سوال اتنی معصومیت سے کیا گیا تھا کہ ڈاکوؤں کے سردار کے پاؤں جم گئے ۔ ایک خوف
جسے وہ پہلے کبھی نہیں جانتا تھا اسے لاحق ہو گیا ۔ وہ کانپنے لگا، پسینے سے
شرابور ہو گیا جیسا کہ وہ کسی اندیکھی قوت کے قابو میں ہو ۔ وہ بوجھل قدموں کے
ساتھ عبداللہ کے قریب پہنچا اور پوچھا کیا تم آیۃالکرسی جانتے ہو ۔ عبداللہ نے سر
ہلایا اور آیۃالکرسی کو دل کی گہرائی سے پڑھنے لگا اس کے پڑھنے کے ساتھ سردار اپنے
آپ کو گناہوں کے بوجھ تلے کمزور محسوس کر رہا تھا ۔ جب عبداللہ نے تلاوت ختم کی تو
ڈاکو کی کرخت آواز ایک کمزور آواز میں بدل گئی ۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا تمام اشیاء
وہیں رکھ دیں جہاں سے اٹھائی گئی ہیں۔ پھر سردار نے عبداللہ سے کہا بے شک تم اللہ
پاک کی حفاظت میں ہو ۔ وہ بہترین حفاظت کرنے والا ہے جو لوگ اللہ پاک کا نام دل کی
اتھاہ گہرائیوں سے لیتے ہیں انہیں کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔ ہمیں معاف کر دو اور
ہمارے لیے دعا مانگو تم نے ہمیں وہ راستہ
دکھایا ہے جسے ہم کافی عرصہ سے بھول چکے تھے ، سردار چپ چاپ اپنے ساتھیوں سمیت گھر
سے چلا گیا عبداللہ ان ڈاکوؤں کو آج بھی یاد کرتا ہے ۔
No comments:
Post a Comment