Thursday, January 4, 2018

صحابہ کرام کے واقعات


تجارت میں کبھی گھاٹا نہیں ہوا:۔
 حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی کنیت ابوخالد ہے اور خاندان قریش کی شاخ بنواسد سے ان کاتعلق خاندانی ہے۔ یہ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھتیجے ہیں۔ ان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ان کی والدہ (جبکہ یہ ان کے بطن میں تھے) کعبہ کے اندر بتوں پر چڑھاوا چڑھانے کو گئیں تو بیج کعبہ میں حکیم بن حزام پیدا ہوگئے۔ زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں میں یہ اشراف قریش میں سے شمارکیے جاتے تھے۔ فتح مکہ کے سال 8 ہجری میں مشرف بااسلام ہوئے۔ بہت ہی عقلمند، معاملہ فہم اور صاحب علم و تقویٰ شعار تھے۔ ایک سو غلاموں کوخرید کر آزاد کیا اور ایک سو اونٹ ان مسافروں کو دئیے جن کے پاس سواری کے جانورنہیں تھے۔ ایک سو بیس برس کی عمر پائی۔ ساٹھ برس کفر کی حالت میں اور ساٹھ برس اسلامی زندگی گزاری۔ 45 ہجری میں بمقام مدینہ منورہ ان کا وصال ہوا۔ (1 کمال ص561) ان کی مشہور کرامت یہ ہے کہ یہ تاجر تھے۔ زندگی بھر تجارت کرتے رہے مگر کبھی بھی اور کہیں بھی اور کسی سودے میں بھی کوئی نقصان اورگھاٹا نہیں ہوا بلکہ اگر یہ مٹی بھی خریدتے تو اس میں نفع ہی نفع ہوتا کیونکہ حضورنبی کریم ﷺ نے ان کیلئے یہ دعا فرمائی تھی اللھم بارک فی صنعتہ (اے اللہ! ان کے بیوپار میں برکت عطا فرما)کنزالعمال ج12 ص362)۔ترمذی وابوداؤد کی روایتوں میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ان کو دو دینار دے کر ایک مینڈھا خریدنے کیلئے بھیجا تو انہوں نے ایک دینار میں دو مینڈھے خریدے اور پھر ان میں سے ایک مینڈھے کو ایک دینار میں فروخت کر ڈالا اور آپ کی خدمت اقدس میں آکر ایک مینڈھا اور دو دینار پیش کردئیے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس میں سے ایک دینار کو تو خدا کی راہ میں خیرات کردیا اور پھر خوش ہوکر ان کی تجارت میں برکت کیلئے دعا فرمادی۔ (مشکوٰۃ ص 254،باب الشرکہ والوکالت) حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ: یہ قدیم الاسلام اورمہاجرین اولین میں سے ہیں اور یہ ان مصیبت زدہ صحابیوں میں سے ہیں جن کوکفار مکہ نے اس قدر ایذائیں دیں کہ جنہیں سوچ کر ہی بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ظالموں نے ان کو جلتی ہوئی آگ پر لٹایا چنانچہ یہ دہکتی ہوئی آگ کے کوئلوں پرپیٹھ کے بل لیٹے رہتے تھے اور جب حضور اقدس ﷺ ان کے پاس سے گزرتے اور یہ آپ کو یارسول اللہﷺ کہہ کر پکارتے تو آپ ﷺ ان کیلئے اس طرح آگ سے فرمایا کرتے تھے۔ یانار کونی بردا وسلاما علی عمار کما کنت علی ابراہیم۔ (اے آگ تو عمار پر اس طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا جس طرح تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کیلئے ٹھنڈی اور سلامتی والی بن گئی تھی)۔ ان کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی سمعیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے ابوجہل نے بہت ستایا‘ یہاں تک کہ ان کی ناف کے نیچے نیزہ مار دیا جس سے ان کی روح پرواز کرگئی اور عہداسلام میں سب سے پہلے یہ شہادت سے سرفراد ہوگئیں۔ حضور اکرمﷺ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو طیب و مطیب کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ یہ 37 ہجری میں ترانوے برس کی عمر پاکر شہید ہوگئے۔ (اکمال ص 607) کبھی ان کی قسم نہیں ٹوٹی: حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی مشہور کرامت ہے کہ یہ جس بات کی قسم اٹھالیا کرتے تھے خداوند کریم ہمیشہ ان کی قسم کو پوری فرمادیتے تھے کیونکہ حضور اکرم ﷺ نے ان کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا کم من ذی طموین لایوبہ لو اقسم علی اللہ لابرہ منھم عمار بن یاسر۔ (کنزالعمال 12 ص 295) 
(ترجمہ: کتنے ہی ایسے کمبل پوش ہیں کہ لوگ ان کی کوئی پروا نہیں کرتے لیکن اگر وہ کسی بات کی قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی قسم کو پوری فرمادے گا اور انہیں لوگوں میں عماربن یاسر ہیں)
تین مرتبہ شیطان کو بچھاڑا:۔
 حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو پانی بھرنے کیلئے بھیجا۔ شیطان ایک کالے غلام کی صورت میں حضرت عماررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو پانی بھرنے سے روکنے لگا اور لڑنے پرآمادہ ہوگیا۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس کو بچھاڑ دیا تو وہ عاجزی کرنے لگا۔ اسی طرح تین مرتبہ شیطان نے پانی بھرنے سے آپ کو روکا اور لڑنے پر تیار ہوا اور تینوں مرتبہ آپ نے اس کو بچھاڑ دیا جس وقت شیطان سےآپ کی کشتی ہورہی تھی۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنی مجلس میں صحابہ کرام ؓکو بتادیا کہ آج عمار نے تین مرتبہ شیطان کو بچھاڑ دیا ہے جو ایک کالے غلام کی صورت میں ان سےلڑرہا ہے۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جب پانی لے کرآگئے تو میں نے ان سے کہا کہ تمہارے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تم نے تین مرتبہ شیطان کو بچھاڑا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کہنے لگے کہ خدا کی قسم! مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ شیطان ہے ورنہ میں اس کو مار ڈالتا ہاں البتہ تیسری مرتبہ مجھے بڑا ہی غصہ آگیا تھا اور میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ میں دانت سے اس کی ناک کاٹ لوں مگر میں جب اس کی ناک کےقریب منہ لے کر گیا تو مجھے بہت ہی گندی بدبو محسوس ہوئی اس لیے میں پیچھے ہٹ گیا اور اس کی ناک بچ گئی۔

No comments:

Post a Comment